جزاک اللہ تلمیذ بھائی۔ بے شک اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ قرآن و حدیث کے خلاف دلیل قائم کرنے والے واقعہ کا انکار ہی بہتر طریقہ ہے۔ پھر بھی تائید کے لئے شکریہ۔
اب ہمارے حساب سے درج ذیل امور ایسے ہیں جو قرآن و حدیث کے دلائل کے صریحاً خلاف ہیں۔ آپ ترتیب وار ان پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر دیجئے۔
1۔ غیب کے چند اخبار پر کسی نیک شخص کا کرامتاً یا کشفاً مطلع ہو جانا الگ کر لیجئے۔ ہم اس پر عارضی طور پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔ لیکن قرآن و حدیث سے ہمیں یہ عقیدہ ملتا ہے کہ انبیاء سمیت کسی شخص کو ایسا علم کبھی نہیں دیا گیا کہ جس کی مدد سے وہ جب چاہے غیب کی کوئی بھی بات معلوم کر لے۔ اس علم کو علم غیب کہا جاتا ہے۔ یاد رہے بذریعہ وحی یا کشف یا بطور کرامت غیب کی بعض خبریں مل جانا الگ معاملہ ہے۔ اور بغیر کسی وحی، کشف کے ہمہ وقت غیب کی باتوں کو معلوم کرنے کی قدرت پا لینا الگ معاملہ ہے۔ اور آپ کی رائے اسی ثانی الذکر معاملہ میں درکار ہے۔
2۔ مافوق الاسباب مدد کے لئے کسی پیر، بزرگ یا نیک شخص کو پکارنا کہ وہ دور سے بھی بغیر ظاہری اسباب کے میری حاجت سنے گا اور میری مدد کرے گا، قرآن کی رو سے کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا ، استمداد لغیراللہ کی مد میں آتا ہے جو شرک اکبر ہے۔ اب اگر کوئی واقعہ یا کرامت یہ بتائے کہ کسی شخص نے ڈوبتی کشتی سے اپنے پیر کو مدد کے لئے پکارا اور پیر صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی فریاد سنی ، بلکہ اس کی مدد کو بھی پہنچے اور کشتی کو پار لگا دیا۔ تو اس قسم کی کرامت میں دو شرکیہ پہلو ہیں:
اول یہ کہ اس جاہل شخص نے مافوق الاسباب مدد کے لئے پیر کو پکارا ، جب کہ مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسے مافوق الاسباب مدد کے لئے فقط اللہ تعالیٰ کو پکاریں۔
دوم یہ کہ پیر صاحب مدد کو واقعتاً پہنچ بھی گئے۔ جس سے اس جاہل شخص کا اپنے شرکیہ عقیدہ پر ایمان اور پختہ ہو گیا کہ واقعتاً نیک لوگ مافوق الاسباب مدد کرنے پر بھی ہمہ وقت قادر ہوتے ہیں۔ اور اس کرامت کو سننے ، پڑھنے، اس کی تصدیق کرنے والے ہر شخص کا ایمان اسی بات پر پختہ ہو جائے گا کہ ڈوبتی کشتی سے مافوق الاسباب طور پر پیر کو پکارنا ، جائز ہے۔
اس تفصیل کے بعد ، آپ اپنی رائے بتا دیجئے کہ ایسی کرامت آپ کے نزدیک قرآن و حدیث کے خلاف عقیدہ کی ترویج کی وجہ سے شرک کی مد میں آ کر قابل تردید ٹھہرے گی یا آپ اس قسم کی کرامت کی تائید کریں گے؟
3۔ ولی کا انتقال ہو جانے کے باوجود، وہ لوگوں کی فریاد سننے، اور مدد کرتے رہنے پر قادر ہو۔ کیا یہ خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
4۔ ولی کا کرامت پر قدرت پا جانا کہ جب چاہے وہ کرامت دکھا دے، خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
عموماً کرامت اور استدراج کے درمیان ایک وجہ تفریق یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اگر نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ شخص کے ہاتھ پر صادر ہو تو کرامت ہے اور اگر کسی فاسق و فاجر کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو وہ استدراج ہے۔ اب آپ کیا سمجھتے ہیں ایسی صورت میں ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ کسی بھی محیر العقول واقعہ کو بطور کرامت تسلیم کرنے یا اس کی تصدیق کرنے سے قبل یہ ضرور جان لیں کہ جس شخص سے یہ کرامت منسوب ہے وہ نیک تھا یا نہیں؟
زیادہ سوالات کے لئے پیشگی معذرت۔ آپ تفصیل لکھنے کے بجائے فقط ہاں، ناں یا مختصر وضاحت کے ساتھ جواب لکھ دیجئے تو کافی ہے، ان شاء اللہ۔
اب ہمارے حساب سے درج ذیل امور ایسے ہیں جو قرآن و حدیث کے دلائل کے صریحاً خلاف ہیں۔ آپ ترتیب وار ان پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر دیجئے۔
1۔ غیب کے چند اخبار پر کسی نیک شخص کا کرامتاً یا کشفاً مطلع ہو جانا الگ کر لیجئے۔ ہم اس پر عارضی طور پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔ لیکن قرآن و حدیث سے ہمیں یہ عقیدہ ملتا ہے کہ انبیاء سمیت کسی شخص کو ایسا علم کبھی نہیں دیا گیا کہ جس کی مدد سے وہ جب چاہے غیب کی کوئی بھی بات معلوم کر لے۔ اس علم کو علم غیب کہا جاتا ہے۔ یاد رہے بذریعہ وحی یا کشف یا بطور کرامت غیب کی بعض خبریں مل جانا الگ معاملہ ہے۔ اور بغیر کسی وحی، کشف کے ہمہ وقت غیب کی باتوں کو معلوم کرنے کی قدرت پا لینا الگ معاملہ ہے۔ اور آپ کی رائے اسی ثانی الذکر معاملہ میں درکار ہے۔
2۔ مافوق الاسباب مدد کے لئے کسی پیر، بزرگ یا نیک شخص کو پکارنا کہ وہ دور سے بھی بغیر ظاہری اسباب کے میری حاجت سنے گا اور میری مدد کرے گا، قرآن کی رو سے کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا ، استمداد لغیراللہ کی مد میں آتا ہے جو شرک اکبر ہے۔ اب اگر کوئی واقعہ یا کرامت یہ بتائے کہ کسی شخص نے ڈوبتی کشتی سے اپنے پیر کو مدد کے لئے پکارا اور پیر صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی فریاد سنی ، بلکہ اس کی مدد کو بھی پہنچے اور کشتی کو پار لگا دیا۔ تو اس قسم کی کرامت میں دو شرکیہ پہلو ہیں:
اول یہ کہ اس جاہل شخص نے مافوق الاسباب مدد کے لئے پیر کو پکارا ، جب کہ مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسے مافوق الاسباب مدد کے لئے فقط اللہ تعالیٰ کو پکاریں۔
دوم یہ کہ پیر صاحب مدد کو واقعتاً پہنچ بھی گئے۔ جس سے اس جاہل شخص کا اپنے شرکیہ عقیدہ پر ایمان اور پختہ ہو گیا کہ واقعتاً نیک لوگ مافوق الاسباب مدد کرنے پر بھی ہمہ وقت قادر ہوتے ہیں۔ اور اس کرامت کو سننے ، پڑھنے، اس کی تصدیق کرنے والے ہر شخص کا ایمان اسی بات پر پختہ ہو جائے گا کہ ڈوبتی کشتی سے مافوق الاسباب طور پر پیر کو پکارنا ، جائز ہے۔
اس تفصیل کے بعد ، آپ اپنی رائے بتا دیجئے کہ ایسی کرامت آپ کے نزدیک قرآن و حدیث کے خلاف عقیدہ کی ترویج کی وجہ سے شرک کی مد میں آ کر قابل تردید ٹھہرے گی یا آپ اس قسم کی کرامت کی تائید کریں گے؟
3۔ ولی کا انتقال ہو جانے کے باوجود، وہ لوگوں کی فریاد سننے، اور مدد کرتے رہنے پر قادر ہو۔ کیا یہ خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
4۔ ولی کا کرامت پر قدرت پا جانا کہ جب چاہے وہ کرامت دکھا دے، خلاف قرآن و سنت ہے یا نہیں؟
عموماً کرامت اور استدراج کے درمیان ایک وجہ تفریق یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اگر نیک اور پابند صوم و صلوٰۃ شخص کے ہاتھ پر صادر ہو تو کرامت ہے اور اگر کسی فاسق و فاجر کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو وہ استدراج ہے۔ اب آپ کیا سمجھتے ہیں ایسی صورت میں ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ کسی بھی محیر العقول واقعہ کو بطور کرامت تسلیم کرنے یا اس کی تصدیق کرنے سے قبل یہ ضرور جان لیں کہ جس شخص سے یہ کرامت منسوب ہے وہ نیک تھا یا نہیں؟
زیادہ سوالات کے لئے پیشگی معذرت۔ آپ تفصیل لکھنے کے بجائے فقط ہاں، ناں یا مختصر وضاحت کے ساتھ جواب لکھ دیجئے تو کافی ہے، ان شاء اللہ۔