ترجمہ: "میرے والد نے فرمایا: میں یحیی بن سعید سے اسماعیل بن ابی خالد عن عامر عن شریح وغیرہ کی احادیث کے بارے میں پوچھتا تھا۔ میری کتاب میں یہ تھا: اسماعیل نے کہا: ہمیں عامر نے بیان کیا شریح سے اور عامر نے بیان کیا شریح سے۔ تو یحیی کہتے: اسماعیل عن عامر۔ میں نے کہا: میری کتاب میں تو حدثنا عامر ہے۔ یحیی نے مجھے کہا: یہ صحیح ہیں۔ جب کوئی چیز ہوگی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ ان کی مراد وہ روایات تھیں جو اسماعیل نے عامر سے نہیں سنیں۔"
اسماعیل بن ابی خالد ثقہ راوی ہیں۔ امام احمدؒ نے یہ بات بتاتے ہوئے اسماعیل اور اپنے درمیان کے راوی کا نہ ذکر کیا اور نہ اس پر اعتراض کیا۔ یعنی ان کی سند اسماعیل تک صحیح تھی جس پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے آگے کی بات کی ہے (امام احمدؒ كا مذهب ثقات سے مراسیل اور کسی حد تک منقطعات كے قبول كا ہے جیسا کہ "العدۃ" میں ہے)۔ اسماعیل سے ان کی روایت یہ تھی: حدثنا عامر۔ یہ تحدیث کی تصریح ہے اور امام احمد اسے اپنی کتاب سے روایت کرتے تھے یعنی بھول چوک بھی نہیں تھی۔ لیکن یحیی القطان نے فرمایا کہ یہ "عن عامر" ہے یعنی اسماعیل کی تحدیث کی صراحت کے باوجود بیچ میں واسطہ ہے۔
اس قول کو آپ نے غلط سمجھا ہے۔
امام احمد نے اسماعیل حدثنا عامر یعنی صیغہ سماع سے روایت نقل کی، تو امام قطان نے فرمایا کہ روایت دراصل صیغہ عن سے مروی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ عن سے مروی ہے لیکن یہ صحیح ہیں، اور اگر کوئی انقطاع والی بات ہو گی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔
جبکہ آپ نے محض عن کی موجودگی سے یہ سمجھ لیا کہ امام قطان کے نزدیک درمیان میں واسطہ ہے۔
آپ نے کہا کہ امام احمد نے اپنے اور اسماعیل کے درمیان کے راوی کا ذکر نہیں کیا تو عرض ہے کہ یہ روایات ظاہرا انہوں نے یحیی القطان سے ہی لی ہیں اور اسی لئے انہوں نے پوچھا کہ یہ حدثنا ہے؟ تو امام قطان نے تصحیح کرتے ہوئے کہا نہیں یہ عن سے مروی ہے لیکن پھر بھی صحیح ہے اور اگر کوئی انقطاع ہوگا تو میں خبردار کر دوں گا۔ امام قطان کا خبردار کرنے کا کیا مطلب بنتا ہے جب وہ روایات ان کی ہیں ہی نہیں؟
دوسری بات یہ کہ اگر پیچ میں کوئی اور راوی بھی ہوتا تو امام قطان نے اس راوی کی روایت کو اپنے تتبع کی بنیاد پر غلط کہا ہے کیونکہ وہ اسماعیل کی روایات کے سب سے بڑے عالم تھے۔ لہٰذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ سماع کی تصریح کے باوجود کوئی شخص تدلیس کرے اور وہ صدوق بھی رہے۔ اگر غلطی سے تحدیث کی ہے تو بھی کوئی شخص اس کو روایت کرنے والے کو خطاء کار کہے گا کیونکہ اسماعیل نے پہلے سے ہی قطان کو وہ روایت عن سے بیان کی ہوئی ہے، گویا وہ اپنے ضبط کی بنیاد پر دوسرے راوی کی روایت کو غلط کہیں گے۔ ورنہ یہ کہنا کہ اسماعیل نے غلطی سے تحدیث کی ہے اس کی کوئی دلیل نہیں بنتی۔ بہرحال صحیح یہی ہے کہ امام قطان اپنی ہی روایت کردہ احادیث کی تصحیح کر رہے ہیں۔
آپ خود بھی اگر اس قول پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس روایت میں کوئی انقطاع نہیں ہے۔ امام قطان خود فرما رہے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور اگر انقطاع ہوگا تو میں تمہیں بتا دوں گا، گویا یہاں انقطاع نہیں ہے اسی لئے تو انہوں نے ایسا کہا۔
لہٰذا محض ایک تصحیح کی بنیاد پر یہ کہنا کہ یہاں کوئی واسطہ چھوٹ گیا ہے یہ غلط ہے۔
اس بات کی وضاحت امام احمد کے دوسرے قول سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ ان کے بیٹے عبد اللہ کہتے ہیں:
حدثي أبي. قال: سألت يحيى بن سعيد. قلت: هذه الأحاديث كلها صحاح، يعني أحاديث ابن أبي خالد، عن عامر، ما لم يقل فيها حدثنا عامر، فكأنه قال: نعم. وقال يحيى: إذا كان يريد أنه لم يسمع أخبرتك. «العلل» (4320) . میں نے یحیی بن سعید سے پوچھا: کیا یہ ساری احادیث - یعنی ابن ابی خالد کی عامر سے وہ ساری روایات جن میں انہوں نے حدثنا نہیں کہا - صحیح ہیں تو انہوں نے کہا: ہاں، اور کہا: جب ان کی مراد یہ ہو کہ انہوں نے کوئی حدیث نہیں سنی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔
گویا امام احمد نے ان سے اس بات کی تصدیق کی کہ اسماعیل نے جن روایات میں شریح سے حدثنا نہیں کہا وہ صحیح ہیں۔ اس بات سے ان کی پچھلی بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ امام احمد نے غلطی سے اپنی روایت میں تحدیث بیان کر دی تو یحیی القطان نے کہا نہیں یہ عن سے مروی ہے لیکن پھر بھی صحیح ہے۔ پھر امام احمد نے تصحیح کرتے ہوئے پوچھا: کیا ان کی وہ ساری احادیث جن میں انہوں نے تحدیث نہیں کی ہے وہ صحیح ہیں، تو قطان نے کہا ہاں۔ یعنی انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسماعیل نے روایت میں تحدیث کی ہی نہیں تھی۔ اور پھر امام قطان کا کہنا کہ اگر انقطاع ہوا تو وہ خبردار کردیں گے اس بات پر کوئی اشکال کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
اور پھر اگر آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی زکریا اور اسماعیل وغیرہ جیسے راوی غلطی سے بھی تحدیث کر سکتے ہیں تو پھر ابن فضیل کی روایت میں کیوں آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں، جبکہ تمام قرائن بھی اس کے خلاف ہیں؟
امام احمدؒ كا مذهب ثقات سے مراسیل اور کسی حد تک منقطعات كے قبول كا ہے جیسا کہ "العدۃ" میں ہے
حالانکہ یہ بات غلط ہے لیکن اس کا یہاں اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ ان کی عدالت پر جرح ہونی چاہیے لیکن نہیں ہے۔ یہاں اسی طرح یہاں پر بھی زکریا بن ابی زائدہ کی صرف شعبی سے روایت میں یہ مسئلہ ہے کہ "سمعت" کی صراحت کے باوجود محدثین اسے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی اور سے لی گئی حدیث ہے اور یہ ان کی عدالت پر جرح نہیں ہے۔
جب انہوں نے اصلا تحدیث کی ہی نہیں تو یہ ان کی عدالت پر جرح بھی نہیں ہے۔
اصل میں بسا اوقات ایک محدث اپنی کتاب لکھتا ہے لیکن استاد کے سامنے نہیں بلکہ حافظے کی بنیاد پر۔ اور اس میں اس سے غلطی ہو جاتی ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ شعبیؒ کے ڈائریکٹ شاگرد ہیں۔ آپ نے روایات شعبی سے بھی سنیں اور جابر، ابان وغیرہ کے واسطے سے بھی۔ کتاب غالباً آپ نے بعد میں لکھی ہوگی اس لیے اس میں یہ روایات سند کے لحاظ سے گڈمڈ ہو گئیں کہ کون سی واسطے سے تھی اور کون سی بلا واسطہ۔
زکریا شعبی کے شاگرد تھے جیسا کہ آپ نے کہا، تو اگر وہ کہیں کہ فلاں حدیث میں نے شعبی سے سنی ہے جبکہ انہوں نے نہیں سنی تو اس بات کا کیسے پتہ چلے گا کہ اس میں انہوں نے غلطی کی ہے؟ ظاہرا تو یہ ایک جھوٹ ہے جو انہوں نے کہا ہے، اب اس جھوٹ کو غلطی کہنے کے لئے دلائل وقرائن کی ضرورت ہے۔ لہٰذا یا تو زکریا سے ان کے بعض تلامذہ نے اس حدیث کو واسطے سے ذکر کیا اور بعض نے بنا واسطے کے تو ہم راجح روایت کے پیش نظر شاید یہ کہہ سکتے ہیں کہ زکریا نے غلطی کی ہے، لیکن تب بھی یہ کوئی خاص دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے زکریا نے اسے بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سنا ہو۔ اس کو ان کی غلطی کہنا پھر بھی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا کسی کی اپنے شیخ سے تصریح سماع کو بنا دلیل غلطی کہنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی سماع کی تصریح کرے اور پھر بھی کہا جائے کہ اس نے یہ روایت اپنے شیخ سے نہیں سنی، تو یہ جھوٹ کا الزام ہے جو لگایا گیا ہے، ورنہ اس کو غلطی کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
فرض کریں کہ غلطی ہو بھی، تو ایک روایت میں ہو گی، دو میں ہوگی یا تین میں ہوگی وغیرہ، لیکن آپ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ زکریا کی شعبی سے اکثر روایات میں غلطی ہے جن میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے اور ہر روایت میں ایک ہی طرح کی غلطی ہے یعنی سماع کی تصریح کی۔ گویا جب بھی وہ شعبی کی روایت لکھنے بیٹھتے تو ہر بار ایک ہی قسم کی غلطی کرتے اور اس غلطی کو بار بار دہراتے، یہ تو عقلا بھی محال معلوم ہوتا ہے۔ یہ الٹا ان کے کذاب ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کوئی شخص بار بار ایک بات بیان کرے حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔
آپ نے دراصل ایک قول پڑھا اور اپنی باقی ساری بحث کو اسی کے گرد اس سے اپنی سمجھ کو صحیح ثابت کرنے میں لگا دی۔ جبکہ محدثین میں سے کسی نے بھی زکریا کی روایات میں یہ اعتراض نہیں کیا ہے۔
حالانکہ اگر امام احمد کے قول میں واقعی "سمعت" کا لفظ موجود بھی ہے تو اس کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ زکریا کے پاس جو شعبی کی روایات کا صحیفہ تھا اس میں سمعت الشعبی کے الفاظ تھے، اور وہ صحیفہ خود کسی اور کا تھا۔ یعنی مثال کے طور پر زکریا نے بیان بن بشر کا صحیفہ لیا یا ان سے ان کا صحیفہ خود لکھا، اور انہوں نے - یعنی بیان بن بشر نے - پھر اس صحیفہ میں کہا سمعت الشعبی۔۔۔ گویا صحیفہ تو شعبی کی روایات کا ہے لیکن اس کو بیان بن بشر نے لکھا ہے یا انہوں نے لکھوایا ہے اور اسی لئے صحیفہ میں سمعت الشعبی بیان کی طرف منسوب ہے نہ کہ زکریا کی طرف۔ اور چونکہ صحیفہ اس خاص شیخ کا تھا اس لئے ہر حدیث میں اس کا نام ذکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
اور اس بات کی مزید تائید یحیی القطان کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں جابر الجعفی اور شعبی کے صحیفوں کو الگ الگ بتایا گیا ہے گویا زکریا کے پاس اپنے ہر شیخ کے صحیفے الگ الگ موجود تھے، چنانچہ شعبی کے صحیفے میں ان کی شعبی سے روایات ہوں گی، اور جابر کے صحیفے میں ان کی شعبی ودیگر شیوخ سے روایات ہوں گی۔ اور ہر شیخ نے اپنے صحیفے میں سمعت الشعبی کہا جو ان کی طرف منسوب ہے۔ اور اسی لئے امام قطان نے ان صحیفوں کو لوٹاتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ صرف وہ روایات بیان کریں جو آپ نے خود محفوظ کی ہیں یعنی آپ نے خود سنی ہیں۔
یا امام احمد کے قول کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صحیفہ میں زکریا نے سمعت الشعبی کہا ہے اس لئے وہ صحیح ہے جبکہ انہوں نے جابر وبیان کے زریعے بھی شعبی کی روایات لی ہیں۔ اور امام ابو داود کی وضاحت اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
وقال أبو داود: قلت لأحمد: زكريا بن أبي زائدة؟ قال: ثقة، لا بأس به. قلت هو مثل مطرف، قال: لا، ثم قال لي أحمد: كلهم ثقات، كان عند زكريا كتاب، فكان يقول فيه: سمعت الشعبي، ولكن زعموا كان يأخذ عن جابر، وبيان، ولا يسمى، يعني ما يروي من غير ذاك الكتاب، يرسلها عن الشعبي. (سؤالاته: ٣٥٩) یعنی جو روایات انہوں نے اس کتاب کے علاوہ بیان کی ہیں وہ انہوں نے شعبی سے مرسلا یعنی ان لوگوں سے تدلیس کے زریعے بیان کی ہیں۔
اس قول سے ظاہر ہے کہ امام احمد کا مطلب یہ ہے کہ زکریا کا صحیفہ جس میں انہوں نے سمعت الشعبی کہا ہے وہی صحیح ہے حالانکہ وہ بیان وجابر جیسے لوگوں سے بھی روایت کرتے تھے اور ان کا نام ذکر نہیں کرتے تھے، یعنی ان سے تدلیس کیا کرتے تھے۔
بہرحال دونوں میں سے کوئی بھی مطلب ہو، اس روایت کی صحت یا زکریا کے سماع کی تصریح پر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس قول کے مطابق زکریا کے سماع کی تصریح معتبر ہے اور اس قول میں ایسا کچھ بھی نہیں جو ان کے سماع کی تصریح کو رد کرے۔ کیونکہ سماع کی تصریح کے باوجود تدلیس ثابت ہونا جھوٹا ہونے کی نشانی ہے اور اسی بنیاد پر محدثین نے کئی راویوں کو کذاب کہا ہے۔
جبکہ محدثین میں سے کوئی نہیں ہے جو آپ کی اس بات میں آپ کی تائید کرتا ہو، اگر کوئی ہے تو ضرور پیش کریں، ان شاء اللہ۔
ویسے زکریا کے شعبی سے سماع کے بارے میں بھی ابو زرعہ رازی نقل کرتے ہیں کہ وہ اختلاط کے بعد ہے۔
وسمعت أبا زرعة يحكي، عن ابن نمير، عن أبي النضر هاشم بن القاسم ، قال: حديث زكرياء، عن الشعبي ، إنما هو بعد الاختلاط . (الضعفاء لابی زرعہ)
اولا: شعبی کے اختلاط کا زکریا کا ان سے تصریح سماع ذکر کرنے کا کیا تعلق ہے؟ زکریا نے اگر شعبی سے حدیث سنی ہے تو یہ ان کا اپنا عمل ہے اس میں شعبی کے مختلط ہونے نہ ہونے کا کوئی واسطہ ہی نہیں۔
ثانیا: اس قول میں اختلاط کا ذکر سراسر غلط ہے کیونکہ زکریا اور شعبی دونوں کو ہی کسی نے مختلط نہیں کہا ہے۔ آپ کتب رجال کا پورا ذخیرہ پھول کر دیکھ لیں اگر کسی ایک نے بھی ان کو مختلط کہا تو ذکر کریں۔ اگر یہ مختلط نہیں ہیں تو اس قول کا کیا مطلب؟
ثالثا: اس قول میں دراصل غلطی ہے، السبیعی کی جگہ الشعبی لکھا گیا ہے۔ اور یہ غالبا ناسخ کی غلطی ہے۔ کیونکہ اسی قول کو الضعفاء کے مصنف البرذعی سے حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اس طرح نقل کیا ہے:
"
وقال أبو عثمان البرذعي: سمعت أبا زرعة، يقول: سمعت ابن نمير، يقول: سماع يونس وزكريا وزهير من أبي إسحاق بعد الاختلاط." (شرح علل الترمذی: ج 2 ص 710)
زکریا یا شعبی دونوں کے حالات میں اختلاط نہیں ملتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ درمیان کا کچھ عرصہ ہو جس میں کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے زکریا اختلاط کا شکار ہوئے ہوں۔ الفاظ ایسے ہیں گویا کہ یہ اختلاط معروف ہو اس زمانے میں۔
آپ نے خود میری بات کی تصدیق کردی، جزاک اللہ خیرا۔
اگر اختلاط سرے سے ملتا ہی نہیں حتی کہ ابو زرعہ سے خود بھی اس کے علاوہ کسی روایت میں ذکر نہیں ہے تو قوی احتمال ہے کہ یہ ناسخ کی غلطی ہے تو پھر ممکنات کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس طرح تو ہم ہر غلطی کو ایک امکان کہہ کر اس کو بھی جگہ دے سکتے ہیں۔
امکانات کی بنیاد پر کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ اس بیماری کا ثبوت کہیں کوئی نہیں ہے الٹا محدثین نے زکریا کو ثقہ حفاظ میں شمار کیا ہے۔ اس کے برعکس یہ مشہور ہے کہ محدثین نے زکریا کی السبیعی سے روایات پر اسی طرح کا کلام کیا ہے تو یہ کیوں ممکن نہیں ہے کہ اس روایت میں ابو زرعہ کی مراد السبیعی ہیں نہ کہ الشعبی۔
جہاں تک الفاظ کی بات ہے تو آپ نے خود فرما دیا ہے کہ الفاظ ایسے ہیں گویا کہ یہ اختلاط معروف ہے، یعنی اختلاط اتنا مشہور ہے کہ اختلاط ہونے کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی بلکہ صرف یہ کہہ دیا کہ زکریا کی ان سے روایت اختلاط کے بعد کی ہے۔ تو اگر یہ اختلاط اتنا مشہور تھا تو اس کا ذکر کہیں نہ کہیں تو ضرور ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے، جبکہ ابو اسحاق السبیعی کا اختلاط ہی اس قسم کا ہے جس پر ابو زرعہ کے الفاظ کہے جا سکتے ہیں۔
یہاں ذرا موہوم سا شبہ یہ بھی ہے کہ حقیقت میں الشعبی نہیں السبیعی ہو۔ اور ناسخین سے اس میں تبدیلی ہو گئی ہو۔ لیکن یہ شبہ موہوم اس لیے ہے کہ ابو اسحاق السبیعی "ابو اسحاق" کے نام سے مشہور ہیں اور اسی سے ذکر کیے جاتے ہیں بنسبت "السبیعی" کے۔ اسی لیے محققین نے بھی اسے "الشعبی" ہی برقرار رکھا ہے۔
اس پر میں آپ ہی کے الفاظ دہرانے کی جسارت کروں گا، "
اگر یہ بات کوئی علم حدیث اور محدثین کے منہج سے ناواقف شخص کہتا تو مجھے حیرت نہ ہوتی۔" ابتسامہ
اب اگر آپ کو وہ مثالیں دکھانی پڑیں جن میں محدثین نے عن السبیعی کہہ کر احادیث نقل کی ہیں یا انہیں صرف السبیعی کہہ کر ذکر کیا ہے تو یہ اس بحث کے رتبے کے لائق نہیں ہو گا۔
بہرحال محدثین تو مختلف ناموں سے احادیث نقل کرتے رہتے ہیں کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ اس نام سے مشہور نہیں اس لئے جس بات کی طرف تحقیق اشارہ کرتی ہے اس کو ماننے سے انکار کر دیا جائے؟ ویسے تو امام شعبی بھی عامر نام کی بجائے شعبی سے زیادہ مشہور ہیں پھر بھی کئی لوگوں نے اس حدیث کو عن عامر کہہ کر روایت کیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ ہو سکتا ہے یہاں عامر سے مراد کوئی دوسرا عامر ہو تو کیا کہیں گے؟
اس کے برعکس آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ امام سبیعی جتنا اپنی کنیت سے مشہور ہیں شاید اس سے زیادہ ہی السبیعی کی نسبت سے مشہور ہیں۔ آپ علم حدیث کے ادنی سے ادنی طالب علم کو بھی پوچھیں کہ السبیعی سے کون مراد ہے تو وہ آپ کو عمرو بن عبد اللہ السبیعی کا نام ہی بتائے گا۔ بلکہ السبیعی کی نسبت شروع ہی ان سے ہوئی ہے۔ آپ کو کوئی دوسرا راوی اس نسبت سے نہیں ملے گا ان سے پہلے۔
بلکہ اگر قرائن اشارہ کرتے ہوں تو راوی کو اس کے غریب سے غریب تر نام سے ملا کر بھی بات ثابت کی جا سکتی ہے، بلکہ کی گئی ہے۔ اور السبیعی پر ایسا کہنا تو بہت ہی حیران کن بات ہے۔
بلکہ سبیعی کا شعبی سے تصحیف ہو جانا تو کوئی نادر بات بھی نہیں ہے بلکہ اس تصحیف کی کئی مثالیں کتب رجال میں ملتی ہیں، مثلا:
تاریخ دمشق میں ہے:
وأما كميل بالميم فهو كميل بن زياد يروي عن علي بن أبي طالب وابن مسعود وأبي هريرة حديثه مشهور روى عنه عبد الرحمن بن جندب (وأبو إسحاق السبيعي) (1)
اور اس کے تحت نسخوں کا اختلاف بتاتے ہوئے محقق کہتے ہیں:
"ما بين معكوفتين سقط من الأصل ومكانه فيه: والشعبي" (50:250)
بہرحال اگر ہم اس قول کو صحیح تسلیم کر بھی لیں تو آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس قول کے مطابق زکریا اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، حالانکہ اس قول میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں اختلاط کا الزام امام شعبی پر لگایا گیا ہے نہ کہ زکریا پر۔
آپ کو خود اس بات پر شک ہو رہا ہے کہ شاید یہاں شعبی کی بجائے السبیعی ہیں، تو اگر یہاں پر السبیعی ہوتے تو کیا تب بھی آپ یہی کہتے کہ اختلاط السبیعی کو نہیں زکریا کو ہوا ہے؟ حالانکہ مختلط شخص کی روایت کی صحت کا علم اس بات سے ہوتا ہے کہ کس نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا اور کس نے بعد میں۔ اور اسی لئے ابو زرعہ نے کہا ہے کہ زکریا نے السبیعی سے اختلاط کے بعد سنا ہے، یعنی السبیعی کے اختلاط کے بعد۔ مختلط راوی کی صحت معلوم کرنے کے لئے کیا کسی نے یہ قاعدہ بھی کبھی بیان کیا ہے کہ اس کے تلامذہ کی بجائے اس کے شیوخ کو دیکھا جائے کہ اس نے کس شیخ سے اختلاط سے پہلے سنا ہے؟
اختلاط میں اعتبار تلامذہ کا ہوتا ہے نہ کہ شیوخ کا۔ اور اسی لئے یہاں اختلاط کی نسبت شعبی کی طرف کی جا رہی ہے نہ کہ زکریا کی طرف، جو کہ غلط ہے کیونکہ یہاں السبیعی ہونا چاہیے۔
اور اگر ہم مان بھی لیں کہ زکریا آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے، تو عرض ہے کہ شعبی 100 ھ میں فوت ہوئے جبکہ زکریا 147 یا 148 یا 149 میں فوت ہوئے تو اگر انہیں اختلاط ہوا بھی تھا تو یہ کیسا اختلاط ہے جو ان کی بھری جوانی میں ہوا جب انہوں نے شعبی سے روایت کی؟
غالبا اسی لیے ابو زرعہ نے انہیں ثقہ کے بجائے صویلح ذکر کیا جو کہ کم مرتبہ ہے۔ اور ابو حاتمؒ نے انہیں لین الحدیث قرار دیا ہے۔ وجہ دونوں کے ہاں ان کی شعبی سے تدلیس ہے حالانکہ تدلیس کی وجہ سے بہت کم رواۃ مجروح ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تدلیس بہت شدت کی تھی اور یہ واقعی سماع کے الفاط میں بھی غلطی کر جاتے تھے۔
غالبا، ممکن ہے، اور شاید وغیرہ سے ثابت اور مسلم باتیں رد نہیں کی جاتیں۔ آپ ایک فرضی سمجھ پر ہر چیز قیاس کرتے ہوئے اتنے سارے مسئلے نہیں نکال سکتے۔ اگر ان کی تدلیس بہت شدت والی بھی تسلیم کی جائے تو اس کا زیاد سے زیادہ یہی مطلب ہو گا کہ ان کی معنعن روایات شعبی سے قبول نہ کی جائیں، لیکن ان کی مصرح بالسماع روایات بھی رد کرنا ان پر جھوٹ کی تہمت لگانے کے مترادف ہے، جس کی حقیقت اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ کیا محدثین میں سے کسی نے بھی ان کی مصرح بالسماع روایت پر یہ الزام لگایا ہے جو آپ نے ایک قول سے سمجھا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یقینا آپ کی سمجھ غلط ہے محدثین کرام نے اجماعی طور پر ان کی مصرح بالسماع روایات کو قبول کیا ہے اور ان کی تصحیح کی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔