• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغیوں کی "فضائل اعمال" کے جھوٹ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ماشاء الله آفتاب بھائی آپ اعتراض ہر پوسٹ میں کرتے ہے لیکن اعتراض کرنے کے بعد انکا جواب نہیں دیتے. آپ صرف لفظوں کے ساتھ کھیلتے ہے اور غصّہ ہونے کے بعد آپ دوبارہ اس پوسٹ میں جواب ہی نہیں دیتے.
چلے کوئی بات نہیں . میں نے یا یوں کہیں کی جہاں سے میں نے یہ عبارت لی ہے یعنی " تبلیغیوں کی "فضائل اعمال کے جھوٹ" اس میں قریب 25 غلطیاں موجود ہے.آپنے یہ پوسٹ دیکھتے ہی کہ دیا کی آپکو کسی حنفی عالم سے اس بارے میں تحقیق کرنی چاہیے تھی، اسکا مطلب یہ ہوا کی آپکو پورے 25 تو نہیں لیکن کچھ سوالوں کے جواب تو معلوم ہی ہونگے. تو آپ کم سے کم ایک دو سوالوں کے جواب تو دے دیجئے .
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آفتاب بھائی مجھے ہمیشہ مسائل کے آسان حل سے دلچسپی رہتی ہے اور آپ سے آسان سا سوال ہے کہ درج بالا قصہ جھوٹ ہے یا نہیں؟۔ براہ راست پہنچ حنفی مدارس تک نہیں اس لئے اگر آپ کے توسط سے جواب مل سکے تو ممنون رہوں گا۔
یہ یاد رہے کہ دن بھر میں صرف 1440 منٹ ہوتے ہیں!!!
بہت خوب راجا بھائی آپنے میرے دل کی بات لکھ دی.
یعنی ہر 1.4 منٹ میں ایک رکعت پڑھتے تھے. .

میرے خیال سے اگر میں ایسا کروں تو ایک بار چل جاےگا لیکن کسی بزرک کی طرف ایسی نسبت کرکے یہ بتانا کی کوئی بزرگ ہزار رکعت ایک دن میں پڑھتے تھے ، تو اسکا مطلب تو یہی ہوگا کی وہ بزرگ اپنی ، نماز میں شایشتگی اختیار نہیں کرتے تھے.

خیر کوئی بات نہیں میں کسی حنفی مدرسے سے اس ہزار رکعت کے بارے میں پوچھونگا اور مجھے کوئی نہ کوئی گھوما پھرا کے کچھ نہ کچھ تو جواب مل ہی جاےگا.
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
بہت خوب راجا بھائی آپنے میرے دل کی بات لکھ دی.
یعنی ہر 1.4 منٹ میں ایک رکعت پڑھتے تھے. .

میرے خیال سے اگر میں ایسا کروں تو ایک بار چل جاےگا لیکن کسی بزرک کی طرف ایسی نسبت کرکے یہ بتانا کی کوئی بزرگ ہزار رکعت ایک دن میں پڑھتے تھے ، تو اسکا مطلب تو یہی ہوگا کی وہ بزرگ اپنی ، نماز میں شایشتگی اختیار نہیں کرتے تھے.

خیر کوئی بات نہیں میں کسی حنفی مدرسے سے اس ہزار رکعت کے بارے میں پوچھونگا اور مجھے کوئی نہ کوئی گھوما پھرا کے کچھ نہ کچھ تو جواب مل ہی جاےگا.
Agree
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ نے تو کتاب کو (خواہ وہ اہل کتاب ہی کی کیوں نہ ہو۔) دلیل تسلیم کیا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ١ؕ اِيْتُوْنِيْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَاۤ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۴ ﴾ ... سورة الأحقاف: 4 کہ ’’ آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں ان کا کون سا حصہ ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کی کوئی کتاب یا کوئی علم ہی جو نقل کیا جاتا ہو، میرے پاس لاؤ۔‘‘
نہ جانے آفتاب بھائی اپنے علماء وبزرگوں سے اتنے بدگمان کیوں ہیں کہ کتبِ احناف میں لکھی ہوئی کسی بات کو دلیل تسلیم ہی نہیں کرتے؟ کیا وہ اپنی کتابوں میں خلافِ حقیقت باتیں لکھتے آئے ہیں؟؟!!
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
5۔ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ وہ روزانہ ایک ہزار رکعت کھڑے ہو کر پڑھتے جب پاﺅں رہ جاتے یعنی کھڑے ہونے سے عاجز ہو جاتے تو ایک ہزار رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص588)
آفتاب بھائی مجھے ہمیشہ مسائل کے آسان حل سے دلچسپی رہتی ہے اور آپ سے آسان سا سوال ہے کہ درج بالا قصہ جھوٹ ہے یا نہیں؟۔ براہ راست پہنچ حنفی مدارس تک نہیں اس لئے اگر آپ کے توسط سے جواب مل سکے تو ممنون رہوں گا۔
یہ یاد رہے کہ دن بھر میں صرف 1440 منٹ ہوتے ہیں!!!
حنفی مدرسہ تک پہنچ نہیں ۔ حیرت ہے ۔ آپ کی پہنچ کیوں نہیں ۔ آج کل تو دنیا گلوبل ولیج بن کر رہ گئی ہے۔ میں نے خود بعض امور پر کویت ۔ اردن وغیرہ کے مفتیوں سے فتوے انٹرنیٹ کے ذریعے پوچھے اور الحمد للہ جواب بھی آیا ۔ اور آپ کی پہنچ کسی حنفی مدرسے تک نہیں ۔

باقی آپ حضرات کا بار بار اصرار کہ میں کچھ ان الزامات کے بارے میں لکھوں سے بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ حضرات کو تحقیق سے دلچسپی نہیں ۔ دلچسپی ہوتی تو احناف کے علماء سے رابطہ کرتے ۔
اس کے باوجود میں بہر حال کچھ عرض کردیتا ہوں ۔
اس بزرگ کے قصہ میں ان کی کرامت ذکر گئی ہے اور کرامت میں کسی ولی کا دخل نہیں ہوتا وہ اللہ کی صرف سے ہوتی ہے۔
بریلوی حضرات ایسے کرامات پڑھ کر ان بزرگ کو کارساز سمجھ کر ان سے مانگنا شروع کردیتے ہیں ۔ اہل حدیث ان کرامات کو عقل کے پیمانہ پر پرکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ دیوبندی کہتے ہیں کہ یہ کرامت اللہ کی جانب سے تھی اور بزرگ کو صرف اللہ کا ولی مانتے ہیں اس کا اکرام کرتے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات اس لئیے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ عبادت کا شوق پیدا ہو۔

قرآن میں اصحاب کہف کا قصہ تو آپ نے پڑھاہوگا ۔ وہاں پر آپ یہ اعتراض کیوں نہیں کرتے کہ وہ کھائے پیے اتنے عرصہ تک زندہ رہے ۔ وہاں آپ کیوں نہیں کہتے کہ ایک انسان تو کچھ کھائے پیئے چند دن سے ذیادہ زندہ نہیں رہ سکتا وہ کیسے رہ گئے ۔ کیا ان کو مچھروں نے نہیں کاٹا ۔
موسی علیہ السلام جب مدین گئے تو ان کو بھوک پیاس لگ گئی لیکن اصحاب کہف اتنے سالوں تک غار میں بغیر کھائے پیے کیسے رہ گئے ۔ کیا وہ موسی علیہ السلام سے افضل ہو گئے ۔؟
اصحاب کہف کا قصہ اگر کسی حنفی کتاب میں ہوتا تو یہی اعتراضات آپ لوگ کرتے ۔
یہی بات ہے جو میں کہ رہا ہوں کہ آپ میں سے اکثر حضرات تحقیق سے دور بھاگتے ہیں اور واویلا یہ ہوتا ہے کہ احناف تو بس تقلید کرتے ہیں ۔ ان کا تحقیق سے کیا کام۔
اس کے علاوہ ولیوں کی کرامات احادیث میں بہت آتی ہیں۔
سعودی علماء کا فتوی پڑھیں کرامت کے بارے میں ۔

س: هذا السائل يقول: هل صحيح أن الأولياء تحدث لهم كرامات خارقة للعادة، كالمشي على الماء، والمكاشفات كالنظر إلى اللوح، وظهور الملائكة وغير ذلك؟
ج : نعم الأولياء لهم كرامات خرقاً للعادة، إذا كانوا مستقيمين على طاعة الله ورسوله، قد تقع لهم كرامات عند حاجتهم، أو عند إقامة الحجة على غيرهم، قد يخرق الله لهم العادة بكرامة، ومن ذلك ما وقع لعباد بن بشر، وأسيد بن حضير، كانا زارا النبي في ليلة مظلمة، فلما خرجا من عنده أضاءت لهما أسواطهما كالسراج في الطريق حتى وصلا إلى أهلهما، كرامة من الله لهما، ومن هذا قصة الطفيل الدوسي رئيس دوس، لما أسلم وطلب من النبي صلى الله عليه وسلم أن يجعل الله له آية حتى يصدقه قومه، فصار له نور في وجهه مثل السراج لما أتى أهله، فقال يا ربي في غير وجهي فجعلها الله في سوطه، إذا رفعه استنار كالسراج، فأسلم قومه على يديه، وهداهم الله بأسبابه، وهناك وقائع أخرى لأولياء الله، عند الشدائد مثل ما وقع لجريج، لما ظلمته البغي، قالت: إنه زنى بها وأنها حملت منه، وهي كاذبة ، فجاءه أهل بلده، وهدموا عليه صومعته، فقال: ما بالكم؟ قالوا: زنيت بهذه، فقال: سبحان الله ما زنيت بها، هاتوا الغلام؟ فجاءوا بالغلام، ووضع إصبعه على الغلام، وهو لتوه مولود، فقال: من أبوك يا هذا؟ فقال: أبي فلان الراعي، الذي زنى بالمرأة، فلما أنطقه الله وهو صغير، قالوا: نعيد لك صومعتك من الذهب؟ فقال: لا، ردوها طيناً كحالها الأولى، المقصود براءتي مما رميتموني به، الحمد لله ؛ والقصص كثيرة في هذا.
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
نہ جانے آفتاب بھائی اپنے علماء وبزرگوں سے اتنے بدگمان کیوں ہیں کہ کتبِ احناف میں لکھی ہوئی کسی بات کو دلیل تسلیم ہی نہیں کرتے؟ کیا وہ اپنی کتابوں میں خلافِ حقیقت باتیں لکھتے آئے ہیں؟؟!!
آپ کو کس نے کہا کہ میں احناف کی کتب سے بد گمان ہوں۔ مدرسے اور حنفی علماء سے تحقیق کے لئیے رابطے کی بات اس لئيے کی تھی ۔ فقہی کتب اکثر عربی میں ہیں اور ایک مسئلہ اگر کتابوں میں دیکھا جائے تو کافی ٹائم لگتا ہے کسی عالم سے پوچھ لیا جائے تو جلدی پتہ چل جاتا ہے ۔
باقی اگر آپ کتابیں پڑھ کر تحقیق کرنا چاھتے ہیں اور آ پ میں اتنی قالیت بھی ہے تو آپ ضرور پڑہیں ۔ ویسے آپ اب تک تحقیق کے لئیے کون کون سی فقہی کتب پڑھ چکےہیں نام بتائیں گے ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آفتاب صاحب آپ سے چند سوال ہیں
یہ بزرگ کا قصہ جس میں ایک ہزار رکعت پڑھنے کا زکر ہے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا کیا؟
حدیث کا مفہوم ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ اتنی زیادہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جبکہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
تو کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک رات میں ایک ہزار رکعت پڑھی۔میں یہ نہیں کہتا کہ نہیں پڑھنی چاہیے لیکن ایسے کہیں کہ جتنی اللہ توفیق دے۔
سردیوں میں راتیں بڑی ہوتی ہیں۔7:30بجے سے لے کر صبح6:00بجے تک کا وقت بھی لگا لیا جائے تو تقریبا 630 منٹ بنتے ہیں ایک منٹ میں ایک رکعت بھی پڑھی جائے تو 630 رکعت زیادہ سے زیادہ۔(اور پھر کیا خشوع خضوع ممکن رہے گا) اور پھر آنکھ،کان،دماغ،جسم،بیوی کا حق کہاں جائے گا؟
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے بھی تھے اور جاگ کر اللہ کے فضل سے نماز بھی ادا کرتے۔
کیونکہ رات کو اللہ تعالیٰ نے سکون کے لیے بنایا ہے۔
قُلْ أَرَءَيْتُمْ إِن جَعَلَ ٱللَّهُ عَلَيْكُمُ ٱلنَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ ٱللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍۢ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٧٢﴾
ترجمہ:کہہ دو بھلا یہ تو بتاؤ اگر الله تم پر ہمیشہ کے لیے قیامت تک دن ہی رہنے دے تو الله کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے لیے رات لائے جس میں آرام پاؤ کیا تم دیکھتے نہیں ہو(سورۃ الفرقان،آیت٧٢)

قرآن میں اصحاب کہف کا قصہ تو آپ نے پڑھاہوگا ۔ وہاں پر آپ یہ اعتراض کیوں نہیں کرتے کہ وہ کھائے پیے اتنے عرصہ تک زندہ رہے ۔ وہاں آپ کیوں نہیں کہتے کہ ایک انسان تو کچھ کھائے پیئے چند دن سے ذیادہ زندہ نہیں رہ سکتا وہ کیسے رہ گئے ۔ کیا ان کو مچھروں نے نہیں کاٹا ۔
بھائی آپ نے خود ہی کہا ہے کہ قرآن میں لکھا ہے تو ہمارا ایمان ہے کہ قرآن میں کوئی شک نہیں۔قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہم اللہ کے کلام میں قیل و قال نہیں کر سکتے۔
جبکہ فضائل صدقات ایک انسان کی لکھی ہوئی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس کے باوجود میں بہر حال کچھ عرض کردیتا ہوں ۔
اس بزرگ کے قصہ میں ان کی کرامت ذکر گئی ہے اور کرامت میں کسی ولی کا دخل نہیں ہوتا وہ اللہ کی صرف سے ہوتی ہے۔
بریلوی حضرات ایسے کرامات پڑھ کر ان بزرگ کو کارساز سمجھ کر ان سے مانگنا شروع کردیتے ہیں ۔ اہل حدیث ان کرامات کو عقل کے پیمانہ پر پرکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ دیوبندی کہتے ہیں کہ یہ کرامت اللہ کی جانب سے تھی اور بزرگ کو صرف اللہ کا ولی مانتے ہیں اس کا اکرام کرتے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات اس لئیے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ عبادت کا شوق پیدا ہو۔
میرے عزیز بھائی! نہ جانے کن اُصولِ تحقیق کی روشنی میں آپ نے یہ فرمایا کہ اہل الحدیث کرامات کو عقل پر پرکھتے ہیں لہٰذا تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ اہل الحدیث صحیح اور ثابت شدہ کرامات کو بالکل تسلیم کرتے ہیں، جس کی فوری مثال آپ کا پیش کیا گیا درج بالا فتویٰ ہے۔
سرِ دست آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ فضائل میں موجود یہ تمام ’من گھڑت قصّے‘ آپ کے ’اعلیٰ معیارِ تحقیق‘ کے مطابق سو فیصد سچے ہیں؟؟!!
پھر کرامات کے حوالے سے مزید بات ہوگی ان شاء اللہ العزیز!
 

محمد فہد

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
0
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے:
جاء ثلاث رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا : أين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم : أما أنا فإني أصلي الليل أبدا ، وقال آخر : أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر : أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( أنتم الذين قلتم كذا وكذا ؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد ، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني )
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح”
“تین آدمی (صحابی )نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے اور (ازواج مطہرات سے) نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو گویا انہوں نے اسے تھوڑا جانا۔ پھر کہنے لگے “کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اللہ نے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں”۔ ایک نے کہا “جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رات کو ہمیشہ قیام کروں گا، دوسرے صحابی نے کہا “میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے صحابی نے کہا “میں عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا”۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف لائے تو (معاملے کی اطلاع ملنے پر) فرمایا “تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم، میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہوں لیکن میں (نفلی)روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے”۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اچھے کاموں کا ارادہ کیا۔ رات کو قیام کرنا بڑے اجر و ثواب کی بات ہے، روزہ رکھنا بڑی فضیلت رکھتا ہے، عفت و پاکیزگی اختیار کرنا مومن کا شیوہ ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ انہوں نے ان تینوں عبادات کی کیفیت اور شکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہیں تھی اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا اور اپنے فہم سے عبادت میں اضافہ کرنےرو ک دیا۔ اور اپنے اس فرمان کی عملی صورت امت کے سامنے رکھ دی کہ :
“من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد”
“جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ رد ہے”
اس واقعے میں ایک اور لطیف تنبیہہ بھی ہے کہ اچھی نیت سے نیک عمل کرنا اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں بنا سکتا جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے کے موافق نہ ہو۔
لہذا ان بزرگوں ا یک دن میں ایک ہزار رکعات پڑھنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟
 
Top