رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اس قول کو امام ابو حنیفہ کے دیگر اقوال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
امام خطیب روایت کرتے ہیں: "أخبرنا ابن الفضل، قال: أخبرنا ابن درستويه، قال: حدثنا يعقوب، قال: حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثنا أبو مسهر، وقرأت على الحسن بن أبي بكر، عن أحمد بن كامل القاضي، قال: حدثنا الحسن بن علي قراءة عليه، أن دحيما، حدثهم قال: حدثنا أبو مسهر، عن مزاحم بن زفر، قال: قلت لأبي حنيفة: يا أبا حنيفة، هذا الذي تفتي، والذي وضعت في كتبك، هو الحق الذي لا شك فيه؟ قال: فقال والله ما أدري لعله الباطل الذي لا شك فيه." مزاحم بن زفر کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے جو فتوی اور جو آپ کی کتب میں موجود ہے کیا وہ بالکل حق بات ہے جس پر کوئی شک نہیں؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا، ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا باطل کلام ہو جس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ (تاریخ بغداد: 15:544)
اس قول سے درج ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:
1- امام ابو حنیفہ نے اپنے نزدیک اصح ترین رائے کو اپنی کتب میں درج کر دیا اور اس پر فتوی دے دیا اور اس کے خطاء وصواب ہونے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، ہو سکتا ہے ان کی رائے صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ غلط ہو۔
2- امام ابو حنیفہ اپنے فتوے اور رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کے علاوہ سب باطل ہے۔
3- یہ معاملہ صرف رائے کا ہے حدیث کا ذکر اس قول میں نہیں ہے۔ یعنی جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو ابو حنیفہ نے اپنے اجتہاد کی مطابق فیصلہ کر لیا اور اس کو وہ پتھر کی لکیر نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی مخلص کاوش کے تحت اس پر عمل کرتے ہیں۔
چونکہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کا لکھے جانا بھی وہ پسند نہیں کرتے، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرنا علي بن القاسم بن الحسن البصري، قال: حدثنا علي بن إسحاق المادرائي، قال: سمعت العباس بن محمد، يقول: سمعت أبا نعيم، يقول: سمعت زفر، يقول: كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن، فكنا نكتب عنه، قال زفر، فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف: ويحك يا يعقوب، لا تكتب كل ما تسمع مني، فإني قد أرى الرأي اليوم فأتركه غدا، وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے ایک دن کہا: افسوس ہے تم پر اے یعقوب، میری ہر چیز جو تم سنتے ہو اسے لکھی مت جاؤ کیونکہ میں آج ایک رائے رکھتا ہوں تو اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں، اور اگلے دن ایک رائے رکھتا ہوں تو اس سے اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں (ایضا)َ۔
یعنی امام ابو حنیفہ کو اپنے آراء پر مکمل اعتماد نہیں تھا اسی لئے بار بار ان میں ترامیم کیا کرتے تھے۔
اور یہی خیال ان کا اپنی حدیث کے متعلق بھی تھا، یعنی انہیں اپنی روایات پر مکمل طور پر یقین نہیں تھا کہ یہ صحیح ہیں یا غلط۔ گویا انہیں بھی اپنے ضبط پر شک تھا۔ اسی لئے وہ کہہ دیتے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ روایت صحیح ہے یا غلط، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرني الخلال، قال: حدثنا محمد بن بكران، قال: حدثنا محمد بن مخلد، قال: حدثنا حماد بن أبي عمر، قال: حدثنا أبو نعيم، قال: سمعت أبا حنيفة، يقول لأبي يوسف لا ترو عني شيئا، فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: مجھ سے کچھ بھی روایت مت کرو کیونکہ اللہ کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ میں خطاء پر ہوں یا صحیح (ایضا)۔
اس روایت میں امام ابو حنیفہ کے خلوص کی طرف اشارہ ہے۔
اسی لئے انہوں نے کہا: "عامة ما أحدثكم به خطأ."۔
امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں: "أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني كتب إليّ عن أبي عبد الرحمن المقريء قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذي سمعتم كله ريح وباطل." المقری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ہمیں حدیث سناتے اور جب اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: یہ جو تم سب نے سنا ہے یہ سب ریح وباطل ہے (الجرح والتعدیل)۔
گویا جس طرح امام ابو حنیفہ کو اپنی رائے کے صحیح وضعیف ہونے پر مکمل اعتماد نہ تھا اسی طرح انہیں اپنی روایت حدیث کے بارے میں بھی مکمل اعتماد نہیں تھا کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف۔ بندے کو اپنے ضبط کا خود اندازہ ہوتا ہے اور اسی لئے وہ لوگوں کو دھوکا میں رکھنے کی بجائے خود ہی کہہ دیتا ہے کہ میری بات پر مکمل اعتماد مت کرنا کیونکہ مجھے خود بھی اس پر مکمل یقین نہیں ہے۔ اور یہ اس شخص کے مخلص ہونے کی نشانی ہے۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس شخص نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے لہٰذا اس کو غلطی پر بھی ایک اجر مل جائے گا۔
یہی اس قول کا معنی معلوم ہوتا، بعض اوقات سیدھی باتوں کا مطلب واقعی میں وہی ہوتا جو ان میں کہا گیا ہے، ان کو موڑنے سے بات مزید بعید ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم
امام خطیب روایت کرتے ہیں: "أخبرنا ابن الفضل، قال: أخبرنا ابن درستويه، قال: حدثنا يعقوب، قال: حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثنا أبو مسهر، وقرأت على الحسن بن أبي بكر، عن أحمد بن كامل القاضي، قال: حدثنا الحسن بن علي قراءة عليه، أن دحيما، حدثهم قال: حدثنا أبو مسهر، عن مزاحم بن زفر، قال: قلت لأبي حنيفة: يا أبا حنيفة، هذا الذي تفتي، والذي وضعت في كتبك، هو الحق الذي لا شك فيه؟ قال: فقال والله ما أدري لعله الباطل الذي لا شك فيه." مزاحم بن زفر کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ آپ نے جو فتوی اور جو آپ کی کتب میں موجود ہے کیا وہ بالکل حق بات ہے جس پر کوئی شک نہیں؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا، ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا باطل کلام ہو جس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ (تاریخ بغداد: 15:544)
اس قول سے درج ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:
1- امام ابو حنیفہ نے اپنے نزدیک اصح ترین رائے کو اپنی کتب میں درج کر دیا اور اس پر فتوی دے دیا اور اس کے خطاء وصواب ہونے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، ہو سکتا ہے ان کی رائے صحیح ہو اور ہو سکتا ہے کہ غلط ہو۔
2- امام ابو حنیفہ اپنے فتوے اور رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کے علاوہ سب باطل ہے۔
3- یہ معاملہ صرف رائے کا ہے حدیث کا ذکر اس قول میں نہیں ہے۔ یعنی جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو ابو حنیفہ نے اپنے اجتہاد کی مطابق فیصلہ کر لیا اور اس کو وہ پتھر کی لکیر نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی مخلص کاوش کے تحت اس پر عمل کرتے ہیں۔
چونکہ وہ اپنی رائے کو حتمی فیصلہ نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کا لکھے جانا بھی وہ پسند نہیں کرتے، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرنا علي بن القاسم بن الحسن البصري، قال: حدثنا علي بن إسحاق المادرائي، قال: سمعت العباس بن محمد، يقول: سمعت أبا نعيم، يقول: سمعت زفر، يقول: كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن، فكنا نكتب عنه، قال زفر، فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف: ويحك يا يعقوب، لا تكتب كل ما تسمع مني، فإني قد أرى الرأي اليوم فأتركه غدا، وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے ایک دن کہا: افسوس ہے تم پر اے یعقوب، میری ہر چیز جو تم سنتے ہو اسے لکھی مت جاؤ کیونکہ میں آج ایک رائے رکھتا ہوں تو اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں، اور اگلے دن ایک رائے رکھتا ہوں تو اس سے اگلے دن اسے ترک کر دیتا ہوں (ایضا)َ۔
یعنی امام ابو حنیفہ کو اپنے آراء پر مکمل اعتماد نہیں تھا اسی لئے بار بار ان میں ترامیم کیا کرتے تھے۔
اور یہی خیال ان کا اپنی حدیث کے متعلق بھی تھا، یعنی انہیں اپنی روایات پر مکمل طور پر یقین نہیں تھا کہ یہ صحیح ہیں یا غلط۔ گویا انہیں بھی اپنے ضبط پر شک تھا۔ اسی لئے وہ کہہ دیتے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ روایت صحیح ہے یا غلط، چنانچہ خطیب روایت کرتے ہیں:
أخبرني الخلال، قال: حدثنا محمد بن بكران، قال: حدثنا محمد بن مخلد، قال: حدثنا حماد بن أبي عمر، قال: حدثنا أبو نعيم، قال: سمعت أبا حنيفة، يقول لأبي يوسف لا ترو عني شيئا، فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب. ابو حنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: مجھ سے کچھ بھی روایت مت کرو کیونکہ اللہ کی قسم مجھے نہیں پتہ کہ میں خطاء پر ہوں یا صحیح (ایضا)۔
اس روایت میں امام ابو حنیفہ کے خلوص کی طرف اشارہ ہے۔
اسی لئے انہوں نے کہا: "عامة ما أحدثكم به خطأ."۔
امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں: "أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني كتب إليّ عن أبي عبد الرحمن المقريء قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذي سمعتم كله ريح وباطل." المقری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ہمیں حدیث سناتے اور جب اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: یہ جو تم سب نے سنا ہے یہ سب ریح وباطل ہے (الجرح والتعدیل)۔
گویا جس طرح امام ابو حنیفہ کو اپنی رائے کے صحیح وضعیف ہونے پر مکمل اعتماد نہ تھا اسی طرح انہیں اپنی روایت حدیث کے بارے میں بھی مکمل اعتماد نہیں تھا کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف۔ بندے کو اپنے ضبط کا خود اندازہ ہوتا ہے اور اسی لئے وہ لوگوں کو دھوکا میں رکھنے کی بجائے خود ہی کہہ دیتا ہے کہ میری بات پر مکمل اعتماد مت کرنا کیونکہ مجھے خود بھی اس پر مکمل یقین نہیں ہے۔ اور یہ اس شخص کے مخلص ہونے کی نشانی ہے۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس شخص نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے لہٰذا اس کو غلطی پر بھی ایک اجر مل جائے گا۔
یہی اس قول کا معنی معلوم ہوتا، بعض اوقات سیدھی باتوں کا مطلب واقعی میں وہی ہوتا جو ان میں کہا گیا ہے، ان کو موڑنے سے بات مزید بعید ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم