کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
6۔چھٹا طبقہ
ساتویں صدی ہجری میں تحریک تصوف کی سلاسل آخری ارتقائی منازل کو چھو رہی تھیں۔اس اعتبار سے یہ صدی تصوف کی تکمیل کی صدی ہے۔آئندہ صدیوں میں تحریک تصوف اصلاح وتجدید اور زوال وانحطاط کے مختلف مراحل سے تو گزرتی رہی مگر بنیادی طور پر اس فلسفہ میں کوئی اضافہ ہوا نہ عملی تبدیلی آئی۔یہ تحریک ابو حامد غزالی اور ابن عربی کے افکارونظریات پر جاری رہی۔
اس دور میں تصوف کے جو سلسلے وجودمیں آئے ان کی تفصیل:
1۔سلسلہ نقشبندی
تیرہویں صدی ہجری میں یہ سلسلہ میاں جی نور محمد جھنجھانوی تک پہنچتا ہے جن کے مرید حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے،جو دیوبندی مکتبہ فکر شیخ الشیوخ ہیں،کیونکہ ان کے خلفا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کو دیوبندی مکتبہ فکر کا امام اور مقتدیٰ مانا جاتا ہے۔ [اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات،ص:۱۱۲تا۱۱۸،الصوفیۃ معتقدا ومسلکا،ص:۳۷تا۴۴]
ساتویں صدی ہجری میں تحریک تصوف کی سلاسل آخری ارتقائی منازل کو چھو رہی تھیں۔اس اعتبار سے یہ صدی تصوف کی تکمیل کی صدی ہے۔آئندہ صدیوں میں تحریک تصوف اصلاح وتجدید اور زوال وانحطاط کے مختلف مراحل سے تو گزرتی رہی مگر بنیادی طور پر اس فلسفہ میں کوئی اضافہ ہوا نہ عملی تبدیلی آئی۔یہ تحریک ابو حامد غزالی اور ابن عربی کے افکارونظریات پر جاری رہی۔
اس دور میں تصوف کے جو سلسلے وجودمیں آئے ان کی تفصیل:
1۔سلسلہ نقشبندی
2۔ سلسلہ سہروردییہ سلسلہ خواجگان بھی کہلایا۔ترکستان میں اس کی بنیاد پڑی جس کو محمد اتالیسوسی(م۵۷۰ھ)نے فروغ دینے کی کوشش کی ،لیکن اس کو قبول عام بنانے کا شرف بہاء الدین نقشبندی(م۷۸۵ھ)کو حاصل ہے۔جس کے بعد یہ سلسلہ نقشبندیہ کے نام سے مشہور ہوا، اگرچہ یہ سلسلہ سب سے قدیم ہے مگر ہندوستان میں بہت بعد حضرت باقی باللہ (م۱۰۱۴ھ)کے ذریعے پہنچا جس کو ان کے عزیز ترین مرید اور خلیفہ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی(م۱۰۳۵ھ)نے ہندوستان میں ترقی دی جو بعدمیں سلسلہ مجددیہ کے نام سے مشہور ہوا۔
3۔سلسلہ قادریہیہ سلسلہ شیخ شہاب الدین سہروردی کی طرف منسوب ہے اور انہوں نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں پورا خانقاہی نظام ترتیب دیا۔ان کے خلفا میں قاضی حمیداللہ ناگوری اور بہاء الدین زکریا ملتانی قابل ذکر ہیں۔ زکریا ملتانی نے ملتان اُوچ اور دیگر مقامات پر سہروردی سلسلے کی مشہور خانقاہیں قائم کیں۔
4۔سلسلہ چشتیہیہ سلسلہ محی الدین عبدالقادر جیلانی کی طرف منسوب ہے۔یہ بغداد میں قائم ہوا اور رفتہ رفتہ اس کی شاخیں تمام اسلامی ملکوں میں پھیل گئیں۔ہندوستان میں یہ سلسلہ نویں صدی ہجری میں شاہ نعمت اللہ قادری نے قائم کیا۔
تصوف کا ایک اور سلسلہ جو صابریہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہے اس کی نسبت علی احمد صابرکی طرف ہے جو فرید الدین مسعود المعروف گنج شکر کے خلیفہ تھے۔اس سلسلے کے چالیس خلیفہ ہوئے اوراس کو آگے بڑھانے کا اِعزاز عبدالحق کو حاصل ہوا۔چلتے چلتے یہ سلسلہ عبدالقدوس گنگوہی تک پہنچا ۔سلسلہ صابریہ کو پھیلانا ،ترتیب دینا انہی کا کام ہے۔اس سلسلے کی داغ بیل تو شیخ ابو اسحاق شامی (م۳۱۶ھ)نے ڈالی تھی، لیکن اس کو پروان چڑھانے کا کام حضرت معین الدین حسن سنجری(م۶۱۰ھ)نے انجام دیا۔ہندوستان میں سب سے پہلے اسی چشتیہ سلسلہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ شیخ معین چشتی کے عزیز مرید اور خلیفہ قطب الدین بختیار کاکی نے چشتیہ سلسلے کو عام کرنے کی بے حد کوشش کی اور ان کے بعد ان کے خلیفہ فریدالدین مسعود گنج شکرؒ نے اس سلسلے کو منظم کیا جسے ان کے خلیفہ نظام الدین اولیا نے معراج کمال تک پہنچایا۔
تیرہویں صدی ہجری میں یہ سلسلہ میاں جی نور محمد جھنجھانوی تک پہنچتا ہے جن کے مرید حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے،جو دیوبندی مکتبہ فکر شیخ الشیوخ ہیں،کیونکہ ان کے خلفا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کو دیوبندی مکتبہ فکر کا امام اور مقتدیٰ مانا جاتا ہے۔ [اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات،ص:۱۱۲تا۱۱۸،الصوفیۃ معتقدا ومسلکا،ص:۳۷تا۴۴]