بعض شبہات کا ازالہ
تارک نماز کے بارے میں ذکر کردہ ان احکامات کو ناگورار جاننے والے شبہات کا شکار بعض لوگ بے نمازوں کے حمایتی بن کر ان کی طرف سے مدافعانہ سوالات ہمیں پیش کر کے توجہ دلاتے ہیں۔ اور بیشمار نصوص کے مقابل بعض آیات اور احادیث کو نہ سمجھتے ہوئے ایسے اعتراضات گھڑتے ہیں جن سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کا دین ایک دوسرے کے مخالف احکامات پیش کرتا ہے۔ گویا مذکورہ بہت سی آیات اور احادیث سے تارک نماز کافر، مشرک، بے ایمان اور بے دین ثابت ہونے کے بعد اب تارک نماز مسلمان ثابت ہو رہا ہے۔ درحقیقت اس قسم کا دفاع اللہ کے دین میں تضاد پائے جانے کو ثابت کرنے کی غلط روش کا آئینہ دار ہے۔
اے اللہ کے بندے! یہ اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ کتاب و سنت جو کہ وحی الٰہی ہیں ان میں باہمی متضاد احکامات قطعاً نہیں پائے جاتے ہیں۔ ایسا خیال کرنا ضلالت اور لاعلمی میں یوں کہنا جہالت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (النساء:82)
کیا انہوں نے ابھی تک قرآن پر غور نہیں کیا (کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کے معنی بھی اللہ کی طرف سے ہیں) اگر یہ (قرآن) اللہ کے علاوہ کسی اور کی ذات کی طرف سے (نازل) ہوتا تو اس میں ضرور بہت سے (الفاظ اور احکام میں) اختلافات پاتے۔
ایک اور آیت کریمہ میں یوں ارشاد ربانی ہے:
وَلَوْ اَنْزَلَ اﷲُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ (النساء:113)
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر قرآن و سنت کو نازل فرمایا اور آپ کو وہ کچھ سکھلایا جو آپ ﷺ پہلے سے نہیں جانتے تھے۔
اسی حوالے سے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ: عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ اَنَّہُ قَالَ: اِنِّی لَا اَقُوْلُ اِلاَّ حَقًّا، قَالَ بَعْضُ اَصْحَابِہٖ: فَاِنَّکَ تُدَاعِبُنَا یَارَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ: اِنِّی لَا اَقُوْلُ اِلاَّ حَقًّا
رسول اللہ ﷺ ن ے فرمایا: ''میں حق کے سوا اور کچھ نہیں کہتا ہوں'' صحابہ کرام میں سے بعض نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ ہم سے کبھی کبھار مذاق بھی کرتے ہیں (یعنی کیا اس میں بھی حق ہی ہوتا ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں، میں حق کے سوا کچھ بھی نہیں کہتا ہوں''۔
یہ حدیث مسند احمد 340/2، اور ترمذی 1990نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر فرمان گرامی حق ہے۔ مبنی بر حق فرامین ایک دوسرے کے مخالف نہیں پائے جا سکتے ہاں ایک دوسرے کے مخالف اقوال ہونا باطل کا خاصہ ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ (یونس:32)
حق کے بعد ضلالت و گمراہی کے سوا اور کیا ہے؟
اے اللہ کے بندے! یہ قاعدہ کلیہ جان لینے کے بعد آپ کا ہر وضاحت طلب بات کو بآسانی سمجھ لینا یقینی ہے۔ اب اپ کے ناقابل فہم مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے۔
سوال: کہا جاتاہے کہ ہر کلمہ گو کا جنت میں داخل ہونا صحیح حدیث سے ثابت ہے اس بناء پر تارک نماز کافر نہیں ہو سکتا۔ ہاں گنہگار مسلمان ہے آپ اس پر کیا کہتے ہیں؟ آپ ہمیں جواب دیں اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے۔
جواب: جی ہاں رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث میں یوں منقول ہے کہ لا الٰہ اِلا اللہ کہنے والا ہر کوئی جنت میں جائے گا۔ لیکن اس سے کردہ استدلال غلط ہے۔ ہمارے اس رسالہ میں تارک نماز کے بارے میں اب تک ذکر کردہ تمام روایات کے مخالف یہ استدلال ہے۔
تارک نماز مشرک ہے، بے دین اور بے ایمان ہے۔ اور لا الٰہ الا اﷲ کہنے والا ہر آدمی جنت میں جائے گا۔ یہ دونوں باتیں کہنے والی ایک ہی ذات یعنی رسول اللہ ﷺ ہیں جیسا کہ اوپر ہم نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں ایک دوسرے کے مخالف احکامات تلاش کرنا حقانیت کی ضد ہے۔ ایسا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
صرف یہ کہہ سکتے ہیں اور صحیح بات یہی ہے کہ دین میں ایک دوسرے کے مخالف احکام نہیں ہیں لیکن جیسے آپ کو سمجھایا گیا ہے اسی طرح آپ نے سمجھا اور پوچھا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ یہاں آپ کے سمجھنے سمجھانے والا ایک اہم مسئلہ ہے:
حدیث نبوی ﷺ یوں ہے:
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ؛ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: مَنْ شَھِد اَنْ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ حَرَّمَ اﷲُ عَلَیْہِ النَّارَ۔ وَ فِیْ رِوَایَۃٍ: مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ
نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: جو کوئی بھی لا اِلٰہ اِلا اللہ (یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں) اور اَنَّ محمد رسول اللہ (بلا شبہ محمد ﷺ، اللہ کے رسول ہیں) کی گواہی دے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ حرام کر دی ہے''۔
اور ایک روایت میں یوں ہے:
جو کوئی ''لا اِلٰہ اِلا اللہ'' پڑھے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔
یہ حدیث مسلم 142نے روایت کی ہے۔
اس روایت کی رو سے لا اِلٰہ اِلا اللہ کنے والا جنت میں جائے گا لیکن یہ اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ اس قول کا تقاضا بھی ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ جس بات کے لئے جو کچھ لازمی ہے اگر وہ نہ کیا جائے تو اس بات (قول) کا تمام انسانوں کے نزدیک کچھ وزن (اعتبار) نہیں ہوتا جب لوگوں کے درمیان معاملہ یوں ہے تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیسے گمان کر لیا جائے کہ اس کے ہاں معاملہ یوں نہیں ہو گا۔ اور لا اِلٰہ الا اﷲ کے تقاضے پورے کئے بغیر بھی یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وزنی ہو گا۔
اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، اس بات کا اقرار کرنے والا آدمی توحید کے مخالف شرک اور کفر سے عداوت کا اعلان کرتا ہے اور جب تک عمل سے اس کی تصدیق نہ کرے اس کا یہ قول اور اعلان بے وقعت ہے۔ (اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جنہیں کلمہ کے اقرار کے بعد عمل سے تصدیق کی مہلت ہی نہیں ملی)۔
اس کی مزید وضاحت کے لئے شبہے کے شکار آدمی سے اگر ہم یہ پوچھیں کہ کوئی آدمی لا اِلٰہ اِلا اﷲ کا اقرار کرتا ہے لیکن قرآن کی آیات میں سے صرف ایک آیت کا منکر ہے تو اس کے بارے میں کیا (شرعی) حکم ہے؟ یقینا شبہے کے شکار محترم کہیں گے کہ وہ کافر ہے تو جناب آ پ لا اِلٰہ الا اﷲ کے اقراری کو کافر کہہ رہے ہیں یوں ذڑا پہلے اپنے ہی وضع کردہ اصول سے آپ خود انحراف نہیں کر رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں شبہے کے شکار حیران و پریشان جناب محترم اپنے آپ کو ذرا سنبھالیے اور بتائیے کہ وہ کون سی آیت یا حدیث ہے جس کی رو سے ایک آیت کے منکر کو آپ کافر قرار دے رہے ہیں حالانکہ وہ کافر ضرور ہے۔
جی ہاں؛ ہم بھی پوچھتے ہیں کہ اے اللہ کے بندے! اس رسالہ کے شروع سے آخر تک ہماری ذکر کردہ نصوص سے کیا اب بھی آپ کے خیال میں تارک نماز کافر، مشرک، بے دین اور بے ایمان ثابت ہو رہا ہے یا نہیں؟
ایک مزید شبہہ کہ کوئی آدمی تارک نماز تو ہے لیکن نماز کی فرضیت کا منکر نہیں ہے ؟ جناب کیا آپ ہمیں صرف ایک نص پیش کر سکتے ہیں جس سے ثابت ہو کہ نماز کی فرضیت منکر ہی کافر ہے ۔ اگر آپ کوئی ایسی شے پیش کرسکتے ہیں تو ہم بھی اپنے قول سے رجوع کر لیتے ہیں ۔ اگر آپ نے غور سے ہمارے پیش کردہ دلائل کا مطالعہ کیا ہو تو اس فرق کو بخوبی سمجھ لیں گے کہ ہمارے ذکر کردہ تمام دلائل تارک نماز کے مشرک ، کافر اور اس بے نماز کے بے دین اور بے ایمان ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔ کسی ایک دلیل میں بھی یہ بات نہیں کہی گئی کہ نماز کی فرضیت کا منکر کافر ہے ۔ نیز کیا آیت میں یوں نہیں فرمایا گیا کہ :
وَاِذَا قُرِیئَ عَلَیْہِمْ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُکَذِّبُوْنَ o (الانشقاق 84:20)
'' قرآن ( یعنی نماز ادا کرنے کا حکم ) پڑھا جانے پر وہ لوگ سجدہ نہیں کرتے ۔ ( یعنی نماز ادا کر نہیں کرتے ) بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ
یہ کافر (اس حالت یعنی نماز ادا نہ کرتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے نہ ڈرتے ہوئے آخرت کی ) تکذیب کر رہے ہیں ''۔
وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ رْکَعُوْا لاَ یَرْ کَعُوْنَ o وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِبِیْنَ (المرسلات 77:48,49)
'' انہیں جب کہا جاتا ہے کہ نماز ادا کرو تو وہ اطاعت گذار بن کر نماز ادا نہیں کرتے ۔ (نماز ادا نہ کرتے ہوئے اللہ کے احکام کو ) جھٹلانے والوں کے لئے اس (قیامت کے ) دن ہلاکت ہے ''۔
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاتٰتَاتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرُوْا بِہَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ (السجدۃ32:15)
'' ہماری آیت پر ایمان رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں ہماری آیات کے ساتھ جب وعظ و نصیحت کیا جاتا ہے تو وہ سجدے میں پڑجاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں تکبر نہیں کرتے ہیں ''۔
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوْا الصَّلاَۃَ وَ اتَّبَعُوْا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْفُوْنَ غَیًّا o اِلاَّ مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ... ۔ (مریم 19:59,60)
'' ان پیغمبروں اور صالح لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ آئے جنہوں نے نمازیں برباد کیں (چھوڑ دیں ) اور خواہشات کی پیروی میں لگ گئے ۔ یہ لوگ جہنم کے '' غی '' نامی طبقے میں ڈالے جائیں گے ۔ تاہم توبہ کرتے ہوئے ایمان لا کر صالح عمل کرنے والے مستثنٰی ہیں ''۔
اے اللہ کے بندے ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مذکورہ بالا گروہ نماز ترک کر کے اپنے اس رویے کے ساتھ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے قرار پارہے ہیں ۔ کیا آپ اپنے قول کے مطابق نماز کی فرضیت کے منکر نہیں ہورہے ہیں ۔
ان آیات کے سامنے خاموش رہ جانے والے شبہے کا شکار صاحب نے کچھ دیر سوچا اور پھر ایک مزید اعتراض سامنے لا ئے کہ
سوال : جناب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تارک نماز مشرک اور کافر ہے لیکن ہمیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ شرک اور کفر کی دو ، دو قسمیں ہیں
1۔ اسلام سے خارج کرنے والا شرک اور کفر
2۔ اسلام سے خارج نہ کرنے والا شرک اور کفر
اب آب بتائیں کہ تارک نماز ان دونوں میں سے کس قسم میں پایا جاتا ہے کیونکہ آپ ہی تارک نماز کو مشرک اور کافر کہتے ہیں ؟
جواب : ہماری رائے میں تارک نماز اسلام سے نکالنے والے شرک اور کفر کا مرتکب ہوتا اے اللہ کے بندے ! اچھی طرح سن لے تمہیں جتنی مشکل نظر آرہی ہے مسئلہ اتنا مشکل نہیں صرف بلحاظ بہت خطرناک مسئلہ ہے ۔ جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ شرک اور کفر دو قسم پر ہے ایک اسلام سے نکالنے والی قسم اور دوسری اسلام سے نہ نکالنے والی قسم ہے ۔ پہلے آپ کو شرک سمجھاتے ہیں پھر کفر کے بارے میں سمجھائیں گے ۔