• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
قرآن مجید کی جو شرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اس کی کیا حیثیت ہے؟
ج:
دینی اُمور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اللہ کے حکم کے مطابق ہوتے ہیں:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ سورہ النجم
"اور وہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے جو کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے"
اسی لیے فرمایا:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـه ۔۔ ﴿٨٠﴾سورہ النساء
"جس نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی"
یہی وجہ ہے کہ دینی اُمور میں فیصل کن حیثیت اللہ تعالی اور اسے رسول صلی اللہ علیہ کو حاصل ہے۔
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾ سورہ النساء
"پس اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تواللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو"
معلوم ہوا اسلام اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا انبیاء علیھم السلام کو کتب سماوی کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
ج:
یقینا انبیاء علیھم السلام کو کتب سماوی کے علاوہ بھی وحی آتی تھی اور اس وحی پر عمل بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اللہ کے کلام پر۔
کتاب اللہ کے علاوہ وحی کی اقسام میں سے ایک قسم انبیاء کے خواب ہیں ابراہیم علیہ السلام کا خواب ملاحظہ فرمائیں:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴿١٠٢﴾ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴿١٠٣﴾ سورہ الصافات
"ابراہیم نے کہا اے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تم بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے، اس نے کہا ابا جان جو آپ کو حکم ہوا ہے وہ کر گزریئے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے، جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیتے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں"
اس آیت میں خواب میں بیٹے کو ذبح کیے جانے والے عمل کو اللہ کا حکم کہا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی خواب میں وحی ہوئی؟
ج:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک دفعہ خواب دیکھا کہ آپ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف کر رہے ہیں چونکہ یہ خواب بھی وحی کی قسم میں سے تھا لہذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بہت خوش ہوئے، 1400 صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے لیکن کفار مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روک دیا اور وہاں صلح حدیبیہ ہوئی، جس کی رو سے یہ طے پایا کہ آپ اس سال کی بجائے اگلے سال بیت اللہ کا طواف کریں گے، آپ کے خواب کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں تردد پیدا ہوا تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نے ہمیں خبر نہیں دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے، آپ نے فرمایا ہاں میں نے تمہیں بتایا تھا مگر میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ایسا اسی سفر میں ہو گا، واپسی پر اللہ تعالی نے آیات نازل فرمائیں:
لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ﴿٢٧﴾ سورہ الفتح
"بلاشبہ اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تم ضرور مسجد حرام میں امن و امان سے داخل ہوں گے، اگر اللہ تعالی نے چاہا"
(بخاری:2732)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا قرآن حکیم کے علاوہ وحی کے ذریعے احکامات بھی نازل ہوئے؟
ج:
بلا شبہ قرآن مجید کے علاوہ بھی احکامات نازل ہوئے، مثلا مسلمانوں کا پہلا قبلہ بیت المقدس تھا جس کی طرف ہجرت کے بعد 16،17 ماہ تک منہ کر کے مسلمان نماز ادا کرتے رہے۔ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن حکیم میں نہیں ہے لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ ۔۔ ﴿١٤٣﴾ سورہ البقرہ
"اور ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ اب تک تھے اسی لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرتا ہے"
معلوم ہوا کہ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم اللہ نے بذریعہ وحی خفی دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا سنت کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھا جا سکتا ہے؟
ج:
سنت کے بغیر قرآن حکیم سمجھنا ممکن نہیں ہے، اللہ تعالی نے ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ تاکید "اقامت صلوٰۃ" کی فرمائی مگر سنت کے بغیر اس حکم پر عمل ممکن نہیں، چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ ۔۔﴿٢٣٨﴾سورہ البقرہ
"نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص وسطیٰ صلوٰۃ کی"
وسطیٰ صلوٰۃ سے کیا مراد ہے، جب تک نمازوں کی کل تعداد معلوم نہ ہو وسطیٰ صلوٰۃ کیسے معلوم ہو سکتی ہے، نمازوں کی تعداد کا ذکر قرآن حکیم میں صراحتا نہیں، معلوم ہوا کہ وحی خفی کے ذریعے مسلمانوں کو اطلاع دی ہوئی تھی۔ اسی طرح فرمایا:
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ۔۔ ﴿١٠١﴾ سورہ النساء
"جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو"
اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نماز کو سفر میں کتنا کم کیا جائے پھر صلوٰۃ کے کم کرنے کا تصور اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ معلوم ہو سکے کہ پوری نماز کتنی ہے قرآن مجید نمازوں کی رکعتوں کے بارے میں خاموش ہے۔
یہ بھی فرمایا:
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿٢٣٩﴾ سورہ البقرہ
"اگر تم کو خوف ہو تو نماز پیدل یا سواری پر پڑھ لو لیکن جب حالت امن میں ہو تو اسی طریقہ سے اللہ کا ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا اور جس کو تم پہلے نہیں جانتے تھے"
اس آیت میں واضح ہے کہ نماز پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ مقرر ہے جو بحالت جنگ معاف ہے، اس طریقہ تعلیم کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا، نماز کا طریقہ اور اس کے اوقات وغیرہ قرآن مجید میں کہیں مذکور نہیں پھر اللہ نے کیسے سکھایا، معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آئی ہے، اس آیت پر غور فرمائیے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ۔۔ ﴿٩﴾ سورہ الجمعہ
"اے ایمان والو! جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی آیا کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دو"
معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز کا اہتمام باقی دنوں کے علاوہ خاص درجہ رکھتا ہے، اس کا وقت کون سا ہے؟ بلانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ قرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور کوئی شخص آیات قرآنی کے ذریعے اس کی تفصیل نہیں جان سکتا جب تک وہ حدیث کی طرف رجوع نہ کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی قرآن مجید کا مفہوم حدیث کے بغیر نہیں سمجھ سکتے؟
ج:
یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی قرآن مجید کا مفہوم سمجھنے کے لیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محتاج ہیں، قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢﴾ سورہ الانعام
"اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے اندر ظلم کی ملاوٹ نہیں کی، وہی امن پانے والے ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہیں"
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے چھوٹے بڑے گناہوں کو ظلم سمجھا، اس لیے یہ آیت ان لوگوں پر گراں گزری، لہذا عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں ایسا کون ہے کہ جس نے ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نہ کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ظلم سے مراد عام گناہ نہیں ہے بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے، کیا تم نے قرآن حکیم میں نہیں پڑھا: إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾ سورہ لقمان "شرک ظلم عظیم ہے" (بخاری:32، مسلم:124 )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا سنت قرآن مجید کی آیت میں موجود کسی شرط کو ختم کر سکتی ہے؟
ج:
جی ہاں اور اس کی مثال سفر میں نماز قصر ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ ۔۔ ﴿١٠١﴾ سورہ النساء
"اورجب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے"
آیت بالا میں نماز قصر ایسے سفر کے ساتھ مشروط ہے جس میں خوف بھی ہو اس لیے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اب تو امن کا زمانہ ہے اور ہم پھر بھی قصر کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ہم حالت امن کے سفر میں قصر کریں، یہ تمہارے لیے اللہ تعالی کی رعایت ہے پس اس رعایت کو قبول کرو" (مسلم:686)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا حدیث قرآن مجید کی کسی آیت کے عام حکم کو مقید کر سکتی ہے؟
ج:
جی ہاں اور اس کی مثال قرآن حکیم کی یہ آیت ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا ۔۔﴿٣٨﴾ سورہ المائدہ
"اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے"
"چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر کاٹا جائے" (بخاری:6789، مسلم:1684)
اس حدیث نے چوری کی سزا کو چوتھائی دینار سے مشروط کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا سنت قرآن حکیم کے حکم سے کسی چیز کو مستثنیٰ کر سکتی ہے؟
ج:
جی ہاں اور اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ حکم ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ۔۔ ﴿٣﴾ سورہ المائدہ
"تم پر مرا ہوا جانور، خون، سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام پکارا جائے حرام ہے"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "ہمارے واسطے دو مردار ٹڈی اور مچھلی اور دو خون کلیجی اور تلی حلال ہیں" (بیہقی)
معلوم ہوا کہ حدیث نے مچھلی اور ٹڈی کو مردار اور کلیجی اور تلی کو خون سے مستثنی قرار دیا، ایک اور مثال پر غور کرفرمائیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ ۔۔ ﴿٣٢﴾ سورہ الاعراف
"پوچھو کہ جو زینت (و آرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیں ان کو کس نے حرام کیا ہے، کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے بھی ہیں اور قیامت کے دن خاص انہی کے لیے ہوں گی"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "ریشم اور سونا میری اُمت کے مردوں کے لیے حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہیں" (مستدرک حاکم)
اگر حدیث سے رہنمائی نہ لی جائے تو اس آیت سے ریشم اور سونے جیسی حرام چیزوں کو حلال سمجھ لیا جاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا کوئی سنت صحیحہ قرآن مجید کے خلاف ہو سکتی ہے؟
ج:
جو روایت قرآن حکیم اور سنت مطہرہ کے اُلٹ ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی، امام بخاری، امام مسلم اور دیگر ائمہ حدیث رحمۃ اللہ علہیم نے اصول حدیث کی رو سے جن احادیث مبارکہ کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہیں، بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں اس لیے ان میں کوئی ایسی روایت نہیں جو کتاب و سنت کے خلاف ہو، جن لوگوں کو:
1- عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا دوبارہ زندہ دنیا میں آنا۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات۔
3- دجال سے متعلق اور
4- عذاب قبر سے متعلق احادیث قرآن حکیم کے خلاف نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ان کی کم علمی اور جہالت ہے یہ وہ روایات ہیں جنہیں تحقیق کے بعد محدثین نے صحیح کہا، یہ قرآن حکیم کے خلاف نہیں بلکہ ان کے خود ساختہ مفہوم کے اُلٹ ہے، درج ذیل آیت پر غور کیجئے:
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤٥﴾ سورہ الانعام
"کہو جو احکام مجھ پر نازل ہوئے میں ان میں کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا سوائے مردار، بہتا خون، سور کا گوشت جو ناپاک ہے یا گناہ کی چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکلے تو تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے"
سوچیئے کیا کتا اور دیگر درندوں کو، کوا اور دیگر نوچنے والے پرندوں کو حرام قرار دینے والی احادیث مبارکہ اس آیت کے خلاف ہیں، اگرچہ ظاہرا ایسا ہی محسوس ہوتا ہے مگر حقیقتا سنت اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں، دونوں کا جمع کرنا لازم ہے، یاد رکھیے جو دین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے اُمت کو تواتر کے ساتھ ملا، وہی صراط مستقیم ہے جو لوگ اپنی خواہشات اور اھواء کے ساتھ قرآن حکیم کی تفسیر بیان کرتے ہیں ان کے ہاں سنت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز ان کی خواہش نفس کے موافق ہو اس کی پیروی کی جائے اور جو ان کے اھواء کے خلاف ہو اسے ترک کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یقینا ایک وقت آئے گا کہ تکیہ لگائے ہوئے ایک آدمی بیٹھا ہو گا اور میرے احکامات میں سے کوئی حکم اس کے پاس آئے گا یا میرے منع کردہ اُمور میں سے کسی چیز کا اس کے سامنے ذکر ہوگا تو وہ کہے گا ہم اسے نہیں جانتے ہم جو اللہ کی کتاب میں حرام پاتے ہیں اسے حرام سمجھتے ہیں، خبردار! جس چیز کو اللہ کے رسول نے حرام قرارد دیا وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ کی طرح ہے" (ترمذی:2664)
معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ سے مراد قرآن وسنت ہے جس نے ان میں سے صرف ایک کو اختیار کیا اور دوسری کو ترک کیا، اس نے کسی ایک کو بھی اختیار نہیں کیا، کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے تمسک کا حکم دیتی ہیں، فرمایا:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ۔۔ ﴿٨٠﴾ سورہ النساء
"جس نے رسول کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی"
 
Top