5۔ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ وہ روزانہ ایک ہزار رکعت کھڑے ہو کر پڑھتے جب پاﺅں رہ جاتے یعنی کھڑے ہونے سے عاجز ہو جاتے تو ایک ہزار رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص588)
آفتاب بھائی مجھے ہمیشہ مسائل کے آسان حل سے دلچسپی رہتی ہے اور آپ سے آسان سا سوال ہے کہ درج بالا قصہ جھوٹ ہے یا نہیں؟۔ براہ راست پہنچ حنفی مدارس تک نہیں اس لئے اگر آپ کے توسط سے جواب مل سکے تو ممنون رہوں گا۔
یہ یاد رہے کہ دن بھر میں صرف 1440 منٹ ہوتے ہیں!!!
حنفی مدرسہ تک پہنچ نہیں ۔ حیرت ہے ۔ آپ کی پہنچ کیوں نہیں ۔ آج کل تو دنیا گلوبل ولیج بن کر رہ گئی ہے۔ میں نے خود بعض امور پر کویت ۔ اردن وغیرہ کے مفتیوں سے فتوے انٹرنیٹ کے ذریعے پوچھے اور الحمد للہ جواب بھی آیا ۔ اور آپ کی پہنچ کسی حنفی مدرسے تک نہیں ۔
باقی آپ حضرات کا بار بار اصرار کہ میں کچھ ان الزامات کے بارے میں لکھوں سے بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ حضرات کو تحقیق سے دلچسپی نہیں ۔ دلچسپی ہوتی تو احناف کے علماء سے رابطہ کرتے ۔
اس کے باوجود میں بہر حال کچھ عرض کردیتا ہوں ۔
اس بزرگ کے قصہ میں ان کی کرامت ذکر گئی ہے اور کرامت میں کسی ولی کا دخل نہیں ہوتا وہ اللہ کی صرف سے ہوتی ہے۔
بریلوی حضرات ایسے کرامات پڑھ کر ان بزرگ کو کارساز سمجھ کر ان سے مانگنا شروع کردیتے ہیں ۔ اہل حدیث ان کرامات کو عقل کے پیمانہ پر پرکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ دیوبندی کہتے ہیں کہ یہ کرامت اللہ کی جانب سے تھی اور بزرگ کو صرف اللہ کا ولی مانتے ہیں اس کا اکرام کرتے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات اس لئیے پیش کیے جاتے ہیں تاکہ عبادت کا شوق پیدا ہو۔
قرآن میں اصحاب کہف کا قصہ تو آپ نے پڑھاہوگا ۔ وہاں پر آپ یہ اعتراض کیوں نہیں کرتے کہ وہ کھائے پیے اتنے عرصہ تک زندہ رہے ۔ وہاں آپ کیوں نہیں کہتے کہ ایک انسان تو کچھ کھائے پیئے چند دن سے ذیادہ زندہ نہیں رہ سکتا وہ کیسے رہ گئے ۔ کیا ان کو مچھروں نے نہیں کاٹا ۔
موسی علیہ السلام جب مدین گئے تو ان کو بھوک پیاس لگ گئی لیکن اصحاب کہف اتنے سالوں تک غار میں بغیر کھائے پیے کیسے رہ گئے ۔ کیا وہ موسی علیہ السلام سے افضل ہو گئے ۔؟
اصحاب کہف کا قصہ اگر کسی حنفی کتاب میں ہوتا تو یہی اعتراضات آپ لوگ کرتے ۔
یہی بات ہے جو میں کہ رہا ہوں کہ آپ میں سے اکثر حضرات تحقیق سے دور بھاگتے ہیں اور واویلا یہ ہوتا ہے کہ احناف تو بس تقلید کرتے ہیں ۔ ان کا تحقیق سے کیا کام۔
اس کے علاوہ ولیوں کی کرامات احادیث میں بہت آتی ہیں۔
سعودی علماء کا فتوی پڑھیں کرامت کے بارے میں ۔
س: هذا السائل يقول: هل صحيح أن الأولياء تحدث لهم كرامات خارقة للعادة، كالمشي على الماء، والمكاشفات كالنظر إلى اللوح، وظهور الملائكة وغير ذلك؟
ج : نعم الأولياء لهم كرامات خرقاً للعادة، إذا كانوا مستقيمين على طاعة الله ورسوله، قد تقع لهم كرامات عند حاجتهم، أو عند إقامة الحجة على غيرهم، قد يخرق الله لهم العادة بكرامة، ومن ذلك ما وقع لعباد بن بشر، وأسيد بن حضير، كانا زارا النبي في ليلة مظلمة، فلما خرجا من عنده أضاءت لهما أسواطهما كالسراج في الطريق حتى وصلا إلى أهلهما، كرامة من الله لهما، ومن هذا قصة الطفيل الدوسي رئيس دوس، لما أسلم وطلب من النبي صلى الله عليه وسلم أن يجعل الله له آية حتى يصدقه قومه، فصار له نور في وجهه مثل السراج لما أتى أهله، فقال يا ربي في غير وجهي فجعلها الله في سوطه، إذا رفعه استنار كالسراج، فأسلم قومه على يديه، وهداهم الله بأسبابه، وهناك وقائع أخرى لأولياء الله، عند الشدائد مثل ما وقع لجريج، لما ظلمته البغي، قالت: إنه زنى بها وأنها حملت منه، وهي كاذبة ، فجاءه أهل بلده، وهدموا عليه صومعته، فقال: ما بالكم؟ قالوا: زنيت بهذه، فقال: سبحان الله ما زنيت بها، هاتوا الغلام؟ فجاءوا بالغلام، ووضع إصبعه على الغلام، وهو لتوه مولود، فقال: من أبوك يا هذا؟ فقال: أبي فلان الراعي، الذي زنى بالمرأة، فلما أنطقه الله وهو صغير، قالوا: نعيد لك صومعتك من الذهب؟ فقال: لا، ردوها طيناً كحالها الأولى، المقصود براءتي مما رميتموني به، الحمد لله ؛ والقصص كثيرة في هذا.