- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
یہ جمشید بھائی کا پرانا حربہ ہے کہ جس بات کا جواب نہ ہو (کہ جواب دینے سے مسلک پر حرف آئے گا) تو اس کے بارے میں غیر متعلّق سوال وجواب شروع کر دو، تاکہ نفس مسئلہ پر بات چیت کی نوبت ہی نہ آئے۔اگرہوسکے تو آپ ہی مضمون نگار کا نام بتادیں ۔ مضمون نگار مضمون لکھنے میں توشرمایانہیں لیکن نام بتانے میں اتنی شرم کیوں محسوس کررہاہے میرے سمجھ سے باہر ہے۔
میرے بھائی! اگر غیر متعلّق اعتراض کرکے آپ بحث کو غلط طرف موڑ بھی دیں گے اور چرب زبانی سے وقتی طور پر (اپنے زعم میں) اپنے مسلک کا دفاع بھی کر لیں گے تو کیا اس سے حقیقت بدل جائے گی؟؟!! نہیں! ہرگز نہیں!!
آپ لوگ حقیقت سے چشم پوشی کرکے نہ جانے اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کر لیتے ہیں؟؟!!! ایمان سے بتائیے کہ کیا آپ کے نزدیک بارہ دن وضو نہ ٹوٹنا اور پندرہ برس جاگتے رہنا ممکن ہے؟! اور اگر ہے تو کیا یہ کوئی نیکی ہے؟؟!! ایک دن میں ہزار دو ہزار رکعت پڑھنا ممکن ہے؟؟!! اور اگر ہے تو کیا یہ سنتِ نبوی سے صریح بے رغبتی نہیں؟؟!! فرمانِ باری ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ... سورة المائدة: 8 کہ ’’ اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آماده نہ کردے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیاده قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
اصل بحث تو اس پر ہونی چاہئے تھی کہ فضائل اعمال پر یہ اعتراضات صحیح ہیں یا غلط؟؟!! اور اگر غلط ہیں تو کیسے؟!! لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ایک صاحب کا اصرار ہے کہ یہ اعتراض کرنے والا کون ہے؟! جبکہ دوسرے صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ مدارسِ حنفیہ یا دونوں اطراف (اہل الحدیث) سے تحقیق کیوں نہیں کی گئی؟! (کیا اس موقف کی نسبت مدارس حنفیہ اور اہل الحدیث کی طرف کی گئی ہے کہ ان سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہو؟؟!!)
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!
- اگر تو فضائل اعمال کی طرف ان واقعات کی غلط نسبت کی گئی ہے تو کہیں کہ یہ واقعات فضائل اعمال میں موجود ہی نہیں ہیں!
- اگر فضائل اعمال کی طرف ان واقعات کی صحیح نسبت ہے اور آپ کو اس سے اختلاف ہے تو یہ اعتراف کرنے میں کیا حرج ہے کہ فضائل اعمال میں یہ من گھڑت واقعات موجود ہیں جو غلطی ہے، میرے بھائیو! فضائل اعمال کوئی قرآن نہیں کہ اس میں غلطی تسلیم کر لینے سے ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔
- اور اگر نسبت صحیح ہے اور آپ کو ان واقعات سے مکمل اتفاق بھی ہے تو نفس واقعہ پر گفتگو کریں کہ واقعی ہی ایک دن میں ہزار یا دو ہزار رکعات پڑھنا وغیرو غیرہ ممکن ہے اور بالکل صحیح، سنت اور بہت بڑی کرامت ہے!
بہرحال بھائیو! اگر آپ لوگوں کے پاس جواب نہیں یا آپ اصل موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے تو پس وپیش کرنے سے یہ جھوٹ سچ تو نہ بن جائیں گے! (ابتسامہ) آپ لوگ خوش رہیں!