محترم تلمیذ بھائی،
آپ کے کہنے پر پرانی باتوں کو نہیں چھیڑتا، ابن داود بھائی نے بھی وضاحت کر دی ہے۔ انہیں الگ دھاگے میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ آپ کے بیان میں جس اختلاف کا میں نے ذکر کیا تھا۔ اس کا آپ نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ لیکن آپ کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی حد تک ہم سےا تفاق رکھتے ہیں۔ مکرر:
نیز آپ یہ بھی فرما دیں کہ کرامت سے کوئی عقیدہ یا عمل اخذ کرنا درست نہیں، یہ بات کس ثقہ دیوبندی عالم دین سے منقول ہے؟ تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ آپ کا انفرادی عقیدہ ہے یا جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے؟
کرامات کے فضائل اعمال میں ذکر کی وجہ اس لئے پوچھی تھی کہ جو تبلیغی بھائی اس کرامت کو پڑھے گا، سب نہ سہی تو اکثر مخلص حضرات ضرور اس طرح کے ستر ہزار کے وظیفہ پر مشتمل نصاب انپے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے ضرور پڑھ رکھتے ہوں گے۔ اور اس پر اپنی جہنم سے نجات کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں گے۔ اگر یہ وظیفہ بدعت ہے تو پھر عقیدہ کی بدعت ہے نا کہ اعمال کی۔ کیونکہ اس عمل کے ساتھ جہنم سے یقینی نجات کا عقیدہ نتھی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ذبیحہ تو عمل ہے لیکن اگر اس کے پیچھے عقیدہ غیر اللہ کی خوشنودی ہو، تو یہی عقیدہ کی مد میں آ جاتا ہے۔
خیر، کرامات کے تعلق سے دراصل کچھ الجھنیں ہیں۔ جب تک وہ حل نہ ہو جائیں کسی مخصوص کرامت پر بات کر کے کسی نتیجہ تک چھلانگ لگانے سے، بات کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ کرامت کے تعلق سے اگر کچھ باتیں واضح کر دیں تو مشکور رہوں گا۔
۱۔ کسی ایسی کرامت کا ذکر فرما دیں جو آپ کے نزدیک بھی خلاف کتاب و سنت کا درجہ رکھتی ہو۔ علمائے دیوبند کی کتب میں ، علمائے بریلوی کی کتب پر بلاشبہ ایسی سینکڑوں کرامات کا رد موجود ہے۔ بطور مثال کوئی ایک کرامت پیش فرما دیجئے۔
۲۔ کرامت بے شک خرق عادت ہوا کرتی ہے لیکن اگر کسی نیک بزرگ کی جانب کوئی ایسی کرامت منسوب ہو جس کو درست ماننے سے کسی اجماعی عقیدہ پر ضرب پڑتی ہو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو کیا کرامت کا انکار کر دینا چاہئے یا نہیں؟ آسانی کی خاطر، توہین رسالت کی مثال یہ ہے کہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی جانب منسوب کچھ کرامات ایسی ہیں جن میں خاں صاحب تو جنازہ کی نماز کے امام ہوتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ مقتدی بنتے ہیں۔ کیا ایسی کرامت کا صدور ہو سکتا ہے؟ (یاد رہے اس قسم کی کرامات پر اکثر علمائے دیوبند نے خاں صاحب کا رد کر رکھا ہے) یا عقیدہ کی مثال یوں لے لیجئے۔ کہ مزاروں، قبروں سے فیض پانے کو دیوبندی عوام درست نہیں جانتے، اب کوئی کرامت ایسی ملے کہ جس سے معلوم ہو کہ کسی بزرگ کی قبر کی مٹی سے لوگوں کو فیض ملا، یا قبر والے نے حاضری دینے والے کی بات سنی، پھر جواب دیا یا پھر کسی کے خواب میں آ کر اس کی مدد کی۔ وغیرہ۔ تو کیا یہ کرامات درست اور ان کی تصدیق جائز ہے؟
دیکھئے، کرامت کے خرق عادت ہونے سے انکار نہیں۔ لیکن خرق عادت سے مراد عام نیچرل اشیاء کی ماہیت کو تبدیل کرنے پر قادر ہو جانا، کھانے وغیرہ میں برکت پیدا ہو جانا، تو ممکن الوقوع ہو سکتی ہیں۔ یا غیب کی ایک آدھ خبر پر اطلاع پا جانا ، ہمارے بیچ اختلافی سہی، لیکن چلیں اسے بھی علیحدہ رکھ لیں۔ لیکن کیا ایسی کرامات بھی ممکن ہو سکتی ہیں جن کے خلاف صریح نص موجود ہو۔ مثلاً آپ کے نزدیک بھی’’ کسی کو دور سے (مافوق الاسباب) پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہو گئی‘‘ کفریہ عقیدہ ہے۔ اب اگر کسی کرامت میں کوئی صاحب کسی پیر کو سمندر سے پکاریں اور انہیں گھر بیٹھے خبر ہوجائے بلکہ مرنے کے بعد بھی خبر ہوجائے اور وہ مافوق الاسباب اس کی مدد پر بھی قادر ہو گئے ہوں، تو ایسی کرامت کی تغلیط کے بجائے اسے اپنی کتب میں جگہ دے کر اس کی اشاعت کرنا درست ہے؟؟
آپ کے کہنے پر پرانی باتوں کو نہیں چھیڑتا، ابن داود بھائی نے بھی وضاحت کر دی ہے۔ انہیں الگ دھاگے میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ آپ کے بیان میں جس اختلاف کا میں نے ذکر کیا تھا۔ اس کا آپ نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ لیکن آپ کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی حد تک ہم سےا تفاق رکھتے ہیں۔ مکرر:
اور آپ کا جواب:پھر اس سے بھی اہم تر بات جسے آپ اعمال و عقیدہ میں تفریق کر کے مستقل نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ یہ کہ اسی زیر بحث حکایت سے اگر آپ ستر ہزار کے وظیفہ کا سنت ہونا یا اس سے جہنم سے نجات پا جانا برحق سمجھتے ہیں تو آپ کی یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ کرامت سے عقیدہ یا سنت و بدعت اخذ کرنا درست نہیں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کرامت سے وظیفہ سنت ثابت نہیں ہو سکتا، تو پھر کرامت کا دفاع یا اس کی تصدیق کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ اگر وظیفہ سنت نہیں، تو کرامت تو خودبخود غلط ثابت ہو گئی؟ امید ہے کہ آپ تک بات پہنچانے میں کامیاب ہو سکا ہوں گا کہ یہ عقیدہ یا عمل پر بحث کی بات نہیں، بلکہ کرامت ہی کے تعلق سے آپ کی پیش کردہ وضاحت میں اختلاف کی تشریح درکار ہے۔
محترم، سوال یہ ہے کہ نوجوان کی کرامت ہی پر تو شک تھا اور وظیفہ کی صحت پر بھی۔ جسے جانچنے کے لئے قرطبی صاحب نے سنے سنائے وظیفہ کو نوجوان کی ماں کو دل ہی دل میں ایصال ثواب کر دیا۔ جس سے انہیں وظیفہ اور نوجوان کی کرامت دونوں کی صحت کا یقین ہو گیا۔ اگریہ ایصال ثواب والی بات ہی الگ کر دی جائے تو نہ تو وظیفہ کی صحت معلوم ہو پائے گی کہ سنت ہے یا بدعت۔ اور نہ نوجوان کی کرامت ہی باقی رہ سکتی ہے۔ اور نوجوان کی کرامت جو کہ اس کو اپنی والدہ کی حالت پر آگاہی سے متعلق تھی، اسے اگر برحق مان لیا جائے تو وظیفہ کا برحق ہونا خودبخود ثابت ہوا۔ امید ہے کہ آپ اس پر غور فرمائیں گے اور اس کی کوئی مناسب تشریح پیش کریں گے۔بھائی اگر قرطبی صاحب کا ستر ہزار بار وظیفہ الگ بھی رکھ دیں تو نوجوان کی کرامت اپنی جگہ ہے کہ اس کو اپنی والدہ کی حالت سے بحکم الہی آگاہی ہوئی ۔
نیز آپ یہ بھی فرما دیں کہ کرامت سے کوئی عقیدہ یا عمل اخذ کرنا درست نہیں، یہ بات کس ثقہ دیوبندی عالم دین سے منقول ہے؟ تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ آپ کا انفرادی عقیدہ ہے یا جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے؟
کرامات کے فضائل اعمال میں ذکر کی وجہ اس لئے پوچھی تھی کہ جو تبلیغی بھائی اس کرامت کو پڑھے گا، سب نہ سہی تو اکثر مخلص حضرات ضرور اس طرح کے ستر ہزار کے وظیفہ پر مشتمل نصاب انپے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے ضرور پڑھ رکھتے ہوں گے۔ اور اس پر اپنی جہنم سے نجات کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں گے۔ اگر یہ وظیفہ بدعت ہے تو پھر عقیدہ کی بدعت ہے نا کہ اعمال کی۔ کیونکہ اس عمل کے ساتھ جہنم سے یقینی نجات کا عقیدہ نتھی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ذبیحہ تو عمل ہے لیکن اگر اس کے پیچھے عقیدہ غیر اللہ کی خوشنودی ہو، تو یہی عقیدہ کی مد میں آ جاتا ہے۔
خیر، کرامات کے تعلق سے دراصل کچھ الجھنیں ہیں۔ جب تک وہ حل نہ ہو جائیں کسی مخصوص کرامت پر بات کر کے کسی نتیجہ تک چھلانگ لگانے سے، بات کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ کرامت کے تعلق سے اگر کچھ باتیں واضح کر دیں تو مشکور رہوں گا۔
۱۔ کسی ایسی کرامت کا ذکر فرما دیں جو آپ کے نزدیک بھی خلاف کتاب و سنت کا درجہ رکھتی ہو۔ علمائے دیوبند کی کتب میں ، علمائے بریلوی کی کتب پر بلاشبہ ایسی سینکڑوں کرامات کا رد موجود ہے۔ بطور مثال کوئی ایک کرامت پیش فرما دیجئے۔
۲۔ کرامت بے شک خرق عادت ہوا کرتی ہے لیکن اگر کسی نیک بزرگ کی جانب کوئی ایسی کرامت منسوب ہو جس کو درست ماننے سے کسی اجماعی عقیدہ پر ضرب پڑتی ہو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو کیا کرامت کا انکار کر دینا چاہئے یا نہیں؟ آسانی کی خاطر، توہین رسالت کی مثال یہ ہے کہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی جانب منسوب کچھ کرامات ایسی ہیں جن میں خاں صاحب تو جنازہ کی نماز کے امام ہوتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ مقتدی بنتے ہیں۔ کیا ایسی کرامت کا صدور ہو سکتا ہے؟ (یاد رہے اس قسم کی کرامات پر اکثر علمائے دیوبند نے خاں صاحب کا رد کر رکھا ہے) یا عقیدہ کی مثال یوں لے لیجئے۔ کہ مزاروں، قبروں سے فیض پانے کو دیوبندی عوام درست نہیں جانتے، اب کوئی کرامت ایسی ملے کہ جس سے معلوم ہو کہ کسی بزرگ کی قبر کی مٹی سے لوگوں کو فیض ملا، یا قبر والے نے حاضری دینے والے کی بات سنی، پھر جواب دیا یا پھر کسی کے خواب میں آ کر اس کی مدد کی۔ وغیرہ۔ تو کیا یہ کرامات درست اور ان کی تصدیق جائز ہے؟
دیکھئے، کرامت کے خرق عادت ہونے سے انکار نہیں۔ لیکن خرق عادت سے مراد عام نیچرل اشیاء کی ماہیت کو تبدیل کرنے پر قادر ہو جانا، کھانے وغیرہ میں برکت پیدا ہو جانا، تو ممکن الوقوع ہو سکتی ہیں۔ یا غیب کی ایک آدھ خبر پر اطلاع پا جانا ، ہمارے بیچ اختلافی سہی، لیکن چلیں اسے بھی علیحدہ رکھ لیں۔ لیکن کیا ایسی کرامات بھی ممکن ہو سکتی ہیں جن کے خلاف صریح نص موجود ہو۔ مثلاً آپ کے نزدیک بھی’’ کسی کو دور سے (مافوق الاسباب) پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہو گئی‘‘ کفریہ عقیدہ ہے۔ اب اگر کسی کرامت میں کوئی صاحب کسی پیر کو سمندر سے پکاریں اور انہیں گھر بیٹھے خبر ہوجائے بلکہ مرنے کے بعد بھی خبر ہوجائے اور وہ مافوق الاسباب اس کی مدد پر بھی قادر ہو گئے ہوں، تو ایسی کرامت کی تغلیط کے بجائے اسے اپنی کتب میں جگہ دے کر اس کی اشاعت کرنا درست ہے؟؟