• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازی کی تکفیر؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ٹھیک ہے ہم اس کو کفر اصغر کہہ سکتے ہیں اور بے نمازی مسلمان گناہ گار ہے فاسق و فاجر ہے جہنم میں جا سکتا ہے اور اپنے گناہوں کی سزا پاکر جنت مین جا سکتا ہے یہی علامہ البانی رحمہ اللہ کی رائے ہے اور اس موضوع پر انھوں نے کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ہے حکم تارک الصلاۃ۔ اس کتاب میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ بے نماز کافر نہیں ہے بلکہ فاسق و فاجر ہے اپنے کرموںکی سزا پاکر جنت میں جائے گا ۔ واللہ اولم بالصواب
بھائی یہ کتاب میرے ساتھ شئیر کر سکتے ہو، اور اس طرح سلف میں سے جس جس نے اس موضوع پر لکھا ہے وہ کتابیں بھی آپ مجھے دے دیں، اور اگر ہو سکے تو ان کا اُردو ترجمہ بھی ہو۔ جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
محمد ارسلان بھائی بہتر ہو گا کہ آپ نے شیخین کے جن فتاویٰ کی طرف اشارہ کیا وہ ذکر کر دیں یعنی انکا لنک یا ریفرنس وغیرہ تاکہ بات واضح ہو سکے۔۔۔
عبارت لکھ دیں بھائی یا مکمل حوالہ دے دیں تاکہ ہر کوئی دیکھ سکے۔۔جزاک اللہ خیر
درست کہا آپ نے۔۔۔جب تک مسئلہ مکمل سامنے نہیں آئے گا،اصل مو ضوع اور حل تک پہنچا نہیں جا سکتا۔
جزاک اللہ خیرا
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
صحیح بات یہی ہے کہ ترک نماز کفر اکبر ہے؛حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ائمہ اربعہ میں سے امام احمد بن حنبلؒ کا بھی یہی موقف ہے اور سعودی علما و مشائخ بھی اسی کے قائل ہیں؛برصغیر کے علماے اہل حدیث میں سے مولانا عبدالقادر حصاریؒ کا بھی یہی فتوی ہے اور غالبا حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑیؒ بھی یہی راے رکھتے تھے۔
جہاں تک سستی کا تعلق ہے تو یہ شریعت میں معتبر نہیں؛یہ بھی عمدوقصد ہی میں آتی ہے؛والعیاذباللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
صحیح بات یہی ہے کہ ترک نماز کفر اکبر ہے؛حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ائمہ اربعہ میں سے امام احمد بن حنبلؒ کا بھی یہی موقف ہے اور سعودی علما و مشائخ بھی اسی کے قائل ہیں؛برصغیر کے علماے اہل حدیث میں سے مولانا عبدالقادر حصاریؒ کا بھی یہی فتوی ہے اور غالبا حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑیؒ بھی یہی راے رکھتے تھے۔
جہاں تک سستی کا تعلق ہے تو یہ شریعت میں معتبر نہیں؛یہ بھی عمدوقصد ہی میں آتی ہے؛والعیاذباللہ

مزید ان آیات و احادیث کے مفہوم کو پیش نظر رکھ کر تمام احادیث میں تطبیق دیں۔
(1) إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾۔۔۔سورۃ النساء
(2) إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾۔۔۔سورۃ النساء
(3) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس شخص کو اس حال میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گا"
(4) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا چاہے اس کے گناہوں سے زمین و آسمان کے درمیان کا خلا بھر جائے"(حدیث کی سند کے لیے "کفایت اللہ" صاحب سے رابطہ کریں)
(5) حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنے والا جنت میں جائے گا خواہ زنا کیا ہو خواہ چوری کی ہو"(حدیث کی سند کے لیے "کفایت اللہ" صاحب سے رابطہ کریں)
(6) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، (عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ) عیسی اللہ کے بندے اور رسول تھے وہ کلمہ تھے جو اللہ نے مریم علیہ السلام کی طرف القاء کیا تھا اور اللہ کی طرف سے روح تھے، تو ایسا کہنے والا جنت میں جائے گا چاہے اس کے جیسے اعمال ہوں" (حدیث کی سند کے لیے "کفایت اللہ" صاحب سے رابطہ کریں)
ان تمام قرآن مجید کی آیات و احادیث مبارکہ کو بھی مد نظر رکھیں اور پھر تطبیق دیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرے نزدیک محترم طاہر اسلام بھائی کی بات زیادہ بہتر ہے چونکہ علماء میں اس معاملہ میں اختلاف ہے مگر راجح دلائل وہی ہیں جو سعودی علماء کے ہیں
دوسری بات کہ شروع میں محترم ارسلان بھائی کی شروع کی بات میں بے نمازی کے کافر ہونے پر پیدا ہونے والے چند اشکالات لکھے گئے تھے جن کا شاید جواب نہیں آیا وہ میرے علم کے مطابق مندرجہ ذیل ہو سکتا ہے (غلطی پر مطلع فرمائیں)
1۔ علماء نے بے نمازی پر فتوی دنیا میں تعامل کے لحاظ سے لگایا ہے نہ بخشنے کا وعدہ صرف مشرک کافر کے لئے ہے باقی کفار کے بارے میری معلومات کے مطابق شاہد کوئی آیت نہیں
2۔رحمت سے ناامیدی والا اشکال ٹھیک نہیں کیونکہ نے نمازی کو کافر کہ کر بھی ہم کہ سکتے ہیں کہ توبہ کر لو نا امید نہ ہو تو یہ آیت کافروں کے لیے بھی امید ہو سکتی ہے
3۔جو ان کو کافر سمجھتے ہیں ان کے لئے ان کا ذبیحہ حرام ہو گا باقیوں کے لیے حلال- چناچہ اس سے بھی بے نمازی کو کافر کہنے سے کوئی اشکال پیدا نہیں ہو گا
4۔رشتہ داری کا مسئلہ بھی ذبیحہ کی طرح ہے بلکہ اس میں تو بے نمازی کو کافر نہ سمجھنے والے بھی احتیاط کرتے ہیں
5۔ایک تو مرتدین کو قتل کرنا سلطہ رکھنے والوں کا کام ہے دوسرا سلطہ آنے کے بعد بھی سلطہ رکھنے والے اگر کافر سمجھیں گے تو پھر اگلے اختلاف کا فیصلہ کریں گے کہ آیا بے نمازی واجب القتل ہے کہ نہیں کیونکہ اس میں بھی فقہا میں اختلاف ہے چناچہ اگر بے نمازیوں کو قتل نہیں کیا جا رہا تو اس بنیاد پر ان کو کافر سے مسلمان نہیں کہ سکتے کیونکہ آگے اور رکاوٹیں ہیں
6۔پوری دینا کے بے نمازی مسلمانوں کے ساتھ تعامل کے بارے یہ ہے کہ ان کو کافر سمجھنے والے نہ ان سے رشتہ کریں گے نہ ذبیحہ کھائیں گے وغیرہ وغیرہ مگر دنیا میں چونکہ ان کو مسلمان سمجھنے والے صحیح العقیدہ مسلمان بھی موجود ہیں اس لئے دوسرے کافروں سے لڑائی وغیرہ میں ان اپنے جھتے میں شامل کر یں گے
میرے علم کے مطابق تو ایسا ہے ویسے بے نمازی کو کافر سمجھنے والے اور نہ سمجھنے والوں کو آپس میں دلائل کی حد تک اختلاف کرنا چاہئے اسی پر قطع تعلقی وغیرہ نہیں کرنی چاہئے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
صحیح بات یہی ہے کہ ترک نماز کفر اکبر ہے؛حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ائمہ اربعہ میں سے امام احمد بن حنبلؒ کا بھی یہی موقف ہے اور سعودی علما و مشائخ بھی اسی کے قائل ہیں؛برصغیر کے علماے اہل حدیث میں سے مولانا عبدالقادر حصاریؒ کا بھی یہی فتوی ہے اور غالبا حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑیؒ بھی یہی راے رکھتے تھے۔
جہاں تک سستی کا تعلق ہے تو یہ شریعت میں معتبر نہیں؛یہ بھی عمدوقصد ہی میں آتی ہے؛والعیاذباللہ
جناب من اما م احمد تارک صلاۃ کو خارج من الملہ نہیں سمجھتے تھے ،ان کے اس فتوی کو غور سے پڈھیں اور پھر بتائیں کہ اس بارے ان کا کیا موقف تھا ؟


قال عبد الله بن الإمام أحمد في (مسائله) (ص 56 / 195) :
(سألت أبي عن رجل فرط في صلوات شهرين؟ فقال: (يصلي ما كان في وقت يحضره ذكر تلك الصلوات فلا يزال يصلي حتى يكون آخر وقت الصلاة التي ذكر فيها هذه الصلوات التي فرط فيها فإنه يصلي هذه التي يخاف فوتها ولا يضيع مرتين ثم يعود فيصلي أيضا حتى يخاف فوت الصلاة التي بعدها إلا إن كان كثر عليه ويكون ممن يطلب المعاش ولا يقوى أن يأتي بها فإنه يصلي حتى يحتاج إلى أن يطلب ما يقيمه من معاشه ثم يعود إلى الصلاة لا تجزئه صلاة وهو ذاكر الفرض المتقدم قبلها فهو يعيدها أيضا إذا ذكرها وهو في صلاة)


فانظر أيها القارئ الكريم: هل ترى في كلام الإمام أحمد هذا إلا ما يدل على ما سبق تحقيقه أن المسلم لا يخرج من الإسلام بمجرد ترك تلك الصلاة بل صلوات شهرين متتابعين بل

 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جناب من اما م احمد تارک صلاۃ کو خارج من الملہ نہیں سمجھتے تھے ،ان کے اس فتوی کو غور سے پڈھیں اور پھر بتائیں کہ اس بارے ان کا کیا موقف تھا ؟


قال عبد الله بن الإمام أحمد في (مسائله) (ص 56 / 195) :
(سألت أبي عن رجل فرط في صلوات شهرين؟ فقال: (يصلي ما كان في وقت يحضره ذكر تلك الصلوات فلا يزال يصلي حتى يكون آخر وقت الصلاة التي ذكر فيها هذه الصلوات التي فرط فيها فإنه يصلي هذه التي يخاف فوتها ولا يضيع مرتين ثم يعود فيصلي أيضا حتى يخاف فوت الصلاة التي بعدها إلا إن كان كثر عليه ويكون ممن يطلب المعاش ولا يقوى أن يأتي بها فإنه يصلي حتى يحتاج إلى أن يطلب ما يقيمه من معاشه ثم يعود إلى الصلاة لا تجزئه صلاة وهو ذاكر الفرض المتقدم قبلها فهو يعيدها أيضا إذا ذكرها وهو في صلاة)


فانظر أيها القارئ الكريم: هل ترى في كلام الإمام أحمد هذا إلا ما يدل على ما سبق تحقيقه أن المسلم لا يخرج من الإسلام بمجرد ترك تلك الصلاة بل صلوات شهرين متتابعين بل

اسی طراس بات جواب کیا ہو گا جو امام احمد اور امام شافعی کے مناظرے کے بارے مشہور ہو چکی ہے ؟
أن أحمد ناظر الشافعي في تارك الصلاة فقال له الشافعي: يا أحمد أتقول: إنه يكفر؟ قال: نعم قال: إن كان كافرا فبم يسلم؟ قال: يقول: لا إله إلا الله محمدا رسول الله قال: فالرجل مستديم لهذا القول لم يتركه قال: يسلم بأن يصلي قال: صلاة الكافر لا تصح ولا يحكم بالإسلام بها فانقطع أحمد وسكت)
 
Top