• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ تلمیذ بھائی۔ بے شک اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ قرآن و حدیث کے خلاف دلیل قائم کرنے والے واقعہ کا انکار ہی بہتر طریقہ ہے۔ پھر بھی تائید کے لئے شکریہ۔

اب ہمارے حساب سے درج ذیل امور ایسے ہیں جو قرآن و حدیث کے دلائل کے صریحاً خلاف ہیں۔ آپ ترتیب وار ان پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر دیجئے۔

1۔ غیب کے چند اخبار پر کسی نیک شخص کا کرامتاً یا کشفاً مطلع ہو جانا الگ کر لیجئے۔ ہم اس پر عارضی طور پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔ لیکن قرآن و حدیث سے ہمیں یہ عقیدہ ملتا ہے کہ انبیاء سمیت کسی شخص کو ایسا علم کبھی نہیں دیا گیا کہ جس کی مدد سے وہ جب چاہے غیب کی کوئی بھی بات معلوم کر لے۔ اس علم کو علم غیب کہا جاتا ہے۔ یاد رہے بذریعہ وحی یا کشف یا بطور کرامت غیب کی بعض خبریں مل جانا الگ معاملہ ہے۔ اور بغیر کسی وحی، کشف کے ہمہ وقت غیب کی باتوں کو معلوم کرنے کی قدرت پا لینا الگ معاملہ ہے۔ اور آپ کی رائے اسی ثانی الذکر معاملہ میں درکار ہے۔

2۔ مافوق الاسباب مدد کے لئے کسی پیر، بزرگ یا نیک شخص کو پکارنا کہ وہ دور سے بھی بغیر ظاہری اسباب کے میری حاجت سنے گا اور میری مدد کرے گا، قرآن کی رو سے کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا ، استمداد لغیراللہ کی مد میں آتا ہے جو شرک اکبر ہے۔ اب اگر کوئی واقعہ یا کرامت یہ بتائے کہ کسی شخص نے ڈوبتی کشتی سے اپنے پیر کو مدد کے لئے پکارا اور پیر صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی فریاد سنی ، بلکہ اس کی مدد کو بھی پہنچے اور کشتی کو پار لگا دیا۔ تو اس قسم کی کرامت میں دو شرکیہ پہلو ہیں:
اول یہ کہ اس جاہل شخص نے مافوق الاسباب مدد کے لئے پیر کو پکارا ، جب کہ مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسے مافوق الاسباب مدد کے لئے فقط اللہ تعالیٰ کو پکاریں۔
دوم یہ کہ پیر صاحب مدد کو واقعتاً پہنچ بھی گئے۔ جس سے اس جاہل شخص کا اپنے شرکیہ عقیدہ پر ایمان اور پختہ ہو گیا کہ واقعتاً نیک لوگ مافوق الاسباب مدد کرنے پر بھی ہمہ وقت قادر ہوتے ہیں۔ اور اس کرامت کو سننے ، پڑھنے، اس کی تصدیق کرنے والے ہر شخص کا ایمان اسی بات پر پختہ ہو جائے گا کہ ڈوبتی کشتی سے مافوق الاسباب طور پر پیر کو پکارنا ، جائز ہے۔

اس تفصیل کے بعد ، آپ اپنی رائے بتا دیجئے کہ ایسی کرامت آپ کے نزدیک قرآن و حدیث کے خلاف عقیدہ کی ترویج کی وجہ سے شرک کی مد میں آ کر قابل تردید ٹھہرے گی یا آپ اس قسم کی کرامت کی تائید کریں گے؟

3۔ ولی کا انتقال ہو جانے کے باوجود، وہ لوگوں کی فریاد سننے، اور مدد کرتے رہنے پر قادر ہو۔ کیا یہ خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
4۔ ولی کا کرامت پر قدرت پا جانا کہ جب چاہے وہ کرامت دکھا دے، خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟

عموماً کرامت اور استدراج کے درمیان ایک وجہ تفریق یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اگر نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ شخص کے ہاتھ پر صادر ہو تو کرامت ہے اور اگر کسی فاسق و فاجر کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو وہ استدراج ہے۔ اب آپ کیا سمجھتے ہیں ایسی صورت میں ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ کسی بھی محیر العقول واقعہ کو بطور کرامت تسلیم کرنے یا اس کی تصدیق کرنے سے قبل یہ ضرور جان لیں کہ جس شخص سے یہ کرامت منسوب ہے وہ نیک تھا یا نہیں؟

زیادہ سوالات کے لئے پیشگی معذرت۔ آپ تفصیل لکھنے کے بجائے فقط ہاں، ناں یا مختصر وضاحت کے ساتھ جواب لکھ دیجئے تو کافی ہے، ان شاء اللہ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ کے سوالات سے پہلے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں
ہمارا موضوع تبلیغی جماعت ہے نہ کہ کرامت ۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی تبلیغی جماعت ایک شرک و بدعت کی جماعت ہے ۔ جب پوچھا گيا کہ وہ کس شرک بدعت میں مبتلا ہیں تو ان کا کوئی عمل سامنے نہ آیا بلکہ کہا گيا کہ یہ جماعت عقائد میں شرکیہ جماعت ہے ۔ مجھی ابھی تک حیرت ہے کہ دنیا میں یہ کیسی جماعت ہے جو عقائد میں میں تو شرکیہ ہے لیکن اعمال میں نہیں ۔ بہر حال جب ان کے عقائد کو شرکیہ ثابت کرنے کا کہا گيا تو فضائل اعمال میں سے قرطبی والا واقعہ نقل کیا گيا ۔
اب آپ کے سوالات کچھ موضوع سے متعلق ہیں اور کچھ غیر متعلق ۔میں متعلق سوالات کا جوابات دے رہا ہوں اور غیر متعلق کے بارے میں بتادیتا ہوں کہ یہ کیوں غیر متعلق ہیں
1۔ غیب کے چند اخبار پر کسی نیک شخص کا کرامتاً یا کشفاً مطلع ہو جانا الگ کر لیجئے۔ ہم اس پر عارضی طور پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔ لیکن قرآن و حدیث سے ہمیں یہ عقیدہ ملتا ہے کہ انبیاء سمیت کسی شخص کو ایسا علم کبھی نہیں دیا گیا کہ جس کی مدد سے وہ جب چاہے غیب کی کوئی بھی بات معلوم کر لے۔ اس علم کو علم غیب کہا جاتا ہے۔ یاد رہے بذریعہ وحی یا کشف یا بطور کرامت غیب کی بعض خبریں مل جانا الگ معاملہ ہے۔ اور بغیر کسی وحی، کشف کے ہمہ وقت غیب کی باتوں کو معلوم کرنے کی قدرت پا لینا الگ معاملہ ہے۔ اور آپ کی رائے اسی ثانی الذکر معاملہ میں درکار ہے۔
میں واضح طور پر لکھ رہا ہوں میرا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء سمیت کسی شخص کو ایسا علم کبھی نہیں دیا گیا کہ جس کی مدد سے وہ جب چاہے غیب کی کوئی بھی بات معلوم کر لے ۔ انبیاء کو وحی کے ذریعے اللہ کے حکم سے بعض غیبی امور پر اطلاع ہوئی ۔ لیکن یہ اطلاع اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور جتنا جاہتا ہے نبی کو مطلع کرتا ہے ۔ اسی طرح کوئی بھی امتی جس کو کشف ہو وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اس میں اس امتی کا کوئی دخل نہیں ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ امتی جب چاہے کشف کے ذریعے کسی غیبی خبر پر مطلع ہوجائے ۔ یہ ناممکن ہے اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے ۔ اللہ جب چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے کشف کے ذریعے امتی کو کوئی خبر دے دیتا ہے ۔ اور وہ کشف کے ذریعے ملنے والی خبر کوئی شرعی حجت نہیں کہ اس سے کوئی شرعی عمل ثابت کیا چائے ۔ ہاں کسی ایسے شرعی عمل جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس کے فضائل میں ایسی کرامت کا ذکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں

2۔ مافوق الاسباب مدد کے لئے کسی پیر، بزرگ یا نیک شخص کو پکارنا کہ وہ دور سے بھی بغیر ظاہری اسباب کے میری حاجت سنے گا اور میری مدد کرے گا، قرآن کی رو سے کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا ، استمداد لغیراللہ کی مد میں آتا ہے جو شرک اکبر ہے۔ اب اگر کوئی واقعہ یا کرامت یہ بتائے کہ کسی شخص نے ڈوبتی کشتی سے اپنے پیر کو مدد کے لئے پکارا اور پیر صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی فریاد سنی ، بلکہ اس کی مدد کو بھی پہنچے اور کشتی کو پار لگا دیا۔ تو اس قسم کی کرامت میں دو شرکیہ پہلو ہیں:
اول یہ کہ اس جاہل شخص نے مافوق الاسباب مدد کے لئے پیر کو پکارا ، جب کہ مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسے مافوق الاسباب مدد کے لئے فقط اللہ تعالیٰ کو پکاریں۔
دوم یہ کہ پیر صاحب مدد کو واقعتاً پہنچ بھی گئے۔ جس سے اس جاہل شخص کا اپنے شرکیہ عقیدہ پر ایمان اور پختہ ہو گیا کہ واقعتاً نیک لوگ مافوق الاسباب مدد کرنے پر بھی ہمہ وقت قادر ہوتے ہیں۔ اور اس کرامت کو سننے ، پڑھنے، اس کی تصدیق کرنے والے ہر شخص کا ایمان اسی بات پر پختہ ہو جائے گا کہ ڈوبتی کشتی سے مافوق الاسباب طور پر پیر کو پکارنا ، جائز ہے۔
اس تفصیل کے بعد ، آپ اپنی رائے بتا دیجئے کہ ایسی کرامت آپ کے نزدیک قرآن و حدیث کے خلاف عقیدہ کی ترویج کی وجہ سے شرک کی مد میں آ کر قابل تردید ٹھہرے گی یا آپ اس قسم کی کرامت کی تائید کریں گے؟
جیسا کہ میں نے پہے کہا کہ ہمارا موضوع تبلیغی جماعت ہے کرامت نہیں ۔ تبلیغی جماعت کو شرکیہ ثابت کرنے کے لئیے جو قرطبی والا واقعہ نقل کیا گيا اس میں نہ کسی نے کسی سے مدد مانگی اور نہ کوئی مدد کو پہنچا ۔ اس لئیے یہ سوال غیر متعلق ہے ۔

3۔ ولی کا انتقال ہو جانے کے باوجود، وہ لوگوں کی فریاد سننے، اور مدد کرتے رہنے پر قادر ہو۔ کیا یہ خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
غیر متعلق سوال ہے ۔ وجہ اوپر بیان کی جاچکی ہے
4۔ ولی کا کرامت پر قدرت پا جانا کہ جب چاہے وہ کرامت دکھا دے، خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
میں بار بار کہ چکا ہوں کہ کرامت اللہ کے حکم سے ہوتی ہے ۔ ولی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ کوئی بھی ولی جب چاہے کرامت دکھا سکتا ہے ایسا دعوی قرآن و سنت کے خلاف ہے ۔

عموماً کرامت اور استدراج کے درمیان ایک وجہ تفریق یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اگر نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ شخص کے ہاتھ پر صادر ہو تو کرامت ہے اور اگر کسی فاسق و فاجر کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو وہ استدراج ہے۔ اب آپ کیا سمجھتے ہیں ایسی صورت میں ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ کسی بھی محیر العقول واقعہ کو بطور کرامت تسلیم کرنے یا اس کی تصدیق کرنے سے قبل یہ ضرور جان لیں کہ جس شخص سے یہ کرامت منسوب ہے وہ نیک تھا یا نہیں؟
پھر غیر متعلق سوال ہے
زیادہ سوالات کے لئے پیشگی معذرت۔ آپ تفصیل لکھنے کے بجائے فقط ہاں، ناں یا مختصر وضاحت کے ساتھ جواب لکھ دیجئے تو کافی ہے، ان شاء اللہ۔
آپ سوال ضرور کریں لیکن صرف متعلق سوال لیکن ساتھ میں جو سوال آپ سے کیے گئے ہیں ان کا جواب بھی ضرور دیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم تلمیذ بھائی، جو سوالات پوچھے گئے۔ وہ ہرگز غیر متعلق نہیں ہیں۔ ہاں ان کے متعلق وضاحت ابھی باقی ہے۔ کرامت کے تعلق سے ان سوالات کے جوابات اس لئے ضروری ہیں تاکہ تبلیغی جماعت کے بزرگوں یا فضائل اعمال سے متعلق کوئی ایسی حکایت پیش نہ کی جائے جو آپ کے اصولوں پر شرک کی تعریف پر پورا نہ اتر سکتی ہو۔ درج بالا سوالات فقط کرامت کے تعلق سے بہتر تفہیم کے لئے پیش کئے گئے ہیں۔ ان سب سوالات کا تعلق فضائل اعمال میں موجود کسی نہ کسی کرامت سے بنتا ہے۔ اگر ابھی سب کرامات کو بیان کر کے سوالات کی وضاحت شروع کر دی گئی تو بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔ اس لئے ازراہ کرم مختصراً صرف درج ذیل نکتہ کی وضاحت کر دیجئے کہ:

فوت شدہ بزرگ سے براہ راست مدد چاہنا اور بزرگ کا اس شخص کی مدد کرنے پر قادر ہو جانا کیا اس بزرگ کی کرامت کہلائی جا سکتی ہے۔
یا مدد چاہنے والا شخص غیر اللہ سے استغاثہ کر کے شرکیہ کام کا مرتکب ٹھہرے گا۔
یا / اور مدد کرنے والا شخص، فوت ہو جانے کے بعد ایسی کرامت دکھا ہی نہیں سکتا۔
درج بالا تینوں پوائنٹس کے سامنے فقط ہاں یا نہیں کہہ کر جواب دیا جا سکتا ہے۔ یا مختصر وضاحت ضروری ہو تو پیش کر دیں۔ یقین مانئے تبلیغی جماعت اور اس کے عقائد کے موضوع سے میں بالکل نہیں ہٹوں گا اور ازراہ کرم یہ اعتماد کر لیں کہ درج بالا سوال تبلیغی جماعت کے عقائد سے بہت ہی تعلق رکھتا ہے، جس کا اندازہ تبلیغی جماعت کے لٹریچر سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والے شخص کو بغیر وضاحت کے پہلے ہی سے معلوم ہو چکا ہوگا۔ پیشگی شکریہ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم تلمیذ بھائی، جو سوالات پوچھے گئے۔ وہ ہرگز غیر متعلق نہیں ہیں۔ ہاں ان کے متعلق وضاحت ابھی باقی ہے۔ کرامت کے تعلق سے ان سوالات کے جوابات اس لئے ضروری ہیں تاکہ تبلیغی جماعت کے بزرگوں یا فضائل اعمال سے متعلق کوئی ایسی حکایت پیش نہ کی جائے جو آپ کے اصولوں پر شرک کی تعریف پر پورا نہ اتر سکتی ہو۔ درج بالا سوالات فقط کرامت کے تعلق سے بہتر تفہیم کے لئے پیش کئے گئے ہیں۔ ان سب سوالات کا تعلق فضائل اعمال میں موجود کسی نہ کسی کرامت سے بنتا ہے۔ اگر ابھی سب کرامات کو بیان کر کے سوالات کی وضاحت شروع کر دی گئی تو بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔ اس لئے ازراہ کرم مختصراً صرف درج ذیل نکتہ کی وضاحت کر دیجئے کہ:
درج بالا تینوں پوائنٹس کے سامنے فقط ہاں یا نہیں کہہ کر جواب دیا جا سکتا ہے۔ یا مختصر وضاحت ضروری ہو تو پیش کر دیں۔ یقین مانئے تبلیغی جماعت اور اس کے عقائد کے موضوع سے میں بالکل نہیں ہٹوں گا اور ازراہ کرم یہ اعتماد کر لیں کہ درج بالا سوال تبلیغی جماعت کے عقائد سے بہت ہی تعلق رکھتا ہے، جس کا اندازہ تبلیغی جماعت کے لٹریچر سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والے شخص کو بغیر وضاحت کے پہلے ہی سے معلوم ہو چکا ہوگا۔ پیشگی شکریہ۔
آپ کی پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ فضائل اعمال میں سے کسی اور کرامت والے واقعے پر بات کرنا چاہتے ہیں اور جو واقعہ آپ کے ذہن میں ہے آپ کو یہ سوال اس سے متعلق لگ رہے ہیں ۔
ٹھیک ہے مجھے بھی فضائل اعمال کے دیگر واقعات پر بحث کرنے سے کوئی اعتراض نہیں ۔ لیکن پہلے آپ اور آپ کے ساتھی یہ اعلان کردیں کہ قرطبی والا شرکیہ نہیں اور اس طرح کی کرامت آپ حضرات کے ہاں مردود نہیں ۔ اگر آپ اور آپ کے ساتھی یہ اعلان کردیتے ہیں تو مجھے فضائل اعمال سے دوسرے واقعات پر بات چیت کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ۔ اور آپ کے ان سوالوں کا جواب بھی دے دوں گآ ۔ یا آپ ان سوالوں کا قرطبی والے واقعہ سے تعلق ثابت کریں ۔
آپ کے یہ سوالات کسی اور واقعہ سے متعلق ہوسکتے ہیں لیکن قرطبی والے واقعہ سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو رہا
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
خوبصورت بحث ہے ،ایک سوال مجھے سمجھا دے کہ حضرت سیلمان علیہ اسلام کے واقعہ میں دعوی کر کے کہنا کہ میں تخت لا سکتا ہوں،اگر بلکل ہی بندہ کرمت میں بے اختیار ہے تو یہ کیسے ہو گیا؟
بہت سارے جادو گر،اور سفلی علم والے جب چاہیے عمال سفلیہ سے کام لے سکتے ہیں حتی کے دور نزدیک کی خبریں بھی دیتے ہیں،اسی طرح دجال کے پاس بھی اختارات ہوںگے تو کیا ایک بندہ مومن ان لوگوں کے بلمکابل بے بس ہے،کہ کشف ولہام کا کوئی اختیار نہیں رکھتا؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو اختارات کی حدود کیا ہے اور اگر نہ میں ہے تو ثبوت کیا ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ جس کتاب کو تم فضول کہ رہے ہو اس میں اکثر احادیث صحاح ستہ کی ہیں۔او وہابیوں۔۔ رسول اللہ کی حدیثوں کہ فضول کہنے والو۔
واقعی تم وہابی گستاخ ہو۔
کیا قرآن کی آیات اور نماز ذکر قرآن کے متعلق منتحب احادیث ، حدیث کی کتابوں سے لکر ایک کتاب میں جمع کر دی جائیں تو کتاب فضول ہو جاتی ہے۔ سنا تو تھا کہ وہابی دشمن رسول ہے آج آپنی انکھوں سے پڑھ لیا
آپ کے فرقے کے علماء نے آپ کے ذہن میں اہلحدیثوں کے خلاف اتنا زہر گھول دیا ہے کہ اب آپ بغیر سوچے سمجھے ہر کسی کو وہابی کہنے پر تلے ہوئے ہیں، اگر آپ "مسلم" صاحب کی دیگر اور پوسٹس کو ملاحظہ کر لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ "مسلم" صاحب کا اہلحدیث مسلک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، ان کا تعلق منکرین حدیث سے ہے۔
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
کیا کوئی شخص ثابت کرسکتا ہے کے عام لوگ تبلیغ جماعت میں جانے کے بعد قبر پرستی میں مبتلا ہوگے ہوں یا بدعت میں مبتلا ہو گے کہ انہوں نے عید میلاد کا جلوس نکالا ہو ۔ کئی مرد ایسے ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ڈاڑھی رکھ لی اور کئی خواتین نے پردہ کرنا شروع کردیا ۔
تبلیغی جماعت میں کچھ خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن اس کی خوبیوں کا بھی تذکرہ کرنا چاہئیے ۔
تبلیغی جماعت میں خوبیاں بھی ہیں مگر ان کا یہ اسلوب مجھے بالکل اچھا نہیں لگا جو ہر بات میں بزرگوں حوالہ دیتے ہیں اس کی بجائے قرآن کی آیات اور احادیث پڑھ کر لوگوں کو سمجھائیں تو بہتر ہے اور کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہو گا
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
بے شک دیوبندی دین کے نام پر محنت بہت کرتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے اصلی چیز کے مقابلے میں نقلی اور جعلی چیز کی اشاعت کرنے میں محنت کی بہت ضرورت ہوتی ہیں ۔ اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے ذریعہ عوام کو دیوبندی عقیدہ کی طرف مائل کیا جائے تاکہ دیوبندی علماء کی عزت و شہرت اور چندہ خوب ہو ۔۔۔ علامہ ابن کثیر رحمتہ اللہ الیہ نے اپنی تفسیر ابن کثیر میں سورة الغاشية کی آیت عاملة ناصبة تصلى نارا حامية کی تفسیر میں ایک بڈا اہم واقعہ نقل کیا ہیں ۔ چناچہ ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہرے والے ہونگے ۔ ذلت اور پستی ان پر برس رہی ہوگی ۔ان کے اعمال غارت ہوگئے ہونگے۔ انہونے بڈے بڈے اعمال کئے ہوں گے ۔ سخت تقلیفیں اٹھائی ہونگی وہ آج بھڈکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ ایک خانکاہ کے پاس سے گزرے وہاں ایک راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر رو دئے لوگوں نے پوچھا حضرت کیا بات ہیں تو فرمایا اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی ۔ کہ عبادت، ریاضت تو کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے۔ تفسیر ابن کثیرسورة کہف کی آیت ۔ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہے :::: قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعا ۔ ترجمہ :: اے محمدؐ، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں وہ ہے کی جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وہ اس گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کررہے ہیں ۔ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہے جو اپنے طور پر عبادت و ریاضت تو کرتے ہیں اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کررہے ہیں اور وہ مقبول اور پسندیدہ اللہ ہے چونکہ وہ اللہ کے بتلائے ہوئے تریقوں کے مطابق نہ تھی بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگئیں ۔۔
اللہ تعالیٰ دیوبندی بھائیوں کو ہدایت دے آمین !!!
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
کچھ خوبیاں کچھ خامیاں تو سب میں ہوتے ہیں لیکن تبلیغیوں کی خوبیاں زیادہ ہے ایک خامی کہ وہ لوگوں کو سوچنے سے منع کرتے ہیں
 

umaribnalkhitab

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
18
السلام و علیکم محترمہ مقلدہ صاحبہ!
اس اسلامی فورم میں لکھ کر پوسٹ کرنے سے قبل دیکھ بھی لیا کریں کہ آپ نے کیا کمپوز کیا ہے۔
کم از کم اللہ تو لکھنا سیکھ ہی لیں

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 
Top