• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازی کی تکفیر؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
طاہر عسکری صاحب نے کہا کہ ابن قیم صاحب کہتے تھے کہ صحابہ کا موقف بھی بے نمازی کے کفر اکبر کی طرف ہے تو سوال یہ ہے کہ"صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے بے نمازیوں کو سزائے موت کیوں نہیں دی؟"
کیا بے نمازی کو سزائے موت دینے کا حکم قرآن و سنت میں موجود ہے؟ تو آپ سے دلیل کا انتظار ہے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا حافظ عمران بھائی
بے نمازی کی تکفیر کے قائل حضرات نے میری پیش کردہ احادیث اور قرآن کی آیات میں اور ان احادیث میں جن میں بے نمازی کے کفر کے متعلق بات ہے اس میں تطبیق نہیں دی۔
میں مزید دلائل ذکر کر رہا ہوں، ہر طرح کے دلائل دیکھ کر فیصلہ کیجئے:
(1) حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر جہاد پر بھیجا کہ "پہلے اُن کو دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہیں، اگر وہ یہ مان لیں تو اُن کو کہنا کہ اللہ نے ان پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔۔۔"
غور کیجئے سب سے پہلے توحید کی دعوت اس لیے دی گئی کہ توحید کے بغیر تمام اعمال غارت ہیں، لہذا نماز بھی ایک عمل صالح ہے اور جس کا عقیدہ درست نہیں لیکن وہ پکا نمازی ہو تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔

(2) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس شخص کو اس حال میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گا"
غور کیجئے اس حدیث میں واضح طور پر ہے کہ جس شخص کو ایسی حالت میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنتی ہے۔

(3) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا چاہے اس کے گناہوں سے زمین و آسمان کے درمیان کا خلا بھر جائے"
غور کیجئے کہ شرک نہ کرنے والے کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔

(4) حدیث کا مفہوم ہے کہ "ایک شخص قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے نامہ اعمال کے رجسٹر گناہوں سے پُر ہوں گے وہ سمجھ لے گا کہ آج میری ناکامی ہے، لیکن اس کے نامہ اعمال میں اچھے عمل کی ایک چھوٹی سی پرچی ہو گی وہ کہے گا کہ اس پرچی کا ان رجسٹر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟ لیکن اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے آج تمہارے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا، وہ پرچی گناہوں کے رجسٹر پر بھاری ہو گی۔ جب دیکھے گا تو اس میں وہ نیکی توحید کی گواہی ہو گی۔
غور کیجئے اس کے گناہوں کے رجسٹر میں سارے گناہ تھے لیکن اس کی نیکی میں صرف توحید کے اقرار کا عقیدہ تھا اور وہ بخش دیا گیا۔

عبدہ صاحب نے بخشش کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کیں، جناب بے نمازی کی تکفیر کے قائل حضرات بے نمازی کو ملت اسلامیہ سے خارج اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔اور سعودی علماء ان کو حرم میں داخل ہونے سے منع کرنے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بے نمازی کفر اکبر کا مرتکب ہے تو:
(1) شیعہ کی کتب میں ہزار ہا ایسی باتیں ہیں جو کفر اکبر اور شرک اکبر ہیں، جن کا اظہار شیعہ علماء اور شیعہ ذاکرین کرتے رہتے ہیں، لیکن ان پر مستقل کافر ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جاتا اور اُن کو حرمین میں داخلے کی اجازت ہے۔کیوں؟

(2) اسی طرح بریلوی حضرات کے اکثر ایسے عقائد میں ملوث ہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ماننا اور نور من نور اللہ ماننا، غیر اللہ سے استمداد وغیرہ، جب کہ غیر اللہ سے استمداد کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کافر قرار دیا ہے، تب بھی ان کو حرمین میں داخلے کی اجازت ہے؟

(3) دیوبندیوں کی اکثریت کا اپنے علماء کے ساتھ ایسا رویہ ہے جیسے بنی اسرائیل کا اپنے علماء کے ساتھ تھا، یعنی جس طرح انہوں نے اپنے علماء کو رب بنا رکھا تھا ، اگر اسی طرح نہ سہی لیکن عملی طور پر اپنے علماء خاص کر ابوحنیفہ کی تقلید کر کے اور یہ موقف اپنا کر کہ ابوحنیفہ سے اختلاف کرنے والے پر ریت کے ذرے کے برابر لعنت ہو ، اپنے علماء کو رب بنانے جیسا منظر پیش کر رہے ہیں، کیا کبھی ان پر حرمین میں پابندی عائد کی گئی ہے؟


دین آسان ہے
رسول ﷺ نے فرمایا ،یقینا دین آسان ہے!جو دین میں بے جا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آجاتا ہے (یعنی ایسا انسان مغلوب ہو جاتا ہے اور دین پر عمل ترک کر دیتا ہے)پس تم سیدھے راستے پر رہو اور میانہ روی اختیار کرو اور اپنے رب کی طرف سے ملنے والے اجر پر خوش ہو جاؤ اور صبح و شام اور رات کے کچھ حصے (کی عبادت)سے مدد حاصل کرو۔
(راوی حضرت ابو ھریرہ،صحیح بخاری،کتاب مرضیٰ و کتاب الرقاق)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا : " اپنی طرف سے دین میں سختی کرنے والے ہلاک ہو گئے۔آپﷺ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔
(یعنی جہاں شریعت میں سختی نہیں ،وہاں سختی کرنے والے اور کھود کرید کرنے والے ہلاک ہو جائیں گے۔
تشریح بحوالہ :ریاض الصالحین ،امام نووی)
(راوی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ،صحیح مسلم ،کتاب العلم)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کیا بے نمازی کو سزائے موت دینے کا حکم قرآن و سنت میں موجود ہے؟ تو آپ سے دلیل کا انتظار ہے۔
جب ترک نماز کفر ہے تو اس کی سزا موت ہی ہو سکتی ہے؛ارتداد کی سزا موت ہی ہے۔ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ کے سوا تینوں بے نماز کو قتل کرنے کے قائل ہیں،اگرچہ تکفیر صرف امام احمد ہی کرتے ہیں۔
رہا یہ سوال کہ صحابہ کرام نے سزا کیوں نہیں دی،تو ثابت کیا جائے کہ ان کے پاس بے نماز لایا گیا اور انھوں نے سزا نہیں دی۔
بعض بھائیوں نے حدیث پیش کی ہے کہ قرب قیامت ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ محض کلمہ پڑھتے ہوں گے لیکن ان کی بخشش ہو جائے گی تو اس کی توجیہ علما نے یہ کی ہے کہ انھیں جہالت کی بنا پر معذور جانا جائے گا۔
یہ کہنا بھی عجیب ہے کہ امام احمد کے نزدیک انسان صرف شرک ہی سے دائرہ اسلام سے نکلتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اگر کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کرے تو کیا وہ امام صاحب کی نظر میں کافر ہو گا یا نہیں؟؟گزارش ہے کہ دلیل پیش کرنے سے پہلے غور کر لینا چاہیے؛اگر امام صاحب کی راے کا یہی مفہوم ہے تو وہ ترک نماز کو کفر کیوں کہتے ہیں؟؟کیا انھوں نے رجوع کر لیا تھا؟؟
باقی وہ احادیث عام ہیں جن میں محض کلمہ توحید کہنے سے نجات کا تذکرہ ہے اور ترک نماز کے کفر ہونے کی احادیث خاص ہیں،ان میں کوئی تعارض نہیں۔
شیعہ اور دیگر گم راہ فرقوں کی بابت عرض ہے کہ کسی قول،فعل،یا اعتقاد کا کفریہ ہونا اور بات ہے اور اس کے مرتکب کی متعین تکفیر علاحدہ معاملہ ہے؛اس نکتے کو ملحوظ رکھیں تو کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔واللہ اعلم بالصواب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام و علیکم -

محترم ---نماز کا قائم نہ کرنا بھی انسان کو مشرکوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے - الله رب العزت کا فرمان ہے ؛

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ - سوره الروم ٣١
اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ -
وعليكم السلام
آپ اس آیت کو سیاق و سباق سے دیکھیں:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَ‌تَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ‌ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّ‌قُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِ‌حُونَ ﴿٣٢﴾۔۔سورۃ الروم
ترجمہ: پس آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (30) (لوگو!) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ (31) ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروه گروه ہوگئے ہر گروه اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے (32)
اب ان آیات کی تفسیر امام ابن کثیر کی "تفسیر ابن کثیر" میں ملاحظہ فرمائیں:



حافظ ابن کثیر اس آیت (مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ)کو تین حصوں میں بیان کرتے ہیں:
(1) مُنِيبِينَ إِلَيْهِ "(مومنو) اُسی (اللہ) کی طرف رجوع کرتے ہوئے" ابن زید اور ابن جریج نے اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں کہ اس کی طرف رجوع کیے رکھو۔
(2) وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَو‌ٰةَ "اور اس سے ڈرتے رہو اور نماز پڑھتے رہو۔" کہ نماز پڑھنا بہت بڑی اطاعت ہے۔
(3) وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ"اور مشرکوں میں سے نہ ہونا۔" بلکہ موحدین اور ان مخلصین میں سے ہو جاناجو اسی ذات اقدس کی عبادت کرتے اور اس کے سوا کسی اور کی خوشنودی کے طلب گار نہیں ہوتے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
طاہر عسکری صاحب نے کہا کہ ابن قیم صاحب کہتے تھے کہ صحابہ کا موقف بھی بے نمازی کے کفر اکبر کی طرف ہے تو سوال یہ ہے کہ"صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے بے نمازیوں کو سزائے موت کیوں نہیں دی؟"


اس وقت بے نمازی؟؟؟؟ حوالہ!!


ابوالاحوص رحمہ اللہ نے كہا كہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرماياكہ ”ہم نے ديكها كہ نماز باجماعت سے صرف وہى منافق پیچھے رہ جاتے تهے جن كا نفاق معلوم اور كهلا ہوتا تها (يعنى جن لوگوں كا نفاق پوشيدہ تها، وه بهى جماعت سے نماز پڑهتے تهے) يا بيمار رہ جاتے تهے- اور ان ميں سے بهى جوچلنے كى طاقت ركهتا، وه دو آدميوں كے كندهوں پر ہاتھ ركھ كر آتا اور نماز ميں ملتا تها-“(صحيح مسلم، كتاب المساجد: باب فضل صلاة الجماعة)

اس میں با جماعت نماز کا معاملہ ہے،بے نمازی کا نہیں۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
کیا بے نمازی کو سزائے موت دینے کا حکم قرآن و سنت میں موجود ہے؟ تو آپ سے دلیل کا انتظار ہے۔
یہ حیث ملتی ہے:
حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ آپﷺ نے ارشاد فرمايا: ”قسم ہے اس ذات كى جس كے قبضہ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ لكڑياں جمع كرنے كا حكم دوں اور جب يہ جمع ہوں جائيں تو نماز كے لئے اذان كہنے كا حكم دوں اور جب اذان ہوجائے تو لوگوں كو نماز پڑهانے كے لئے كسى شخص كو مامور كروں اور ميں ان كو پيچهے چهوڑ كر ان لوگوں كے پاس جاؤں جو (بغير كسى عذر كے) جماعت ميں حاضر نہيں اور ان كے گهر جلادوں- قسم ہے اس كى جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے كہ جماعت ميں نہ آنے والوں ميں سے اگر كسى كو يہ معلوم ہوجائے كہ اسے گوشت كى ايك موٹى ہڈى ملے يا دو اچهے گهر مليں گے تو عشا كى نماز ميں ضرور آئے-“ (صحيح البخارى ،كتاب الاذان: باب وجوب صلاة الجماعة)
واضح رہے کہ اس میں بھی حکم باجماعت نماز کا ہے۔ ۔ ۔تو بے نمازی کا کیا حکم ہو گا؟؟؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
واضح رہے کہ میری گفتگو بے نمازی کے آخرت میں بخشش کے حساب سے کافر ہونے یا نہ ہونے کی ہے، شیخ ابن عثیمین کے فتویٰ جات میں نے پڑھے جس میں وہ بے نمازی کے مکمل طور پر کافر ہونے اور اُن پر مرتد کے احکام لاگو کرنے کے قائل ہیں، جبکہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بے نمازی کوئی اچھا انسان نہیں ہوتا، لیکن نماز چونکہ عمل صالح ہے جس کا ترک کرنا کفر ہے، لیکن یہ کفر کفر اصغر بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا موقف ہے اور حافظ عمران بھائی نے علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے کہ بے نمازی کا کفر کفر اصغر ہے، جو کہ قیامت کے دن جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہے تو بخش دے، البتہ کافرو مشرک کی بخشش ممکن نہیں۔ واللہ اعلم

ایک بار وہ تمام دلائل میں دوبارہ یہاں ذکر کر رہا ہوں، ان دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اخت ولیدصاحبہ، محمد علی جوادصاحب اور طاہر عسکری صاحب اپنا موقف بیان کریں۔

(1) حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر جہاد پر بھیجا کہ "پہلے اُن کو دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہیں، اگر وہ یہ مان لیں تو اُن کو کہنا کہ اللہ نے ان پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے۔۔۔"
غور کیجئے سب سے پہلے توحید کی دعوت اس لیے دی گئی کہ توحید کے بغیر تمام اعمال غارت ہیں، لہذا نماز بھی ایک عمل صالح ہے اور جس کا عقیدہ درست نہیں لیکن وہ پکا نمازی ہو تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔
(2) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس شخص کو اس حال میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گا"
غور کیجئے اس حدیث میں واضح طور پر ہے کہ جس شخص کو ایسی حالت میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتا تھا تو وہ جنتی ہے۔
(3) حدیث کا مفہوم ہے کہ "جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا چاہے اس کے گناہوں سے زمین و آسمان کے درمیان کا خلا بھر جائے"
غور کیجئے کہ شرک نہ کرنے والے کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(4) حدیث کا مفہوم ہے کہ "ایک شخص قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے نامہ اعمال کے رجسٹر گناہوں سے پُر ہوں گے وہ سمجھ لے گا کہ آج میری ناکامی ہے، لیکن اس کے نامہ اعمال میں اچھے عمل کی ایک چھوٹی سی پرچی ہو گی وہ کہے گا کہ اس پرچی کا ان رجسٹر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟ لیکن اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے آج تمہارے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا، وہ پرچی گناہوں کے رجسٹر پر بھاری ہو گی۔ جب دیکھے گا تو اس میں وہ نیکی توحید کی گواہی ہو گی۔
غور کیجئے اس کے گناہوں کے رجسٹر میں سارے گناہ تھے لیکن اس کی نیکی میں صرف توحید کے اقرار کا عقیدہ تھا اور وہ بخش دیا گیا۔

علاوہ ازیں حافظ عمران بھائی نے جو دلائل پیش کیے ہیں اُن کے جواب کے تاحال ہم منتظر ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
طاہر عسکری صاحب نے کہا کہ ابن قیم صاحب کہتے تھے کہ صحابہ کا موقف بھی بے نمازی کے کفر اکبر کی طرف ہے تو سوال یہ ہے کہ"صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے بے نمازیوں کو سزائے موت کیوں نہیں دی؟"
یہ بھی تو صحابی کا موقف ہے اس کے بارے عسکری صاحب کیا کہیں گے؟
قال صلة بن زفر لحذيفة: ما تغني عنهم (لا إله إلا الله) وهم لا يدرون ما صلاة ولا صيام ولا نسك ولا صدقة؟
فأعرض عنه حذيفة ثم ردها عليه ثلاثا كل ذلك يعرض عنه حذيفة
ثم أقبل عليه في الثالثة فقال: يا صلة تنجيهم من النار. (ثلاثا) (السللسۃ الصحیحۃ:ح۸۷)
یعنی جب لوگوں کو نماز ،روزہ ، صدقہ اور قربانی کا کچھ علم نا ہوگا تواس وقت صرف لا الہ الا اللہ ہی انکی بخشش کے لیے کا فی ہوگا،یہ قرب قیامت کی بات ہے اور یہ الفاظ صحابی رسول کے ہیں ،اگر ترک صلاۃ کفر اکبر ہوتا تو حضرت حذیفہ یہ بات کبھی نا کہتے کہ نجات کے لیے صرف کلمہ ہی کافی ہے ،بہرحال بے نماز فاسق و فاجر ہے اس کو تادیبا سزا بھی دی جا سکتی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ایک حکم کافر کے ساتھ دنیا میں ہمارےتعامل کا ہے اور ایک آخرت میں ان کے انجام کا ہے میرے خیال میں ہم دینا میں تعامل کے مکلف ہیں آخرت میں مشرک کے علاوہ کس کی بخشش ہو گی یا نہیں ہم اس کے مکلف نہیں
میں نے کافی حد تک اس بحث کا مطالعہ کیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو پھیلا زیادہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ نہیں نکل رہا
میری تجویز ہے کہ پیلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محل نزاع کیا ہے تو میری عقل کے مطابق مندرجہ ذیل دلائل سے موضوع کو فائدہ نہیں ہو گا
1۔شرک معاف نہیں باقی سب معاف ہے اسی طرح جس نے کلمہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول کہ شرک ہی انسان کو اسلام سے خارج کر سکتا ہے اسی طرح ایک پرچی والی حدیث اور اس جیسی تمام احادیث و اقوال- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل- یہی بات اوپر محترم طاہر بھائی نے لکھی تھی مگر شاہد نظر نہیں آ سکی
2۔سستی کاہلی کی دلیل کے بارے بھی یہی کہنا ہے کہ سستی کاہلی نفس کی خواہش کے تابع ہونے سے ہوتی ہے اسی نفس کے تابع ہو کر پیسوں کے لئے سلمان رشدی نے گند گھولا تھا پس شریعت میں عام قائدہ یہی ہے کہ سستی کی وجہ عمل میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے مگر اس میں کچھ اعمال سستی سے کرنے سے بھی اسلام سے خارج کر دیتے ہیں مگر ان پر ٹھوس قران و حدیث کی دلیل لازمی ہونی چاہیے
3۔بخاری کتاب التوحید کی حدیث کی دلیل لکھی ہے کہ یا معاذ انک تاتی قوما من اھل الکتاب والی حدیث جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے توحید کی دعوت دیں فانھم اطاعوک لذلک فاعلمھم کہ اگر وہ توحید میں اطاعت کر لیں تو نماز کا بتائیں- میری سمجھ کے مطابق اس میں کہیں نہیں کہ توحید ہی کم از کم مطلوب ہے کیونکہ اس بعدصدقہ کاحکم ہے فاعلمھم ان اللہ افترض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاھم و ترد الی فقراھم- جس کے انکار پر ابوبکر نے جھاد کیا تھا

یہ تو تھی میری تجویز جس پر اہل علم رائے دے سکتے ہیں اور اسی طرح محترم طاہر بھائی نے بھی اوپر بتایا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں البتہ ابھی میں ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کر ریا ہوں جو غالبامحترم ارسلان بھائی نے پوچھی ہے اور مجھے بھی ابھی تشنگی ہے کہ سستی کی حد کیا ہے کہ کبھی سونے کی وجہ سے ایک آدھ نماز چھوٹ جائے تو پھر بھی کافر-
 
Top