• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف اور اس کی حقیقت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
6۔چھٹا طبقہ
ساتویں صدی ہجری میں تحریک تصوف کی سلاسل آخری ارتقائی منازل کو چھو رہی تھیں۔اس اعتبار سے یہ صدی تصوف کی تکمیل کی صدی ہے۔آئندہ صدیوں میں تحریک تصوف اصلاح وتجدید اور زوال وانحطاط کے مختلف مراحل سے تو گزرتی رہی مگر بنیادی طور پر اس فلسفہ میں کوئی اضافہ ہوا نہ عملی تبدیلی آئی۔یہ تحریک ابو حامد غزالی اور ابن عربی کے افکارونظریات پر جاری رہی۔
اس دور میں تصوف کے جو سلسلے وجودمیں آئے ان کی تفصیل:
1۔سلسلہ نقشبندی
یہ سلسلہ خواجگان بھی کہلایا۔ترکستان میں اس کی بنیاد پڑی جس کو محمد اتالیسوسی(م۵۷۰ھ)نے فروغ دینے کی کوشش کی ،لیکن اس کو قبول عام بنانے کا شرف بہاء الدین نقشبندی(م۷۸۵ھ)کو حاصل ہے۔جس کے بعد یہ سلسلہ نقشبندیہ کے نام سے مشہور ہوا، اگرچہ یہ سلسلہ سب سے قدیم ہے مگر ہندوستان میں بہت بعد حضرت باقی باللہ (م۱۰۱۴ھ)کے ذریعے پہنچا جس کو ان کے عزیز ترین مرید اور خلیفہ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی(م۱۰۳۵ھ)نے ہندوستان میں ترقی دی جو بعدمیں سلسلہ مجددیہ کے نام سے مشہور ہوا۔
2۔ سلسلہ سہروردی
یہ سلسلہ شیخ شہاب الدین سہروردی کی طرف منسوب ہے اور انہوں نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں پورا خانقاہی نظام ترتیب دیا۔ان کے خلفا میں قاضی حمیداللہ ناگوری اور بہاء الدین زکریا ملتانی قابل ذکر ہیں۔ زکریا ملتانی نے ملتان اُوچ اور دیگر مقامات پر سہروردی سلسلے کی مشہور خانقاہیں قائم کیں۔
3۔سلسلہ قادریہ
یہ سلسلہ محی الدین عبدالقادر جیلانی کی طرف منسوب ہے۔یہ بغداد میں قائم ہوا اور رفتہ رفتہ اس کی شاخیں تمام اسلامی ملکوں میں پھیل گئیں۔ہندوستان میں یہ سلسلہ نویں صدی ہجری میں شاہ نعمت اللہ قادری نے قائم کیا۔
4۔سلسلہ چشتیہ
اس سلسلے کی داغ بیل تو شیخ ابو اسحاق شامی (م۳۱۶ھ)نے ڈالی تھی، لیکن اس کو پروان چڑھانے کا کام حضرت معین الدین حسن سنجری(م۶۱۰ھ)نے انجام دیا۔ہندوستان میں سب سے پہلے اسی چشتیہ سلسلہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ شیخ معین چشتی کے عزیز مرید اور خلیفہ قطب الدین بختیار کاکی نے چشتیہ سلسلے کو عام کرنے کی بے حد کوشش کی اور ان کے بعد ان کے خلیفہ فریدالدین مسعود گنج شکرؒ نے اس سلسلے کو منظم کیا جسے ان کے خلیفہ نظام الدین اولیا نے معراج کمال تک پہنچایا۔
تصوف کا ایک اور سلسلہ جو صابریہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہے اس کی نسبت علی احمد صابرکی طرف ہے جو فرید الدین مسعود المعروف گنج شکر کے خلیفہ تھے۔اس سلسلے کے چالیس خلیفہ ہوئے اوراس کو آگے بڑھانے کا اِعزاز عبدالحق کو حاصل ہوا۔چلتے چلتے یہ سلسلہ عبدالقدوس گنگوہی تک پہنچا ۔سلسلہ صابریہ کو پھیلانا ،ترتیب دینا انہی کا کام ہے۔
تیرہویں صدی ہجری میں یہ سلسلہ میاں جی نور محمد جھنجھانوی تک پہنچتا ہے جن کے مرید حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے،جو دیوبندی مکتبہ فکر شیخ الشیوخ ہیں،کیونکہ ان کے خلفا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کو دیوبندی مکتبہ فکر کا امام اور مقتدیٰ مانا جاتا ہے۔ [اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات،ص:۱۱۲تا۱۱۸،الصوفیۃ معتقدا ومسلکا،ص:۳۷تا۴۴]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مراحل تصوف
جیسا کہ ماقبل میں گزر چکا ہے کہ تصوف کی ابتداء بصرہ میں زہد اور ریاضت وعبادت سے ہوئی ہے، پھریہ علم صوفیت کے منظم نہج پر چلنے لگا کہ آہستہ آہستہ یہ تحریک ایسے خرافاتی عقیدے کی طرف بڑھنے لگی جن کا اسلام سے دور ونزدیک سے بھی کوئی تعلق نہ تھا۔[شیخ عبدالقادر جیلانی وآراؤہ الصوفیۃ ازسعید قحطانی،ص:۵۰۳]
1۔پہلا مرحلہ
جو عباد وزہاد کا مرحلہ ہے جن پر شرعی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خوف الٰہی،عبادت ،ترک دنیا اور زہد کے جذبے کا غلبہ تھا۔اس مرحلے کی ممتاز شخصیت حضرت عبداللہ بن زبیر﷜ کے بیٹے عامر﷜ ہیں جو کثیر العبادت اور روزوں میں وصل کرنے والے تھے۔ایک روز عبداللہ بن زبیر﷜ کہتے ہیں:
’’اے میرے بیٹے!میں نے ابوبکر اور عمرw کو دیکھا وہ تو اس طرح نہیں کرتے تھے۔‘‘
ان کے علاوہ طلق بن حبیب الفنری اور بشر بن الحارث الحافی کاشمار اسی مرحلہ سے ہوتا ہے۔[الرسالۃ القیشریۃ :۱؍۱۱۸]
تصوف کے اس مرحلہ کی صفات
1۔زیادہ تر سنت کے ساتھ تمسک تھا۔
2۔علم اور علما کا احترام۔
3۔دین میں قلت فہم اور غلو۔
4۔تبلیغ کا خصوصی اہتمام جس میں اہل کتاب اور سابقہ امتوں سے ماخوذ قصوں کو بڑھ چڑھ کر بیان کرنا۔
5۔خوف،حزن کے پہلوؤں کی جانب مبالغہ،روزوں میں وصل کرنا اور قرآ ن مجید کی تلاوت سنتے وقت غشی پڑنا۔
6۔مجالس علم سے بعد اور کسب معاش سے اعتزال۔ [الطبقات الکبریٰ للشعراني،۱؍۵۱تا۵۳،۵۵،۱۸۶]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
2۔دوسرامرحلہ
صوفیت کی ابتداء کا مرحلہ ہے جس میں تصوف کے طرق اور مصطلحات وضع ہوئیں۔اس مرحلہ میں علم کی ظاہر وباطن ،قلب وقالب، شریعت وطریقت کے نام پر تقسیم ہوئی۔یہ وہی مرحلہ ہے جس میں اولیاء سے شریعت کے احکام تکلیفیہ ساقط ہونے کا اس گمان پر اعلان کیا گیا کہ وہ کشف والہام کے ذریعے علم حقیقت کی معرفت رکھتے ہیں۔ [مجموع فتاوی:۱۱؍۴۱۷،۴۳۹]
تصوف کا یہ مرحلہ جن مشائخ کے مرہون منت ہے یا جنہیں تصوف کی امامت کا درجہ حاصل ہے،درج ذیل ہیں:
1۔ابوالعباس علی بن عبداللہ الشاذلی(متوفی:۶۵۶ھ) ہیں جن کی طرف طائفہ شاذلی کی نسبت ہے۔
تعجب خیز بات ہے کہ جامعہ الازہر کے سابق شیخ عبدالحلیم محمود نے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس میں وہ شاذلی کی مدح وستائش اور ان کے طریقے کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:
’’نبیﷺنے اپنے حجرے سے شاذلی کے ساتھ کلام کی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب شاذلی مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حرم (مسجد نبویﷺ)کے دروازے پر طلوع آفتاب سے دوپہر تک کھڑے رہے،سرپر کپڑا ہے نہ پاؤں میں جوتا۔رسول اللہﷺسے اجازت مانگ رہے ہیں، جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے میں اس وقت داخل ہوں گا جب مجھے اجازت مل جائے گی یہاں تک کہ روضہ شریفہ کے اندر سے آواز آئی اے علی!داخل ہو جاؤ۔‘‘[المدرسۃ الشاذلیۃ الحدیثیۃاز عبدالحلیم،ص:۳۲]
{إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّإِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ} [ الزمر:۳۰]
اسی طرح کی ایک حیرت انگیز کہانی شیخ صوفیا احمد رفاعی کے بارے میں پیش کی جاتی ہے کہ اس کے متبعین اس کے بارے میں یہ زعم کرتے تھے کہ
جب اس نے حج کیا تو حجرہ نبویہﷺ کی جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے او رکہا السلام علیکم یا جدّی تو رسول اللہﷺنے فرمایا علیک السلام یا ولدی۔اور یہ بات مسجد میں تمام حاضرین نے سنی اور مزید رسول اللہ ﷺنے قبر سے اپنا ہاتھ بڑھایا جس کو شیخ رفاعی نے تقریباً نوے ہزار کے جمع غفیر کے سامنے چوما جس پر لوگوں نے کہا اس کرامت کا انکار کفر ہے۔[شیخ عبدالقادر جیلانی وآراؤہ الصوفیۃ]
ایسی نوبت قرون اولیٰ کی نفوس قدسیہ کے بارے میں کبھی پیش نہ آئی تھی۔
تصوف کے اس مرحلے کی صفات طبقات صوفیا کے چوتھے اور پانچویں طبقہ میں بڑی تفصیل سے گزر گئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
3۔تیسرا مرحلہ
یہ مرحلہ انتہائی نازک شمار کیا جاتا ہے اس میں یونانی فلسفے،فارسی اور مجوسی توجیہات اور یہودی،عیسائی تعلیمات کے سرایت کر جانے کے بعد اس مرحلہ کی صفات درج ذیل ہیں:
1۔صوفیت کے اصول وضع ہونے لگے جن کی بنیاد عیسائیت سے متاثر ہو کر اتحاد وحلول،مجوسیت سے متاثر ہو کر شخصیت پرستی اور اس کی تقدیس،ہندو مت سے متاثر ہو کر فناء اور تناسخ،یونان کے فلسفے سے متاثر ہو کر الحاد اور زندیقیت اور وحدت الوجود وغیرہ کے عقائد ونظریات پر تھی۔[درء تعارض العقل والنقللابن تیمیہ:۵؍۸۲، تلبیس ابلیس:ص۳۴۵]
2۔علم لدنّی ،اللہ رب العزت سے بلاواسطہ کسب فیض کا دعویٰ ہونے لگا جس طرح بسطامی کا قول ہے:
’’أخذتم دینکم میت عن میت أما نحن فنأخذ عن الحی الذی لا یموت‘‘[الطبقات الکبری:۱؍۵]
’’تم نے اپنا دین ایک فوت ہو جانے والے کا دوسرے فوت ہو جانے والے سے حاصل کیا ہے لیکن ہم اپنا دین، اس حیی ذات(اللہ تعالیٰ) جسے کبھی موت نہ آئے گی، سے بلاواسطہ لیتے ہیں۔‘‘
اور ابن عربی کا قول ہے:

’’واﷲ ما کتبت فی الفتوحات المکیة حرفا إلا إماء الہٰی أو القاء ربانی أو نفث روحانی أو روح کیانی‘‘ [فتوحات مکیۃ ابن عربی:۳؍۴۵۶]
’’اللہ کی قسم میں نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں ہر حرف اللہ کی طرف سے املائ،القاء ربانی،افہام روحانی اور اپنی فطری روح سے لکھا ہے۔‘‘
3۔کتاب وسنت جیسے صحیح مناہج کو پانے کے بجائے ان سے دوری کی وجہ سے عقائد کی خرابیوں مثلاً تشیع، رجاء اور قدر میں واقع ہوئے۔
4۔بعض صوفیاء تو فحاشی اور گھٹیا صفات میں یہ گمان کر کے داخل ہو گئے کہ یہ کرامات ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
امام غزالیؒ کے بارے میں مستشرقین کی تصریحات
مستشرق نیکلس نے امام غزالیؒ کے دین تصوف کی حقیقت کو خوب سمجھا اور کہا:
’’تصوف کے جرثومے پھیلانے والا پہلا شخص غزالی ہے۔امام غزالیؒ نے وحدۃالوجود کے قائل بعض صوفیا ،جیسے ابن عربی اور اس کے علاوہ سلسلوں کے اصحاب کے لیے راستہ کشادہ کر دیا۔‘‘[في التصوف الإسلامي،(ترجمہ:ڈاکٹر عفیفی)ص:۱۰۴ بحوالہ:ہذہ ہی الصوفیۃ،ص:۵۵]
گولڈ زیہر لکھتا ہے:
’’غزالی نے تصوف کو گوشئہ عزلت سے نکالا اور اسلام اور مسلم معاشرے کے اندر اسے ایک مرغوب عنصر بنا دیا اور سرکاری طور پر اسے مقبول کر دیا۔ اس نے تصوف کے متعلق آراء کو جمع کیا اور ان سے مدد لی تاکہ جامد دنیا مظاہر کے اندر ایک روحانی طاقت بخش سکے۔‘‘ [التراث الیوناني(ترجمہ:ڈاکٹر بدوی)بحوالہ:ہذہ ہی الصوفیۃ،۵۶]
کارل پیکر لکھتا ہے:
’’ابتدائے اسلام میں تمام مسلم فرقوں پر غنوصی روح چھائی ہوئی تھی مگر اس کے بعد تصوف چھاگیا۔شروع میں تو تصوف دین سے خارج ایک بدعت تصور کیا جاتا تھا مگر غزالی کی بدولت اسے زہر سے خالی ایک جام کی حقیقت مل گئی اور اہل سنت نے اسے قبول کر لیا۔‘‘ [التراث الیوناني(ترجمہ:ڈاکٹر بدوی)بحوالہ:ہذہ ہی الصوفیۃ،۵۶]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تصوف سے امام غزالیؒ کی برأت
امام سبکی رح اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں غزالی کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’وہ آخری ایام میں کتاب وسنت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔(اللہ کرے ایسا ہی ہو) مگر امام غزالیؒ نے آخری ایام میں کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی جس سے ثابت ہو کہ وہ کتاب وسنت کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔‘‘[طبقات الشافعیۃ،بحوالہ:حامش:ہذہ ہي الصوفیۃ،ص: ]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کراماتِ صوفیاء
آپ نے پیچھے مراحل تصوف میں چند کرامات ملاحظہ فرمائیں:
کرامات کو ذکر کرنے کے لیے الگ سے ایک دفتر درکار ہے بطور نمونہ ایک اور کرامت سنتے جائیے۔
ابن ابی ذرعہ الصوفی کہتے ہیں کہ:
’’ میں نے اپنے والد محترم اور ابن حنیف کے ساتھ مکہ کا سفر کیا ہمیں شدید فاقہ کا سامنا کر نا پڑا۔ چنانچہ ہم مدینۂ رسولﷺ میں داخل ہوئے اور ہم نے بھوک کی حالت میں رات گزاری،اس وقت میری عمربلوغت سے کم تھی۔میں بھوک کی وجہ سے کئی مرتبہ اپنے ابا جان کے پاس آیا۔لہٰذا ہمارے والد صاحب روضہ شریف کے سامنے آئے اور کہنے لگے یارسول اللہﷺ اس رات میں آپ کا مہمان ہوں اور مراقبہ میں بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا اور کبھی ہنستے ہیں اور کبھی روتے ہیں اور کہنے لگے میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ انہوں نے میرے ہاتھ پر دراہم تھمائے ہیں۔ انہوں نے ہاتھ کھولا تو واقعی ان کے ہاتھ میں دراہم تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان دراہم میں اتنی برکت ڈالی کہ ہم شیراز واپسی تک انہیں خرچ کرتے آئے ۔اور اسی طرح کا ایک واقعہ السید ظلیل ابو العباس احمدالصوفی بھی اپنی بابت نقل کرتے ہیں۔[دفع الشبہ من شبہ وتمرد ونسب ذلک إلی السید،۱؍۸۴]
اس مذکورہ کرامت میں رسول اللہﷺ میزبان تھے، لیکن ان کرامات کا سلسلہ ابھی رکا نہیں تھا کہ ماضی قریب میں ایک کرامت پاکستان کے نام نہاد ’شیخ الاسلام‘ سے ظاہر ہوئی ،وہ یہ کہ انہیں رسول اللہﷺ کی مہمانی کا شرف میزبانی حاصل ہوا اور پھر کچھ دن قبل آسمان پر بادلوں میں اسم محمدﷺ لکھا ہوا دکھا دیا۔
معجزات اور کرامات کا ماننا اور شعبدہ بازی کا انکار کرناجزو ایمان ہے، لیکن ایسی کرامات جن سے ایمان ویقین میں دراڑ پیدا ہو اور عقیدہ توحید میں خلل واقع ہو ،کو نہ ماننا بھی جزو ایمان ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحریک تصوف کے بنیادی عقائد ونظریات
جہاں تک تصوف کے بنیادی عقائد ہیں توان کی اصل بنیاد ذاتی مکاشفات ومشاہدات پر ہوتی ہے جن میں فروعی اختلاف کے باوجود چند باتیں متفق علیہ ہیں جن کو طریقت میں نظریات وعقائد کی حیثیت حاصل ہے۔جو مراتب کے لحاظ سے درج ذیل ہیں:
1۔وحدۃ الوجود
یعنی انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔
2۔وحدۃ الشہود
جب انسان اس مقام سے ترقی کر جاتا ہے تو اس کی ہستی خدا کی ہستی میں مدغم ہو جاتی ہے اور وہ دونوں ایک ہی ہو جاتے ہیں۔گویا یہ نظریہ خدا کی ہستی کو کائنات سے الگ تسلیم تو کرتا اور اس کائنات کو خدا کا پرتو یا سایہ تصورکرتا ہے لیکن مزید روحانی ترقی کے بعد خود کو خدا کی ذات میں گم کر دیتا ہے۔
3۔حلول
اس سے اگلا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے آئینہ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔گویا وحدۃ الشہود میں تو انسان روحانی ترقی کرتا کرتا خدا کی ذات میں جا مدغم ہوتا ہے لیکن حلول میں خدا خود اپنے مرتبہ سے نیچے اتر کر انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
باالفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وحدۃ الشہود اور حلول،وحدۃالوجود ہی کے دوسرے پہلو یا ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔اصل الاصول وحدۃ الوجود ہی ہے۔[شریعت وطریقتازعبدالرحمن کیلانی،ص:۶۳،۶۴]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
عقیدہ وحدۃ الوجود کی ابتدا اور بانی
اگرچہ بعض اکابر صوفیاء نے وحدۃ الوجود کی توضیح وترجمانی ذوق و حال سے کی ہے مگراس نظریہ کی ترتیب وتنظیم کا سہرا محی الدین ابن عربی کے سر ہے جس کو نظریہ وحدۃ الوجود کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔انکی کتاب فصوص الحکم اس سلسلے میں آخری سند ہے لیکن یہ خیال بالکلیہ درست نہیں کیونکہ پروفیسر سلیم چشتی نے اپنی کتاب تاریخ تصوف میں حضرت جنید بغدادی کے 21 رسائل کا تفصیلی تعارف کرایا ہے ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نظریہ وحدۃ الوجود کی داغ بیل ڈالنے والے اصلیت میں جنید بغدادی ہیں اور اس کی تشکیل وتنظیم بعد میں محی الدین ابن عربی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ [اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات،ص:۱۸۷]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تصوف کے شیخ اکبر کی توحید
تصوف کے بہت بڑے امام ابن عربی کہتے ہیں:
’’فیحمدنی وأحمدہ ویعبدنی وأعبدہ‘‘ [فصوص الحکم لابن عربی:۱؍۸۳]
’’وہ میری حمد وثناء کرتا ہے اور میں اس کی حمدوثناء کرتا ہوں۔اور وہ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔‘‘
ابن عربی کے نزدیک کائنات کی ہر چیز ،ہر موجود اور غیر موجود شے اللہ کی ذات ہے۔
اللہ کی تعریف یوں کرتا ہے:
’’سبحان من أظہر الأشیاء وہو عینہا‘‘ [فتوحات مکیۃ:۲؍۲۰۴]
’’پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیاء کو ظاہر کیا اور وہی ان اشیاء کا ظاہر وباطن ہے۔‘‘
سلسلہ تصوف کے صاحب مرتبہ عارف کی یوں تعریف کرتا ہے:
’’إن العارف من یری الحق(اﷲ)فی کل شیٔ بل یراہ عین کل شیٔ ‘‘ [أیضاً]
’’عارف وہ ہے جو ہر چیز میں ذات باری تعالیٰ کو دیکھے بلکہ ہر چیز اسے اللہ ہی کی ذات نظر آئے۔‘‘
 
Top