جزاک اللہ خیرا حافظ عمران بھائی
بے نمازی کی تکفیر کے قائل حضرات نے میری پیش کردہ احادیث اور قرآن کی آیات میں اور ان احادیث میں جن میں بے نمازی کے کفر کے متعلق بات ہے اس میں تطبیق نہیں دی۔
میں مزید دلائل ذکر کر رہا ہوں، ہر طرح کے دلائل دیکھ کر فیصلہ کیجئے:
(1) حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر جہاد پر بھیجا کہ "پہلے اُن کو دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہیں، اگر وہ یہ مان لیں تو اُن کو کہنا کہ اللہ نے ان پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔۔۔"
غور کیجئے سب سے پہلے توحید کی دعوت اس لیے دی گئی کہ توحید کے بغیر تمام اعمال غارت ہیں، لہذا نماز بھی ایک عمل صالح ہے اور جس کا عقیدہ درست نہیں لیکن وہ پکا نمازی ہو تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔
(2) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس شخص کو اس حال میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گا"
غور کیجئے اس حدیث میں واضح طور پر ہے کہ جس شخص کو ایسی حالت میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنتی ہے۔
(3) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا چاہے اس کے گناہوں سے زمین و آسمان کے درمیان کا خلا بھر جائے"
غور کیجئے کہ شرک نہ کرنے والے کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(4) حدیث کا مفہوم ہے کہ "ایک شخص قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے نامہ اعمال کے رجسٹر گناہوں سے پُر ہوں گے وہ سمجھ لے گا کہ آج میری ناکامی ہے، لیکن اس کے نامہ اعمال میں اچھے عمل کی ایک چھوٹی سی پرچی ہو گی وہ کہے گا کہ اس پرچی کا ان رجسٹر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟ لیکن اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے آج تمہارے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا، وہ پرچی گناہوں کے رجسٹر پر بھاری ہو گی۔ جب دیکھے گا تو اس میں وہ نیکی توحید کی گواہی ہو گی۔
غور کیجئے اس کے گناہوں کے رجسٹر میں سارے گناہ تھے لیکن اس کی نیکی میں صرف توحید کے اقرار کا عقیدہ تھا اور وہ بخش دیا گیا۔
عبدہ صاحب نے بخشش کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کیں، جناب بے نمازی کی تکفیر کے قائل حضرات بے نمازی کو ملت اسلامیہ سے خارج اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔اور سعودی علماء ان کو حرم میں داخل ہونے سے منع کرنے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بے نمازی کفر اکبر کا مرتکب ہے تو:
(1) شیعہ کی کتب میں ہزار ہا ایسی باتیں ہیں جو کفر اکبر اور شرک اکبر ہیں، جن کا اظہار شیعہ علماء اور شیعہ ذاکرین کرتے رہتے ہیں، لیکن ان پر مستقل کافر ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جاتا اور اُن کو حرمین میں داخلے کی اجازت ہے۔کیوں؟
(2) اسی طرح بریلوی حضرات کے اکثر ایسے عقائد میں ملوث ہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ماننا اور نور من نور اللہ ماننا، غیر اللہ سے استمداد وغیرہ، جب کہ غیر اللہ سے استمداد کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کافر قرار دیا ہے، تب بھی ان کو حرمین میں داخلے کی اجازت ہے؟
(3) دیوبندیوں کی اکثریت کا اپنے علماء کے ساتھ ایسا رویہ ہے جیسے بنی اسرائیل کا اپنے علماء کے ساتھ تھا، یعنی جس طرح انہوں نے اپنے علماء کو رب بنا رکھا تھا ، اگر اسی طرح نہ سہی لیکن عملی طور پر اپنے علماء خاص کر ابوحنیفہ کی تقلید کر کے اور یہ موقف اپنا کر کہ ابوحنیفہ سے اختلاف کرنے والے پر ریت کے ذرے کے برابر لعنت ہو ، اپنے علماء کو رب بنانے جیسا منظر پیش کر رہے ہیں، کیا کبھی ان پر حرمین میں پابندی عائد کی گئی ہے؟