• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کی موضوع حدیث

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے اور اس مراسلہ میں اقتباس صحیح طرح نظر نہیں آرہے تھے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب تک آپ کے تحقیق پر مبنی مضمون پر تو کچھ لکھا ہی، نہیں، اب تک تو جو بات تھی، وہ آپ کے مضمون سے پہلے کلام پر تھی!
میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ، اس میں مجھ سے ایک غلطی ہوئی ہے!
اور جو میری غلطی ہے، اس کا میں علی الإعلان اعتراف کرتا ہوں!
آگے اس مراسلہ میں میری اس غلطی کا بیان آئے گا!
ابن جوزی نے موضوعات میں درج کیا ہے تو ظاہری بات موضوع ہونے کا دعویٰ ہی کیا ہے نہ
لیکن آپ ہمارے کلام کا مطلب نہیں سمجھے، ہم نے یہ کہا تھا کہ جب آپ کو معلوم ہے کہ ابن جوزی رحمہ نے اسے موضوع کہا ہے، اس کے باوجود بھی آپ کا یہ کہنا کہ ''کس جاہل نے آپ کو کہا ہے کہ موضوع ہے'' کوئی اچھی بات نہیں!
اور ابن جوزی کو حدیث میں کے موضوع کے حکم میں معتبر کون مانتا ہے اسکی بھی لسٹ دے دیں ؟
دیکھیں میرے بھائی! ابن جوزی موضوع کہنے میں متساہل ضرور ہیں، جیسے امام حاکم تصحیح میں، تو متساہل کا تفرد دیگر کے برخلاف معتبر نہیں ہوتا!
انہوں نے تو کئی صحیح الاسناد و حسن روایات کو موضوع قرار دے دیا تو روایات کو موضوع قرار دینے میں امام جوزی خود ضعیف تشدید کی وجہ سے تو اس پر تو محدثین کا اتفاق ہے
اسے ضعیف نہیں، متساہل کہتے ہیں! جیسے کہ امام حاکم نے بہت سی ضعیف اور موضوع روایت کو صحیح قرار دے دیا!
پہلے آپکو چاہیے تھا کہ امام ابن جوزی کی کتاب نقل کرتے کیونکہ امام سیوطی نے تو امام ابن جوزی کی کتاب پر تفصیل لکھی اور ابن جوزی کا رد کیا ہے جہاں ابن جوزی کی غلطی پائی پھر امام سیوطی کا طریقہ کار ردکا یہ ہے کہ کسی روایت کا دفاع کرتے ہیں تو یا تو راوی کا متابع پیش کرتے ہیں یا اس پر جروحات کا رد کرتے ہیں یا اسکا شاہد بیان کر کے روایت کو تقویت دیتے ہیں
جی یہ بات آپ کی درست ہے، لیکن یہاں راوی پر جرح کا رد نہیں، کیا گیا!
اور نہ اس روایت میں محمد بن جابر کا کوئی متابع پیش کیا گیا ہے!
اس کا شاہد پیش کیا ہے! اور سمجھنا چاہیئے، کہ شاہد راویوں پر جرح اور ان کے ضعف کو رفع نہیں کرتا!
یہ بحث آگے آئے گی، کہ اس روایت پر پیش کی جانے والے شاہد کی کیا حثیت ہے، اور اس سے زیر بحث روایت کی صحت پر کب اور کیا اثر پڑتا ہے!
امام ابن جوزی کا تو دعویٰ ہی مطلق تھا کہ نماز میں شروع میں ہاتھ اٹھانے کے منع کرنے کے باب کی روایات ہی موضوع ہیں
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
باب النهى عن رفع اليدين في الصلاة إلا عند الافتتاح قد روى من طريق ابن مسعود وأبي هريرة وأنس.
تو امام ابن جوزی نے تو مطلق طور پر ابن مسعود کی ، ابی ھریرہ و انس کی رویات کے موضوع ہونے کادعویٰ کیا ہے
یہاں ترجمہ کرنے یا لکھنے میں آپ سے غلطی ہو گئی ہے، ''نماز میں شروع میں ہاتھ اٹھانے کے منع کرنے کے باب کی روایات ہی موضوع ہی'' نہیں بلکہ ''نماز میں شروع کے علاوہ ہاتھ اٹھانے کےمنع کے باب کی روایات ہی موضوع ہیں''
نماز میں شروع میں ہاتھ اٹھانے کے منع کرنے کے باب کی روایات ک تو آپ بھی موضوع ہی مانیں گے!
اور امام سیوطی کے کھاتے موضوع کا حکم لگایا ہے جیسا کہ عبارت ہے :

امام سیوطی کا کلام:
(الْحَاكِم) حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن صالِح بْن هَانِئ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن مَخْلَد الضَّرِير حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْن أَبِي إِسْرَائِيل حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن جَابِر اليمامي حَدَّثَنَا حَمَّاد بْن أبي سُلَيْمَان عَن إِبْرَاهِيم عَن عَلْقَمَة عَن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صليت مَعَ النَّبِي وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاة.
مَوْضُوع.
آفته اليمامي (قُلْتُ) أَخْرَجَهُ منْ هَذَا الطَّرِيق الدارَقُطْنيّ وَالْبَيْهَقِيّ

یہاں موضوع کا حکم امام سیوطی نے امام ابن جوزی کا نقل کیا ہے اور نیچے امام سیوطی نے امام ابن جوزی کے موضوع ہونے کی تصریح کی کہ اس راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا گیا
جی میرے بھائی! یہاں مجھ سے غلطی ہوئی تھی، امام سیوطی کی مقدمہ میں بیان کردہ تصریح کہ وہ اپنا بیان ''قلت'' سے بیان کریں گے، نطر انداز کردیا تھا!
آپ کا مدعا اس بابت بالکل درست ہے، کہ امام سیوطی نے ابن جوزی کی تحکیم بیان کی ہے، اور اس تحکیم پر اپنے اعتراضات و اشکال وارد کیئے ہیں!
لیکن آپ کا یہ کہنا کہ، امام سیوطی نے ابن جوزی کی جرح کو باطل قرار دیا ہے، یہ پھر بھی درست نہیں!
امام سیوطی نے ابن جوزی کی محمد بن جابر الیمامی پر پیش کردہ جرح پر کوئی کلام نہیں کیا، بلکہ اس کا ایک شاہد پیش کیا ہے! اور شاہد سے روایت کے راویوں پر جرح رفع نہیں ہوتی۔ بلکہ مجروح رواة کی روایت کو تقویت دینے کے لئے شواہد پیس کیئے جاتے ہیں!
یہاں موضوع کا حکم امام سیوطی نے امام ابن جوزی کا نقل کیا ہے اور نیچے امام سیوطی نے امام ابن جوزی کے موضوع ہونے کی تصریح کی کہ اس راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا گیا

پھر امام سیوطی ابن مسعود کی روایت کا دفاع کرتے ہیں ابن مسود کے ترمذی اور دیگر کتب احادیث سے عاصم بن کلیب کی روایت نقل کرکے کہ محدثین نے تصحیح کی ہے اور کچھ نے ضعیف بھی قرار دیا ہے
تو امام سیوطی نے موضوعات کی کتاب میں سنن ترمذی کی روایت کیوں لائے ؟
اسکا جواب آپ نے سوچ سمجھ کے دینا ہے ابن مسعود کی محمد بن جابر سے مروی روایت کو تقویت دینے کے لیے شاہد کےطور پر بیان کیایا ابن مسعود کی ترمذی والی روایت کو بھی موضوع ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے ؟؟؟؟
امام سیوطی اس سنن ترمذی کی روایت کو زیر بحث روایت کے شاہد کے طور پر پر لائے ہیں، کہ امام سیوطی کے نزدیک سنن ترمذی کی روایت سے زیر بحث روایت کو تقویت ملتی ہے، کہ اس کا درجہ موضوع کا نہیں! موضوع سے بہتر ہے، اور موضوع سے بہتر درجہ حسن وصحیح کا ہی نہیں، بلکہ اس سے پہلے ضعیف بھی ہے، مختلف درجات میں! اس کی کے صحیح وحسن ہونے کا حکم تو امام سیوطی نے بھی نہیں، لگایا!
امام سیوطی نے مقدمہ میں بیان کیا ہے:

فَإِن من مهمات الدَّين التَّنْبِيه على مَا وضع من الحَدِيث واختلق على سيد الْمُرْسلين صلى الله عَلَيْهِ وعَلى آله وصحابته أَجْمَعِينَ، وَقد جمع فِي ذَلِك الْحَافِظ أَبُو الْفرج ابْن الْجَوْزِيّ كتابا فَأكْثر فِيهِ من إِخْرَاج الضَّعِيف الَّذِي لَمْ ينحط إِلَى رُتْبَة الْوَضع بل وَمن الْحسن وَمن الصَّحِيح كَمَا نبه على ذَلِك الْأَئِمَّة الْحفاظ وَمِنْهُم ابْن الصّلاح فِي عُلُوم الحَدِيث وَأَتْبَاعه،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 02 جلد 01 اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة ۔ عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) ۔ دار المعرفة، بيروت
معلوم ہوا کہ امام سیوطی نے جہاں ابن جوزی کی تحکیم کا تعاقب کیا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام سیوطی اسے حسن یا صحیح قرار دے رہے ہیں، بلکہ اس کے موضوع ہونے کی نفی کرتے ہیں، الا یہ کہ اس کے حسن وصحیح ہونے کا بیان کیا ہو!
لہٰذا یہ کہنا کہ ''امام سیوطی ابن مسعود کی روایت کا دفاع کرتے ہیں'' محل نظر ہے، کیا امام سیوطی نے اس روایت کے حسن و صحیح ہونے کا دفاع کیا ہے؟ کیونکہ ایسا کوئی دفاع تو امام سیوطی نے نہیں کیا، کہ امام سیوطی اس روایت کو صحیح یا حسن قرار دے رہے ہوں، کہ دفاع اس روایت کا نہیں، بلکہ اس روایت پر موضوع کی تحکیم پر اشکال وارد کیئے ہیں!
مطالبہ 02: امام سیوطی کی عبارت پیش کیجیئے، جہاں امام سیوطی نے زیر بحث روایت کی تحسین یا تصحیح کی ہو!
اور پھر مزے کی بات یہ اعتراض آپ نے ملا علی قاری پر بھی جڑ دیا امام ملا علی قاری نے بھی امام ابن جوزی کی کتاب اور امام سیوطی کی کتاب پر ہی موضوعات الکبیر لکھی تھی
وہ بھی وہی باب نقل کرتے ہیں جو کہ ابن جوزی نے بنایا تھا

ومن ذلك أحاديث المنع من رفع اليدين في الصلاة عند الركوع والرفع منه كلها باطلة لا يصح منها شيء
جی! ملا علی قاری نے باب کا نام یہی رکھا ہے، ملا علی قاری کا بھی بعین وہی معاملہ ہے، جو امام سیوطی کا۔ اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا، جب ہم اس حدیث کو موضع وباطل ہونے پر اپنے دلائل پیش کریں گے!
اور کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ رفع الیدین کے ترک میں جتنی بھی روایات ہیں کیا وہ سب باطل و یعنی موضوع ہیں ؟
جی میرے بھائی! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سے منسوب رفع الیدین عند الرکوع کی مانع تمام روایات موضوع وباطل ہیں! اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب روایات کم از کم ضعیف وباطل ہیں!
لیکن فی الوقت یہی حدیث زیر بحث ہے، دیگر روایات پر بحث سے خلط مبحث نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے!
اگر نہیں تو پھر ابن جوزی کی بات پر اتنا شور مچا کر اسکو موضوع ثابت کرنے کے دعوے کس کام کے
میرے بھائی! مسئلہ ابن جوزی کا نہیں، ابن جوزی نے احادیث کو موضوع قرار دینے میں تساہل سے کام لیا ہے، اور ابن جوزی کی غلطی کو تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں! لیکن ان کی غلطی ہو بھی!
اور یہ محض ابن جوزی کا مسئلہ نہیں، بلکہ اور ائمہ حدیث نے اس روایت کو مردود وباطل قرار دیا ہے!
لگتا ہے آپ کتب الموضوعات کے منہج سے کم واقف ہیں
دراصل امام سیوطی، اور ملا علی قاری، میرے محترمین میں سے تو ہیں، لیکن ممدوحین میں سے نہیں! اس کی وجوہات ہیں، اس جانب بھی آگے کچھ ذکر آئے گا!
یہ بھی پھکی آپکی کسی کام کی نہیں آپ تو اس دلیل کے تحت ثقہ نہیں مانتے محمد بن جابر کو لیکن آپکے زبیر زئی اس روایت سے ابو حنیفہ کے مدلس ہونے پر استدلال کیا ہے یعنی اس وقت انکے نزدیک یہ راوی ثقہ ہو گیا تھا
لیکن جب یہ ترک رفع الیدین کی حدیث مین آیا تو پھر ضعیف ہوگیا
اول: آپ کو غالباً یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ قول محمد بن جابر الیمامی کے ثابت ہونے کے لئے، محمد بن جابر الیمامی کا ثقہ ہونا لازم نہیں، قول تو کسی کذاب کا بھی ثابت ہو سکتا ہے، کہ اس قول کی روایت کی سند صحیح ہو!
دوم کہ حافظ زبیر علی زئی نے محمد بن جابر کو ثقہ نہ کہا، اور نہ سمجھا! بلکہ اس کا قول صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ محمد بن جابر یہ کہتا ہے!
سوم: کہ حافظ زبیر علی زئی نے استدلال محمد بن جابر کے قول سے نہیں کیا، بلکہ عبداللہ بن مبارک کے قول سے کیا ہے!
حافظ زبیر علی زئی کی تحریر یوں ہے:

نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه.
''احمد بن منصور المروزی نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے سلمہ بن سلیمان سے سنا، کہا عبد اللہ بن المبارک نے کہا: میرے ساتھی (محدثین) مجھے أبو حنیفہ سے روایت کرنے میں ملامت کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ اس نے محمد بن جابر کی حماد بن ابی سلیمان سے کتاب لے کر حماد سے روایت کردی اور اسے اس نے حماد سے نہیں سنا تھا۔ (الجرح والتعدیل: 450/8)
اس کی سند صحیح ہے۔ احمد بن منصور زاج ''الامام المحد الثقہ'' ہیں (سیر اعلام النبلاء: 388/12) سلمہ بن سلیمان المروزی وراق ابن المبارک ''ثقہ حافظ'' ہیں (التقریب: 2493) محمد بن جابر الیمانی خود کہتا تھا کہ: '''' أبو حنیفہ نے مجھ سے (شنیدہ) حماد کی کتابیں چرائی ہیں۔(الجرح والتعدیل: 450/8 وسنده صحیح) معلوم ہوا کہ اما أبو حنیفہ اس وجہ سے مدلس تھئ۔ یاد رہے کہ ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ نے آخری عمر میں امام أبو حنیفہ سے روایت ترک کردی تھی۔ (الجرح والتعدیل: 449/8) اسی لیے کتب ابن المبارک میں ان کی امام أبو حنیفہ سے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 240 ۔ 241 نصر الباری فی تحقیق جزاالقراۃ للبخاری ۔ حافظ زبیر علی زئی ۔ مکتبہ اسلامیہ، لاہور
آپ نے نجانے کیسے یہ معنی اخذ کرلیا کہ:
یعنی اس وقت انکے نزدیک یہ راوی ثقہ ہو گیا تھا
آپ اس طرح معنی کشید نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا!
برحال یہاں عرض ہے کہ جریرکا سماع یمامہ یا مکہ میں ہونے کا ثبوت دیں جیسا کہ امام ابو حاتم نے کہا ہے کہ جس نے اس سے یمامہ و مکہ کے مقام پر لکھا تو وہ صدوق تھے
آپ نے مطالبہ تو یوں کیا ہے، جیسے جریر کا سماع یمامہ یا مکہ میں ہونے سے امام أبو حنیفہ کو آپ چور مان ہی لیں گے!
لیکن یہ بھی آپ کی خطا ہے، کیونکہ ابن ابی حاتم نے یہ نہیں کہ محمد بن جابر الیمامی کی یمامہ اور مکہ میں روایت کردہ روایات کا صحیح و حسن ہانا لازم ہے، آپ نے خود یہ عبارت نقل کی، ہے، لیکن ترجمہ و استدلال میں اسے نطر انداز کردیا ہے!
معلوم نہیں یہ غلطی میں ہوا، یا دانستہ!
آپ کی پیش کردہ عبارت یوں ہے:

امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں : وقال ابن ابی حاتم ایضا: وسمت ابی و ابا زرعة یقولا : من کتب عنه بالیمامة وبمکة فھو صدوق الا ان فی احادیث تخالیط واما اصوله فھی صحاح (الجرح و تعدیل ، جلد 7 ص 219)
اس کا ترجمہ آپ نے یوں کیا:
ترجمہ : امام ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ سے سنا وہ دونوں فرماتے ہیں جو کچھ بھی اس سے (محمد بن جابر) سے لکھا گیا مکہ اور یمامہ کے مقام پر اس وقت وہ صدوق تھے
مگر اس ترجمہ میں آپ نے سرخ ملون عربی عبارت کو نظر انداز کر دیا!
مطالبہ 03: ان سرخ ملون الفاظ سمیت مکمل عبارت کا ترجمہ پیش کیجیئے!
یہاں سے صاف ظاہر ہے جناب نے میرا مضمون تفصیلی دیکھا ہی نہیں
آپ کا گمان درست نہیں! آپ کے مضمون پر جب کلام آئے گا تب آپ بہت کچھ ظاہر ہوگا، ان شاء اللہ!
جناب آپ یاد تو رکھا کریں کہ ثابت کیا کرنے بیٹھے ہیں اپنا رد خود کر رہے ہیں
ابن جوزی سے دلیل پکڑی آپنے کہ اس روایت میں آفت محمد بن جابر یمامی کی ہے جیسا کہ امام سیوطی نے ابن جوزی کا اس روایت کو موضوع کہنے پر تبصرہ کیا
پھر قلت سے اپنا موقف دیتے ہوئے ابن مسعود کی روایات کو بطور شاہد لکھا ہے
حالانکہ آپ کو معلوم بھی ہے، کہ روایت کے موضوع ہونے کے لیے، سند کے کسی راوی کا کذاب یا وضاع قرار دیا جانا لازم نہیں! جس کا اظہار آپ نے اگلے جملے میں کیا ہے، کہ صحیح الاسناد روایت بھی موضوع ہو سکتی ہے، اس کے باوجود ہمیں یاد دلانا کہ ہم کیا ثابت کرنا ہے!
جناب من! ہم اس اس روایت کو موضوع وباطل ثابت کرنا ہے!
اس کے لئے ہم ہر وہ دلیل دینے کا حق رکھتے ہیں، جس سے اس روایت کا بطلان اور بناوٹی ہونا ثابت ہو!
جب ایک متشدد محدث نے اس روایت کو یمامی کی وجہ سے موضوع قرار دیا تو آپ علل کے امام تو ہیں نہیں جنکو معرفت ہو کہ صحیح الاسناد میں روایت موضوع کی نشاندہی کر لیں
ہم اس روایت پر جو کلام و دلائل پیش کریں گے، تو آپ کو علل کا بیان بھی بتلائیں گے، اور یہ بھی کہ ابن جوزی نے محمد بن جابر الیمامی پر کیا وبال ڈالا ہے!
تو امید ہے اس طرح کی شرارت کرنے سے گریز کریں گے
اگر آپ خود اس طرح کے شرارتی کلام سے گریز کریں گے، تو بہتر ہوگا!
جی ابن جوزی کا دعویٰ یہی تھا کہ یہ روایت موضوع محمد بن جابر متروک کی وجہ سے جسکو آپ نے میرے سامنے ثابت کرنا ہے
جو کہ ابھی تک نہیں ہوا
آپ کو غالباً یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اب جوزی نے محمد بن جابر متروک کو اس روایت کا گڑھنے والا نہیں کہا!
اور ہمارا مدعا یہ ہے کہ یہ روایت موضوع وباطل ہے! جسے ہم ثابت کریں گے!
اب براہ کرم درمیان میں مراسلہ لکھ کر مخل نہ ہوئیے گا!
نہیں مجھے کوئی مسلہ نہیں اگر آپ اتنے دن لے رہے ہیں تو کوشش کریں ایک ہی بار سارا لکھ کر پوسٹ کیجیے گا تاکہ آپکی تحریر کا رد بھی ایک ہی بار میں کیا جا سکے
باقی آپکی مرضی ہے
آپ کی بات بھی غلط نہیں، لیکن اس طرح کی بحث میں کلام تفصیل سے کیا کرتا ہوں، جس میں وقت بھی درکار ہوتا ہے!
مراسلہ اس لئے کردیتا ہوں کہ ایک ہی مراسلہ میں پورا مقالمہ بھی درست نہیں ہوتا، الا یہ کہ مختصر ہو!
اور آپ اپنی کہی ہوئی اس بات کو یاد رکھیے گا کہ حدیث کی تصحیح و تحسین اور حدیث کو باطل فقط کسی جرح مبہم کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا اس کے لیے بنیادی اصول جرح و تعدیل ہی مقدم ہوتا ہے
ویسے ایک بات تو بتلائیے! میں نے یہ بات کہاں کہی ہے!
میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی!
میرے بھائی! ویسے یہ جرح مبہم کے حوالہ سے یہ نظریہ کہ جرح مبہم کبھی کسی راوی اور روایت کے لئے مضر ہوتی ہی نہیں، یہ بات بھی درست نہیں! بعض الناس جرح مبہم اور جرح مفسر کے أمور کو سمجھنے میں غلطی کی بناء پر ایسی ناسمجھی کی باتیں کرتے ہیں!
بنیادی أصول جرح وتعدیل تو یہ ہیں،جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے!

[تقديم الجرح على التعديل]
والجَرْحُ مقدَّمُ عَلى التَّعْديلِ، وأَطلقَ ذلك جماعةٌ، ولكنَّ، محلُّهُ إنْ صَدَرَ مُبَيَّناً مِن عارفٍ بأسبابه؛ لأنَّه
إِنْ كانَ غيرَ مُفَسَّرٍ لم يَقدح فيمن ثبتت عدالتُهُ، وإنِ صدَرَ مِن غيرِ عارفٍ بالأسبابِ لم يُعتبر بهِ، أيضاً.
فإنْ خَلا المَجْروحُ عَنِ تعديلٍ قُبِلَ الجرحُ فيهِ مُجمَلاً غيرَ مُبَيَّنِ السَّببِ، إذا صدَر مِن عارفٍ على المختار، لأنه إذا لم يكُنْ فيهِ تعديلٌ فهو في حَيِّزِ المَجهولِ، وإعمالُ قولِ المجرِّح أَوْلى مِن إِهمالِه.
ومالَ ابنُ الصَّلاحِ في مثلِ هذا إلى التوقُّفِ فيهِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 167 ۔ 168 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ دار المأثور للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 174 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ مكتبة الملك فهد الوطنية، المدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 179 ۔ 180 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ مكتبة الملك فهد الوطنية، المدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 136 ۔ 137 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ مكتبة البشری، كراتشي

معلوم ہوا کہ جرح مبہم کے مقبول نہ ہونے کا یہ أصول ان رواة کے متعلق ہے، جن کی تعدیل معتمد ثابت ہو!
جی جزاک اللہ جاری رکھیں
ہم آپکی تحریر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں :)
آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو ابھی بہت ''لطف اندوز'' کریں گے! آپ کے ''لطف'' کا بہت لطیف بیان آئے گا!
جب تک (جاری ہے) درمیان میں مراسلہ نہ لکھیں تو بہتر ہوگا!
(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
اسے ضعیف نہیں، متساہل کہتے ہیں! جیسے کہ امام حاکم نے بہت سی ضعیف اور موضوع روایت کو صحیح قرار دے دیا!
جناب من اسکو تشدید کہتے ہیں تساہل نہیں کہتے ۔۔۔۔۔ تساہل اور چیز ہے اور تشدید اور چیز ہے کسی چیز پر جرح کرنا یہ اسکی تشدید کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔ برحال یہ کوئی قابل بحث چیز نہیں خیر
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
معذرت میں نے پڑھنے سے پہلے سمجھا تھا کہ آپ نے اس بار مکمل لکھا ہوگا ۔۔ جواب دے دیا اوپر ۔۔
لیکن آپ نے جاری لکھا ہوا ہے
تو میری اس غلطی کو امید ہے نظر انداز کرینگے
اور ان شاءاللہ میں خاموش رہونگا جب آپ اختتام کرینگے تو تب جواب دونگا
شکریہ
جزاک اللہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
معذرت میں نے پڑھنے سے پہلے سمجھا تھا کہ آپ نے اس بار مکمل لکھا ہوگا ۔۔ جواب دے دیا اوپر ۔۔
لیکن آپ نے جاری لکھا ہوا ہے
تو میری اس غلطی کو امید ہے نظر انداز کرینگے
اور ان شاءاللہ میں خاموش رہونگا جب آپ اختتام کرینگے تو تب جواب دونگا
شکریہ
جزاک اللہ

شکریہ آپکا بھی ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلے ہم محمد بن جابر الیمامی کی توثیق سے متعلق پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیں گے!

اب ہم محمد بن جابر کی محدثین سے توثیق پیش کرتے ہیں
اور ہم آپ کی پیش کردہ توثیق کاجائزہ لیں گے!
۱.امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ جس نے اس سے یمامہ اور مکہ میں سنا اس وقت و صدوق تھے
۲.امام ابو زرعہ فرماتے ہیں جس نے اس سے یمامہ و مکہ میں لکھا وہ اس وقت صدوق تھے
ان دونوں پر آپ کی دلیل ابن ابي حاتم کی کتاب الجرح والتعديل سے آپ کی پیش کردہ درج ذیل عبارت ہے:
امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں : وقال ابن ابی حاتم ایضا: وسمت ابی و ابا زرعة یقولا : من کتب عنه بالیمامة وبمکة فھو صدوق الا ان فی احادیث تخالیط واما اصوله فھی صحاح (الجرح و تعدیل ، جلد 7 ص 219)
اس عبارت کے سرخ ملون الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے، ناقص ترجمہ آپ نے یوں کیا تھا:
ترجمہ : امام ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ سے سنا وہ دونوں فرماتے ہیں جو کچھ بھی اس سے (محمد بن جابر) سے لکھا گیا مکہ اور یمامہ کے مقام پر اس وقت وہ صدوق تھے
آپ پہلے تو یہ بتلائیے کہ آپ نے ترجمہ میں یہ ''جو کچھ بھی'' کہاں سے اخذ کیا ہے؟
عبارت میں
''من'' ہے ''ما'' نہیں! ''من'' کا معنی ہوگا، ﴿جس نے، جس کسی نے تو ''من كتب عنه'' ﴿جس نے، جس کسی نے اس سے (محمد بن جابر الیمامی سے) لکھا!
پھر یہ بتلائیے کہ یہاں
''فهو صدوق'' میں ''هو'' کی ضمیر کا مرجع کیا ہے، یعنی ''هو'' کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے؟
آپ نے تو
''فهو'' کی ضمیر جابر بن محمد الیمامی کی طرف لوٹا دی!
حالانکہ جملہ کا آغاز
''من'' سے ہونا، اس امر کا مقتضی ہے کہ اس ''من'' کی خبر دی جائے!
اور آپ کے ترجمہ کے میں تو اس
''من'' کی کوئی خبر ہی نہیں!
بلکہ آپ نے تو
''من'' کو ''ما'' بنا ڈالا، اور اس کے بعد بھی اس کی کوئی خبر نہیں!
اس عبارت کا ترجمہ پیش کرنے سے قبل ہم کچھ دلائل وقرائین پیش کرتے ہیں:
یہی ابن ابي حاتم اپنے والد ابي حاتم الرازي سے اسی کتاب میں اس ترجمہ میں بیان کرتے ہیں:

نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن جابر فقال ذهب كتبه في آخر عمره وساء حفظه وكان يلقن وكان عبد الرحمن بن مهدي يحدث عنه ثم تركه بعد وكان يروى احاديث مناكير وهو معروف بالسماع جيد اللقاء رأوا في كتبه لحقا وحديثه عن حماد فيه اضطراب روى عنه عشرة من الثقات،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية

یہاں دیکھیں! ابن ابی حاتم نے محمد بن جابر الیمامی کے متعلق اپنے والد أبي حاتم الرازي سے سوال کیا، تو انہوں نے محمد بن جابر الیمامی کے متعلق مندرجہ ذیل باتیں بتلائیں:
ذهب كتبه في آخر عمره آخر عمر میں اس کی کتابیں ضائع ہوگئیں!
وساء حفظه اس کا حافطہ خراب ہو گیا!
وكان يلقن اور تلقین قبول کرنے لگا!
وكان عبد الرحمن بن مهدي يحدث عنه ثم تركه بعد عبد الرحمن بن مهدي اس سے روایت کرتے تھے، بعد میں انہوں نے روایت لینا ترک کردی!
وكان يروى احاديث مناكير اس نے مناکیر روایت کی ہیں!
وهو معروف بالسماع جيد اللقاء وہ جید القاء ہے اس کا (اپنے شیوخ) سے سماع معروف اور مشہور ہے!
رأوا في كتبه لحقا وحديثه عن حماد فيه اضطراب انہوں اس کی کتاب میں الحاق اور اس کی حماد سے روایات میں اضطراب دیکھا!
روى عنه عشرة من الثقات، اس سے دس ثقہ روای روایت کرتے ہیں!
سرخ ملون عبارات میں یہ ابن ابي حاتم نے یہ بات صراحتاً بیان کی ہے، کہ محمد بن جابر کی کتب بھی خطاء و اختلاط سے خالی نہ تھیں، بلکہ اس میں الحاق بھی تھا، اور خاص حماد رے روایات کا ذکر کرکے بتلایا ہے، کہ حماد سے روایات میں اضطراب بھی تھا!
اب اس تصریح کے بعد یہ کہنا، أبو حاتم الرازی کے نزدیک محمد بن جابر کی کتب صحیح تھیں، اور محمد بن جابر کی کتب سے روایت کو أبو حاتم الرازي صحیح قرار دیتے ہیں، درست نہیں!
اور آپ کے پیش کردہ قول میں بھی اس کا بیان ان الفاظ میں موجود ہے، کہ
إلا أن في حديثه تخاليط واما اصوله فهى صحاح،
اور یہی ابن ابي حاتم اسی باب میں اسی سے متصل أبو زرعہ کا یہ قول بھی بیان کرتے ہیں:
وقال أبو زرعة محمد بن جابر ساقط الحديث عند أهل العلم،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
ابن ابي حاتم نے ہی، أبو زرعہ کا یہ قول نقل کیا ہے، کہ اہل علم نزدیک محمد بن جابر الیمامی ساقط الحدیث ہے!
اور یہاں ایسی کوئی بات نہیں، کہ مکہ اور یمامہ میں کتب سے روایت کرتے ہوئے ساقط الحدیث نہیں، اور بعد کی روایت میں ساقط الحدیث ہے، بلکہ یہ مطلقاً کہا ہے کہ اہل علم کے نزدیک محمد بن جابر الیمامی ساقط الحدیث ہے!
اور محمد بن جابر الیمامی کے مطلقاً ساقط الحدیث ہونے پر ابن ابی حاتم کا اس سے متصل نقل کردہ أبو الوليد الطیالسی قول بھی دلیل ہے:

نا عبد الرحمن نا محمد بن يحيى قال سمعت أبا الوليد الطيالسي وذكر محمد بن جابر فقال نحن نظلم ابن جابر بامتناعنا التحديث عنه (1) .
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
کہ أبو الولید الطیالسی کہ یہ کہنا کہ محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے کو منع کرنے میں ہم نے اس پر ظلم کیا!
کہ ان کے نزدیک محمد بن جابر المیامی اتنا گیاگزرا راوی بھی نہیں کہ اس سے کچھ روایت ہی نہ کیا جائے! یعنی کہ
''نحن'' کے صیغہ سے محدثین کے متعلق ہے کہ محدثین محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور اس سے منع کرتے ہیں!
(اس منع کرنے کے امر کو سمجھنا چاہیئے کہ عوام میں اس کی مناکیر مشہور نہ ہو جائیں)
اور یہ بات دلالت کرتی ہے کہ محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے کو مطلقا ہی منع کرنے کے متعلق ہے، وگرنہ اس کے حافظہ کی انتہائی خرابی کے بعد تو اس سے روایت کو منع کرنا کسی طرح بھی ظلم نہیں!
اور آپ کی پیش کردہ عبارت میں اسی کے متعلق بیان ہے، کہ محمد بن جابر الیمامی سے اس کے حافظہ کی انتہائی خرابی سے پہلے اس کی کتاب سے روایت کردہ روایات کا سماع کرنے والوں پر کوئی عیب نہیں!
مجھے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں
''فهو'' میں هو کی ضمیر کا مرجع ''من'' ہے!
قال أبو محمد سمعت أبي وابا زرعة يقولان محمد بن جابر يمامى الاصل ومن كتب عنه ﴿كتب عنه﴾ باليمامة وبمكة وهو صدوق إلا أن في حديثه تخاليط واما اصوله فهى صحاح،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
لہٰذا اس کا ترجمہ یوں ہوگا:
ابن ابي حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور أبو زرعہ کو یہ کہتے سنا کہ جس نے اس سے (محمد بن جابر الیمامی سے) یمامہ اور مکہ میں لکھا، پس وہ (محمد بن جابر الیمامی سے لکھنے والا) صدوق ہے، مگر اس کی (محمد بن جابر الیمامی) احادیث میں تخالیط یعنی بہت اختلاط ہے، جبکہ ان کی بنیاد درست ہوتی ہے۔
اور اس میں محمد بن جابر کی توثیق نہیں، بلکہ یمامہ اور مکہ میں محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے والوں کا دفاع ہے، کہ یمامہ اور مکہ میں محمد بن جابر الیمامی سے سماع کرنے والوں کو محمدبن جابر الیمامی سے روایت کرنے سے کوئی عیب لاحق نہیں ہوتا کہ محمد بن جابر الیمامی کی اس وقت روایت کردہ احادیث میں تخالیط یعنی بہت اختلاط تھا، مگر ان کی کوئی بنیاد ہوا کرتی تھی!
یعنی بعد میں اس سے بھی گر کر انتہائی ضعف کا شکار ہو گیا!
ہاں اس روایت سے اتنا معلوم ہوتا ہے، کہ یمامہ اور مکہ میں محمد بن جابر الیمامی اتنا کمزور راوی نہیں تھا، جتنا وہ بعد میں ہوگیا!
اب آپ سے یہ سوال ہے، کہ یہاں
''فهو صدوق'' میں ''هو'' کی ضمیر کا مرجع کیا ہے، یعنی ''هو'' کی ضمیر کس کی طرف لوٹتی ہے؟
نوٹ: میں نہ عربی لغت کا استاد ہوں، نہ اس وہم میں لاحق ہوں کہ عربی زبان پر عبور ہے! اتنا ضرور ہے کہ لغت عربی کی بنیادی فہم اور قواعد وضوابط سے کچھ آشنائی ہے، اگر بادلیل اور قرائین سے میرے بیان کے برعکس باثبوت بتلایا جائے گا، تو رجوع کرنے میں توقف نہیں ہوگا!

آج شیخ اسحاق سلفی بھائی بہت یاد آئے!
جب وہ حیات تھے، اس طرح کے أمور میں ان سے تصدیق وتصحیح کروا لیا کرتا تھا!

بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ابن ابي حاتم نے اپنے والد اور ابی زرعہ کے قول میں ''فهو صدوق'' محمد بن جابر الیمامی کے لئے لکھا ہے، پھر بھی یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ امام ابن ابي حاتم نے ہی ''صدوق'' کا کیا اطلاق بتلایا ہے:
ثم احتيج إلى تبيين (3) طبقاتهم ومقادير حالاتهم وتباين درجاتهم ليعرف من كان منهم في منزلة الانتقاد والجهبذة والتنقير والبحث عن الرجال والمعرفة بهم - وهؤلاء هم أهل التزكية والتعديل والجرح.
ويعرف من كان منهم عدلا في نفسه من أهل الثبت في الحديث والحفظ له والاتقان فيه - هؤلاء هم أهل العدالة.
ومنهم الصدوق في روايته الورع في دينه الثبت الذي يهم أحيانا وقد قبله الجهابذة النقاد - فهذا يحتج بحديثه أيضا.

ومنهم الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطأ والسهو والغلط - فهذا يكتب من حديثه الترغيب والترهيب والزهد والآداب ولا يحتج بحديثه في الحلال والحرام.
ومنهم من قد الصق نفسه بهم ودلسها بينهم - ممن قد ظهر للنقاد العلماء بالرجال منهم الكذب، فهذا يترك حديثه ويطرح روايته ويسقط ولا يشتغل به.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 6 ۔ 7 جلد 01 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 6 ۔ 7 جلد 01 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
اور امام ابی ابی حاتم کے بیان کردہ، ابی حاتم اور أبو زرعہ کے اسی قول میں ہے؛ '' أن في حديثه تخاليط'' کہہ کر محمد بن الیمامی کی احادیث میں تخالیط یعنی بہت اختلاط کا بھی بتلایا گیا ہے۔
لہٰذا لازم آتا ہے کہ یہاں محمد بن جابر کو صدوق کے
''الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطأ والسهو والغلط - فهذا يكتب من حديثه الترغيب والترهيب والزهد والآداب ولا يحتج بحديثه في الحلال والحرام.'' اسی رتبہ میں رکھا جائے!
لطیفہ:
بتلاش بسیار مجھے کہیں بھی مذکورہ عبارت کا یہ ترجمہ نہیں ملا، سوائے آپ کے، یا آپ کے علاوہ دیوبندیوں کے بلا مناظرہ مناظر اسلام الیاس گھمن صاحب کی تحریر میں، (بلا مناظرہ مناظر اسلام اس لئے کہ میں نے الیاس گھمن صاحب کو کبھی مناظرہ کرتے نہیں دیکھا، ہمیشہ صدر مناظر ہی دیکھا ہے، میرے علم میں تو ان کا ایک بھی مناظرہ نہیں)
الیاس گھمن صاحب اس عبارت کو آدھا ادھورا نقل کرکے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:

و قال عبد الرحمن بن ابى حاتم الرازي: وسمعت أبي وأبا زرعة يقولان من كتب عنه باليمامة وبمكة فهو صدوق
(تہذ یب التہذیب ج9ص77)

اور امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم الرازی نے تصریح فرمائی ہے کہ محمد بن جابر سے جس نے یمامہ اور مکہ میں روایت لی ہے وہ اس وقت صدوق تھے۔
ملاحظہ فرمائیں: مسئلہ ترک رفع الیدین فی الصلوۃ ۔ از افادات: متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ۔ احناف ڈیجیٹل لائبریری
حالانکہ
تهذيب التهذيب میں بھی مذکورہ عبارت یوں ہے:
قال وسمعت أبي وأبا زرعة يقولان من كتب عنه باليمامة وبمكة فهو صدوق إلا أن في أحاديثه تخاليط وأما أصوله فهي صحاح
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 512 جلد 05 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية، ودار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 527 ۔ 528 جلد 03 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 89 جلد 09 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند


دلوں کے حال تو اللہ ہی جانے، مگر ظاہر میں تو فریب وفراذ ودجل کاری ہے!
معلوم نہیں کہ آپ نے عربی عبارت تو پوری نقل کی، مگر ترجمہ واستدلال میں مکمل عبارت کو مد نظر کیوں نہ رکھا گیا! الیاس گھمن صاحب کے دام میں آکر یا کسی اور وجہ سے!
بہر حال نہ ابي حاتم اور نہ ہی أبو زرعہ کے قول سے محمد بن جابر الیمامی کی توثیق ثابت ہوتی ہے، بلکہ ان کے اقوال سے، یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن جابر الیمامی کی یمامہ اور مکہ میں روایت کردہ احادیث میں بھی تخالیط یعنی بہت اختلاط ہے، اور ان کی کتب سے روایت بھی درست نہیں، کہ اس میں بھی الحاق ہے، اور حماد سے روایات میں بھی اضطراب ہے۔

۳.دوسرے مقام پر امام ابو حاتم و ابو زرعہ نے فرمایا محمد بن جابر مجھے ابن الھیہ سے زیادہ پسندیدہ ہے
نا عبد الرحمن قال وسئل ابى عن محمد بن جابر وابن لهيعة فقال محلهما الصدق ومحمد بن جابر احب إلى من ابن لهيعة.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 ۔ 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 ۔ 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
ابو حاتم الرازی کا یہ قول تو الجراح والتعدیل میں موجود ہے، لیکن ابو زرعہ کا یہ قول کہاں ہے؟
مطالبہ نمبر 04: ابو زرعہ کا یہ قول بحوالہ پیش کیا جائے، کہ انہوں نے کہا ہو کہ محمد بن جابر الیمامی انہیں ابن لھيعة سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
میرے بھائی، اسے کہتے ہیں ''اندھوں میں کانا راجا''!
اس سے توثیق ثابت نہیں ہوتی، بلکہ ضعف کے مراتب بیان ہوتے ہیں!
امام أبو حاتم اور أبو زرعہ سے محمد بن جابر الیمامی کی تضعیف تو اوپر تفصیل سے بیان ہوئی!
اس کے باوجود اس جملہ سے امام أبو حاتم اور أبو زرعہ کے اس قول سے محمد بن جابر الیمامی کی توثیق کشید کرنا انتہائی عجیب ہے۔


اس حوالہ سے فورم پر ایک بار لکھا تھا؛ اسے یہاں پیش کرتا ہوں، کہ رواة کے تقابل کے بیان کو سمجھنے میں آسانی ہو!
سألته عن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة فقال: هو أقوى من محمد بن الحسن.
امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ سے متعلق سوال کے پر فرمایا: وہ (قاضی ابو یوسف)، محمد بن الحسن سے قوی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 146 – جلد 01 سؤالات البرقاني للدارقطني رواية الكرجي عنه - أبو بكر بالبرقاني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر

اب یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ، دیکھو ، دیکھو، امام دارقطنیؒ نے قاضی ابو یوسفؒ کو ثقہ سے بھی ثقہ بیان کیا، یعنی کہ امام محمد کو ثقہ قرار دیا ہے!!
نہیں بھائی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن حسنؒ، قاضی ابو یوسفؒ سے بھی زیادہ ضعیف ہیں!! اور اسے دوسرے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسے اردو میں ہم محاورہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ اندھوں میں کانا راجا!! اس میں کانے کی تعریف مقصود نہیں ہوتی، بلکہ یہ بتلانا ہوتا ہے کہ ہے تو یہ بھی کانا ہی مگر اندھو ں سے بہر حال بہتر ہے!!
اس عبارت کے یہی معنی درست ہیں، کیونکہ امام دارقطنی، دوسری جگہ فرماتے ہیں:

أبو يوسفَ ومحمدُ بنُ الحسنِ، في حديثِهما ضَعفٌ.
قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن ، ان دونوں کی احادیث میں ضعف ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 281 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - المكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 110 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر


اور ان دونوں کی احادیث میں ضعف کی وجہ یہ خود ہی ہیں۔ فتدبر!!
مجھے خدشہ ہے کہ بعض الناس اٹکل کو گھوڑے دوڑاتے ہوئے یہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ امام الداقطنی ؒ نے قاضی ابو يوسفؒ کو قوی سے بھی قوی ، یعنی ثقہ سے بھی ثقہ قرار دیاہے، اور مجھ سے اصول و قاعدہ کا مطالبہ کریں گے کہ میں نے اسے'' اندھوں میں کانا راجا'' کس اصول وقاعدہ سے قرار دیا ہے؟ اور ممکن ہے کہ وہ سمجھیں کہ ابن داود نے امام محمد ؒ اور قاضی ابو یوسف ؒ کی شان میں گستاخی کردی ! حالانکہ یہ بات کلام کو سمجھنے والے سے مخفی نہیں ہے، لیکن جن کی مت علم الکلام نے ماردی ہو، اور وہ کلام کو سمجھنے سے قاصر ہوں، ان کی اٹکل کے گھوڑوں کو میں اصطبل میں باندھ ہی دوں تو بہتر ہے؛
تو لیجئے جناب! امام الدارقطنی ؒ خود فرماتے ہیں:

أَخْبَرَنَا البرقاني، قَالَ: سألتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ، عَن أبي يوسف صاحب أبي حنيفة، فقال: هُوَ أقوى من مُحَمَّد بْن الْحَسَن.
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطبري، قَالَ: سمعتُ أَبَا الْحَسَن الدَّارَقُطْنِيّ سُئل عَن أبي يوسف الْقَاضِي،
فَقَالَ: أعور بين عُميان. وكان القاضي أَبُو عَبْد الله الصيمري حاضرًا فقام فانصرفَ ولم يعد إلى مجلس الدَّارَقُطْنِيّ بعد ذَلِكَ.

ہمیں البرقانی نے خبر دی، کہا کہ مین نے امام الدارقطنی ؒ سے صاحب ابو حنیفہ ؒ قاضی ابو یوسف ؒ کے متعلق سوال کیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا کہ وہ (قاضی ابو یوسف ؒ) محمد بن الحسن الشیبانی ؒ سے قوی ہیں،
ہم سے القاضی ابو الطیب طاہر بن عبد اللہ الطبری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام الدارقطنی ؒ کو کہتے سنا، جب ان سے قاضی ابو یوسف ؒ سے متعلق سوال کیا گیا، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اندھوں کے درمیان کانا۔
وہاں قاضی ابو عبد اللہ الصمیری الحنفی موجود تھے وہ اٹھے اور چلے گئے، اور اس کے بعد امام الدارقطنی کی مجلس میں نہیں آئے!

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 381 جلد 16 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 260 جلد 14 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت


یہ بات الْحُسَيْن بن عَلِيّ بن مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَر أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَاضِي الصيمري الحنفی (الطبقات السنية في تراجم الحنفية میں انہیں حنفی شمار کیا گیا ہے) نے خود بھی بیان کی ہے:
وسمعته يَقُولُ: حضرت عند أَبِي الْحَسَن الدارقطني، وسمعت منه أجزاء من كتاب «السنن» الذي صنفه. قَالَ: فقرئ عليه حديث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد، الحديث المسند فِي زكاة الخيل، وفي الكتاب غورك ضعيف، فَقَالَ أَبُو الْحَسَن: ومن دون غورك ضعفاء. فقيل الذي رواه عَنْ غورك هو أَبُو يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ: أعور بين عُميان! وكان أَبُو حامد الإسفراييني حاضرا، فَقَالَ: ألحقوا هذا الكلام فِي الكتاب! قَالَ الصيمري: فكان ذلك سبب انصرافي عَنِ المجلس ولم أعد إِلَى أَبِي الْحَسَن بعدها، ثم قَالَ: ليتني لم أفعل، وأيش ضر أبا الْحَسَن انصرافي؟! أو كما قَالَ.
خطیب بغدادی کہتے ہیں میں نے ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی کو کہتے سنا کہ وہ امام الداقطنی کے پاس تھے، اور ان سے ان کی تالیف کردہ کتاب ''السنن'' کے اجزاء سنے، ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا، جب میں نے حدیث غورك السعدي عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد،زکاۃ الخیل سےمتعلق پڑھی، اور کتاب میں تھا کہ غورک ضعیف ہے ، تو امام الدارقطنی ؒ نے فرمایا: اور غورک کے علاوہ باقی بھی تمام ضعفاء ہیں۔ امام الدارقطنی سے کہا گیا کہ غورک سے روایت کرنے والے قاضی ابو یوسف ؒ ہیں، تو امام الدارقطنی ؒ نے کہا: اندھوں کے درمیان کانا!
ابو حامد الاسفرایینی میں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ اس کلام کو کتاب شامل کر لیں! ابو عبد اللہ القاضی الصمیری الحنفی نے کہا کہ اس سبب کے وجہ سے میں نے امام الداقطنی ؒ کی مجلس چھوڑ دی اور اس کے بعد امام الدارقطنی ؒ کے پاس نہیں گیا۔ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 634 - 635 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 79 جلد 08 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت

بحث اس بابت نہیں کہ محمد بن الحسن الشیبانی اور قاضی أبو یوسف ثقہ ہیں یا ضعیف!
بتلانا یہ مقصود ہے، کہ کسی کو کسی سے قوی قرار دینے سے توثیق لازم نہیں آتی، بلکہ ان کا تقابل مقصود بیان ہوتا ہے!

لہذا ابن ابي حاتم اور أبو زرعہ رازی کے محمد بن جابر الیمامی کو ابن لھيعة سے پسندیدہ قرار دینے سے محمد بن جابر الیمامی کی توثیق لازم نہیں آتی، بلکہ ابن لھيعة کے ضعف کی شدت بیان ہوتی ہے!
کیونکہ محمد بن جابر الیمامی کو ابو حاتم الرازی اور أبو زرعہ دونوں کے صراحت سے مجروح وضعیف قرار دیا ہے، اس کاتفصیلی بیان اوپر گزرا!
یہاں تک تو ہوا آپ کی بنیادی دلیل کہ ''محمد بن جابر الیمامی کی یمامہ اور مکہ میں کتب صحیح تھیں، اور اس سے روایت صحيح تھیں'' کے بے دلیل وناقص ہونے کا بیان!

(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
(جاری ہے)
جناب اب اسی دلیل پر پہلے بات ہوگی
کیونکہ اپنی تحریر میں جو گل کھلانے تھے آپ نے کھلا لیے

اور جتنے اصولوں کو خون کرنا تھا وہ بھی کر دیا

اب باری ہے آپکی فاحش خطاوں پر پکڑ کرنے کی تو اب جب تک میرا جواب نہیں آتا بات اس مسلے سے آگے نہیں چلے گی
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
یہاں تک تو ہوا آپ کی بنیادی دلیل کہ ''محمد بن جابر الیمامی کی یمامہ اور مکہ میں کتب صحیح تھیں، اور اس سے روایت صحيح تھیں'' کے بے دلیل وناقص ہونے کا بیان!
ہاہاہاہاہا معذرت مجبورا مجھے مختصر لکھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔

آپکو ایک نصیحت کر رہا ہوں جو کہ آپکی بھلائی کے لیے ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے میرے منہج اور علم جرح و تعدیل سے بہت زیادہ کھلواڑ کر رہے ہیں
اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ مجھے جانتے نہیں ہیں اور ان شاءاللہ آپکے پیر انور شاہ راشدی ، آپکے زبیر زئی کے شاگرد محمد بلال
اور آپکے ظہیر امن پوری کی طرح آپ بھی مجھے بہت بہتر سے جان جائیں گے جب آپکا جواب لکھونگا اور سطر سطر آپکی تحریر سے علم جرح و تعدیل سے آپکی فاحش غلطیاں آپکو دکھاونگا

تو میرے نزدیک دو احتمال ہیں آپکی یہاں تک تحریر پڑھ کر

۱۔ یا تو آپ کو علم جرح وتعدیل سے محدثین کے منہج اور ہر محدث کے مخصوص منہج سے بالکل ناواقفیت ہے یعنی کورے سمجھ لیں

۲۔ یا آپ اپنے مد مقابل کو اصول حدیث میں کچھا سمجھ کر سنابلی ہندی صاحب کی طرح علل کے امام بن کر اپنے قیاس ٹھوس رہے ہیں

دو آپکا جب جواب لکھا جائے تو اصول اور منہج کو سامنے رکھ کر جب آپکی تحریر سے آپ پر سخت پکڑ ہوگی تو اس وقت کی شرمندگی سے بچنے کے لیے آپکو کہا تھا پہلے بھی اور اب دوبارہ کہہ رہا ہوں

شرارت سے بچیے!!!
کیونکہ اس تحریر میں آپکی فاحش خطائیں اتنی ہیں کہ پچھلی بار کی بنسبت آپکو بہت سی باتوں سے رجوع کرنا پڑے گا تو
خیال سے
احتیاط سے
محدثین کے منہج
کو سامنے رکھ لکھیں

کیونکہ علم جرح وتعدیل اور اصول حدیث میں جو شریر گھوڑوں کی طرح میدان میں دوڑنے لگ جائے تو اسکی پکڑ پھر سخت ہوتی ہے

امید ہے میرے اس بھی میسج کا غصہ نہیں کرینگے اور میری بات کا نہ ہی برا منائیں گے


اور آپکی تحریر پڑھ کر ہماری طبیعت سے بوریت ختم ہو گئی ہے اور لطف اندوز ہو رہے ہیں آپکی بھرپور کوشش سے اور امید کرتے ہیں ہمارے میسیج کے بعد

آپ میرے اس سے پہلے کیا گیا میسج کا جواب دینگے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
جناب اب اسی دلیل پر پہلے بات ہوگی
کیونکہ اپنی تحریر میں جو گل کھلانے تھے آپ نے کھلا لیے

اور جتنے اصولوں کو خون کرنا تھا وہ بھی کر دیا

اب باری ہے آپکی فاحش خطاوں پر پکڑ کرنے کی تو اب جب تک میرا جواب نہیں آتا بات اس مسلے سے آگے نہیں چلے گی
ہاہاہاہاہا معذرت مجبورا مجھے مختصر لکھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔

آپکو ایک نصیحت کر رہا ہوں جو کہ آپکی بھلائی کے لیے ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے میرے منہج اور علم جرح و تعدیل سے بہت زیادہ کھلواڑ کر رہے ہیں
اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ مجھے جانتے نہیں ہیں اور ان شاءاللہ آپکے پیر انور شاہ راشدی ، آپکے زبیر زئی کے شاگرد محمد بلال
اور آپکے ظہیر امن پوری کی طرح آپ بھی مجھے بہت بہتر سے جان جائیں گے جب آپکا جواب لکھونگا اور سطر سطر آپکی تحریر سے علم جرح و تعدیل سے آپکی فاحش غلطیاں آپکو دکھاونگا

تو میرے نزدیک دو احتمال ہیں آپکی یہاں تک تحریر پڑھ کر

۱۔ یا تو آپ کو علم جرح وتعدیل سے محدثین کے منہج اور ہر محدث کے مخصوص منہج سے بالکل ناواقفیت ہے یعنی کورے سمجھ لیں

۲۔ یا آپ اپنے مد مقابل کو اصول حدیث میں کچھا سمجھ کر سنابلی ہندی صاحب کی طرح علل کے امام بن کر اپنے قیاس ٹھوس رہے ہیں

دو آپکا جب جواب لکھا جائے تو اصول اور منہج کو سامنے رکھ کر جب آپکی تحریر سے آپ پر سخت پکڑ ہوگی تو اس وقت کی شرمندگی سے بچنے کے لیے آپکو کہا تھا پہلے بھی اور اب دوبارہ کہہ رہا ہوں

شرارت سے بچیے!!!
کیونکہ اس تحریر میں آپکی فاحش خطائیں اتنی ہیں کہ پچھلی بار کی بنسبت آپکو بہت سی باتوں سے رجوع کرنا پڑے گا تو
خیال سے
احتیاط سے
محدثین کے منہج
کو سامنے رکھ لکھیں

کیونکہ علم جرح وتعدیل اور اصول حدیث میں جو شریر گھوڑوں کی طرح میدان میں دوڑنے لگ جائے تو اسکی پکڑ پھر سخت ہوتی ہے

امید ہے میرے اس بھی میسج کا غصہ نہیں کرینگے اور میری بات کا نہ ہی برا منائیں گے


اور آپکی تحریر پڑھ کر ہماری طبیعت سے بوریت ختم ہو گئی ہے اور لطف اندوز ہو رہے ہیں آپکی بھرپور کوشش سے اور امید کرتے ہیں ہمارے میسیج کے بعد

آپ میرے اس سے پہلے کیا گیا میسج کا جواب دینگے
جوش سے نہیں ہوش سے کام لو، کئی بار ابن داؤد بھائی نے یہی لکھا ہے اردو زبان میں کہ تحریر مکمل ہونے تک بیچ میں ٹانگ نہ اڑائیں، لیکن فیس بکی محککین کے کیا کہنے :)
 
Top