• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم تلمیذ بھائی،
آپ کے کہنے پر پرانی باتوں کو نہیں چھیڑتا، ابن داود بھائی نے بھی وضاحت کر دی ہے۔ انہیں الگ دھاگے میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ آپ کے بیان میں جس اختلاف کا میں نے ذکر کیا تھا۔ اس کا آپ نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ لیکن آپ کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی حد تک ہم سےا تفاق رکھتے ہیں۔ مکرر:

پھر اس سے بھی اہم تر بات جسے آپ اعمال و عقیدہ میں تفریق کر کے مستقل نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ یہ کہ اسی زیر بحث حکایت سے اگر آپ ستر ہزار کے وظیفہ کا سنت ہونا یا اس سے جہنم سے نجات پا جانا برحق سمجھتے ہیں تو آپ کی یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ کرامت سے عقیدہ یا سنت و بدعت اخذ کرنا درست نہیں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کرامت سے وظیفہ سنت ثابت نہیں ہو سکتا، تو پھر کرامت کا دفاع یا اس کی تصدیق کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ اگر وظیفہ سنت نہیں، تو کرامت تو خودبخود غلط ثابت ہو گئی؟ امید ہے کہ آپ تک بات پہنچانے میں کامیاب ہو سکا ہوں گا کہ یہ عقیدہ یا عمل پر بحث کی بات نہیں، بلکہ کرامت ہی کے تعلق سے آپ کی پیش کردہ وضاحت میں اختلاف کی تشریح درکار ہے۔
اور آپ کا جواب:

بھائی اگر قرطبی صاحب کا ستر ہزار بار وظیفہ الگ بھی رکھ دیں تو نوجوان کی کرامت اپنی جگہ ہے کہ اس کو اپنی والدہ کی حالت سے بحکم الہی آگاہی ہوئی ۔
محترم، سوال یہ ہے کہ نوجوان کی کرامت ہی پر تو شک تھا اور وظیفہ کی صحت پر بھی۔ جسے جانچنے کے لئے قرطبی صاحب نے سنے سنائے وظیفہ کو نوجوان کی ماں کو دل ہی دل میں ایصال ثواب کر دیا۔ جس سے انہیں وظیفہ اور نوجوان کی کرامت دونوں کی صحت کا یقین ہو گیا۔ اگریہ ایصال ثواب والی بات ہی الگ کر دی جائے تو نہ تو وظیفہ کی صحت معلوم ہو پائے گی کہ سنت ہے یا بدعت۔ اور نہ نوجوان کی کرامت ہی باقی رہ سکتی ہے۔ اور نوجوان کی کرامت جو کہ اس کو اپنی والدہ کی حالت پر آگاہی سے متعلق تھی، اسے اگر برحق مان لیا جائے تو وظیفہ کا برحق ہونا خودبخود ثابت ہوا۔ امید ہے کہ آپ اس پر غور فرمائیں گے اور اس کی کوئی مناسب تشریح پیش کریں گے۔

نیز آپ یہ بھی فرما دیں کہ کرامت سے کوئی عقیدہ یا عمل اخذ کرنا درست نہیں، یہ بات کس ثقہ دیوبندی عالم دین سے منقول ہے؟ تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ آپ کا انفرادی عقیدہ ہے یا جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے؟

کرامات کے فضائل اعمال میں ذکر کی وجہ اس لئے پوچھی تھی کہ جو تبلیغی بھائی اس کرامت کو پڑھے گا، سب نہ سہی تو اکثر مخلص حضرات ضرور اس طرح کے ستر ہزار کے وظیفہ پر مشتمل نصاب انپے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے ضرور پڑھ رکھتے ہوں گے۔ اور اس پر اپنی جہنم سے نجات کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں گے۔ اگر یہ وظیفہ بدعت ہے تو پھر عقیدہ کی بدعت ہے نا کہ اعمال کی۔ کیونکہ اس عمل کے ساتھ جہنم سے یقینی نجات کا عقیدہ نتھی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ذبیحہ تو عمل ہے لیکن اگر اس کے پیچھے عقیدہ غیر اللہ کی خوشنودی ہو، تو یہی عقیدہ کی مد میں آ جاتا ہے۔

خیر، کرامات کے تعلق سے دراصل کچھ الجھنیں ہیں۔ جب تک وہ حل نہ ہو جائیں کسی مخصوص کرامت پر بات کر کے کسی نتیجہ تک چھلانگ لگانے سے، بات کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ کرامت کے تعلق سے اگر کچھ باتیں واضح کر دیں تو مشکور رہوں گا۔

۱۔ کسی ایسی کرامت کا ذکر فرما دیں جو آپ کے نزدیک بھی خلاف کتاب و سنت کا درجہ رکھتی ہو۔ علمائے دیوبند کی کتب میں ، علمائے بریلوی کی کتب پر بلاشبہ ایسی سینکڑوں کرامات کا رد موجود ہے۔ بطور مثال کوئی ایک کرامت پیش فرما دیجئے۔

۲۔ کرامت بے شک خرق عادت ہوا کرتی ہے لیکن اگر کسی نیک بزرگ کی جانب کوئی ایسی کرامت منسوب ہو جس کو درست ماننے سے کسی اجماعی عقیدہ پر ضرب پڑتی ہو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو کیا کرامت کا انکار کر دینا چاہئے یا نہیں؟ آسانی کی خاطر، توہین رسالت کی مثال یہ ہے کہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی جانب منسوب کچھ کرامات ایسی ہیں جن میں خاں صاحب تو جنازہ کی نماز کے امام ہوتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ مقتدی بنتے ہیں۔ کیا ایسی کرامت کا صدور ہو سکتا ہے؟ (یاد رہے اس قسم کی کرامات پر اکثر علمائے دیوبند نے خاں صاحب کا رد کر رکھا ہے) یا عقیدہ کی مثال یوں لے لیجئے۔ کہ مزاروں، قبروں سے فیض پانے کو دیوبندی عوام درست نہیں جانتے، اب کوئی کرامت ایسی ملے کہ جس سے معلوم ہو کہ کسی بزرگ کی قبر کی مٹی سے لوگوں کو فیض ملا، یا قبر والے نے حاضری دینے والے کی بات سنی، پھر جواب دیا یا پھر کسی کے خواب میں آ کر اس کی مدد کی۔ وغیرہ۔ تو کیا یہ کرامات درست اور ان کی تصدیق جائز ہے؟

دیکھئے، کرامت کے خرق عادت ہونے سے انکار نہیں۔ لیکن خرق عادت سے مراد عام نیچرل اشیاء کی ماہیت کو تبدیل کرنے پر قادر ہو جانا، کھانے وغیرہ میں برکت پیدا ہو جانا، تو ممکن الوقوع ہو سکتی ہیں۔ یا غیب کی ایک آدھ خبر پر اطلاع پا جانا ، ہمارے بیچ اختلافی سہی، لیکن چلیں اسے بھی علیحدہ رکھ لیں۔ لیکن کیا ایسی کرامات بھی ممکن ہو سکتی ہیں جن کے خلاف صریح نص موجود ہو۔ مثلاً آپ کے نزدیک بھی’’ کسی کو دور سے (مافوق الاسباب) پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہو گئی‘‘ کفریہ عقیدہ ہے۔ اب اگر کسی کرامت میں کوئی صاحب کسی پیر کو سمندر سے پکاریں اور انہیں گھر بیٹھے خبر ہوجائے بلکہ مرنے کے بعد بھی خبر ہوجائے اور وہ مافوق الاسباب اس کی مدد پر بھی قادر ہو گئے ہوں، تو ایسی کرامت کی تغلیط کے بجائے اسے اپنی کتب میں جگہ دے کر اس کی اشاعت کرنا درست ہے؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم تلمیذ بھائی،
آپ کے کہنے پر پرانی باتوں کو نہیں چھیڑتا، ابن داود بھائی نے بھی وضاحت کر دی ہے۔ انہیں الگ دھاگے میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ آپ کے بیان میں جس اختلاف کا میں نے ذکر کیا تھا۔ اس کا آپ نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ لیکن آپ کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی حد تک ہم سےا تفاق رکھتے ہیں۔ مکرر:


اور آپ کا جواب:


محترم، سوال یہ ہے کہ نوجوان کی کرامت ہی پر تو شک تھا اور وظیفہ کی صحت پر بھی۔ جسے جانچنے کے لئے قرطبی صاحب نے سنے سنائے وظیفہ کو نوجوان کی ماں کو دل ہی دل میں ایصال ثواب کر دیا۔ جس سے انہیں وظیفہ اور نوجوان کی کرامت دونوں کی صحت کا یقین ہو گیا۔ اگریہ ایصال ثواب والی بات ہی الگ کر دی جائے تو نہ تو وظیفہ کی صحت معلوم ہو پائے گی کہ سنت ہے یا بدعت۔ اور نہ نوجوان کی کرامت ہی باقی رہ سکتی ہے۔ اور نوجوان کی کرامت جو کہ اس کو اپنی والدہ کی حالت پر آگاہی سے متعلق تھی، اسے اگر برحق مان لیا جائے تو وظیفہ کا برحق ہونا خودبخود ثابت ہوا۔ امید ہے کہ آپ اس پر غور فرمائیں گے اور اس کی کوئی مناسب تشریح پیش کریں گے۔

نیز آپ یہ بھی فرما دیں کہ کرامت سے کوئی عقیدہ یا عمل اخذ کرنا درست نہیں، یہ بات کس ثقہ دیوبندی عالم دین سے منقول ہے؟ تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ آپ کا انفرادی عقیدہ ہے یا جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے؟

کرامات کے فضائل اعمال میں ذکر کی وجہ اس لئے پوچھی تھی کہ جو تبلیغی بھائی اس کرامت کو پڑھے گا، سب نہ سہی تو اکثر مخلص حضرات ضرور اس طرح کے ستر ہزار کے وظیفہ پر مشتمل نصاب انپے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے ضرور پڑھ رکھتے ہوں گے۔ اور اس پر اپنی جہنم سے نجات کا عقیدہ بھی رکھتے ہوں گے۔ اگر یہ وظیفہ بدعت ہے تو پھر عقیدہ کی بدعت ہے نا کہ اعمال کی۔ کیونکہ اس عمل کے ساتھ جہنم سے یقینی نجات کا عقیدہ نتھی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ذبیحہ تو عمل ہے لیکن اگر اس کے پیچھے عقیدہ غیر اللہ کی خوشنودی ہو، تو یہی عقیدہ کی مد میں آ جاتا ہے۔

خیر، کرامات کے تعلق سے دراصل کچھ الجھنیں ہیں۔ جب تک وہ حل نہ ہو جائیں کسی مخصوص کرامت پر بات کر کے کسی نتیجہ تک چھلانگ لگانے سے، بات کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ کرامت کے تعلق سے اگر کچھ باتیں واضح کر دیں تو مشکور رہوں گا۔

۱۔ کسی ایسی کرامت کا ذکر فرما دیں جو آپ کے نزدیک بھی خلاف کتاب و سنت کا درجہ رکھتی ہو۔ علمائے دیوبند کی کتب میں ، علمائے بریلوی کی کتب پر بلاشبہ ایسی سینکڑوں کرامات کا رد موجود ہے۔ بطور مثال کوئی ایک کرامت پیش فرما دیجئے۔

۲۔ کرامت بے شک خرق عادت ہوا کرتی ہے لیکن اگر کسی نیک بزرگ کی جانب کوئی ایسی کرامت منسوب ہو جس کو درست ماننے سے کسی اجماعی عقیدہ پر ضرب پڑتی ہو یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو کیا کرامت کا انکار کر دینا چاہئے یا نہیں؟ آسانی کی خاطر، توہین رسالت کی مثال یہ ہے کہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی جانب منسوب کچھ کرامات ایسی ہیں جن میں خاں صاحب تو جنازہ کی نماز کے امام ہوتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ مقتدی بنتے ہیں۔ کیا ایسی کرامت کا صدور ہو سکتا ہے؟ (یاد رہے اس قسم کی کرامات پر اکثر علمائے دیوبند نے خاں صاحب کا رد کر رکھا ہے) یا عقیدہ کی مثال یوں لے لیجئے۔ کہ مزاروں، قبروں سے فیض پانے کو دیوبندی عوام درست نہیں جانتے، اب کوئی کرامت ایسی ملے کہ جس سے معلوم ہو کہ کسی بزرگ کی قبر کی مٹی سے لوگوں کو فیض ملا، یا قبر والے نے حاضری دینے والے کی بات سنی، پھر جواب دیا یا پھر کسی کے خواب میں آ کر اس کی مدد کی۔ وغیرہ۔ تو کیا یہ کرامات درست اور ان کی تصدیق جائز ہے؟

دیکھئے، کرامت کے خرق عادت ہونے سے انکار نہیں۔ لیکن خرق عادت سے مراد عام نیچرل اشیاء کی ماہیت کو تبدیل کرنے پر قادر ہو جانا، کھانے وغیرہ میں برکت پیدا ہو جانا، تو ممکن الوقوع ہو سکتی ہیں۔ یا غیب کی ایک آدھ خبر پر اطلاع پا جانا ، ہمارے بیچ اختلافی سہی، لیکن چلیں اسے بھی علیحدہ رکھ لیں۔ لیکن کیا ایسی کرامات بھی ممکن ہو سکتی ہیں جن کے خلاف صریح نص موجود ہو۔ مثلاً آپ کے نزدیک بھی’’ کسی کو دور سے (مافوق الاسباب) پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہو گئی‘‘ کفریہ عقیدہ ہے۔ اب اگر کسی کرامت میں کوئی صاحب کسی پیر کو سمندر سے پکاریں اور انہیں گھر بیٹھے خبر ہوجائے بلکہ مرنے کے بعد بھی خبر ہوجائے اور وہ مافوق الاسباب اس کی مدد پر بھی قادر ہو گئے ہوں، تو ایسی کرامت کی تغلیط کے بجائے اسے اپنی کتب میں جگہ دے کر اس کی اشاعت کرنا درست ہے؟؟

میرے اور ابن داود بھائی کے درمیان جو زیر بحث موضوع ہے کہ فضائل اعمال میں جن کرامات کا ذکر ہے وہ اکثر شرکیہ واقعات ہیںیا نہیں اور ان کا واقعہ ہونا ناممکن ہیں یا نہیں ۔ اسی میں سے ایک واقعہ پر بحث چل رہی ہے ۔ آپ کی پوسٹ سے میں کچھ کنفیوزن کا شکار ہوں ۔ آپ ذرا وضاحت کردیں
اس نوجوان کو جو کشف سے اپنی والدہ کی بعد از مرگ کیفیت کا پتہ چلا یہ ایک کرامت ہے اور قرطبی صاحب کے ایصال ثواب کے عمل سے قرطبی صاحب کو اس کرامت پر یقین آگيا ۔ یہاں دو باتیں ایک کرامت کا ظہور اور دوسرا کرامت پر مخاطب کا یقین آجانا ۔ جب آپ قرطبی کے عمل کے حوالہ سے بات کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے آپ کو اس کرامت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ نے جو اگلے سوال کیے ان سے لگتا ہے کہ آپ کو اس کرامت پر شک ہے ایسی کرامت واقع نہیں ہوسکتی ۔ صرف ایک وضاحت کردیں
کیا نوجوان کی اس کرامت کا ظہور ممکن ہے یا یہ شرکیہ واقعہ ہے
اس کے بعد پھر ہی آپ کی پوسٹ کا جواب دے سکوں گا
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
صرف ایک وضاحت کردیں
کیا نوجوان کی اس کرامت کا ظہور ممکن ہے یا یہ شرکیہ واقعہ ہے
اس کے بعد پھر ہی آپ کی پوسٹ کا جواب دے سکوں گا
جی میری رائے میں یہ انبیاء کا مقام ہے کہ وہ کسی مخصوص شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں قطعیت سے بذریعہ وحی مطلع ہوں۔ کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ وہ کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے سکیں۔ لہٰذا نوجوان کی یہ کرامت سخت گمراہ کن ہے کیونکہ اس سے یہ عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض بزرگان دین بعد از قیامت کے حالات سے بھی جزئی تفصیلات تک باخبر ہوتے ہیں۔

میں نے آپ کے سوال کا صراحت سے جواب دے دیا ہے۔ اب آپ میرے سوالات کا جواب صریح انداز میں دے دیں، خصوصاً یہ سوال کہ:

کوئی ایسی کرامت بتا دیں جو آپ کے نزدیک بھی شرک کی مد میں آ سکتی ہو۔ یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ ہر قسم کا محیر العقول واقعہ کرامت کے نام پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
جی میری رائے میں یہ انبیاء کا مقام ہے کہ وہ کسی مخصوص شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں قطعیت سے بذریعہ وحی مطلع ہوں۔
زیر بحث قصہ میں کس نے وحی کا دعویٰ کیاہے؟۔ کشف بھی ہوسکتاہے!بہرحال یہ جواب اچھی مثال ہے کہ ٹودی پوائنٹ بات سے کس طرح بات پیداکی جائے۔اوراصل سوال سے گریز کیاجائے۔
کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ وہ کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے سکیں
ایک ہے سرٹیفکٹ دینااورایک ہے اپنی معلومات کااظہار کرنا۔
یہ سوال راجاصاحب کے ذمہ ہوجاتاہے کہ وہ بتائیں کہ مذکورہ نوجوان نے سرٹیفکٹ دیاتھایااپنی معلومات کااظہار کیاتھا۔
سرٹیفکٹ جسے ہم اردو میں سند کہہ سکتے ہیں۔سند اورمعلومات میں فرق سے توہرشخص واقف ہوگا۔بہرحال کچھ بتادیتاہوں۔
ایک شخص میرے علم میں گریجویٹ ہے ۔میں کہتاہوں کہ فلاں شخص گریجویٹ ہے تویہ سرٹیفکٹ اورسند نہیں بلکہ مجھے جومعلوم ہے اس کااظہار ہے۔
یہی بات اگرکوئی تعلیمی ادارہ تحریری طورپر کسی کے بارے میں کہے تو اسے سند دینایاراجاصاحب کے الفاظ میں سرٹیفکٹ دیناکہیں گے۔
لہٰذا نوجوان کی یہ کرامت سخت گمراہ کن ہے کیونکہ اس سے یہ عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض بزرگان دین بعد از قیامت کے حالات سے بھی جزئی تفصیلات تک باخبر ہوتے ہیں۔
کرامت سے عقیدہ کشیدکرنا صرف غیرمقلدین حضرات کاشیوہ اورخاصہ ہے۔ہمارے نزدیک توکرامت کسی بزرگ سے منسوب ایک واقعہ ہے جوصحیح بھی ہوسکتاہے اوراس نسبت مین غلطی بھی ہوسکتی ہے لیکن اس سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔جب خبرواحد ہمارے نزدیک عقاءد میں معتبر نہیں ہے تو کسی کتاب میں مذکور کوئی واقعہ کس طرح عقیدہ بن جائے گا؟
افسوس کہ طالب الرحمن نے یہی مغالطہ دے کر پوری کتاب الدیوبندیہ نامی لکھ دی ہے کہ کرامت کو اثبات عقائد میں کافی سمجھاہے لیکن جولوگ عقل وشعور سے بہرہ ور ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کتاب کی قدروقیمت بس اسی مغالطے پر ٹکی ہوئی ہے جہاں کسی نے اس مغالطے کاپردہ چاک کیایہ کتاب علمی ثقاہت ومتانت کے درجہ سے دھڑام سے نیچے گرجاتی ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ندوی صاحب،
آپ کے جواب پر بھی گفتگو کر لیتے ہیں۔ پہلے آپ یا تلمیذ صاحب ہمارے بھی اس سوال کا جواب عنایت فرما دیں۔

کوئی ایسی کرامت بتا دیں جو آپ کے نزدیک بھی شرک کی مد میں آ سکتی ہو۔ یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ ہر قسم کا محیر العقول واقعہ کرامت کے نام پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ندوی صاحب،
آپ کے جواب پر بھی گفتگو کر لیتے ہیں۔ پہلے آپ یا تلمیذ صاحب ہمارے بھی اس سوال کا جواب عنایت فرما دیں۔
آپ کا سوال تو بہت آسان ہے ۔ لیکن میں اس پر کچھ مفصل لکھنا چاہتا ہوں ۔ آج تو بہت مصروفیت ہے ان شاء اللہ کل تک لکھتا ہوں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
راجا صاحب نے ایک سوال پوچھا تھا

کوئی ایسی کرامت بتا دیں جو آپ کے نزدیک بھی شرک کی مد میں آ سکتی ہو۔ یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ ہر قسم کا محیر العقول واقعہ کرامت کے نام پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالی قران میں ارشاد فرماتا ہے کہ
ان اللہ علی کل شیء قدیر
بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
بعض خارق العادہ امور اللہ اپنی قدرت سے اپنے بندوں کے ہاتھوں پر ظاہر کرتا ہے اس میں اس بندہ کا کسی قسم کا کوئی تصرف نہیں ہوتا ۔ ایسا کوئی امر کسی نیک امتی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو وہ کرامت کہلاتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر خارق العادہ امر کرامت کہلائے گا یا اس سے بعض امور کو استثناء حاصل ہے ۔ میری رائے ہے کہ بعض امور کو استثناء ہے ۔
ویسے تو اللہ ہر چیز پر قادر مطلق ہے ۔ لیکن بعض امور کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ میں ایسا نہیں کروں گا ۔مثال کے طور پر قرآن میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ
إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد افترى إثما عظيما
بے شک اللہ مشرکین کو بخشنے پر بھی قدرت رکھتا ہے لیکن جب اللہ نے کہا کہ وہ مشرکین کی بخشش نہ کرے گا تو بات یقینی ہے کہ مشرکین کی بخشش نہ ہوگي ۔
ومن اصدق من اللہ حديثا
اور فرعون کا جہنمی ہونا اور کفر پر مرنا قرآن سے ثابت ہے ۔



وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُواْ أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ

يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ

وَأُتْبِعُواْ فِي هَذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ


اب اگر کوئی دعوی کرے کہ اسے کشف ہوا کہ فرعون کی بخشش ہوگئی ہے تو یہ کرامت یا کشف مردود ہے

یہ ایک مردور کرامت کی مثال پیش کردی ہے امید ہے کافی ہوگي

راجا صاحب نے کہا
جی میری رائے میں یہ انبیاء کا مقام ہے کہ وہ کسی مخصوص شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں قطعیت سے بذریعہ وحی مطلع ہوں۔ کسی امتی کا یہ مقام نہیں کہ وہ کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے سکیں۔ لہٰذا نوجوان کی یہ کرامت سخت گمراہ کن ہے کیونکہ اس سے یہ عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض بزرگان دین بعد از قیامت کے حالات سے بھی جزئی تفصیلات تک باخبر ہوتے ہیں۔
ندوی صاحب نے بہت وضاحت سے آپ کی بات کا جواب دیا ۔
اولا یہاں وحی نہیں کشف کی بات ہے
ثانیا یہاں سرٹیفیکیٹ نہیں اپنی معلومات کا اظہار کیا تھا
ثالثا یہاں کو‏ئی عفیدہ ثابت نہیں کیا جارہا ۔
کیا پھر بھی آپ کی رائے میں یہ شرکیہ یا مردود کرامت ہے ؟
جہاں تک کرامات سے عقیدہ ثابت کرنا ہے اور جس طرح سے آپ عقیدہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا تو پھر یہ عقیدہ ہوگا کہ بنی اسرائیل میں بعض افراد بلکہ دودھ پیتے بچےغیب کا علم رکھتے تھے
یہ حدیث ملاحظہ ہو
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا " .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

اس کرامت سے اگر آپ کی بیان کردہ کسوٹی پر چلیں تو آپ کا یہ عقیدہ ہوگا بنی اسرائیل میں بعض افراد بلکہ دودھ پیتے بچےغیب کا علم رکھتے تھے
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیر تلمیذ بھائی۔ مفصل وضاحت کے لئے شکریہ۔
آپ کی وضاحت سے مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ

جو کشف یا کرامت قرآن و سنت کے دلائل کے خلاف کسی بات کو ثابت کرتی ہو، وہ مردود تصور ہوگی۔

آپ اس جملہ کی تصدیق کر دیں تاکہ فہم کے اختلاف میں پڑ کر وقت ضائع کرنے سے بچ جائیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جزاک اللہ خیر تلمیذ بھائی۔ مفصل وضاحت کے لئے شکریہ۔
آپ کی وضاحت سے مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ

جو کشف یا کرامت قرآن و سنت کے دلائل کے خلاف کسی بات کو ثابت کرتی ہو، وہ مردود تصور ہوگی۔

آپ اس جملہ کی تصدیق کر دیں تاکہ فہم کے اختلاف میں پڑ کر وقت ضائع کرنے سے بچ جائیں۔
راجا بھائی میرے خیال میں اس بات پر تمام مسالک متفق ہیں ہر عمل جو قرآن و سنت سے متصادم ہو وہ مردود ہے اور اس میں کشف و کرامت بھی شامل ہے ۔
بہر حال میں آپ کے کہنے پر واضح طور پر تحریر کردیتا ہوں کہ جو کشف یا کرامت قرآن و سنت کے دلائل کے خلاف کسی بات کو ثابت کرتی ہو، وہ مردود تصور ہوگی
 
Top