• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کی موضوع حدیث

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
خیر یہ بحث تو وران گفتگو آئے گی، ان شاء اللہ!
بے شک اب آپ نے اصولی بات کی ہے جب میرے جوابات سامنے رکھ کر آپ اپنے اعتراضات پیش کرینگے ان شاءاللہ پھر بات بنے گی اور میں اپنے دلائل کا دفاع بھی اصول حدیث ہی سے آپکے سامنے رکھونگا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ کس جاہل نے آپ کو کہا یہ حدیث موضوع ہے ؟؟؟؟ ابن جوزی تو اکثر صحیح و حسن احادیث کو موضوع کہہ ڈالتے ہیں تو کیا انکے کہنے سے حدیث موضوع ہو جائے گی ؟
ایک طرف تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ ''کس جاہل نے آپ کو کہا یہ حدیث موضوع ہے؟؟؟''
پھر خود ہی فرماتے ہیں کہ ''ابن جوزی تو اکثر صحیح و حسن احادیث کو موضوع کہہ ڈالتے ہیں''
یعنی کہ آپ کو کم از کم اتنا تو معلوم تھا کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے، اس کے باوجود آپ نے انتہائی جسارت کے ساتھ کہنے والے کو جاہل کہہ دیا!
آگے جو آپ نے کہا ہے کہ تو کیا انکے کہنے سے حدیث موضوع ہو جائے گی؟
تو میرے بھائی! محض کسی کے کہنے سے حدیث نہ موضوع ہوتی ہی نہ صحیح، نہ محض ابن جوزی کے قول سے حدیث موضوع ہو جائے گی، اور نہ محض ملا علی قاری یا جلال الدین سیوطی کے کہنے سے صحیح و حسن ہو جائے گی!
بلکہ تحقیق و تحکیم حدیث میں ان کا موقف و فیصلہ ہے، جو دلائل کی بناء پر مقبول یا مردود ہو گا!
اور یاد رہے کہ ائمہ حدیث کی تحکیم کو رد کرنے کے لئے پختہ دلائل درکار ہوتے ہیں، محض اٹکل سے ان کے فیصلوں کو رد کرنا درست نہیں! کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل الذکر یعنی اہل علم سےسوال کرنے کا حکم دیا ہے!

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورة النحل 43)
اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے، تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔ ترجمہ: ﴿احمد رضا خان بریلوی
اور سوال کرنے کا یہ حکم بے سود نہیں کہ بس سوال کرو، اور ان کے جواب پر اعتماد وعمل نہیں کیا جائے!
لیکن جب ان کی تحکیم، جواب یا فتویٰ قرائن و دلائل کے خلاف معلوم ہو جائے، تو اس کی غلطی و خطا کی پیروی کرنا جائز نہیں!
اتنی اندھی گھمانےسے پہلے یہ بھی دیکھ لیتے کہ امام سیوطی نے المووضوعات میں اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرا دیا ہے اور ایسے امام ملا علی القاری نے
جی میرے بھائی! اندھی گھمانے سے گریز کرنا چاہیئے! اور پہلے دیکھ لینا چاہیئے کہ امام سیوطی اور ملا علی القاری نے کیا کہا ہے؟
آپ نے نجانے کہاں یہ دیکھا ہے کہ امام سیوطی اور ملا علی قاری نے اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہے!

مطالبہ 01: امام سیوطی اور ملا علی القاری کی وہ عبارات بحوالہ پیش کی جائیں جس میں انہوں نے اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہو۔
ہم آپ کو امام سیوطی اور ملا علی قاری کا کلام پیش کرتے ہیں، کہ انہوں نے خود اس روایت کو باطل و موضوع قرار دیا ہے۔
امام سیوطی کا کلام:

(الْحَاكِم) حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن صالِح بْن هَانِئ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن مَخْلَد الضَّرِير حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْن أَبِي إِسْرَائِيل حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن جَابِر اليمامي حَدَّثَنَا حَمَّاد بْن أبي سُلَيْمَان عَن إِبْرَاهِيم عَن عَلْقَمَة عَن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صليت مَعَ النَّبِي وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاة.
مَوْضُوع.
آفته اليمامي (قُلْتُ) أَخْرَجَهُ منْ هَذَا الطَّرِيق الدارَقُطْنيّ وَالْبَيْهَقِيّ
وَلَهُ طَرِيق آخر أَخْرَجَهُ أَحْمَد وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ من حَدِيث عَاصِم بْن كُلَيْب عَنْ عَبْد الرَّحْمَن وَالْأسود عَنْ عَلْقَمَة عَنِ ابْن مَسْعُود قَالَ الْحَافِظ ابْن حجر فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الشَّرْح هَذَا الْحَدِيث حسنه التِّرمِذيّ وَصَححهُ ابْن حزم.
وقَالَ ابْن الْمُبَارَك لَمْ يثبت عِنْدِي وَضَعفه أَحْمَد وَشَيْخه يَحْيَى بْن آدم وَالْبُخَارِيّ وأَبُو دَاوُد وأَبُو حَاتِم والدارَقُطْنيّ وقَالَ ابْن حَبَّان: هَذَا أحسن خبر رَوَى لأهل الْكُوفَة وَهُوَ فِي الْحَقِيقَة أَضْعَف شَيْء يعول عَلَيْهِ لِأَن لَهُ عِلّة توهنه انْتهى.
وقَالَ النَّوَوِيّ فِي الْخُلَاصَة اتَّفقُوا عَلَى تَضْعِيف هَذَا الْحَدِيث قَالَ الزَّرْكَشِيّ فِي تَخْرِيجه وَنقل الِاتِّفَاق لَيْسَ بجيد فقد صَححهُ ابْن حزم والدارَقُطْنيّ وَابْن الْقطَّان وَغَيْرُهُمْ وَبَوَّبَ عَلَيْهِ النَّسائيّ الرُّخْصَة فِي ترك ذَلِكَ.
قَالَ ابْن دَقِيق فِي الْإِلْمَام: عَاصِم ابْن كُلَيْب ثِقَة أخرج لَهُ مُسْلِم وَعبد الرَّحْمَن أخرج لَهُ مُسْلِم أَيْضا وَهُوَ تَابِعِيّ وثّقه ابْن مَعِين وَغَيره انْتهى.
وَنقل الْحَافِظ ابْن حُجْر أَيْضا فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الْهِدَايَة تَصْحِيح هَذَا الْحَدِيث عَنِ ابْن الْقطَّان والدارَقُطْنيّ كَمَا نَقله الزَّرْكَشِيّ خلاف نَقله فِي تَخْرِيج الرَّافِعِيّ عَنِ الدارَقُطْنيّ أَنَّهُ قَالَ: لَمْ يثبت واللَّه أَعْلَم.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 18 ۔ 19 جلد 02 اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة ۔ عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) ۔ دار المعرفة، بيروت
سرخ ملون الفاظ کا کلام اس روایت سے متعلقہ ہے اور سبز ملون الفاظ میں ابن مسعود سے دوسرے طرق سے مروی روایت جو سنن ابی دواد وسنن ترمذی وغیرہ میں اس سے متعلق ہے۔
سرخ ملون الفاظ میں امام سیوطی،حاکم کی سندسے اس حدیث حدیث کو نقل کرتے ہیں، اور اس پر اپنا حکم رقم کرتے ہیں، اور وہ ہے ''موضوع''
تو کیا کہیئے گا؟ کہ ''جاہل سیوطی'' نے آپ کو یہ کہا کہ یہ
مَوْضُوع ہے؟
امام سیوطی نے تو خود اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے، اس کے باوجود یہ کہنا کہ ''امام سیوطی نے ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہے'' اسے کیا کہا جائے؟ اسے اندھی گھمانا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
یہی نہیں، بلکہ امام سیوطی نے بھی
آفته اليمامي کہ کر اس کا وبال الیمامی یعنی محمد بن جابر الیمامی پر ہی ڈالا ہے۔
ابن جوزی نے بھی اس روایت کے تحت محمد بن جابر الیمامی پر کلام نقل کیاہے:


أما حَدِيث ابْن مَسْعُودٍ فَفِيهِ مُحَمَّد بْن جَابِر.
قَالَ يحيى: لَيْسَ بشئ.
وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل: لَا يحدث عَنْهُ إِلا شَرّ مِنْهُ.
وَقَالَ الفلاس: مَتْرُوك الحَدِيث.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 96 ۔ 97 جلد 02 الموضوعات ۔ جمال الدين عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) ۔ المكتبة السلفية، المدينة المنورة
لہذا یہ کہنا کہ امام سیوطی نے ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہے خود باطل ہے!
نوٹ: اور اگر امام سیوطی اسے باطل قرار دے بھی دیتے، تو محض ان کے کہنے سے کیا یہ باطل ہو جاتی؟ امام سیوطی ہوں یا کوئی اور اسے ائمہ جرح تعدیل کے اقوال کو ردکرنے کے لئے پختہ دلائل پیش کرنے ہونگے! محض کہنے سے کام نہیں چلتا!
ملا علی قاری کا کلام:
فَصْلٌ
وَمِنْ ذَلِكَ أَحَادِيثُ الْمَنْعِ مِنْ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْهُ كُلُّهَا بَاطِلَةٌ لَا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ

كَحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي فِي الرَّفْعِ وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ
وَكَحَدِيثِهِ الْآخَرِ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ وَهُوَ مُنْقَطِعٌ لَا يَصِحُّ
قُلْتُ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ قَالَ التِّرْمِذِيُّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ بِسَنَدِهِمَا فَمَا نُقِلَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ غَيْرَ ضَائِرٍ بَعْدَمَا ثَبَتَ بِالطَّرِيقِ الَّتِي ذَكَرْنَاهَا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 96 ۔ 97 جلد 02 الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى ۔ علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) ۔ المكتب الإسلامي، بيروت
ملا علی قاری نے پہلے رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے رفع الیدین کی ممانعت کی تمام احادیث کے متعلق اپنا حکم بیان کیا، کہ وہ تمام احادیث باطل ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں!
پھر باطل احادیث کی دو مثالیں ذکر کیں، پہلی
سرخ میں ملون، اور دوسری سبز رنگ میں ملون۔
پہلی حدیث کی پر ابن مبارک کا کلام نقل کیا کہ سالم کے واسطے سے ان کے والد یعنی عبد اللہ بن عمر سے مروی حدیث (یعنی رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے رفع الیدین کرنے کی حدیث) ثابت ہے، اور ابن مسعود کی حدیث ثابت نہیں۔
پھر دوسری روایت جو کہ ہماری گفتگو میں زیر بحث ہے، اسے باطل روایات کی مثال میں نقل کرے ، اس پر اپنا حکم ثادر فرمایا کہ یہ منقطع ہے، اور صحیح نہیں!
اس کے بعد پھر پہلی حدیث کی تخریج بیان کی ہے۔
ملا علی قاری نے تو ہماری زیر بحث روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار نہیں دیا، بلکہ ملا علی قاری نے تو خود اس روایت کو منقطع، غیر صحیح، اور باطل کہتے ہوئے موضوعات میں شمار کیا ہے!

اور اس روایت پر میں مدلل تحقیق موجود ہے یہاں پوسٹ کر دونگا ۔۔
جی! آپ کے مراسلہ میں آپ کی تحقیق دیکھی، اس تحقیق پر آگے کلام کریں گے، ابھی اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ جس امام سیوطی کے حوالہ سے نے ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دینا چاہا تھا، انہوں نے ہی محمد بن جابر الیمامی کو مجروح قرار دیا ہے، اور اسی موضوع روایت کا وبال محمد بن جابر الیمامی پر ڈالا ہے، اور آپ اپنی تحقیق میں امام سیوطی سے اتفاق نہیں کرتے، بلکہ محمد بن جابر الیمامی کو ثقہ ثابت کرنے کے خواہاں ہیں!
پھر اگر کوئی بالفرض امام سیوطی کے ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دینے سے متفق نہ ہو، تو وہ اندھی گھمانا کیسے ہو گیا؟

آپکے کسی بندے میں دم ہو تو آ کر میرے سامنے یہ روایت موضوع ثابت کر دکھلائے یہ روایت حسن درجے سے بالکل کم نہیں شواہد کی صورت میں
چلیں دیکھتے ہیں، ہم بھی، آپ بھی،اور قارئین بھی! کہ کس کے دلائل میں دم ہے!
ایسے جہالت بھرے سطحی اوعتراضات پر میری نظر پڑی تو آپکے لیے مشکل ہو جائے گی
میرے بھائی! اس تمہیدی تحریر میں ہی آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ مشکل کسے پیش آئی ہے، اور کسے پیش آئے گی!
معلوم تو یوں ہوتا ہے کہ آپ نے امام سیوطی اور ملا علی قاری کی عبارات کا مطالعہ بھی بہت سطحی طور پر کیا ہے، اور اپنے زعم میں اسے اپنی دلیل بنا لی! اسے اگر جہالت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
یہ ایک پھکی کے طور پر لے لیں ۔۔۔ محمد بن جابر پر ایسی کوئی جرح ثابت نہیں اور اپنے البانی صاحب سے ایک حوالہ دے رہا ہوں فقط کہ وہ محمد بن جابر کو متابعت میں قبول کرتے تھے
اول: اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عبارات یونیکوڈ میں تحریر کی جائے، تاکہ آپ کے کلام کا اقتباس لیا جا سکے۔ اگر آپ اسکین صفحہ لگاتے ہیں تو یہ ایک اضافی چیز ہے۔
محمد بن جابر الیمامی پر تو تفصیل سے آگے کلام آئے گا، لیکن ابھی میں آپ کی ''پھکی'' کا تریاک دیتا چلوں!

نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى [قال] حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق ابو حنيفة كتب حماد منى.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 450 جلد 08 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) ۔ المكتب الإسلامي، بيروت
ہم تو محمد بن جابر الیمامی کو ثقہ ومعتبر نہیں مانتے، ہمارے نزدیک تو یہ روایت درست نہیں!
آپ تو محمد بن جابر الیمامی کو ثقہ ومعتبر مانتے ہیں اور ہمیں بھی باور کروانا چاہتے ہیں، تو پھر آپ ان کی بات مان لیجیئے، اور اپنے امام اعظم کو چور تسلیم کر لیجیئے!
تو میرے بھائی! یہ ''پھکی'' وغیرہ کو رہنے دیں، ہم بھی ہر ''پھکی وچورن'' کا'' تریاک'' رکھتے ہیں!

تو یہ روایت موضوع کس علت کی وجہ سے بنائی گئی ہے ؟
آپ غالباً یہ گمان کیئے بیٹھے ہیں، کہ ایسے راویوں کی مروی روایت، جن کی روایت کم از کم متابعت میں قبول ہوتی ہو، موضوع نہیں ہو سکتی!
معلوم ہوتا ہے کہ علم الحدیث میں ابھی آپ بنیادی امور سے بھی ناواقف ہیں!
خیر، اس کا بیان آگے آئے گا ان شاء اللہ!
(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
یعنی کہ آپ کو کم از کم اتنا تو معلوم تھا کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے
ابن جوزی نے موضوعات میں درج کیا ہے تو ظاہری بات موضوع ہونے کا دعویٰ ہی کیا ہے نہ
اور ابن جوزی کو حدیث میں کے موضوع کے حکم میں معتبر کون مانتا ہے اسکی بھی لسٹ دے دیں ؟ انہوں نے تو کئی صحیح الاسناد و حسن روایات کو موضوع قرار دے دیا تو روایات کو موضوع قرار دینے میں امام جوزی خود ضعیف تشدید کی وجہ سے تو اس پر تو محدثین کا اتفاق ہے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
جی میرے بھائی! اندھی گھمانے سے گریز کرنا چاہیئے! اور پہلے دیکھ لینا چاہیئے کہ امام سیوطی اور ملا علی القاری نے کیا کہا ہے؟
آپ نے نجانے کہاں یہ دیکھا ہے کہ امام سیوطی اور ملا علی قاری نے اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہے!
مطالبہ 01: امام سیوطی اور ملا علی القاری کی وہ عبارات بحوالہ پیش کی جائیں جس میں انہوں نے اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہو۔
ہم آپ کو امام سیوطی اور ملا علی قاری کا کلام پیش کرتے ہیں، کہ انہوں نے خود اس روایت کو باطل و موضوع قرار دیا ہے۔
امام سیوطی کا کلام:
بہت افسوس کی بات ہے آ سے کم از کم یہ امید نہیں تھی

پہلے آپکو چاہیے تھا کہ امام ابن جوزی کی کتاب نقل کرتے کیونکہ امام سیوطی نے تو امام ابن جوزی کی کتاب پر تفصیل لکھی اور ابن جوزی کا رد کیا ہے جہاں ابن جوزی کی غلطی پائی پھر امام سیوطی کا طریقہ کار ردکا یہ ہے کہ کسی روایت کا دفاع کرتے ہیں تو یا تو راوی کا متابع پیش کرتے ہیں یا اس پر جروحات کا رد کرتے ہیں یا اسکا شاہد بیان کر کے روایت کو تقویت دیتے ہیں


امام ابن جوزی کا تو دعویٰ ہی مطلق تھا کہ نماز میں شروع میں ہاتھ اٹھانے کے منع کرنے کے باب کی روایات ہی موضوع ہیں
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
باب النهى عن رفع اليدين في الصلاة إلا عند الافتتاح قد روى من طريق ابن مسعود وأبي هريرة وأنس.
تو امام ابن جوزی نے تو مطلق طور پر ابن مسعود کی ، ابی ھریرہ و انس کی رویات کے موضوع ہونے کادعویٰ کیا ہے


اور امام سیوطی کے کھاتے موضوع کا حکم لگایا ہے جیسا کہ عبارت ہے :

امام سیوطی کا کلام:
(الْحَاكِم) حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن صالِح بْن هَانِئ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن مَخْلَد الضَّرِير حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْن أَبِي إِسْرَائِيل حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن جَابِر اليمامي حَدَّثَنَا حَمَّاد بْن أبي سُلَيْمَان عَن إِبْرَاهِيم عَن عَلْقَمَة عَن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صليت مَعَ النَّبِي وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاة.
مَوْضُوع.
آفته اليمامي (قُلْتُ) أَخْرَجَهُ منْ هَذَا الطَّرِيق الدارَقُطْنيّ وَالْبَيْهَقِيّ

یہاں موضوع کا حکم امام سیوطی نے امام ابن جوزی کا نقل کیا ہے اور نیچے امام سیوطی نے امام ابن جوزی کے موضوع ہونے کی تصریح کی کہ اس راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا گیا

پھر امام سیوطی ابن مسعود کی روایت کا دفاع کرتے ہیں ابن مسود کے ترمذی اور دیگر کتب احادیث سے عاصم بن کلیب کی روایت نقل کرکے کہ محدثین نے تصحیح کی ہے اور کچھ نے ضعیف بھی قرار دیا ہے
تو امام سیوطی نے موضوعات کی کتاب میں سنن ترمذی کی روایت کیوں لائے ؟
اسکا جواب آپ نے سوچ سمجھ کے دینا ہے ابن مسعود کی محمد بن جابر سے مروی روایت کو تقویت دینے کے لیے شاہد کےطور پر بیان کیایا ابن مسعود کی ترمذی والی روایت کو بھی موضوع ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے ؟؟؟؟


اور پھر مزے کی بات یہ اعتراض آپ نے ملا علی قاری پر بھی جڑ دیا امام ملا علی قاری نے بھی امام ابن جوزی کی کتاب اور امام سیوطی کی کتاب پر ہی موضوعات الکبیر لکھی تھی
وہ بھی وہی باب نقل کرتے ہیں جو کہ ابن جوزی نے بنایا تھا

ومن ذلك أحاديث المنع من رفع اليدين في الصلاة عند الركوع والرفع منه كلها باطلة لا يصح منها شيء

اور کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ رفع الیدین کے ترک میں جتنی بھی روایات ہیں کیا وہ سب باطل و یعنی موضوع ہیں ؟
اگر نہیں تو پھر ابن جوزی کی بات پر اتنا شور مچا کر اسکو موضوع ثابت کرنے کے دعوے کس کام کے

لگتا ہے آپ کتب الموضوعات کے منہج سے کم واقف ہیں
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
محمد بن جابر الیمامی پر تو تفصیل سے آگے کلام آئے گا، لیکن ابھی میں آپ کی ''پھکی'' کا تریاک دیتا چلوں!
نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى [قال] حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق ابو حنيفة كتب حماد منى.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 450 جلد 08 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) ۔ المكتب الإسلامي، بيروت
یہ بھی پھکی آپکی کسی کام کی نہیں آپ تو اس دلیل کے تحت ثقہ نہیں مانتے محمد بن جابر کو لیکن آپکے زبیر زئی اس روایت سے ابو حنیفہ کے مدلس ہونے پر استدلال کیا ہے یعنی اس وقت انکے نزدیک یہ راوی ثقہ ہو گیا تھا
لیکن جب یہ ترک رفع الیدین کی حدیث مین آیا تو پھر ضعیف ہوگیا

برحال یہاں عرض ہے کہ جریرکا سماع یمامہ یا مکہ میں ہونے کا ثبوت دیں جیسا کہ امام ابو حاتم نے کہا ہے کہ جس نے اس سے یمامہ و مکہ کے مقام پر لکھا تو وہ صدوق تھے

یہاں سے صاف ظاہر ہے جناب نے میرا مضمون تفصیلی دیکھا ہی نہیں
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
آپ غالباً یہ گمان کیئے بیٹھے ہیں، کہ ایسے راویوں کی مروی روایت، جن کی روایت کم از کم متابعت میں قبول ہوتی ہو، موضوع نہیں ہو سکتی!
جناب آپ یاد تو رکھا کریں کہ ثابت کیا کرنے بیٹھے ہیں اپنا رد خود کر رہے ہیں
ابن جوزی سے دلیل پکڑی آپنے کہ اس روایت میں آفت محمد بن جابر یمامی کی ہے جیسا کہ امام سیوطی نے ابن جوزی کا اس روایت کو موضوع کہنے پر تبصرہ کیا
پھر قلت سے اپنا موقف دیتے ہوئے ابن مسعود کی روایات کو بطور شاہد لکھا ہے

جب ایک متشدد محدث نے اس روایت کو یمامی کی وجہ سے موضوع قرار دیا تو آپ علل کے امام تو ہیں نہیں جنکو معرفت ہو کہ صحیح الاسناد میں روایت موضوع کی نشاندہی کر لیں


تو امید ہے اس طرح کی شرارت کرنے سے گریز کریں گے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
نوٹ: اور اگر امام سیوطی اسے باطل قرار دے بھی دیتے، تو محض ان کے کہنے سے کیا یہ باطل ہو جاتی؟ امام سیوطی ہوں یا کوئی اور اسے ائمہ جرح تعدیل کے اقوال کو ردکرنے کے لئے پختہ دلائل پیش کرنے ہونگے! محض کہنے سے کام نہیں چلتا!
جی ابن جوزی کا دعویٰ یہی تھا کہ یہ روایت موضوع محمد بن جابر متروک کی وجہ سے جسکو آپ نے میرے سامنے ثابت کرنا ہے
جو کہ ابھی تک نہیں ہوا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@اسد الطحاوی الحنفی بھائی! آپ تو ابھی سے گھبرا گئے!
آپ نے مراسلہ کے آخر میں یہ نہیں دیکھا:
(جاری ہے)
ذرا دھیرج رکھیئے!
اور جب تک میری تحریر مکمل نہ ہو، درمیان میں مراسلہ لکھنے سے گریز کیجئے!
جزاك الله!
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@اسد الطحاوی الحنفی بھائی! آپ تو ابھی سے گھبرا گئے!
آپ نے مراسلہ کے آخر میں یہ نہیں دیکھا:

ذرا دھیرج رکھیئے!
اور جب تک میری تحریر مکمل نہ ہو، درمیان میں مراسلہ لکھنے سے گریز کیجئے!
جزاك الله!

نہیں مجھے کوئی مسلہ نہیں اگر آپ اتنے دن لے رہے ہیں تو کوشش کریں ایک ہی بار سارا لکھ کر پوسٹ کیجیے گا تاکہ آپکی تحریر کا رد بھی ایک ہی بار میں کیا جا سکے
باقی آپکی مرضی ہے

اور آپ اپنی کہی ہوئی اس بات کو یاد رکھیے گا کہ حدیث کی تصحیح و تحسین اور حدیث کو باطل فقط کسی جرح مبہم کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا اس کے لیے بنیادی اصول جرح و تعدیل ہی مقدم ہوتا ہے
جی جزاک اللہ جاری رکھیں
ہم آپکی تحریر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں :)
 
Top