• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ اہل حدیث پر چند اہم اعتراضات کے جوابات ۔۔ از حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,767
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
شاکر بھائی کیا یہ سب شیخ زبیر کی لکھی ہوئی تحریر ہے؟ اگر ایسے ہے تو زیلعی رح کے الفاظ کا مکمل کوٹ اور ترجمہ میں پہلے ایک جگہ کرچکا ہوں فورم پر ہی۔ اس طرح تو ہمیں شیخ صاحب کے تمام حوالہ جات کی تحقیق کرنی پڑ جائے گی۔
پیارے بھائی آپ ضرور تحقیق کریں ۔ اس طرح کےموضوعات لگانے کا ایک مقصد یہی ہوتا ہے تاکہ فریق ثانی کی رائے بھی واضح ہو جائے ۔
اور ویسے بھی ہمارے تو منہج میں یہ بات شامل ہے کہ ’’ حق ‘‘ کسی مذہب یا شخصیت کی ملکیت نہیں ہوتا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,767
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
یہ کتاب اصول الدین یعنی علم الکلام اور عقائد کے بارے میں ہے۔ علم الکلام میں اہل سنت ولجماعت کے تین فریق تھے۔ اشاعرہ، ماتریدیہ اور محدثین۔ اشاعرہ کو شوافع اور ماتریدیہ کو احناف بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ امام ابو منصور ماتریدی رح حنفی تھے اور ان کے متبعین بھی اکثر حنفی تھے اور امام اشعری رح کے متبعین اکثر شوافع تھے۔ لیکن یہ اکثر کی بنا پر تھا۔
اشاعرہ :شوافع
ماتریدیہ : احناف
اہل حدیث : ؟
ذرا یہ وضاحت فرمادیں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشاعرہ :شوافع
ماتریدیہ : احناف
اہل حدیث : ؟
ذرا یہ وضاحت فرمادیں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں ۔
اشاعرہ کلی طور پر شوافع نہیں بلکہ تمام مسالک کے لوگ تھے اکثریت شافعی تھی یا ابو الحسن اشعری رح کے شافعی ہونے کی وجہ سے شوافع کہلاتے ہیں ورنہ ان کے متبعین میں احناف و دیگر بھی تھے۔
اسی طرح ماتریدیہ بھی اکثریت یا ماتریدی رح کے حنفی ہو نے کی وجہ سے حنفی کہلاتے ہیں۔
اہل حدیث میں اصل حنابلہ تھے لیکن ان کے علاوہ بڑی تعداد میں تمام مسالک کے علماء تھے۔ انہی کا عقیدہ عقیدہ سلف کہلاتا ہے اور یہ تشریح مسائل میں فلسفہ کی موشگافیوں کے قائل نہیں تھے۔
مالکیہ نے چوں کہ علم کلام میں الگ سے حصہ نہیں لیا بلکہ انہی علماء میں شامل تھے اس لیے ان کا الگ سے ذکر بھی نہیں آتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,767
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اشاعرہ کلی طور پر شوافع نہیں بلکہ تمام مسالک کے لوگ تھے اکثریت شافعی تھی یا ابو الحسن اشعری رح کے شافعی ہونے کی وجہ سے شوافع کہلاتے ہیں ورنہ ان کے متبعین میں احناف و دیگر بھی تھے۔
اسی طرح ماتریدیہ بھی اکثریت یا ماتریدی رح کے حنفی ہو نے کی وجہ سے حنفی کہلاتے ہیں۔
اہل حدیث میں اصل حنابلہ تھے لیکن ان کے علاوہ بڑی تعداد میں تمام مسالک کے علماء تھے۔ انہی کا عقیدہ عقیدہ سلف کہلاتا ہے اور یہ تشریح مسائل میں فلسفہ کی موشگافیوں کے قائل نہیں تھے۔
مالکیہ نے چوں کہ علم کلام میں الگ سے حصہ نہیں لیا بلکہ انہی علماء میں شامل تھے اس لیے ان کا الگ سے ذکر بھی نہیں آتا۔
اب ایک دفعہ ذرا پھر اسی قول پر نظر کریں :
پانچویں صدی ہجری میں فوت ہونے والے ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر بن التمیمی البغدادی (متوفی 429ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
"فی ثغور الروم والجزیرۃ و ثغور الشام و ثغور آذربیجان وباب الابواب کلھم علی مذھب اھل الحدیث من اھل السنۃ"
روم، جزیرہ، شام، آذربیجان اور باب الابواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہلِ سنت میں سے اہلِ حدیث کے مذہب پر ہیں۔ (اصول الدین ص 317)
اور بتائیں کہ کیا حنابلہ اور مالکیہ اور ان کے علاوہ دیگر مسالک کے علماء کی ایک بڑی تعداد صرف انہیں علاقوں میں تھی ؟
اگر اہلحدیث سے مرادہ وہی ہوتی جو آپ نے وضاحت فرمائی تو یقینا عبد القاہر بغدادی صرف ان علاقوں کے ذکر پر اکتفا نہ کرتے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,767
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
حضر حیات صاحب : اہل حدیث کے منہج پر کوئی مختص کتاب ہو تو رہنمائی فرمائیں ، جس سے معلوم ہو کہ منہج کہاں تک متفق ہےیا منہج کی آپ وضاحت فرمائیں ۔۔۔۔۔
اس سلسلے میں مختلف کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے اردو زبان میں فی الوقت دو کتابیں پیش خدمت ہیں :
تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/19-taqabul-masalik/355-tehreek-e-azadi-e-fikar-aurshah-wali-ullah-ki-tajdeed-e-masai.html
اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/متفرقات/166-متفرق-مقالات/2959-ahle-hadees-ka-manhaj-aur-ihnaf-se-ikhtilaf-ki-haqiqat-o-noiyat.html
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اب ایک دفعہ ذرا پھر اسی قول پر نظر کریں :

اور بتائیں کہ کیا حنابلہ اور مالکیہ اور ان کے علاوہ دیگر مسالک کے علماء کی ایک بڑی تعداد صرف انہیں علاقوں میں تھی ؟
اگر اہلحدیث سے مرادہ وہی ہوتی جو آپ نے وضاحت فرمائی تو یقینا عبد القاہر بغدادی صرف ان علاقوں کے ذکر پر اکتفا نہ کرتے ۔
عجیب۔
خضر حیات بھائی کیا آپ نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں فرمایا؟
آگے افریقہ، اندلس،تمام بحر مغرب کے علاقے، ماوراء النہر میں ترک اور چین کے علاقے بھی مذکور ہیں۔ یہ تقریبا تمام دریافت شدہ دنیا ہو جاتی ہے۔ غالبا اس وقت میں اسلامی دنیا اتنی ہی تھی ورنہ اور بھی ذکر فرماتے جیسے ہند اور یورپ وغیرہ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محمد عاصم انعام
میں بذات خود کبھی اہل حدیث کی مسجد میں جاکر نماز پڑھتا ہوں وہ الگ بات ہے کہ ان کے لیے یہ ایک اچنبے کی بات لگتی ہے کہ میں کیوں ان کے صف اول میں کھڑا ہوں ، یہ بھائی مجھے تجسسانہ کم اور مغاضبانہ نظروں سے زیادہ دیکھتے ہیں ،
نہیں، یہ بات بالکل غلط ہے، ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، میں اپنی بات کروں، جب میں دیوبندی تھا تو باوجود اہلحدیثوں کو اچھا نا سمجھنے کے، جب اہلحدیث مسجد میں جاتا تو کبھی مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا، نا کبھی مغضبانہ نظروں سے کسی نے دیکھا، نہ کسی نے نفرت کی۔

لیکن اس کے باوجود جب میں اہلحدیث ہو گیا تو دیوبندیوں کا قابل افسوس سلوک دیکھنے کو ملا، اسی لیے شروع شروع میں دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتا، لیکن بعد میں جب تحقیق ہو گئی تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا ختم کر دیا۔

ہمارے علاقے کی مسجد میں سبھی مسالک والے آتے ہیں، ان سے پوچھ کر دیکھیں ان کو کبھی کسی نے نفرت سے دیکھا ہے، یا مغضبانہ نظروں سے دیکھا ہے، بلکہ پچھلے سال میں نے ایک آدمی کو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے دیکھا شاید وہ شیعہ تھا لیکن اسے کسی نے کچھ نہیں کہا، ایسے خوامخواہ لوگ اہلحدیثوں کو بدنام کرتے ہیں۔

قاری عبدالوکیل صدیقی صاحب رحمہ اللہ (وفات: یکم مارچ2013) نے ہمیں ایک بار بتایا تھا کہ ہمارے اہلحدیث مدرسے میں دو شیعہ لڑکیوں نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی ہے، آپ سوچ سکتے ہیں شیعہ جیسے دشمن لوگ بھی ہمارے ہاں آ کر قرآن سیکھتے ہیں، اگر نفرت کرتے تو پھر وہ لوگ کیوں آتے؟

جب نو تعمیر مسجد جامع مسجد دارالسلام اہلحدیث کا افتتاح ہوا تھا تو قاری صاحب نے اعلان کیا تھا ، اگرچہ یہ مسجد مسلک اہلحدیث کے زیر انتظام ہے (یعنی اہلحدیث مسجد ہے) لیکن یہاں سبھی مسالک والے آ سکتے ہیں۔

شاکر بھائی نے صحیح کہا ہے ہمیں جامد فرقہ مت دیکھیں، ہمارا منہج دیکھیں، اللہ آپ لوگوں کو حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عاصم صاحب! اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں، اور کسی اہلحدیث مسجد میں آپ کو نماز پڑھنے نہیں دی جاتی یا نفرت کی جاتی ہے، تو آپ انتطامیہ سے رابطہ کریں، یا وہاں کی جماعت کے سربراہ کو بتائیں، ان کو اس بات سے روکا جائے گا۔ ان شاءاللہ

لیکن آپ کو بھی چاہیے کہ اہلحدیثوں سے نفرت بند کریں اور خوامخواہ بغض رکھ کر حق سے دور نہ ہوں، تحقیق کریں میرے بھائی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عاصم صاحب! اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں، اور کسی اہلحدیث مسجد میں آپ کو نماز پڑھنے نہیں دی جاتی یا نفرت کی جاتی ہے، تو آپ انتطامیہ سے رابطہ کریں، یا وہاں کی جماعت کے سربراہ کو بتائیں، ان کو اس بات سے روکا جائے گا۔ ان شاءاللہ

لیکن آپ کو بھی چاہیے کہ اہلحدیثوں سے نفرت بند کریں اور خوامخواہ بغض رکھ کر حق سے دور نہ ہوں، تحقیق کریں میرے بھائی۔
میں کراچی میں رہتا ہوں اور اللہ کا کرم ہے کہ ہمارے یہاں دونوں مسالک والے ایک دوسرے کی مساجد میں نماز پڑھتے ہیں اور کوئی برا نہیں سمجھتا۔
شاید اسی لیے میں بغیر تعصب کے تحقیق کر لیتا ہوں۔ ورنہ شاید میں بھی اہل حدیث کو برے الفاظ اور القاب سے یاد کیا کرتا۔ کچھ میرے اساتذہ کی تربیت بھی ہے اس سلسلے میں۔ الحمدللہ علی ذالک
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290


(ص 178 تا 185)

اعتراض نمبر 6: مفتی عبدالہادی دیوبندی وغیرہ نے لکھا ہے کہ " یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیر مقلدین (جو خود کو اہلحدیث کہتے ہیں) کا وجود انگریز کے دور سے پہلے نہ تھا۔" (نفس کے پجاری ص 1)

جواب:
دو قسم کے لوگوں کو اہلِ حدیث کہتے ہیں:

1۔ صحیح العقیدہ (ثقہ و صدوق) محدثینِ کرام جو تقلید کے قائل نہیں ہیں۔
2۔ محدثین کرام کے عوام جو صحیح العقیدہ ہیں اور بغیر تقلید کے کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ خیر القرون سے لے کر آج تک ہر دور میں موجود رہے ہیں۔

دلیل اول:
صحابہ کرام سے تقلید شخصی و تقلید غیر شخصی کا کوئی صریح ثبوت نہیں ہے بلکہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" وامازلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم"
رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو (سنو) وہ اگر سیدھے راستے پر بھی (چل رہا) ہو تو بھی اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔(کتاب الزہد للامام وکیع ج 1 ص 300 ح 71 و سندہ حسن، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 36)


یہ مکمل روایت یوں ہے:۔
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ عِنْدَ ثَلَاثٍ: دُنْيَا تَقْطَعُ رِقَابَكَمْ، وَزَلَّةِ عَالِمٍ، وَجِدَالِ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ؟ فَسَكَتُوا، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَمَّا دُنْيَا تَقْطَعُ رِقَابَكُمْ، فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ فَقَدْ هُدِيَ، وَمَنْ لَا فَلَيْسَ بِنَافِعَتِهِ دُنْيَاهُ، وَأَمَّا زَلَّةُ عَالِمٍ، فَإِنِ اهْتَدَى فَلَا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ وَإِنْ فُتِنَ فَلَا تَقْطَعُوا مِنْهُ آنَاتِكُمْ، فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يُفْتَنُ ثُمَّ يُفْتَنُ، ثُمَّ يَتُوبُ، وَأَمَّا جِدَالُ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ، فَإِنَّ لِلْقُرْآنِ مَنَارًا كَمَنَارِ الطَّرِيقِ لَا يَكَادُ يَخْفَى عَلَى أَحَدٍ، فَمَا عَرْفَتُمْ فَتَمَسَّكُوا بِهِ، وَمَا أُشْكِلَ عَلَيْكُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ
اور بہر حال عالم کی لغزش تو اگر وہ ہدایت پا جائے تو (بھی) اسے اپنے دین کا پیشوا مت بناؤ۔ اور اگر وہ فتنے میں پڑجائے تو اس سے اپنی امیدیں ختم نہ کرو کیوں کہ مومن فتنے میں پڑتا ہے پھر پڑتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے۔
یعنی اگر وہ گمراہ ہو اور پھر درست ہو جائے تو بھی اسے اپنا پیشوا ہی نہ بنا دو کیوں کہ وہ پھر گمراہ ہو سکتا ہے اور وہ ظاہرا صحیح اور باطنا گمراہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی بھی ہدایت یافتہ عالم ہو تو اس کی پیروی اور تقلید ہی نہ کرو۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"لا تقلدوا دینکم الرجال"
اپنے دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج2 ص10، وسندہ صحیح، نیز دیکھئے دین میں تقلید کا مسئلہ ص 35)

یہ روایت پوری اس طرح ہے:۔
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا محمد بن خالد، ثنا أحمد بن خالد الوهبي، ثنا إسرائيل، عن أبي حصين، عن يحيى بن وثاب، عن مسروق، عن عبد الله يعني ابن مسعود، أنه قال: " لا تقلدوا دينكم الرجال فإن أبيتم فبالأموات لا بالأحياء "
اپنے دین میں لوگوں کی پیروی مت کرو اور اگر تم نہ مانو تو مردوں کی کرو زندوں کی نہیں۔

اس قول سے تو مردہ ائمہ کی تقلید ثابت ہو رہی ہے۔ شاید شیخ سے تسامح ہو گیا یا پھر وہ جان کر اس حصے کو حذف کر گئے۔
 
Top