لیکن آپ ہمارے کلام کا مطلب نہیں سمجھے، ہم نے یہ کہا تھا کہ جب آپ کو معلوم ہے کہ ابن جوزی رحمہ نے اسے موضوع کہا ہے، اس کے باوجود بھی آپ کا یہ کہنا کہ ''کس جاہل نے آپ کو کہا ہے کہ موضوع ہے'' کوئی اچھی بات نہیں!ابن جوزی نے موضوعات میں درج کیا ہے تو ظاہری بات موضوع ہونے کا دعویٰ ہی کیا ہے نہ
دیکھیں میرے بھائی! ابن جوزی موضوع کہنے میں متساہل ضرور ہیں، جیسے امام حاکم تصحیح میں، تو متساہل کا تفرد دیگر کے برخلاف معتبر نہیں ہوتا!اور ابن جوزی کو حدیث میں کے موضوع کے حکم میں معتبر کون مانتا ہے اسکی بھی لسٹ دے دیں ؟
اسے ضعیف نہیں، متساہل کہتے ہیں! جیسے کہ امام حاکم نے بہت سی ضعیف اور موضوع روایت کو صحیح قرار دے دیا!انہوں نے تو کئی صحیح الاسناد و حسن روایات کو موضوع قرار دے دیا تو روایات کو موضوع قرار دینے میں امام جوزی خود ضعیف تشدید کی وجہ سے تو اس پر تو محدثین کا اتفاق ہے
پہلے آپکو چاہیے تھا کہ امام ابن جوزی کی کتاب نقل کرتے کیونکہ امام سیوطی نے تو امام ابن جوزی کی کتاب پر تفصیل لکھی اور ابن جوزی کا رد کیا ہے جہاں ابن جوزی کی غلطی پائی پھر امام سیوطی کا طریقہ کار ردکا یہ ہے کہ کسی روایت کا دفاع کرتے ہیں تو یا تو راوی کا متابع پیش کرتے ہیں یا اس پر جروحات کا رد کرتے ہیں یا اسکا شاہد بیان کر کے روایت کو تقویت دیتے ہیں
امام ابن جوزی کا تو دعویٰ ہی مطلق تھا کہ نماز میں شروع میں ہاتھ اٹھانے کے منع کرنے کے باب کی روایات ہی موضوع ہیں
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
باب النهى عن رفع اليدين في الصلاة إلا عند الافتتاح قد روى من طريق ابن مسعود وأبي هريرة وأنس.
تو امام ابن جوزی نے تو مطلق طور پر ابن مسعود کی ، ابی ھریرہ و انس کی رویات کے موضوع ہونے کادعویٰ کیا ہے
اور امام سیوطی کے کھاتے موضوع کا حکم لگایا ہے جیسا کہ عبارت ہے :
امام سیوطی کا کلام:یہاں موضوع کا حکم امام سیوطی نے امام ابن جوزی کا نقل کیا ہے اور نیچے امام سیوطی نے امام ابن جوزی کے موضوع ہونے کی تصریح کی کہ اس راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا گیا
(الْحَاكِم) حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن صالِح بْن هَانِئ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن مَخْلَد الضَّرِير حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْن أَبِي إِسْرَائِيل حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن جَابِر اليمامي حَدَّثَنَا حَمَّاد بْن أبي سُلَيْمَان عَن إِبْرَاهِيم عَن عَلْقَمَة عَن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صليت مَعَ النَّبِي وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاة.
مَوْضُوع.
آفته اليمامي (قُلْتُ) أَخْرَجَهُ منْ هَذَا الطَّرِيق الدارَقُطْنيّ وَالْبَيْهَقِيّ
یہاں موضوع کا حکم امام سیوطی نے امام ابن جوزی کا نقل کیا ہے اور نیچے امام سیوطی نے امام ابن جوزی کے موضوع ہونے کی تصریح کی کہ اس راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا گیا
پھر امام سیوطی ابن مسعود کی روایت کا دفاع کرتے ہیں ابن مسود کے ترمذی اور دیگر کتب احادیث سے عاصم بن کلیب کی روایت نقل کرکے کہ محدثین نے تصحیح کی ہے اور کچھ نے ضعیف بھی قرار دیا ہے
تو امام سیوطی نے موضوعات کی کتاب میں سنن ترمذی کی روایت کیوں لائے ؟
اسکا جواب آپ نے سوچ سمجھ کے دینا ہے ابن مسعود کی محمد بن جابر سے مروی روایت کو تقویت دینے کے لیے شاہد کےطور پر بیان کیایا ابن مسعود کی ترمذی والی روایت کو بھی موضوع ثابت کرنے کے لیے لکھی ہے ؟؟؟؟
جی! ملا علی قاری نے باب کا نام یہی رکھا ہے، ملا علی قاری کا بھی بعین وہی معاملہ ہے، جو امام سیوطی کا۔ اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا، جب ہم اس حدیث کو موضع وباطل ہونے پر اپنے دلائل پیش کریں گے!اور پھر مزے کی بات یہ اعتراض آپ نے ملا علی قاری پر بھی جڑ دیا امام ملا علی قاری نے بھی امام ابن جوزی کی کتاب اور امام سیوطی کی کتاب پر ہی موضوعات الکبیر لکھی تھی
وہ بھی وہی باب نقل کرتے ہیں جو کہ ابن جوزی نے بنایا تھا
ومن ذلك أحاديث المنع من رفع اليدين في الصلاة عند الركوع والرفع منه كلها باطلة لا يصح منها شيء
اور کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ رفع الیدین کے ترک میں جتنی بھی روایات ہیں کیا وہ سب باطل و یعنی موضوع ہیں ؟
اگر نہیں تو پھر ابن جوزی کی بات پر اتنا شور مچا کر اسکو موضوع ثابت کرنے کے دعوے کس کام کے
دراصل امام سیوطی، اور ملا علی قاری، میرے محترمین میں سے تو ہیں، لیکن ممدوحین میں سے نہیں! اس کی وجوہات ہیں، اس جانب بھی آگے کچھ ذکر آئے گا!لگتا ہے آپ کتب الموضوعات کے منہج سے کم واقف ہیں
یہ بھی پھکی آپکی کسی کام کی نہیں آپ تو اس دلیل کے تحت ثقہ نہیں مانتے محمد بن جابر کو لیکن آپکے زبیر زئی اس روایت سے ابو حنیفہ کے مدلس ہونے پر استدلال کیا ہے یعنی اس وقت انکے نزدیک یہ راوی ثقہ ہو گیا تھا
لیکن جب یہ ترک رفع الیدین کی حدیث مین آیا تو پھر ضعیف ہوگیا
آپ اس طرح معنی کشید نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا!یعنی اس وقت انکے نزدیک یہ راوی ثقہ ہو گیا تھا
آپ نے مطالبہ تو یوں کیا ہے، جیسے جریر کا سماع یمامہ یا مکہ میں ہونے سے امام أبو حنیفہ کو آپ چور مان ہی لیں گے!برحال یہاں عرض ہے کہ جریرکا سماع یمامہ یا مکہ میں ہونے کا ثبوت دیں جیسا کہ امام ابو حاتم نے کہا ہے کہ جس نے اس سے یمامہ و مکہ کے مقام پر لکھا تو وہ صدوق تھے
اس کا ترجمہ آپ نے یوں کیا:امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں : وقال ابن ابی حاتم ایضا: وسمت ابی و ابا زرعة یقولا : من کتب عنه بالیمامة وبمکة فھو صدوق الا ان فی احادیث تخالیط واما اصوله فھی صحاح (الجرح و تعدیل ، جلد 7 ص 219)
مگر اس ترجمہ میں آپ نے سرخ ملون عربی عبارت کو نظر انداز کر دیا!ترجمہ : امام ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ سے سنا وہ دونوں فرماتے ہیں جو کچھ بھی اس سے (محمد بن جابر) سے لکھا گیا مکہ اور یمامہ کے مقام پر اس وقت وہ صدوق تھے
آپ کا گمان درست نہیں! آپ کے مضمون پر جب کلام آئے گا تب آپ بہت کچھ ظاہر ہوگا، ان شاء اللہ!یہاں سے صاف ظاہر ہے جناب نے میرا مضمون تفصیلی دیکھا ہی نہیں
جناب آپ یاد تو رکھا کریں کہ ثابت کیا کرنے بیٹھے ہیں اپنا رد خود کر رہے ہیں
ابن جوزی سے دلیل پکڑی آپنے کہ اس روایت میں آفت محمد بن جابر یمامی کی ہے جیسا کہ امام سیوطی نے ابن جوزی کا اس روایت کو موضوع کہنے پر تبصرہ کیا
پھر قلت سے اپنا موقف دیتے ہوئے ابن مسعود کی روایات کو بطور شاہد لکھا ہے
ہم اس روایت پر جو کلام و دلائل پیش کریں گے، تو آپ کو علل کا بیان بھی بتلائیں گے، اور یہ بھی کہ ابن جوزی نے محمد بن جابر الیمامی پر کیا وبال ڈالا ہے!جب ایک متشدد محدث نے اس روایت کو یمامی کی وجہ سے موضوع قرار دیا تو آپ علل کے امام تو ہیں نہیں جنکو معرفت ہو کہ صحیح الاسناد میں روایت موضوع کی نشاندہی کر لیں
اگر آپ خود اس طرح کے شرارتی کلام سے گریز کریں گے، تو بہتر ہوگا!تو امید ہے اس طرح کی شرارت کرنے سے گریز کریں گے
جی ابن جوزی کا دعویٰ یہی تھا کہ یہ روایت موضوع محمد بن جابر متروک کی وجہ سے جسکو آپ نے میرے سامنے ثابت کرنا ہے
جو کہ ابھی تک نہیں ہوا
نہیں مجھے کوئی مسلہ نہیں اگر آپ اتنے دن لے رہے ہیں تو کوشش کریں ایک ہی بار سارا لکھ کر پوسٹ کیجیے گا تاکہ آپکی تحریر کا رد بھی ایک ہی بار میں کیا جا سکے
باقی آپکی مرضی ہے
اور آپ اپنی کہی ہوئی اس بات کو یاد رکھیے گا کہ حدیث کی تصحیح و تحسین اور حدیث کو باطل فقط کسی جرح مبہم کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا اس کے لیے بنیادی اصول جرح و تعدیل ہی مقدم ہوتا ہے
جی جزاک اللہ جاری رکھیں
ہم آپکی تحریر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں :)
جناب من اسکو تشدید کہتے ہیں تساہل نہیں کہتے ۔۔۔۔۔ تساہل اور چیز ہے اور تشدید اور چیز ہے کسی چیز پر جرح کرنا یہ اسکی تشدید کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔ برحال یہ کوئی قابل بحث چیز نہیں خیراسے ضعیف نہیں، متساہل کہتے ہیں! جیسے کہ امام حاکم نے بہت سی ضعیف اور موضوع روایت کو صحیح قرار دے دیا!
معذرت میں نے پڑھنے سے پہلے سمجھا تھا کہ آپ نے اس بار مکمل لکھا ہوگا ۔۔ جواب دے دیا اوپر ۔۔
لیکن آپ نے جاری لکھا ہوا ہے
تو میری اس غلطی کو امید ہے نظر انداز کرینگے
اور ان شاءاللہ میں خاموش رہونگا جب آپ اختتام کرینگے تو تب جواب دونگا
شکریہ
جزاک اللہ
اور ہم آپ کی پیش کردہ توثیق کاجائزہ لیں گے!اب ہم محمد بن جابر کی محدثین سے توثیق پیش کرتے ہیں
۱.امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ جس نے اس سے یمامہ اور مکہ میں سنا اس وقت و صدوق تھے
ان دونوں پر آپ کی دلیل ابن ابي حاتم کی کتاب الجرح والتعديل سے آپ کی پیش کردہ درج ذیل عبارت ہے:۲.امام ابو زرعہ فرماتے ہیں جس نے اس سے یمامہ و مکہ میں لکھا وہ اس وقت صدوق تھے
اس عبارت کے سرخ ملون الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے، ناقص ترجمہ آپ نے یوں کیا تھا:امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں : وقال ابن ابی حاتم ایضا: وسمت ابی و ابا زرعة یقولا : من کتب عنه بالیمامة وبمکة فھو صدوق الا ان فی احادیث تخالیط واما اصوله فھی صحاح (الجرح و تعدیل ، جلد 7 ص 219)
آپ پہلے تو یہ بتلائیے کہ آپ نے ترجمہ میں یہ ''جو کچھ بھی'' کہاں سے اخذ کیا ہے؟ترجمہ : امام ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ سے سنا وہ دونوں فرماتے ہیں جو کچھ بھی اس سے (محمد بن جابر) سے لکھا گیا مکہ اور یمامہ کے مقام پر اس وقت وہ صدوق تھے
نا عبد الرحمن قال وسئل ابى عن محمد بن جابر وابن لهيعة فقال محلهما الصدق ومحمد بن جابر احب إلى من ابن لهيعة.۳.دوسرے مقام پر امام ابو حاتم و ابو زرعہ نے فرمایا محمد بن جابر مجھے ابن الھیہ سے زیادہ پسندیدہ ہے
جناب اب اسی دلیل پر پہلے بات ہوگی(جاری ہے)
ہاہاہاہاہا معذرت مجبورا مجھے مختصر لکھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔یہاں تک تو ہوا آپ کی بنیادی دلیل کہ ''محمد بن جابر الیمامی کی یمامہ اور مکہ میں کتب صحیح تھیں، اور اس سے روایت صحيح تھیں'' کے بے دلیل وناقص ہونے کا بیان!
جناب اب اسی دلیل پر پہلے بات ہوگی
کیونکہ اپنی تحریر میں جو گل کھلانے تھے آپ نے کھلا لیے
اور جتنے اصولوں کو خون کرنا تھا وہ بھی کر دیا
اب باری ہے آپکی فاحش خطاوں پر پکڑ کرنے کی تو اب جب تک میرا جواب نہیں آتا بات اس مسلے سے آگے نہیں چلے گی
جوش سے نہیں ہوش سے کام لو، کئی بار ابن داؤد بھائی نے یہی لکھا ہے اردو زبان میں کہ تحریر مکمل ہونے تک بیچ میں ٹانگ نہ اڑائیں، لیکن فیس بکی محککین کے کیا کہنے :)ہاہاہاہاہا معذرت مجبورا مجھے مختصر لکھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔
آپکو ایک نصیحت کر رہا ہوں جو کہ آپکی بھلائی کے لیے ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے میرے منہج اور علم جرح و تعدیل سے بہت زیادہ کھلواڑ کر رہے ہیں
اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ مجھے جانتے نہیں ہیں اور ان شاءاللہ آپکے پیر انور شاہ راشدی ، آپکے زبیر زئی کے شاگرد محمد بلال
اور آپکے ظہیر امن پوری کی طرح آپ بھی مجھے بہت بہتر سے جان جائیں گے جب آپکا جواب لکھونگا اور سطر سطر آپکی تحریر سے علم جرح و تعدیل سے آپکی فاحش غلطیاں آپکو دکھاونگا
تو میرے نزدیک دو احتمال ہیں آپکی یہاں تک تحریر پڑھ کر
۱۔ یا تو آپ کو علم جرح وتعدیل سے محدثین کے منہج اور ہر محدث کے مخصوص منہج سے بالکل ناواقفیت ہے یعنی کورے سمجھ لیں
۲۔ یا آپ اپنے مد مقابل کو اصول حدیث میں کچھا سمجھ کر سنابلی ہندی صاحب کی طرح علل کے امام بن کر اپنے قیاس ٹھوس رہے ہیں
دو آپکا جب جواب لکھا جائے تو اصول اور منہج کو سامنے رکھ کر جب آپکی تحریر سے آپ پر سخت پکڑ ہوگی تو اس وقت کی شرمندگی سے بچنے کے لیے آپکو کہا تھا پہلے بھی اور اب دوبارہ کہہ رہا ہوں
شرارت سے بچیے!!!
کیونکہ اس تحریر میں آپکی فاحش خطائیں اتنی ہیں کہ پچھلی بار کی بنسبت آپکو بہت سی باتوں سے رجوع کرنا پڑے گا تو
خیال سے
احتیاط سے
محدثین کے منہج
کو سامنے رکھ لکھیں
کیونکہ علم جرح وتعدیل اور اصول حدیث میں جو شریر گھوڑوں کی طرح میدان میں دوڑنے لگ جائے تو اسکی پکڑ پھر سخت ہوتی ہے
امید ہے میرے اس بھی میسج کا غصہ نہیں کرینگے اور میری بات کا نہ ہی برا منائیں گے
اور آپکی تحریر پڑھ کر ہماری طبیعت سے بوریت ختم ہو گئی ہے اور لطف اندوز ہو رہے ہیں آپکی بھرپور کوشش سے اور امید کرتے ہیں ہمارے میسیج کے بعد
آپ میرے اس سے پہلے کیا گیا میسج کا جواب دینگے