اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
روایت ابو حنیفہ 2۔ تبصرہ
@رضا میاں بھائی! اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی علل احادیث ابی حنیفہ میں نئی پوسٹ دیکھی۔ آپ ما شاء اللہ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں۔ کافی عرصے سے اس کام کا خیال دل میں آتا تھا لیکن وقت کبھی نہیں مل سکا۔
اس پوسٹ میں جو آپ نے روایت نمبر 2 پیش فرمائی ہے اور اس کے مخالفات و متتابعات پیش کیے ہیں ان پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن اس سے پہلے عرض ہے کہ تین کاموں کا خیال رکھیے تاکہ اشتباہ کم سے کم ہو۔
اول: روایت مکمل تحریر کیا کیجیے۔
ثانی: تفصیلات کا کم از کم کتاب کے نام کی حد تک حوالہ ضرور دیا کیجیے۔
ثالث: اپنے الفاظ کو عربی میں شامل نہیں کیا کیجیے۔
معدلین:
قال عبد الرحمن بن مهدى : يونس بن أبى إسحاق لم يكن به بأس
و قال إسحاق بن منصور و أحمد بن سعد بن أبى مريم و عثمان بن سعيد الدارمى ، عن يحيى بن معين : يونس بن أبى إسحاق ثقة . قال عثمان : قلت : فيونس أحب إليك أو إسرائيل ؟ قال : كل ثقة .
و قال النسائى : ليس به بأس .
و قال أبو أحمد بن عدى : له أحاديث حسان ، و روى عنه الناس و إسرائيل بن يونس ابنه ، و عيسى بن يونس ابنه و هما أخوان ، و هم أهل بيت العلم ، و حديث الكوفة عامته يدور عليهم .
جارحین:
و قال صالح بن أحمد بن حنبل ، عن على ابن المدينى : سمعت يحيى ، و ذكر يونس بن أبى إسحاق ، فقال : كانت فيه غفلة و كانت فيه سجية ، كان يقول : حدثنى أبى ، قال : سمعت عدى بن حاتم :
" اتقوا النار و لو بشق تمرة " .
قال يحيى : و هذا حدثنا سفيان و شعبة عن أبى إسحاق ، عن ابن معقل ، عن عدى بن حاتم . قال يحيى : و كانت فيه غفلة .
و قال بندار ، عن سلم بن قتيبة : قدمت من الكوفة فقال لى شعبة : من لقيت ؟
قال : لقيت فلان و فلان و لقيت يونس بن أبى إسحاق . قال : ما حدثك ؟ فأخبرته ، فسكت ساعة ، و قلت له : قال : حدثنا بكر بن ماعز . قال : فلم يقل لك : حدثنا عبد الله بن مسعود ! ؟
و قال أبو بكر الأثرم : سمعت أبا عبد الله ، و ذكر يونس بن أبى إسحاق فضعف حديثه عن أبيه . و قال : حديث إسرائيل أحب إلى منه .
و قال أبو طالب : قال أحمد بن حنبل : يونس بن أبى إسحاق حديثه فيه زيادة على حديث الناس . قلت : يقولون إنه سمع فى الكتب فهى أتم . قال : إسرائيل ابنه قد سمع من أبى إسحاق و كتب فلم يكن فيه زيادة مثل ما يزيد يونس .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سألت أبى عن يونس بن أبى إسحاق ، فقال : حديثه مضطرب .
و قال أبو حاتم : كان صدوقا إلا أنه لا يحتج بحديثه .
(تہذیب الکمال)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس کی تعدیل غیر مفسر جبکہ جرح مفسر ہے۔ یونس میں غفلت تھی جس کی وجہ سے وہ تحدیث بھی کہیں سے کہیں کر ڈالتے تھے جیسا کہ شعبہ نے اپنی جرح میں اشارہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ احادیث میں زیادتی بھی کر دیتے تھے۔ اس لیے ان کی روایات زیادہ سے زیادہ حسن کی حد تک پہنچتی ہیں جیسا کہ ذہبی اور ابن عدی نے کہا ہے۔
قُلْتُ: ابْنَاهُ أَتْقَنُ مِنْهُ، وَهُوَ حَسَنُ الحَدِيْثِ.
(سیر الاعلام)
مزید یہ کہ یہ طبقہ ثانیہ کے مدلس تھے۔ لیکن انہیں طبقہ ثانیہ میں قلت تدلیس کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے ورنہ یہ ضعفاء سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ حضرت علی رض سے ایک حدیث میں انہوں نے حارث الاعور کو ساقط کیا ہے (طبقات المدلسین لابن حجر)۔
لہذا ان کی روایت مطلقاً بغیر جرح و تعدیل کے لکھنا مناسب نہیں ہے۔
زكريا بن أبي زائدة قال أبو حاتم الرازي يدلس عن الشعبي وعن ابن جريج.
(المدلسین لابن العراقی)
و قال أبو زرعة : صويلح يدلس كثيرا عن الشعبى .
و قال أبو حاتم : لين الحديث ، كان يدلس ، و إسرائيل أحب إلى منه
قال يحيى بن زكريا : لو شئت لسميت لك من بين أبى و بين الشعبى .
(تہذیب الکمال)
عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ رَجُلٍ حَتَّى رَدَّهُ إِلَى الْمُغِيرَةِ
اس کے بعد فرماتے تھے: وَلَا أَحْفَظُ حَدِيثَ ذَا مِنْ حَدِيثِ ذَا (مجھے ان کی حدیث دوسرے کی حدیث سے الگ یاد نہیں ہے۔)
اس روايت ميں مذکور ہے:
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقرع ظهري بعصا كانت معه، فعدل وعدلت معه
یہ الفاظ عروۃ بن المغیرۃ کے نہیں ہیں۔ انہوں نے (میری تحقیق کے مطابق) عصا سے کمر کو یا اونٹنی کی گردن کو تھپتھپانے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ یہ الفاظ عمرو بن وہب الثقفی کے ہیں جن سے محمد بن سیرینؒ نے روایت کی ہے (اور بعض روایات میں عن رجل عن عمرو ہے)۔ چنانچہ مسند احمد میں ابن سیرین کی سند سے ہی مروی ہے:
حدثنا يزيد، أخبرنا هشام، عن محمد، قال: دخلت مسجد الجامع، فإذا عمرو بن وهب الثقفي قد دخل من الناحية الأخرى، فالتقينا قريبا من وسط المسجد، فابتدأني بالحديث، وكان يحب ما ساق إلي من خير، فابتدأني بالحديث، فقال: كنا عند المغيرة بن شعبة، فزاده في نفسي تصديقا الذي قرب به الحديث، قال: قلنا: هل أم النبي صلى الله عليه وسلم رجل من هذه الأمة غير أبي بكر الصديق؟ قال: نعم، كنا في سفر كذا وكذا، فلما كان في السحر، ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم عنق راحلته، وانطلق فتبعته، فتغيب عني ساعة، ثم جاء، فقال: «حاجتك؟» فقلت: ليست لي حاجة يا رسول الله، قال: «هل من ماء؟» قلت: نعم، فصببت عليه، فغسل يديه، ثم غسل وجهه، ثم ذهب يحسر عن ذراعيه، وكانت عليه جبة له شامية فضاقت، فأدخل يديه، فأخرجهما من تحت الجبة، فغسل وجهه، وغسل ذراعيه، ومسح بناصيته، ومسح على العمامة، وعلى الخفين، ثم لحقنا الناس، وقد أقيمت الصلاة وعبد الرحمن بن عوف يؤمهم، وقد صلى ركعة، فذهبت لأوذنه، فنهاني، فصلينا التي أدركنا، وقضينا التي سبقنا بها.
حدثنا أسود بن عامر، حدثنا جرير بن حازم، عن محمد بن سيرين، قال: حدثني رجل، عن عمرو بن وهب يعني فذكر نحوه
جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہ روایت محمد بن سیرینؒ کی ہے اور یہاں صرف تحویل بھی نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ راوی نے ایک کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور دوسرے کا مضمون بھی وہی ہے بلکہ ابن عونؒ نے وضاحت کی ہے مجھے الگ حدیث یاد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ابن عونؒ نے عروۃ بن المغیرہ کی روایت بیان ہی نہیں کی۔ انہیں اشتباہ ہوا تھا کہ یہ روایت کس سند سے ہے تو انہوں نے دونوں اسناد بیان کر دیں اور ہم نے معلوم کرلیا کہ صحیح کون سی سند ہے۔ اس لیے یہ عامر عن عروہ کی روایت نہیں ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
@رضا میاں بھائی! اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی علل احادیث ابی حنیفہ میں نئی پوسٹ دیکھی۔ آپ ما شاء اللہ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں۔ کافی عرصے سے اس کام کا خیال دل میں آتا تھا لیکن وقت کبھی نہیں مل سکا۔
اس پوسٹ میں جو آپ نے روایت نمبر 2 پیش فرمائی ہے اور اس کے مخالفات و متتابعات پیش کیے ہیں ان پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن اس سے پہلے عرض ہے کہ تین کاموں کا خیال رکھیے تاکہ اشتباہ کم سے کم ہو۔
اول: روایت مکمل تحریر کیا کیجیے۔
ثانی: تفصیلات کا کم از کم کتاب کے نام کی حد تک حوالہ ضرور دیا کیجیے۔
ثالث: اپنے الفاظ کو عربی میں شامل نہیں کیا کیجیے۔
مطلقاً یہ بات کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس میں امام ابو حنیفہؒ اکیلے ہیں اور تمام ثقہ رواۃ دوسری جانب ہیں۔ لیکن یہ تاثر دینا درست نہیں۔ اس کی تفصیل آگے دیکھیے۔عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ سے اس روایت پر اختلاف ہے:
امام ابو حنیفہ کی اس روایت میں شعبی نے اس روایت کو براہ راست المغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور درمیان میں کوئی واسطہ ذکر نہیں کیا ہے۔
جبکہ دیگر رواۃ نے اسے عن شعبی عن عروہ بن المغیرۃ عن المغیرۃ بن شعبہ کے طریق سے عروۃ کے واسطے کے ساتھ روایت کیا ہے۔
1- یونس بن ابی اسحاق السبیعی
یونس ابن ابی اسحاق کے بارے میں محدثین کرام کا اختلاف ہے۔
- اخرجه الشافعي في المسند (75) وفي الأم (ج 1 ص 48)، والحميدي (776) وابن خزيمة (191) والدارقطني (763) وأبو عوانة في المستخرج (700، 702) والطبراني في الكبير (ج 20 372 ح 867) من طريق سفيان بن عيينة عن يونس عن الشعبي عن عروة بن المغيرة به
- وأخرجه أحمد في المسند (18242) وأخرجه الترمذي (1768) عن يوسف بن عيسي كلاهما قالا حدثنا وكيع - وفي رواية أحمد قال - حدثنا يونس بن أبي إسحاق سمعته من الشعبي قال: شهد لي عروة بن المغيرة، على أبيه، أنه شهد له أبوه على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث
- واخرجه ابو داؤد في السنن (151) قال حدثنا مسدد حدثنا عيسي بن يونس حدثني أبي عن الشعبي قال سمعت عروة بن المغيره به
- وأخرجه الطبراني في الكبير (ج 20 ص 371 ح 865) من طريق محمد بن يوسف الفريابي قال ثنا يونس بن أبي إسحاق عن الشعبي به
- وأخرجه الرامهرمزي في المحدث الفاصل (ص 467) وغيره من طريق سلم بن قتيبة قال: أشهد على يونس بن أبي إسحاق، قال: أشهد على الشعبي، قال: أشهد على عروة بن المغيرة، قال: أشهد على المغيرة
معدلین:
قال عبد الرحمن بن مهدى : يونس بن أبى إسحاق لم يكن به بأس
و قال إسحاق بن منصور و أحمد بن سعد بن أبى مريم و عثمان بن سعيد الدارمى ، عن يحيى بن معين : يونس بن أبى إسحاق ثقة . قال عثمان : قلت : فيونس أحب إليك أو إسرائيل ؟ قال : كل ثقة .
و قال النسائى : ليس به بأس .
و قال أبو أحمد بن عدى : له أحاديث حسان ، و روى عنه الناس و إسرائيل بن يونس ابنه ، و عيسى بن يونس ابنه و هما أخوان ، و هم أهل بيت العلم ، و حديث الكوفة عامته يدور عليهم .
جارحین:
و قال صالح بن أحمد بن حنبل ، عن على ابن المدينى : سمعت يحيى ، و ذكر يونس بن أبى إسحاق ، فقال : كانت فيه غفلة و كانت فيه سجية ، كان يقول : حدثنى أبى ، قال : سمعت عدى بن حاتم :
" اتقوا النار و لو بشق تمرة " .
قال يحيى : و هذا حدثنا سفيان و شعبة عن أبى إسحاق ، عن ابن معقل ، عن عدى بن حاتم . قال يحيى : و كانت فيه غفلة .
و قال بندار ، عن سلم بن قتيبة : قدمت من الكوفة فقال لى شعبة : من لقيت ؟
قال : لقيت فلان و فلان و لقيت يونس بن أبى إسحاق . قال : ما حدثك ؟ فأخبرته ، فسكت ساعة ، و قلت له : قال : حدثنا بكر بن ماعز . قال : فلم يقل لك : حدثنا عبد الله بن مسعود ! ؟
و قال أبو بكر الأثرم : سمعت أبا عبد الله ، و ذكر يونس بن أبى إسحاق فضعف حديثه عن أبيه . و قال : حديث إسرائيل أحب إلى منه .
و قال أبو طالب : قال أحمد بن حنبل : يونس بن أبى إسحاق حديثه فيه زيادة على حديث الناس . قلت : يقولون إنه سمع فى الكتب فهى أتم . قال : إسرائيل ابنه قد سمع من أبى إسحاق و كتب فلم يكن فيه زيادة مثل ما يزيد يونس .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سألت أبى عن يونس بن أبى إسحاق ، فقال : حديثه مضطرب .
و قال أبو حاتم : كان صدوقا إلا أنه لا يحتج بحديثه .
(تہذیب الکمال)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس کی تعدیل غیر مفسر جبکہ جرح مفسر ہے۔ یونس میں غفلت تھی جس کی وجہ سے وہ تحدیث بھی کہیں سے کہیں کر ڈالتے تھے جیسا کہ شعبہ نے اپنی جرح میں اشارہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ احادیث میں زیادتی بھی کر دیتے تھے۔ اس لیے ان کی روایات زیادہ سے زیادہ حسن کی حد تک پہنچتی ہیں جیسا کہ ذہبی اور ابن عدی نے کہا ہے۔
قُلْتُ: ابْنَاهُ أَتْقَنُ مِنْهُ، وَهُوَ حَسَنُ الحَدِيْثِ.
(سیر الاعلام)
مزید یہ کہ یہ طبقہ ثانیہ کے مدلس تھے۔ لیکن انہیں طبقہ ثانیہ میں قلت تدلیس کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے ورنہ یہ ضعفاء سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ حضرت علی رض سے ایک حدیث میں انہوں نے حارث الاعور کو ساقط کیا ہے (طبقات المدلسین لابن حجر)۔
لہذا ان کی روایت مطلقاً بغیر جرح و تعدیل کے لکھنا مناسب نہیں ہے۔
2- زکریا بن ابی زائدۃ
زکریا بن ابی زائدہ ویسے تو مجموعی طور پر ثقہ ہیں لیکن شعبی سے تدلیس کرتے ہیں اور اتفاق سے یہ روایت بھی شعبی سے ہی ہے اور ساری سندیں معنعن ہیں۔
- اخرجه الشافعي في المسند (75) وفي الأم (ج 1 ص 48)، والحميدي (776) وابن خزيمة (191) والدارقطني (763) وأبو عوانة في المستخرج (702)، وابن حبان (ج 4 : ص 156) والطبراني في الكبير (ج 20 372 ح 867) من طريق سفيان بن عيينة عن زكريا عن الشعبي عن عروة بن المغيرة به
- وأخرجه أحمد في المسند (18196) قال حدثنا إسحاق بن يوسف حدثنا زكريا بن أبي زائدة عن الشعبي به
- وأخرجه أحمد أيضا (18235) قال حدثنا يحيي بن سعيد - يعني القطان - عن زكريا عن عامر به
- وأخرجه الدارمي (740)، والبخاري في الصحيح (5799)، والبيهقي في الكبري من طريق علي بن الحسن بن أبي عيسي الهلالي كلهم قالوا حدثنا أبو نعيم عن زكريا بن أبي زائدة عن الشعبي به - وأبو نعيم هو الفضل بن دكين
- وأخرجه مسلم في صحيحه (274) وقال حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير حدثنا أبي - يعني عبد الله بن نمير - قال حدثنا زكريا، عن عامر به
- وأخرجه ابن المنذر في الأوسط (ج 1 ص 441) من طريق عبيدالله بن موسي أنا زكريا بن أبي زائدة عن عامر عن عروة به
- وأخرجه البيهقي في الكبري (1336) من طريق جعفر بن عون قال ثنا زكريا بن أبي زائدة عن الشعبي به
زكريا بن أبي زائدة قال أبو حاتم الرازي يدلس عن الشعبي وعن ابن جريج.
(المدلسین لابن العراقی)
و قال أبو زرعة : صويلح يدلس كثيرا عن الشعبى .
و قال أبو حاتم : لين الحديث ، كان يدلس ، و إسرائيل أحب إلى منه
قال يحيى بن زكريا : لو شئت لسميت لك من بين أبى و بين الشعبى .
(تہذیب الکمال)
3- عبد اللہ بن عون البصري
ان کی روایات صحیح ہیں ليكن یہ اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کرتے تھے:
- أخرجه أحمد في المسند (18193) والطحاوي في شرح مشكل الآثار (5653) من طريق يزيد بن هارون، أخبرنا ابن عون، عن الشعبي، عن عروة بن المغيرة به
- وأخرجه النسائي في السنن (82) من طريق بشر بن المفضل عن عن ابن عون عن الشعبي به
عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ رَجُلٍ حَتَّى رَدَّهُ إِلَى الْمُغِيرَةِ
اس کے بعد فرماتے تھے: وَلَا أَحْفَظُ حَدِيثَ ذَا مِنْ حَدِيثِ ذَا (مجھے ان کی حدیث دوسرے کی حدیث سے الگ یاد نہیں ہے۔)
اس روايت ميں مذکور ہے:
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقرع ظهري بعصا كانت معه، فعدل وعدلت معه
یہ الفاظ عروۃ بن المغیرۃ کے نہیں ہیں۔ انہوں نے (میری تحقیق کے مطابق) عصا سے کمر کو یا اونٹنی کی گردن کو تھپتھپانے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ یہ الفاظ عمرو بن وہب الثقفی کے ہیں جن سے محمد بن سیرینؒ نے روایت کی ہے (اور بعض روایات میں عن رجل عن عمرو ہے)۔ چنانچہ مسند احمد میں ابن سیرین کی سند سے ہی مروی ہے:
حدثنا يزيد، أخبرنا هشام، عن محمد، قال: دخلت مسجد الجامع، فإذا عمرو بن وهب الثقفي قد دخل من الناحية الأخرى، فالتقينا قريبا من وسط المسجد، فابتدأني بالحديث، وكان يحب ما ساق إلي من خير، فابتدأني بالحديث، فقال: كنا عند المغيرة بن شعبة، فزاده في نفسي تصديقا الذي قرب به الحديث، قال: قلنا: هل أم النبي صلى الله عليه وسلم رجل من هذه الأمة غير أبي بكر الصديق؟ قال: نعم، كنا في سفر كذا وكذا، فلما كان في السحر، ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم عنق راحلته، وانطلق فتبعته، فتغيب عني ساعة، ثم جاء، فقال: «حاجتك؟» فقلت: ليست لي حاجة يا رسول الله، قال: «هل من ماء؟» قلت: نعم، فصببت عليه، فغسل يديه، ثم غسل وجهه، ثم ذهب يحسر عن ذراعيه، وكانت عليه جبة له شامية فضاقت، فأدخل يديه، فأخرجهما من تحت الجبة، فغسل وجهه، وغسل ذراعيه، ومسح بناصيته، ومسح على العمامة، وعلى الخفين، ثم لحقنا الناس، وقد أقيمت الصلاة وعبد الرحمن بن عوف يؤمهم، وقد صلى ركعة، فذهبت لأوذنه، فنهاني، فصلينا التي أدركنا، وقضينا التي سبقنا بها.
حدثنا أسود بن عامر، حدثنا جرير بن حازم، عن محمد بن سيرين، قال: حدثني رجل، عن عمرو بن وهب يعني فذكر نحوه
جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہ روایت محمد بن سیرینؒ کی ہے اور یہاں صرف تحویل بھی نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ راوی نے ایک کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور دوسرے کا مضمون بھی وہی ہے بلکہ ابن عونؒ نے وضاحت کی ہے مجھے الگ حدیث یاد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ابن عونؒ نے عروۃ بن المغیرہ کی روایت بیان ہی نہیں کی۔ انہیں اشتباہ ہوا تھا کہ یہ روایت کس سند سے ہے تو انہوں نے دونوں اسناد بیان کر دیں اور ہم نے معلوم کرلیا کہ صحیح کون سی سند ہے۔ اس لیے یہ عامر عن عروہ کی روایت نہیں ہے۔
4- عمر بن ابی زائدۃ الکوفی
یہ آپ کی اس تفصیل کی واحد بغیر اشکال کی صحیح روایت ہے۔
- أخرجه مسلم في صحيحه (274) وأبو عوانة في المستخرج (701) من طريق إسحاق بن منصور قال حدثنا عمر بن أبي زائدة عن الشعبي به
- وأخرجه ابن الأعرابي في معجمه (2400) وقال: نا هشام، نا عبد الله بن رجاء، نا عمر بن أبي زائدة، عن عبد الله بن أبي السفر، عن الشعبي، عن عروة به، وذكر واسطة عبد الله بن أبي السفر بين عمر والشعبي لعله خطاء من عبد الله بن رجاء وهو صدوق يهم عند الحافظ
5- اسماعیل بن ابی خالد
اسماعیل بن ابی خالد سے اس روایت پر اختلاف ہے۔ چنانچہ:
آپ کی یہ بات درست نہیں کہ "یہ دیگر روایات کے موافق ہے" کیوں کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سوائے عمر ابن ابی زائدہ کے اور کوئی روایت اشکالات سے خالی نہیں ہے تو ان کے موافق ہونا چہ معنی دارد۔ یوں کہنا چاہیے کہ اس روایت میں عروہ کا ذکر اور عدم ذکر برابر ہے یعنی دونوں چیزیں موجود ہیں۔ یہ اگر ذکر میں اوپر والی روایات کا ساتھ دیتی ہے تو عدم ذکر میں امام ابو حنیفہؒ کی روایت کا ساتھ دیتی ہے۔طبرانی نے ذکر کیا ہے کہ دونوں طرق کو المعافی بن سلیمان نے روایت کیا ہے البتہ القاسم بن معن کی روایت میں طبرانی نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ اس طریق کو المعافی سے کس نے روایت کیا ہے۔ ممکن ہے یہ بھی محمد بن احمد بن البراء کی سند سے ہی ہو۔ بہرحال دونوں صورتوں میں موسی بن اعین کی روایت زیادہ راجح ہے کیونکہ یہ دیگر روایات کے موافق ہے۔
- أخرجه الطبراني في المعجم (ج 20 ص 372 ح 869) وقال: حدثنا محمد بن أحمد بن البراء، ثنا المعافى بن سليمان، ثنا موسى بن أعين، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عروة بن المغيرة بن شعبة، عن أبيه
- وخالفه القاسم بن معن فرواه عن إسماعيل بن أبي خالد عن الشعبي عن المغيرة بن شعبة، ولم يذكر بينهما أحدا ( أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط 5287 من طريق المعافي بن سليمان، وانظر العلل الدارقطني ج 7 ص 99)
جاری ہے۔۔۔۔۔
Last edited: