عربی متن
( عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : بيان لما بمعنى ( من ) أي في الذين كانوا قبلكم ( محدثون ) : بفتح الدال المشددة أي : ناس ملهمون كما فسر به ابن وهب . ( فإن يك في أمتي أحد ) أي : واحد منهم فرضا وتقديرا ( فإنه عمر ) . أي وإن يك أكثر فهو حينئذ أولى وأظهر . قال التوربشتي : المحدث في كلامهم هو الرجل الصادق الظن وهو في الحقيقة من ألقي في روعه .
[ ص: 3893 ] شيء من قبل الملأ الأعلى ، فيكون كالذي حدث به . وفي قوله : فإن يك في أمتي أحد فهو عمر لم يرد هذا القول مورد التردد ، فإن أمته أفضل الأمم وإن كانوا موجودين في غيرهم من الأمم ، فبالحري أن يكونوا في هذه الأمة أكثر عددا وأعلى رتبة ، وإنما ورد مورد التأكيد والقطع به ، ولا يخفى على ذي الفهم محله من المبالغة كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان يريد بذلك اختصاصه بالكمال في صداقته لا نفي الأصدقاء اه .
حوالہ
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
علي بن سلطان محمد القاري
ترجمہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (
لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : یعنی ان لوگوں میں میں جو تم سے پہلے تھے (محدثون ) محدثون کی دال پر زبر ہے اور مشدد ہے یعنی جو جس کو الہام ہو جیسا کہ ابن وہب نے تفسیر کی ہے (
فإن يك في أمتي أحد ) یعنی ایک بطور فرض کے ہے
( فإنه عمر ) یعنی ایک سے زیادہ ہوں تو یہ بات زیادہ لائق اور ظاہر ہے التوربشتي نے کہا کہ المحدث في كلامہم وہ آدمی ہے جو صادق گمان والا ہوتا ہے اور درحقیقت جس کے دل میں فرشتوں کی طرف سے کچھ القاء ہوتا ہے ۔ اور اس قول کے بارے میں کہ اگر کوئی میری امت میں ہے تو عمر ہے تو یہ بات تردید کے ضمن میں نہیں آئی کیوں کہ ان کی امت تمام امتوں سے افضل ہے اگر یہ (محدثین) دوسری امتوں میں پائے جاتے ہیں تو یہ امت زیادہ لائق ہے کہ اس امت میں زیادہ (محدثین ) پائے جائیں اور وہ بھی زیادہ اعلی رتبے کے ۔ یہاں یہ بات تاکید کے ضمن میں آئی ہے ۔ اور اس طرح کا غلو کا استعمال اہل عقل پر مخفی نہیں جیسا کہ اگر کوئی ادمی کہے کہ " اگر کوئی میرا دوست ہے تو وہ فلاون ہے تو وہ اس یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ دوست دوست ہونے میں میرا کامل دوست ہے یہ نہیں کہ کوئی اور دوست ہی نہیں
وقوله : " وإن يك في أمتي " قيل : لم يورد هذا القول مورد الترديد فإن أمته أفضل الأمم ، وإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم فإمكان وجوده فيهم أولى ، وإنما أورده مورد التأكيد كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان ، يريد اختصاصه بكمال الصداقة لا نفي الأصدقاء ،
فتح الباري شرح صحيح البخاري
أحمد بن علي بن حجر العسقلاني
اور یہ کہنا کہ "
وإن يك في أمتي" (اس فول کے بارے میں ) کہا گيا ہے کہ یہ قول تردید کے ضمن میں نہی ہے کیوں کہ ان کی امت سب سے افضل امت ہے اور جب یہ ثابت ہوگيا کہ یہ (محدث کا ہونا ) اس امت کے علاوہ اور امتوں میں ہے تو (محدث کی موجودگی ) اس امت میں زیادہ لائق ہے ۔ اور یہ قول بطور تاکید کے آیا ہے جیسا کہ ایک آدمی کہے کہ اگر میرا کوئی دوست ہے تو فلاں ہے تو وہ اس دوست کو کامل دوستی سے متصف کر رہا ہے نہ کہ دوستوں سے کے وجود سے انکار کر رہا ہے
بھائی ترجمہ پیش کردیا گيا ۔ اگر کوئی غلطی ہو تو بتائیے گا
راجا صاحب
میں نے پہلے کچھ مختصر عرض کیا تھا ۔ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہوں
آپ نے کہا
اس میں مزید بھی تفصیلات ہیں۔ کیونکہ دیوبندی علمائے کرام نے بھی بریلوی علماء کی اس طرز کی کرامات سے، بریلوی حضرات کے ایسے عقائد از خود اخذ کر کے ان کی تردید کر رکھی ہے، جن سے بظاہر بریلوی علماء بھی اظہار براءت کرتے ہیں۔ لہٰذا کرامات کی قبولیت و رد کا معیار جانچنا بہت ضروری ہے کہ جس سے بریلوی بزرگوں کی کرامت تو قابل تردید اور کفریہ شرکیہ ٹھہرے اور اس سے ملتی جلتی کرامت دیوبندی بزرگوں کی جانب سے ظاہر ہو تو اس کے دفاع میں صفحے سیاہ کئے جاتے رہیں۔
بریلویوں کی طرف سے جو کرامات پیش کی جاتیں ہیں اور دیوبندیوں کی طرف سے کرامات پیش کی جاتیں ہیں ان میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ بریلوی جب کوئی کرامت پیش کرتے ہیں تو اس سے اس ولی کے نام پر نیاز کرنا اور ان کا عرس منانے کی ترغیب بھی کی جاتی ہے تو عوام بدعات و شرکیات میں مبتلا ہوجاتی ہے
دیوبندیوں کے حوالہ سے بات نہیں کروں گا کیوں کہ یہ تھریڈ تبلیغی جماعت سے متعلق ہے ۔ اور تبلیغی جماعت کی اس بات کی تبلیغ اس کرامت کو کرامت تک ہی رکھتی ہے
اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اوراس کے سوا کسی سے کچھ نہ ہونے کا یقین
اگر یہی کرامت بریلوی بیان کرہے ہو تے اس نوجوان کا کہیں مزار بھی دریافت کرچکے ہوتے اور اس کے نام پر عرس بھی منانا شروع کرچکے ہوتے ۔بریلوی اور دیوبندی میں کرامت بیان کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے میں کچھ اور بھی لکھنا چاہتا تھا لیکن یہ پوسٹ تبلیغی جماعت کے متعلق ہے اس لئیے احتراز کر رہا ہوں
باقی کرامت سے کوئی شرعی حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا اس کی وضاحت کی جاچکی ہے
محترم، یہ تو عقیدہ کا ہی مسئلہ ہے کہ کرامت سے کسی وظیفہ ، سنت یا عقیدہ کا اثبات ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کل تک آپ کی تفصیلی پوسٹ کا منتظر رہوں گا۔ مجھے شدید خواہش ہے یہ جاننے کی کہ آخر کرامت کو مان کر، اس مقصد کا (وظیفہ کا) انکار کیسے کیا جانا ممکن ہے کہ جس کو نکال دینے سے کرامت ، کرامت ہی نہ رہ پائے۔ ؟ مجھے یقین ہے کہ یہ میری کم علمی ہی ہوگی، او رآپ کے پاس کوئی بہتر تشریح موجود ہوگی۔
میں پہلے کہ چکا ہوں
باقی رہا قرطبی کا ستر ہزار پڑہنے کا وظیفہ تو بھائی میں پچھلی پوسٹس میں تبلیغی جماعت کے شرکیہ عمل کے حوالہ سے سوال کرتا رہا لیکن اصرار رہا کہ پہلے عقیدہ اب جب کہ عقیدہ کے حوالہ سے بات ہوئی تو پھر اعمال کو ابھی بیچ میں نہ لائیں۔ یہ باتیں پہلے ہوچکی ہیں اور ابن داود صاحب بھی اس سے اتفاق کر چکے ہیں ۔ اس لئیے ان شاء اللہ اس پر عقیدہ پر بات کرنے کے بعد بات ہوگي