• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
فرانس کی بادشاہ کو شاہ فیصل مرحوم نے کھا تھا کہ فرانس میں ایک مسجد بنانے دوانھوں جواب میں کہا کہ آپ مکہ میں ایک گرجا بنانے دواس لیے ان کو اجازت نھی ملی تھی لیکن تبلیغی جماعت کی وجہ سے آج فرانس میں بہت سارے مساجد ہے کاش تبلیغی جماعت والے فضایل اعمال کی بجاے قرآن شریف کو تعلیم کی کتاب بناے اور فضایل صدقات کی بجاے بخاری شریف سنانا شروع کردے اور کاش قرآن اور بخاری پڑھانے والے تبلییغیوں جیسے اخلاق اور طریقہ دعوت سیکھ لیں اور لڑاییاں جگھڑے چھوڑدے
توحید وسنت کی ماننے والوں کیا ہوا تم لوگوں کی یہ لڑاییاں کب تک ؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ہم منتظر ہیں!!
ابن داود صاحب نے کہا

عربی متن
( عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : بيان لما بمعنى ( من ) أي في الذين كانوا قبلكم ( محدثون ) : بفتح الدال المشددة أي : ناس ملهمون كما فسر به ابن وهب . ( فإن يك في أمتي أحد ) أي : واحد منهم فرضا وتقديرا ( فإنه عمر ) . أي وإن يك أكثر فهو حينئذ أولى وأظهر . قال التوربشتي : المحدث في كلامهم هو الرجل الصادق الظن وهو في الحقيقة من ألقي في روعه .

[ ص: 3893 ] شيء من قبل الملأ الأعلى ، فيكون كالذي حدث به . وفي قوله : فإن يك في أمتي أحد فهو عمر لم يرد هذا القول مورد التردد ، فإن أمته أفضل الأمم وإن كانوا موجودين في غيرهم من الأمم ، فبالحري أن يكونوا في هذه الأمة أكثر عددا وأعلى رتبة ، وإنما ورد مورد التأكيد والقطع به ، ولا يخفى على ذي الفهم محله من المبالغة كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان يريد بذلك اختصاصه بالكمال في صداقته لا نفي الأصدقاء اه . وتوضيحه أنك لا تريد بذلك الشك في صداقته والتردد في أنه هل لك صديق بل المبالغة في أن الصداقة مختصة به لا تتخطاه

حوالہ
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
علي بن سلطان محمد القاري
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=12005&idto=12046&bk_no=79&ID=288

قوله : ( منهم أحد ) في رواية الكشميهني " من أحد " ورواية زكريا وصلها الإسماعيلي وأبو نعيم في مستخرجيهما ، وقوله : " وإن يك في أمتي " قيل : لم يورد هذا القول مورد الترديد فإن أمته أفضل الأمم ، وإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم فإمكان وجوده فيهم أولى ، وإنما أورده مورد التأكيد كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان ، يريد اختصاصه بكمال الصداقة لا نفي الأصدقاء ، ونحوه قول الأجير : إن كنت عملت لك فوفني حقي ، وكلاهما عالم بالعمل لكن مراد القائل أن تأخيرك حقي عمل من عنده شك في كوني عملت
فتح الباري شرح صحيح البخاري
أحمد بن علي بن حجر العسقلاني

http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=52&ID=6704
عربی عبارات کا ترجمہ پیش کریں!! پچھلی تحریر میں بھی ہمیں ہی یہ کام کرنا پڑا تھا!! تمام قارئین عربی کی معرفت نہیں رکھتے!! لہذا آپ خود ذرا ان عبارات کا ترجمہ بھی پیش کریں!!!
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ ابن داؤد بھائی۔
دخل در نامعقولات کی دونوں بھائیوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ، تلمیذ بھائی سے فقط یہ سمجھنا مقصود ہے کہ آپ کسی ایسے خرق عادت واقعہ پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں، جو آپ کے نزدیک بھی درجہ کرامت تک نہ پہنچ سکتی ہو؟
عین ممکن ہے کہ ہم سب ایک ہی بات پر اتفاق کر سکتے ہوں، فقط زاویہ نظر مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں دقت ہو رہی ہو۔ لہٰذا ازراہ کرم اتنا فرما دیجئے کہ کیا ہر محیر العقل واقعہ جو کسی بظاہر نیک شخص کی جانب منسوب ہو، اسے کرامت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا کرامت کی بنیاد پر کسی شرعی حکم کو اخذ کرنا درست ہے؟ کیونکہ زیر بحث واقعہ جب میں نے فضائل اعمال میں پڑھا تھا، تو یقین کیجئے کہ ستر ہزار کا نصاب میں نے بھی اپنے لئے پڑھ کر علیحدہ رکھ لیا تھا کہ اپنی نجات کو کافی ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ فضائل اعمال میں موجود اس واقعہ سے اکثر عام تبلیغی بھائی تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ صد فیصدی کنفرم شرعی مسئلہ ہے کہ بعد از مرگ بھی کسی نے مجھے یہ نصاب پڑھ کر بخش دیا تو بالیقین جہنم سے فوری نجات مل سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہوگا کہ فقط یہ ستر ہزار کا نصاب پڑھ لینا جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے، لیکن اس کرامت کی چونکہ آپ تصدیق و دفاع کر رہے ہیں، لہٰذا میرے لئے سمجھنا مشکل ہے کہ اس کرامت کو سچا جان لینے کے باوجود کوئی شخص کیونکر اس سے حاصل ہونے والے شرعی مسئلہ کا انکار کر سکتا ہے اور کن بنیادوں پر؟

اس میں مزید بھی تفصیلات ہیں۔ کیونکہ دیوبندی علمائے کرام نے بھی بریلوی علماء کی اس طرز کی کرامات سے، بریلوی حضرات کے ایسے عقائد از خود اخذ کر کے ان کی تردید کر رکھی ہے، جن سے بظاہر بریلوی علماء بھی اظہار براءت کرتے ہیں۔ لہٰذا کرامات کی قبولیت و رد کا معیار جانچنا بہت ضروری ہے کہ جس سے بریلوی بزرگوں کی کرامت تو قابل تردید اور کفریہ شرکیہ ٹھہرے اور اس سے ملتی جلتی کرامت دیوبندی بزرگوں کی جانب سے ظاہر ہو تو اس کے دفاع میں صفحے سیاہ کئے جاتے رہیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابن داود صاحب
میں نے جو عربی عبارات پیش کیں ان کا مفہوم وہی ہے جو میں نے مناقب عمر والی حدیث کے تشریح میں لکھا تھا اس لئیے ان عربی عبادات کا ترجمہ کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ فی الحال کچھ ذاتی مصروفیات ہیں کوشش کرتا ہوں شام تک یا کل تک ترجمہ پیش کوردوں ۔ انتظار کئیجیے گا ۔ میں تو پرسون سے نیٹ پر بھی نہ بیٹھ سکا ۔


جزاک اللہ ابن داؤد بھائی۔
دخل در نامعقولات کی دونوں بھائیوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ، تلمیذ بھائی سے فقط یہ سمجھنا مقصود ہے کہ آپ کسی ایسے خرق عادت واقعہ پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں، جو آپ کے نزدیک بھی درجہ کرامت تک نہ پہنچ سکتی ہو؟
عین ممکن ہے کہ ہم سب ایک ہی بات پر اتفاق کر سکتے ہوں، فقط زاویہ نظر مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں دقت ہو رہی ہو۔ لہٰذا ازراہ کرم اتنا فرما دیجئے کہ کیا ہر محیر العقل واقعہ جو کسی بظاہر نیک شخص کی جانب منسوب ہو، اسے کرامت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا کرامت کی بنیاد پر کسی شرعی حکم کو اخذ کرنا درست ہے؟ کیونکہ زیر بحث واقعہ جب میں نے فضائل اعمال میں پڑھا تھا، تو یقین کیجئے کہ ستر ہزار کا نصاب میں نے بھی اپنے لئے پڑھ کر علیحدہ رکھ لیا تھا کہ اپنی نجات کو کافی ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ فضائل اعمال میں موجود اس واقعہ سے اکثر عام تبلیغی بھائی تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ صد فیصدی کنفرم شرعی مسئلہ ہے کہ بعد از مرگ بھی کسی نے مجھے یہ نصاب پڑھ کر بخش دیا تو بالیقین جہنم سے فوری نجات مل سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہوگا کہ فقط یہ ستر ہزار کا نصاب پڑھ لینا جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے، لیکن اس کرامت کی چونکہ آپ تصدیق و دفاع کر رہے ہیں، لہٰذا میرے لئے سمجھنا مشکل ہے کہ اس کرامت کو سچا جان لینے کے باوجود کوئی شخص کیونکر اس سے حاصل ہونے والے شرعی مسئلہ کا انکار کر سکتا ہے اور کن بنیادوں پر؟

اس میں مزید بھی تفصیلات ہیں۔ کیونکہ دیوبندی علمائے کرام نے بھی بریلوی علماء کی اس طرز کی کرامات سے، بریلوی حضرات کے ایسے عقائد از خود اخذ کر کے ان کی تردید کر رکھی ہے، جن سے بظاہر بریلوی علماء بھی اظہار براءت کرتے ہیں۔ لہٰذا کرامات کی قبولیت و رد کا معیار جانچنا بہت ضروری ہے کہ جس سے بریلوی بزرگوں کی کرامت تو قابل تردید اور کفریہ شرکیہ ٹھہرے اور اس سے ملتی جلتی کرامت دیوبندی بزرگوں کی جانب سے ظاہر ہو تو اس کے دفاع میں صفحے سیاہ کئے جاتے رہیں۔
مصروفیات کی وجہ سے کچھ معذرت ۔ کوشش کروں گا کہ تفصیلی جواب کل تک لکھوں ۔ چند گذارشات لکھ دیتا ہوں
میرا عقیدہ ہے کہ کسی بزرگ کی کرامت سے کوئی عقیدہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ عقائد وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے اور سنن وہی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت باقی کسی بزرگ کی کرامت نہ کسی سنن کو بدعہ میں بدل سکتی ہے اور نہ کسی بدعہ کو سنت میں۔
باقی رہا قرطبی کا ستر ہزار پڑہنے کا وظیفہ تو بھائی میں پچھلی پوسٹس میں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عمل کے حوالہ سے سوال کرتا رہا لیکن اصرار رہا کہ پہلے عقیدہ اب جب کہ عقیدہ کے حوالہ سے بات ہوئی تو پھر اعمال کو ابھی بیچ میں نہ لائیں۔ یہ باتیں پہلے ہوچکی ہیں اور ابن داود صاحب بھی اس سے اتفاق کر چکے ہیں ۔ اس لئیے ان شاء اللہ اس پر عقیدہ پر بات کرنے کے بعد بات ہوگي
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
مصروفیات کی وجہ سے کچھ معذرت ۔ کوشش کروں گا کہ تفصیلی جواب کل تک لکھوں ۔ چند گذارشات لکھ دیتا ہوں
میرا عقیدہ ہے کہ کسی بزرگ کی کرامت سے کوئی عقیدہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ عقائد وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے اور سنن وہی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت باقی کسی بزرگ کی کرامت نہ کسی سنن کو بدعہ میں بدل سکتی ہے اور نہ کسی بدعہ کو سنت میں۔
باقی رہا قرطبی کا ستر ہزار پڑہنے کا وظیفہ تو بھائی میں پچھلی پوسٹس میں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عمل کے حوالہ سے سوال کرتا رہا لیکن اصرار رہا کہ پہلے عقیدہ اب جب کہ عقیدہ کے حوالہ سے بات ہوئی تو پھر اعمال کو ابھی بیچ میں نہ لائیں۔ یہ باتیں پہلے ہوچکی ہیں اور ابن داود صاحب بھی اس سے اتفاق کر چکے ہیں ۔ اس لئیے ان شاء اللہ اس پر عقیدہ پر بات کرنے کے بعد بات ہوگي
محترم، یہ تو عقیدہ کا ہی مسئلہ ہے کہ کرامت سے کسی وظیفہ ، سنت یا عقیدہ کا اثبات ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کل تک آپ کی تفصیلی پوسٹ کا منتظر رہوں گا۔ مجھے شدید خواہش ہے یہ جاننے کی کہ آخر کرامت کو مان کر، اس مقصد کا (وظیفہ کا) انکار کیسے کیا جانا ممکن ہے کہ جس کو نکال دینے سے کرامت ، کرامت ہی نہ رہ پائے۔ ؟ مجھے یقین ہے کہ یہ میری کم علمی ہی ہوگی، او رآپ کے پاس کوئی بہتر تشریح موجود ہوگی۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عربی متن
( عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : بيان لما بمعنى ( من ) أي في الذين كانوا قبلكم ( محدثون ) : بفتح الدال المشددة أي : ناس ملهمون كما فسر به ابن وهب . ( فإن يك في أمتي أحد ) أي : واحد منهم فرضا وتقديرا ( فإنه عمر ) . أي وإن يك أكثر فهو حينئذ أولى وأظهر . قال التوربشتي : المحدث في كلامهم هو الرجل الصادق الظن وهو في الحقيقة من ألقي في روعه .

[ ص: 3893 ] شيء من قبل الملأ الأعلى ، فيكون كالذي حدث به . وفي قوله : فإن يك في أمتي أحد فهو عمر لم يرد هذا القول مورد التردد ، فإن أمته أفضل الأمم وإن كانوا موجودين في غيرهم من الأمم ، فبالحري أن يكونوا في هذه الأمة أكثر عددا وأعلى رتبة ، وإنما ورد مورد التأكيد والقطع به ، ولا يخفى على ذي الفهم محله من المبالغة كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان يريد بذلك اختصاصه بالكمال في صداقته لا نفي الأصدقاء اه .

حوالہ
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
علي بن سلطان محمد القاري

ترجمہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : یعنی ان لوگوں میں میں جو تم سے پہلے تھے (محدثون ) محدثون کی دال پر زبر ہے اور مشدد ہے یعنی جو جس کو الہام ہو جیسا کہ ابن وہب نے تفسیر کی ہے ( فإن يك في أمتي أحد ) یعنی ایک بطور فرض کے ہے ( فإنه عمر ) یعنی ایک سے زیادہ ہوں تو یہ بات زیادہ لائق اور ظاہر ہے التوربشتي نے کہا کہ المحدث في كلامہم وہ آدمی ہے جو صادق گمان والا ہوتا ہے اور درحقیقت جس کے دل میں فرشتوں کی طرف سے کچھ القاء ہوتا ہے ۔ اور اس قول کے بارے میں کہ اگر کوئی میری امت میں ہے تو عمر ہے تو یہ بات تردید کے ضمن میں نہیں آئی کیوں کہ ان کی امت تمام امتوں سے افضل ہے اگر یہ (محدثین) دوسری امتوں میں پائے جاتے ہیں تو یہ امت زیادہ لائق ہے کہ اس امت میں زیادہ (محدثین ) پائے جائیں اور وہ بھی زیادہ اعلی رتبے کے ۔ یہاں یہ بات تاکید کے ضمن میں آئی ہے ۔ اور اس طرح کا غلو کا استعمال اہل عقل پر مخفی نہیں جیسا کہ اگر کوئی ادمی کہے کہ " اگر کوئی میرا دوست ہے تو وہ فلاون ہے تو وہ اس یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ دوست دوست ہونے میں میرا کامل دوست ہے یہ نہیں کہ کوئی اور دوست ہی نہیں



وقوله : " وإن يك في أمتي " قيل : لم يورد هذا القول مورد الترديد فإن أمته أفضل الأمم ، وإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم فإمكان وجوده فيهم أولى ، وإنما أورده مورد التأكيد كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان ، يريد اختصاصه بكمال الصداقة لا نفي الأصدقاء ،
فتح الباري شرح صحيح البخاري
أحمد بن علي بن حجر العسقلاني



اور یہ کہنا کہ " وإن يك في أمتي" (اس فول کے بارے میں ) کہا گيا ہے کہ یہ قول تردید کے ضمن میں نہی ہے کیوں کہ ان کی امت سب سے افضل امت ہے اور جب یہ ثابت ہوگيا کہ یہ (محدث کا ہونا ) اس امت کے علاوہ اور امتوں میں ہے تو (محدث کی موجودگی ) اس امت میں زیادہ لائق ہے ۔ اور یہ قول بطور تاکید کے آیا ہے جیسا کہ ایک آدمی کہے کہ اگر میرا کوئی دوست ہے تو فلاں ہے تو وہ اس دوست کو کامل دوستی سے متصف کر رہا ہے نہ کہ دوستوں سے کے وجود سے انکار کر رہا ہے

بھائی ترجمہ پیش کردیا گيا ۔ اگر کوئی غلطی ہو تو بتائیے گا

راجا صاحب
میں نے پہلے کچھ مختصر عرض کیا تھا ۔ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہوں
آپ نے کہا
اس میں مزید بھی تفصیلات ہیں۔ کیونکہ دیوبندی علمائے کرام نے بھی بریلوی علماء کی اس طرز کی کرامات سے، بریلوی حضرات کے ایسے عقائد از خود اخذ کر کے ان کی تردید کر رکھی ہے، جن سے بظاہر بریلوی علماء بھی اظہار براءت کرتے ہیں۔ لہٰذا کرامات کی قبولیت و رد کا معیار جانچنا بہت ضروری ہے کہ جس سے بریلوی بزرگوں کی کرامت تو قابل تردید اور کفریہ شرکیہ ٹھہرے اور اس سے ملتی جلتی کرامت دیوبندی بزرگوں کی جانب سے ظاہر ہو تو اس کے دفاع میں صفحے سیاہ کئے جاتے رہیں۔
بریلویوں کی طرف سے جو کرامات پیش کی جاتیں ہیں اور دیوبندیوں کی طرف سے کرامات پیش کی جاتیں ہیں ان میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ بریلوی جب کوئی کرامت پیش کرتے ہیں تو اس سے اس ولی کے نام پر نیاز کرنا اور ان کا عرس منانے کی ترغیب بھی کی جاتی ہے تو عوام بدعات و شرکیات میں مبتلا ہوجاتی ہے
دیوبندیوں کے حوالہ سے بات نہیں کروں گا کیوں کہ یہ تھریڈ تبلیغی جماعت سے متعلق ہے ۔ اور تبلیغی جماعت کی اس بات کی تبلیغ اس کرامت کو کرامت تک ہی رکھتی ہے
اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اوراس کے سوا کسی سے کچھ نہ ہونے کا یقین
اگر یہی کرامت بریلوی بیان کرہے ہو تے اس نوجوان کا کہیں مزار بھی دریافت کرچکے ہوتے اور اس کے نام پر عرس بھی منانا شروع کرچکے ہوتے ۔بریلوی اور دیوبندی میں کرامت بیان کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے میں کچھ اور بھی لکھنا چاہتا تھا لیکن یہ پوسٹ تبلیغی جماعت کے متعلق ہے اس لئیے احتراز کر رہا ہوں
باقی کرامت سے کوئی شرعی حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا اس کی وضاحت کی جاچکی ہے

محترم، یہ تو عقیدہ کا ہی مسئلہ ہے کہ کرامت سے کسی وظیفہ ، سنت یا عقیدہ کا اثبات ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کل تک آپ کی تفصیلی پوسٹ کا منتظر رہوں گا۔ مجھے شدید خواہش ہے یہ جاننے کی کہ آخر کرامت کو مان کر، اس مقصد کا (وظیفہ کا) انکار کیسے کیا جانا ممکن ہے کہ جس کو نکال دینے سے کرامت ، کرامت ہی نہ رہ پائے۔ ؟ مجھے یقین ہے کہ یہ میری کم علمی ہی ہوگی، او رآپ کے پاس کوئی بہتر تشریح موجود ہوگی۔
میں پہلے کہ چکا ہوں
باقی رہا قرطبی کا ستر ہزار پڑہنے کا وظیفہ تو بھائی میں پچھلی پوسٹس میں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عمل کے حوالہ سے سوال کرتا رہا لیکن اصرار رہا کہ پہلے عقیدہ اب جب کہ عقیدہ کے حوالہ سے بات ہوئی تو پھر اعمال کو ابھی بیچ میں نہ لائیں۔ یہ باتیں پہلے ہوچکی ہیں اور ابن داود صاحب بھی اس سے اتفاق کر چکے ہیں ۔ اس لئیے ان شاء اللہ اس پر عقیدہ پر بات کرنے کے بعد بات ہوگي
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بریلویوں کی طرف سے جو کرامات پیش کی جاتیں ہیں اور دیوبندیوں کی طرف سے کرامات پیش کی جاتیں ہیں ان میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ بریلوی جب کوئی کرامت پیش کرتے ہیں تو اس سے اس ولی کے نام پر نیاز کرنا اور ان کا عرس منانے کی ترغیب بھی کی جاتی ہے تو عوام بدعات و شرکیات میں مبتلا ہوجاتی ہے
دیوبندیوں کے حوالہ سے بات نہیں کروں گا کیوں کہ یہ تھریڈ تبلیغی جماعت سے متعلق ہے ۔ اور تبلیغی جماعت کی اس بات کی تبلیغ اس کرامت کو کرامت تک ہی رکھتی ہے
اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اوراس کے سوا کسی سے کچھ نہ ہونے کا یقین
اگر یہی کرامت بریلوی بیان کرہے ہو تے اس نوجوان کا کہیں مزار بھی دریافت کرچکے ہوتے اور اس کے نام پر عرس بھی منانا شروع کرچکے ہوتے ۔بریلوی اور دیوبندی میں کرامت بیان کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے میں کچھ اور بھی لکھنا چاہتا تھا لیکن یہ پوسٹ تبلیغی جماعت کے متعلق ہے اس لئیے احتراز کر رہا ہوں
باقی کرامت سے کوئی شرعی حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا اس کی وضاحت کی جاچکی ہے

۔۔۔
باقی رہا قرطبی کا ستر ہزار پڑہنے کا وظیفہ تو بھائی میں پچھلی پوسٹس میں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عمل کے حوالہ سے سوال کرتا رہا لیکن اصرار رہا کہ پہلے عقیدہ اب جب کہ عقیدہ کے حوالہ سے بات ہوئی تو پھر اعمال کو ابھی بیچ میں نہ لائیں۔ یہ باتیں پہلے ہوچکی ہیں اور ابن داود صاحب بھی اس سے اتفاق کر چکے ہیں ۔ اس لئیے ان شاء اللہ اس پر عقیدہ پر بات کرنے کے بعد بات ہوگي
محترم تلمیذ بھائی،
آپ دو چیزوں کو گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ ایک ہے بذات خود کرامت۔ اور ایک ہے اس کرامت کی بنیاد پر پھیلائے جانے والے نظریات و اعمال وغیرہ۔ میں اول الذکر کے بارے آپ سے جاننا چاہ رہا ہوں کہ بریلوی بزرگوں کی کرامت یا تبلیغی بزرگوں کی کرامت میں بطور کرامت ایسا کیا فرق ہے کہ اول الذکر کی کتب میں یہ کرامت مذکور ہو، تو وہ شرکیہ قرار پائے اور ثانی الذکر کی کتب میں ہو تو نری توحید۔ پھر یہ بات بھی نوٹ فرمائیں کہ آخر ان حکایت و قصص کا فضائل اعمال میں لکھے جانے کا مقصد کیا ہے؟ یعنی کرامت کو غلط نہیں کہہ سکتے ، گویا ان بزرگوں سے یہ کرامات تو ظاہر ہوئی ہی ہوئی ہیں۔ اور کرامت سے جو کچھ نتیجہ نکل سکتا ہے، وہ بھی آپ نکالنے پر رضامند نہیں۔ نہ ہم کرامت سے کوئی عقیدہ لے سکتے ہیں، نا کوئی عمل اخذ کر سکتے ہیں۔ تو اس کرامت کے بیان کا فضائل اعمال میں ذکر ہی کیوں ہے؟ پھر اس سے بھی اہم تر بات جسے آپ اعمال و عقیدہ میں تفریق کر کے مستقل نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ یہ کہ اسی زیر بحث حکایت سے اگر آپ ستر ہزار کے وظیفہ کا سنت ہونا یا اس سے جہنم سے نجات پا جانا برحق سمجھتے ہیں تو آپ کی یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ کرامت سے عقیدہ یا سنت و بدعت اخذ کرنا درست نہیں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کرامت سے وظیفہ سنت ثابت نہیں ہو سکتا، تو پھر کرامت کا دفاع یا اس کی تصدیق کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ اگر وظیفہ سنت نہیں، تو کرامت تو خودبخود غلط ثابت ہو گئی؟ امید ہے کہ آپ تک بات پہنچانے میں کامیاب ہو سکا ہوں گا کہ یہ عقیدہ یا عمل پر بحث کی بات نہیں، بلکہ کرامت ہی کے تعلق سے آپ کی پیش کردہ وضاحت میں اختلاف کی تشریح درکار ہے۔



دوسری بات یہ کہ آپ تبلیغی جماعت کے عقائد پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسے دیوبندی جماعت سے علیحدہ بھی جانتے ہیں۔ گویا ہم دیوبندی جماعت کے عقائد بھی باحوالہ پیش کر کے آپ سے جواب نہیں طلب کر سکتے ، تو آپ ہی تبلیغی جماعت کی ایسی کتب کی نشاندہی فرما دیں جن میں عقائد کا بیان ہو۔ تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ تبلیغی جماعت کے فلاں فلاں عقائد ہیں اور پھر انہیں کتاب و سنت پر پیش کر کے صحیح کو غلط سے تمیز کر سکیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ دو چیزوں کو گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ ایک ہے بذات خود کرامت۔ اور ایک ہے اس کرامت کی بنیاد پر پھیلائے جانے والے نظریات و اعمال وغیرہ۔ میں اول الذکر کے بارے آپ سے جاننا چاہ رہا ہوں کہ بریلوی بزرگوں کی کرامت یا تبلیغی بزرگوں کی کرامت میں بطور کرامت ایسا کیا فرق ہے کہ اول الذکر کی کتب میں یہ کرامت مذکور ہو، تو وہ شرکیہ قرار پائے اور ثانی الذکر کی کتب میں ہو تو نری توحید۔
میں نے اس حوالہ سے کچھ مختصرا اوپر لکھ دیا ۔ اگر آپ کو پھر بھی اشکال ہے تو حوالہ جات کے ساتھ لکھیں کب بریلوی حضرات نے ان کرامات کو نقل کیا جس طرح کی فضائل اعمال میں منقول ہیں اور ان پر صرف ان کرامات کے نقل کرنے پر کفر کا فتوی لگا ہو ۔
۔ پھر یہ بات بھی نوٹ فرمائیں کہ آخر ان حکایت و قصص کا فضائل اعمال میں لکھے جانے کا مقصد کیا ہے؟ یعنی کرامت کو غلط نہیں کہہ سکتے ، گویا ان بزرگوں سے یہ کرامات تو ظاہر ہوئی ہی ہوئی ہیں۔ اور کرامت سے جو کچھ نتیجہ نکل سکتا ہے، وہ بھی آپ نکالنے پر رضامند نہیں۔ نہ ہم کرامت سے کوئی عقیدہ لے سکتے ہیں، نا کوئی عمل اخذ کر سکتے ہیں۔ تو اس کرامت کے بیان کا فضائل اعمال میں ذکر ہی کیوں ہے؟
کیا آپ کہ رہے ہیں کرامات بلا مقصد لکھی جاتیں ہیں تو بھائی قران و حدیث میں کرامات کیوں مذکور ہیں ؟؟؟؟
پھر اس سے بھی اہم تر بات جسے آپ اعمال و عقیدہ میں تفریق کر کے مستقل نظر انداز کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ یہ کہ اسی زیر بحث حکایت سے اگر آپ ستر ہزار کے وظیفہ کا سنت ہونا یا اس سے جہنم سے نجات پا جانا برحق سمجھتے ہیں تو آپ کی یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ کرامت سے عقیدہ یا سنت و بدعت اخذ کرنا درست نہیں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کرامت سے وظیفہ سنت ثابت نہیں ہو سکتا، تو پھر کرامت کا دفاع یا اس کی تصدیق کیونکر ممکن ہے؟ کیونکہ اگر وظیفہ سنت نہیں، تو کرامت تو خودبخود غلط ثابت ہو گئی؟ امید ہے کہ آپ تک بات پہنچانے میں کامیاب ہو سکا ہوں گا کہ یہ عقیدہ یا عمل پر بحث کی بات نہیں، بلکہ کرامت ہی کے تعلق سے آپ کی پیش کردہ وضاحت میں اختلاف کی تشریح درکار ہے۔
بھائی اگر قرطبی صاحب کا ستر ہزار بار وظیفہ الگ بھی رکھ دیں تو نوجوان کی کرامت اپنی جگہ ہے کہ اس کو اپنی والدہ کی حالت سے بحکم الہی آگاہی ہوئی ۔
باقی رہا قرطبی صاحب کا یہ عمل کہ ستر ہزار بار کلمہ طیبہ پڑہنے سے دوزخ کا عذاب ہٹایا گیا ہے اور آپ حضرات کے نذدیک یہ بدعت ہے اور بدعت ایک عمل ہے ۔ اسی عمل کے سلسلے میں اتنی پوسٹس میں کہتا رہا کہ اگر کوئی آپ حضرات کو تبلیغی جماعت کا عمل بدعت و شرک لگتا ہے تو بتائیں لیکن اصرار رہا پہلے عقیدہ پر بات اب جب عقیدہ ثابت کرنا مشکل ہو گيا تو دوبارہ بات کو عمل کی طرف لےجارہے ہیں ۔ بھائی پہلے پچھلی پوسٹس پڑہ لیں

چلیں کم از کم آپ تو اس بات متفق ہوئے کہ

یعنی کرامت کو غلط نہیں کہہ سکتے ، گویا ان بزرگوں سے یہ کرامات تو ظاہر ہوئی ہی ہوئی ہیں۔
اگر آپ اور آپ کے ساتھی اس بات سے متفق ہیں تو بات عمل کی طرف بڑہائی جاسکتی ہے اور سب سے پہلے قرطبی کے ستر ہزار والا وظیفہ بھی زیر بحث لایا جاسکتا ہے لیکن شرط ہے کہ پھر دوبارہ عقیدہ کو زیر بحث نہ لائیں
دوسری بات یہ کہ آپ تبلیغی جماعت کے عقائد پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسے دیوبندی جماعت سے علیحدہ بھی جانتے ہیں۔ گویا ہم دیوبندی جماعت کے عقائد بھی باحوالہ پیش کر کے آپ سے جواب نہیں طلب کر سکتے ، تو آپ ہی تبلیغی جماعت کی ایسی کتب کی نشاندہی فرما دیں جن میں عقائد کا بیان ہو۔ تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ تبلیغی جماعت کے فلاں فلاں عقائد ہیں اور پھر انہیں کتاب و سنت پر پیش کر کے صحیح کو غلط سے تمیز کر سکیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہ کچھ يوں تھی کہ تبلیغی جماعت کا نصاب شرکیہ ہے
کچھ پچھلی پوسٹس کے حوالہ جات دیکھیں

ارے جناب! میں نے اس اقتباس میں حوالہ نقل کر دیا ہے، آپ وہاں سے سیاق و سباق کو ملا کر بھی مجھے بتلا دیں کہ یہ شرک کیسے نہیں!!!! اور تبلیغی جماعت اگران عقائد کی حامل نہیں تو سب سے قبل تو آپ مجھے تبلیغی جماعت کے مفتیاں سے اس عبارت میں موجود عقائد پر شرک کا حکم لگوا کر دکھلادیں
آپ کو یہ حوالہ تبلیغی جماعت کے تبلیغی نصاب ، فضائل اعمال سے دیا ہے!! اور اس کتاب ، بشمول اس کفریہ شرکیہ عقائد کی تبلیغ ، یہ تبلیغی جماعت عملا کرتی ہے!!!!
جناب من ! آپ کو جو فضائل اعمال سے ایک اقتباس پیش کیا ہے، اگر اس قتباس میں شرک کی دعوت دی گئی ہے!! اگر یہ میرا من پسند نتیجہ ہے، تو مجھے لغت اور شرع کے اعتبار سے ثابت کر دیں کہ یہ شرک نہیں!!
تبلیغی جماعت کی کتاب شرک کی دعوت دیتی ہے
جناب من! تبلیغی جماعت کا "تبلیغی نصاب ازمولانا محمد زکریا " کی تعلیم دینا ایک "عمل" ہے!! اور ان کا یہ عمل کفر و شرک کی دعوت دینا ہے!! اور اس کا ثبوت پیش کردہ اقتباس میں دیا گیا ہے!! اب بھی آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو کہا کہئے!!!
یعنی سارا زور اس بات پر رہا کہ فضائل اعمال شرک والے واقعات پر مشتمل ہے اس لئیے یہ شرکیہ کتاب ہے ۔ اگر یہ کتاب شرکیہ ثابت ہوگئی تو تبلیغی جماعت بھی شرکیہ ثابت ہوئی اگر یہ شرکیہ نہیں بلکہ توحید والی کتاب ہے تو تبلیغی جماعت بھی توحیدی جماعت ہے ۔ دیوبندیوں اور تبلیغی جماعت کے حوالہ سے پہلے تفصیلی بات ہوچکی ہے آپ سے گذارش ہے کہ دوبارہ یہ موضوع نہ چھیڑيں اور راحا صاحب آپ سے پھر گذارش ہے کہ پھچلی پوسٹس دوبارہ پڑہیں آپ کوپتا چل چائے گا زیربحث موضوع کیا ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میرا عقیدہ ہے کہ کسی بزرگ کی کرامت سے کوئی عقیدہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ عقائد وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے اور سنن وہی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت باقی کسی بزرگ کی کرامت نہ کسی سنن کو بدعہ میں بدل سکتی ہے اور نہ کسی بدعہ کو سنت میں۔
ماشاءاللہ!! آپ کا یہ عقیدہ ہے!! لیکن تبلیغی جماعت کے اکابرین کا عقیدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا عقیدہ نہیں!! اور یہی ہمارا موضوع بحث ہے!!
باقی رہا قرطبی کا ستر ہزار پڑہنے کا وظیفہ تو بھائی میں پچھلی پوسٹس میں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عمل کے حوالہ سے سوال کرتا رہا لیکن اصرار رہا کہ پہلے عقیدہ اب جب کہ عقیدہ کے حوالہ سے بات ہوئی تو پھر اعمال کو ابھی بیچ میں نہ لائیں۔ یہ باتیں پہلے ہوچکی ہیں اور ابن داود صاحب بھی اس سے اتفاق کر چکے ہیں ۔ اس لئیے ان شاء اللہ اس پر عقیدہ پر بات کرنے کے بعد بات ہوگي
تلمیذ صاحب! یہ غلط بیانی ہے!! آپ تو کتاب کے حوالے سے بات کرنے کو ہی تیار نہ تھے۔ بڑی مشکل سے تو آپ کو اس پر راضی کیا ہے۔ اور تبلیغی نصاب کے پیش کردہ اقتباس میں موجود اعمال کی بحث کو میں نے ہی مؤخر کیا ہے!! آپ بھی ذرا پچھلے مراسئلہ پر نظر فرمالیں!!!
بریلویوں کی طرف سے جو کرامات پیش کی جاتیں ہیں اور دیوبندیوں کی طرف سے کرامات پیش کی جاتیں ہیں ان میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ بریلوی جب کوئی کرامت پیش کرتے ہیں تو اس سے اس ولی کے نام پر نیاز کرنا اور ان کا عرس منانے کی ترغیب بھی کی جاتی ہے تو عوام بدعات و شرکیات میں مبتلا ہوجاتی ہے
ہم آپ کی یہ بات بلکل تسلیم کرتے ہیں!! کہ بریلوی اور دیوبندی کرامات میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی طرح کی ہیں!!! فرق صرف یہ ہے کہ بریلوی ان کرامات کے پیش کرنے بعد جو ترغیب دیتے ہیں وہ اور طرح کی ہے اور دیوبندی کی ترغیب اور طرح کی!!
دیوبندیوں کے حوالہ سے بات نہیں کروں گا کیوں کہ یہ تھریڈ تبلیغی جماعت سے متعلق ہے ۔ اور تبلیغی جماعت کی اس بات کی تبلیغ اس کرامت کو کرامت تک ہی رکھتی ہے
جمشید میاں عرف طحاوی دوراں نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی تو ، تو انہیں جو جواب دیا گیا تھا وہی آپ کو بھی پیش کر دیتے ہیں!!
3: آپ جس طرح سے علماء دیوبند کے عقائد کوتبلیغی جماعت کے عقائد سے جوڑنے پر مصر ہیں ہم اسے آپ کی کج بحثی سمجھنے پر مجبور ہیں۔ تھریڈ قائم کرتے ہیں تبلیغی جماعت۔ بات ہورہی ہے تبلیغی جماعت کی اورآپ بیچ بحث میں گھیسٹ رہے ہیں عقائد علماء دیوبند کو۔ تنہاتبلیغی جماعت پر بحث کرنے سے آپ کیوں کتراتے ہیں!جب آپ عنوان قائم کرتے ہیں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عقائد تواس وقت اردو کایہ بنیادی قاعدہ یاد نہیں رہتا کہ کیاکہہ رہے ہیں ۔یہ عنوان کیوں نہیں قائم کرتے تبلیغی جماعت کے علماء دیوبند کے واسطے سے شرکیہ عقائد۔ یاآپ کی پوری جماعت ہی اردو زبان میں مافی الضمیر کے تعبیر سے قاصر ہے؟
4: بنیادی بحث یہ ہے کہ یاتو تبلیغی جماعت کے عقائد پر بات کریں یاپھر علماء دیوبند کے عقائد پر بات کریں۔دونوں کوایک دوسرے سے مخلوط کرنا بحث میں کود کر ادھر اورکود کر ادھر بھاگنا نہایت قابل کراہت عمل ہے۔ یاپھر اس کااعتراف کرلیجئے اگراخلاقی جرات سے متصف ہیں تو کہ ہم تبلیغی جماعت کے عقائد پر بات نہیں کریں گے صرف علمائے دیوبند کے عقائد پر بات کریں گے۔لیکن یہ دوہرارویہ کہ تھریڈ قائم کریں تبلیغی جماعت اوربات شروع کردیں علماء دیوبند پر اس کی تائید کوئی بھی شخص جسے خدا نے عقل وحواس کی نعمت سے بہرہ ورکیاہے وہ اس کی تائید نہیں کرے گا۔
خلاصہ کلام
تبلیغی جماعت کے عقائد پر بات کریں گے یاپھر علمائے دیوبند کے عقائد پر۔اگرعلمائے دیوبند کے عقائد پر بات کرنی ہے توآئندہ تبلیغی جماعت پر کسی قسم کا کلام نہ کریں اوراگرتبلیغی جماعت پر بات کرنی ہے توپھر علماء دیوبند کو اس بحث سے خارج کریں ؟
آپ تو مراقبہ میں ہی رہیں !! بات چل رہی ہے ، کچھ تلمیذ صاحب سے ہی سیکھ لیں!
جمشید میاں! یہ اعلان کر دیں کہ مولانا محمد زکریا ، مولانا محمد الیاس ، بھائی عبدالوھاب کے وغیرہ کے عقائد دیوبندیوں کے عقائد سے مختلف ہیں!! پھر ان شاءاللہ! دیوبند کے عقائد کا ذکر تبلیغی جماعت کے حوالہ سےنہیں ہو گا!!!
!
اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اوراس کے سوا کسی سے کچھ نہ ہونے کا یقین
تلمیذ صاحب! ان شاءاللہ تبلیغی جماعت کے اس دعوی کی قلعی بھی کھل جائے گی!! ابھی تو آغاز ہے!! آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!
اگر یہی کرامت بریلوی بیان کرہے ہو تے اس نوجوان کا کہیں مزار بھی دریافت کرچکے ہوتے اور اس کے نام پر عرس بھی منانا شروع کرچکے ہوتے ۔
میرے بھائی!! معلوم ہوتا ہے کہ آپ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب کے مراقبو ں سے واقف نہیں!! وہ بھی قبر پر جا کر مراقب ہوا کرتے تھے!! اور یہ مزار !! یہ مزار صرف بریلویہ کی میراث نہیں !! دیوبندیہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں!!
یعنی سارا زور اس بات پر رہا کہ فضائل اعمال شرک والے واقعات پر مشتمل ہے اس لئیے یہ شرکیہ کتاب ہے ۔ اگر یہ کتاب شرکیہ ثابت ہوگئی تو تبلیغی جماعت بھی شرکیہ ثابت ہوئی اگر یہ شرکیہ نہیں بلکہ توحید والی کتاب ہے تو تبلیغی جماعت بھی توحیدی جماعت ہے ۔ دیوبندیوں اور تبلیغی جماعت کے حوالہ سے پہلے تفصیلی بات ہوچکی ہے آپ سے گذارش ہے کہ دوبارہ یہ موضوع نہ چھیڑيں اور راحا صاحب آپ سے پھر گذارش ہے کہ پھچلی پوسٹس دوبارہ پڑہیں آپ کوپتا چل چائے گا زیربحث موضوع کیا ہے
متفق!!! انشاءاللہ !! راجا بھائی بھی متفق ہونگے !!!
یہ تو کچھ باتیں ضمنی طور پر آگئی !! انہیں موضوع بحث نہ بنایا جائے تو بہتر!!
انشاءاللہ !ہفتہ کے روز اگلی پوسٹ میں ہم اپنا مکالمہ جاری رکھیں گے!! اور ہم انشاءاللہ! فتح الباری سے آپ کے استدلال کا باطل ہونا ثابت کریں گے!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ کی پوسٹس میں کچھ دعوی ہیں

ماشاءاللہ!! آپ کا یہ عقیدہ ہے!! لیکن تبلیغی جماعت کے اکابرین کا عقیدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا عقیدہ نہیں!!

تلمیذ صاحب! ان شاءاللہ تبلیغی جماعت کے اس دعوی کی قلعی بھی کھل جائے گی!
میرے بھائی!! معلوم ہوتا ہے کہ آپ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب کے مراقبو ں سے واقف نہیں!! وہ بھی قبر پر جا کر مراقب ہوا کرتے تھے!! اور یہ مزار !! یہ مزار صرف بریلویہ کی میراث نہیں !! دیوبندیہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں!!
یہ دعوے ہیں سب کے سب بلا دلیل ۔ اس لئیے ان پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہا جب دلائل آئیں گے تو ان شاء اللہ بات کی جائے گي

آپ نے کہا کہ
انشاءاللہ !ہفتہ کے روز اگلی پوسٹ میں ہم اپنا مکالمہ جاری رکھیں گے!!
ٹھیک ہے بھائی کوئی جلدی نہیں ۔ بس آپ سے ایک گذارش ہے کہ جب بھی آپ پوسٹ تحریر کریں تو میرے اس سوال کا جواب ضرور شامل کیجئیے گا کا جریج والی حدیث میں تیسرے بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس باندی نے نہ زنا کیا اور نہ چوری
 
Top