جی میرے بھائی! اندھی گھمانے سے گریز کرنا چاہیئے! اور پہلے دیکھ لینا چاہیئے کہ امام سیوطی اور ملا علی القاری نے کیا کہا ہے؟
آپ نے نجانے کہاں یہ دیکھا ہے کہ امام سیوطی اور ملا علی قاری نے اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہے!
مطالبہ 01: امام سیوطی اور ملا علی القاری کی وہ عبارات بحوالہ پیش کی جائیں جس میں انہوں نے اس روایت پر ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہو۔
ہم آپ کو امام سیوطی اور ملا علی قاری کا کلام پیش کرتے ہیں، کہ انہوں نے خود اس روایت کو باطل و موضوع قرار دیا ہے۔
امام سیوطی کا کلام:
بہت افسوس کی بات ہے آ سے کم از کم یہ امید نہیں تھی
پہلے آپکو چاہیے تھا کہ امام ابن جوزی کی کتاب نقل کرتے کیونکہ امام سیوطی نے تو امام ابن جوزی کی کتاب پر تفصیل لکھی اور ابن جوزی کا رد کیا ہے جہاں ابن جوزی کی غلطی پائی پھر امام سیوطی کا طریقہ کار ردکا یہ ہے کہ کسی روایت کا دفاع کرتے ہیں تو یا تو راوی کا متابع پیش کرتے ہیں یا اس پر جروحات کا رد کرتے ہیں یا اسکا شاہد بیان کر کے روایت کو تقویت دیتے ہیں
امام ابن جوزی کا تو دعویٰ ہی مطلق تھا کہ نماز میں شروع میں ہاتھ اٹھانے کے منع کرنے کے باب کی روایات ہی موضوع ہیں
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
باب النهى عن رفع اليدين في الصلاة إلا عند الافتتاح قد روى من طريق ابن مسعود وأبي هريرة وأنس.
تو امام ابن جوزی نے تو مطلق طور پر ابن مسعود کی ، ابی ھریرہ و انس کی رویات کے موضوع ہونے کادعویٰ کیا ہے
اور امام سیوطی کے کھاتے موضوع کا حکم لگایا ہے جیسا کہ عبارت ہے :
امام سیوطی کا کلام:
(الْحَاكِم) حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن صالِح بْن هَانِئ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن مَخْلَد الضَّرِير حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْن أَبِي إِسْرَائِيل حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن جَابِر اليمامي حَدَّثَنَا حَمَّاد بْن أبي سُلَيْمَان عَن إِبْرَاهِيم عَن عَلْقَمَة عَن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صليت مَعَ النَّبِي وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاة.
مَوْضُوع.
آفته اليمامي (قُلْتُ) أَخْرَجَهُ منْ هَذَا الطَّرِيق الدارَقُطْنيّ وَالْبَيْهَقِيّ
یہاں موضوع کا حکم امام سیوطی نے امام ابن جوزی کا نقل کیا ہے اور نیچے امام سیوطی نے امام ابن جوزی کے موضوع ہونے کی تصریح کی کہ اس راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا گیا
پھر امام سیوطی ابن مسعود کی روایت کا دفاع کرتے ہیں ابن مسود کے ترمذی اور دیگر کتب احادیث سے عاصم بن کلیب کی روایت نقل کرکے کہ محدثین نے تصحیح کی ہے اور کچھ نے ضعیف بھی قرار دیا ہے
تو امام سیوطی نے موضوعات کی کتاب میں سنن ترمذی کی روایت کیوں لائے ؟
اسکا جواب آپ نے سوچ سمجھ کے دینا ہے ابن مسعود کی محمد بن جابر سے مروی روایت کو تقویت دینے کے لیے شاہد کےطور پر بیان کیایا ابن مسعود کی ترمذی والی روایت کو بھی موضوع ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے ؟؟؟؟
اور پھر مزے کی بات یہ اعتراض آپ نے ملا علی قاری پر بھی جڑ دیا امام ملا علی قاری نے بھی امام ابن جوزی کی کتاب اور امام سیوطی کی کتاب پر ہی موضوعات الکبیر لکھی تھی
وہ بھی وہی باب نقل کرتے ہیں جو کہ ابن جوزی نے بنایا تھا
ومن ذلك أحاديث المنع من رفع اليدين في الصلاة عند الركوع والرفع منه كلها باطلة لا يصح منها شيء
اور کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ رفع الیدین کے ترک میں جتنی بھی روایات ہیں کیا وہ سب باطل و یعنی موضوع ہیں ؟
اگر نہیں تو پھر ابن جوزی کی بات پر اتنا شور مچا کر اسکو موضوع ثابت کرنے کے دعوے کس کام کے
لگتا ہے آپ کتب الموضوعات کے منہج سے کم واقف ہیں