• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
سب سے بڑا طاغوت کون ہے؟
ج:
شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے، جو غیر اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے، فرمایا:
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٦٠﴾ سورہ یس
"اے اولاد آدم کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے"
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کی اطاعت ہی شیطان کی عبادت ہے، لہذا غیر اللہ کی غیر مشروط اطاعت اس کی عبادت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا حکمران بھی طاغوت ہیں؟
ج:
وہ جابر اور ظالم حکمران جو فیصلے کے لیے کتاب و سنت کو اپنا ماخذ اور مرجع نہ سمجھے بلکہ انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے وہ یقینا طاغوت ہے ایسے حکمران کے بارے میں فرمایا:
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ﴿٤٤﴾ سورہ المائدہ
"اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہیں"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
حکمرانوں کو اختلاف کی صورت میں کس چیز کے ذریعے فیصلہ کرنا چاہیے؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾ سورہ النساء
"پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے"
معلوم ہوا جھگڑا کسی چیز میں ہو، جنتا بھی ہو، جیسا بھی ہو اس میں فیصلہ کے لیے صرف اور صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف رجوع کرنا ہو گا، اور اس بات کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی شرط قرار دیا اور اس کو دنیا و آخرت میں بھلائی کا سبب قرار دیا۔
پھر جو لوگ اس قانون کی بجائے بشری قوانین کے ذریعے اپنے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں وہ کیسے مومن ہیں؟ اور یہ بھی فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾ سورہ النساء
"اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسرتسلیم کر لیں"
اللہ تعالی نے قسم اُٹھا کر اور نفی کے الفاظ کو دو بار استعمال کرتے ہوئے، جھگڑوں میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم و فیصل نہ بنانے والوں کو خارج از ایمان قرار دیا ہے، اور آپ کے فیصلہ کے سامنے غیر مشروط طور پر سرتسلیم خم کرنے حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کسی اور سے فیصلہ کروانا کتنا بڑا جرم ہے؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿٦٠﴾ سورہ النساء
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو کتابیں آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کروائیں حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے"
یقینا جو حکمران اللہ کے نازل کردہ دین کی بجائے ان قوانین کو ملک کے عوام پر نافذ کرتے ہیں جو انسانوں نے بنائے (چاہے وہ مارشل لاء ہو یا اسمبلی کا پاس کردہ قانون یا کسی ایک شخص کا بنایا ہوا ہو) وہ طاغوت ہیں، اور جو شخص طاغوت سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے "یزعمون" کہہ کر اللہ تعالی نے ان کے دعوی ایمان کو جھٹلا دیا کہ یہ ایمان دار بنتے ہیں، لیکن یہ طرز عمل اور ایمان ایک بندے کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے، شیطان نے ان کو گمراہ کر دیا ہے، قد امروا ان يكفروا به فرما کر ہر مسلم پر لازم کر دیا کہ وہ طاغوت سے دشمنی کرے۔
یہ طاغوت چاہے دیہاتوں میں قبیلوں کے سرداروں کی پنچایت، ثالثی کمیٹی یا جرگہ ہو جو کتاب و سنت کی بجائے رسم و رواج کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں یا وہ عدالتیں جو اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اور فیصلہ میں کتاب و سنت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں، ان سے فیصلہ کروانے والوں کے دعوی ایمانی کی اللہ تعالی نے نفی کی ہے تو خود فیصلہ کرنے والوں کے کلمہ کا کیسے اعتبار ہو گا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
بعض لوگ قصہ یوسف علیہ السلام سے یہ بات نکالتے ہیں کہ طاغوت کی حکومت میں ایک مسلمان کا اسمبلی ممبر بننا یا وزیر بننا جائز ہے؟
ج:
اس بات میں تو کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ جو حاکم بھی شریعت سے بے پروا ہو کر قانون اور دستورِ حکمرانی مقرر کرے وہ طاغوت ہے اور اس کے بنائے ہوئے قانون کا انکار ایک ادنی سے ادنی مسلمان کے لیے بھی شرط ایمان ہے، جب حقیقت حال یہ ہے تو کیا ایک کریم ابن کریم ہستی یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایسا سوچنا بھی جائز ہو گا کہ وہ فرعونی دستور و نظام کے نفوذ میں ایک واسطہ ہوں؟ معاذ اللہ! یہ تو صریح ظلم و زیادتی ہے۔۔ تفصیلات کچھ بھی ہوں یقینا وہ نبی کی حیثیت سے طاغوت کے سب سے بڑھ کر انکار کرنے والے اور اللہ کے حکم کے سب سے زیادہ فرمانبردار اور اسے قائم کرنے والے تھے، لہذا ان لوگوں کے لیے جو آج کی طاغوتی حکومتوں کے بنائے ہوئے دساتیر و قوانین کی حلف برداریاں کرتے پھرتے ہیں اور بشری وقوانین کو لوگوں پر نافذ کرتے ہیں، یا اس کے مطابق حکم دیتے ہیں، برگزیدہ نبی علیہ السلام کے قصے میں ہرگز کوئی گنجائش موجود نہیں جو اپنے وعظ میں ڈنکے کی چوٹ فرماتے تھے:
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ ۔۔۔ ﴿٦٧﴾ سورہ یوسف
"حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لیے ہے"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا علماء کی غیر مشروط اطاعت کی جا سکتی ہے؟
ج:
علماء کی غیر مشروط اطاعت نا جائز ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٣١﴾ سورہ توبہ
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو معبود واحد کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ معبود واحد جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ پاک ہے، ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں"
مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہود و نصاری کے "احبار اور رہبان" اپنی طرف سے حلال و حرام قرار دیتے تھے، اور لوگ ان کی بات کو قبول کرتے تھے، معلوم ہوا کہ علماء کی غیر مشروط اطاعت ان کی عبادت ہے خصوصا جبکہ ان کی وجہ سے شرک کو توحید سمجھ کر قبول کیا جا رہا ہو۔
اسی لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جنہوں نے حدیث رسول سنی پھر اس کی سند کی صحت معلوم کی پھر اسے چھوڑ کر سفیان رحمہ اللہ یا کسی دوسرے کے قول کو ترجیح دی۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾ سورہ نور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے"
امام احمد نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ فتنہ کیا ہے، فتنہ شرک ہے" (کتاب التوحید)
کسی کو حلال و حرام کرنے کا حق دینا اس کو الہ بنانا ہے، اس لیے باطنی فرقے مشرک ہیں جو اپنے اماموں کو حلال و حرام کرنے کا مطلق حق دیتے ہیں، اس طرح ان لوگوں کا شرک بھی لازم آتا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کی بجائے اپنے پیروں، درویشوں اور اماموں سے زندگی کے مختلف احکام لیتے ہیں اور طریقت کے مختلف سلسلوں (نقشبندی، سہروردی، قادری اور چشتی) سے منسلک ہو کر کتاب و سنت سے آزاد ہو جاتے ہیں اپنے پیروں کے ہی مقرر کردہ طریقوں کو دین سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی کو حق دینا کہ وہ سیاسی، معاشی، دیوانی اور بین الاقوامی قانون بنانے میں کتاب و سنت کی پابند نہیں اور ان کی اکثریت جو قانون بنا دے اس کی اطاعت لازم قرار دینے والے اس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے قانون پر چلنا اللہ کی عبادت ہے اور غیر اللہ کے قانون پر چلنا غیر اللہ کی عبادت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
طاغوت سے کفر کرنے کا کیا مطلب ہے؟
ج:
طاغوت سے کفر کی صورت یہ ہے کہ طاغوت کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھا جائے اس سے بغض و عداوت رکھتے ہوئے اس سے علیحدہ رہا جائے، اور بخوشی ان طواغیت اور اولیاء الطاغوت سے دشمنی کی اعلان کیا جائے، فرمایا:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٤ سورہ الممتحنہ
"تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور جن جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بے زار ہیں، ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور جب تک تم اللہ اکیلے پر ایمان نہیں لاتے ہم میں اور تم میں ہمیشہ عداوت اور دشمنی رہے گی"
اسلامی شریعت میں مشرکین سے مخالفت بھی فرض ہے مگر طاغوت سے کفر و براءت اسلام کا فرض اولین ہے، ہو نہیں سکتا کہ کسی موحد کی طاغوت کے ساتھ دوستی ہو، کیونکہ تحریک اسلامی کی ٹکر طاغوت سے ہونا ناگزیر ہے، اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو جب مصر کی طرف بھیجا تو انہیں فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا کیونکہ وہ طاغوت تھا اور اس کو اللہ کی کبریائی کا درس دینا تھا، فرمایا:
اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ﴿١٧﴾ فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾ سورہ النازعات
"فرعون کے پاس جاو وہ سرکش ہو گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تو پاکیزگی اختیار کرنے پر تیار ہے؟"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ کے نزدیک دین کیا ہے؟
ج:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ ۔۔ ﴿١٩﴾ سورہ آل عمران
"بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
کیا اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر عمل جائز ہے؟
ج:
اللہ تعالی کا حکم ہے:
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۔۔ ﴿٣﴾ سورہ الاعراف
"لوگو تمہارے رب کی طرف سے جو نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے علاوہ اولیاء کی پیروی نہ کرو"
یہ بھی فرمایا:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٨٥﴾ سورہ آل عمران
"اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طلب گار ہو گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
س:
اللہ کے نازل کردہ دین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے؟
ج:
اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے ساتھ مخصوص فرما کر آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس کی مکمل تشریح کا حکم دیا:
۔۔۔ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ۔۔ ﴿٤٤﴾ سورہ النحل
"اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) نازل ہوئے ہیں وہ لوگوں سے بیان کر دو"
آیت کریمہ کے اس حکم میں دو باتیں شامل ہیں:
1- الفاظ اور ان کی ترتیب کا بیان یعنی قرآن مجید کا مکمل متن اُمت تک اس طرح پہنچا دینا جس طرح اللہ تعالی نے نازل فرمایا۔
2- الفاظ، جملہ یا مکمل آیت کا مفہوم و معانی بیان کرنا تاکہ اُمت مسلمہ قرآن حکیم پر عمل کرسکے۔
 
Top