تصوف وطریقت کے اجزائے ترکیبی کا کتاب وسنت کی روشنی میں ایک جائزہ
پروفیسر سلیم چشتی کہتے ہیں کہ:
’’اسلامی تصوف قرآن وسنت سے ماخوذ ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں:
1-توحید خالص
2-تبلیغ دین
3-اتباع شریعت
4-خدمت خلق
5-جہاد
[اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش ازیوسف سلیم چشتی،ص:۹]
اگر ان مذکورہ اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے تو یہ دین اسلام کے مبادی قواعد اور اصول ہیں جن کی تعلیم روز ازل سے جاری ہے ۔ ان کو تصوف کا رنگ دینا یا تصوف کے اصول گرداننا محض تکلف ہے۔
اسلام کے اصولوں میں ذاتی حقانیت پائی جاتی ہے جو غلط نظریات سے آلودہ ہونے میں اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔چودہ سو سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ توحید میں الحاد کی آمیزش ،تبلیغ دین میں رکاوٹیں اور اتباع سنت کی بجائے خرافات اور دلیلوں کے مینا بازار سجائے گئے۔ جذبہ خدمت خلق کو مفاد سے آلودہ کرنے اور تنسیخ جہاد کے فتوی صادر ہو رہے مگر دین اسلام حقانیت رکھتا ہے جو لاکھ نشیب وفراز آئیں یہ بنیادی اصول آج بھی منقح منزہ ہیں۔
اَعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے دو بنیادی شروط
اخلاص اور متابعت رسولﷺ ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کاساتھ ہے۔ آنحضرتﷺ کی پہلی دعوت
"قولوا لا إلہ اﷲ تفلحوا"[مسند أحمد:۱۵۵۹۳]
اخلاص اور باطنی دنیا کو بدلنے اور توحید انقلاب لانے پر مبنی تھی۔اور دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا اطاعت رسولﷺ کا حکم صادر فرمایا جس سے اعمال مقبول ومنظور ہوتے ہیں۔
{أَطِیْعُوْا اﷲَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أعْمَالَکُمْ} [محمد:۳۳]
’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔‘‘
مذکورہ دو شروط کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ اکٹھا بیان فرمایا ہے:
{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَائَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ اَحَدًا}[الکہف:۱۱۵]
’’جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے اسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رح فرماتے ہیں کہ:
’’فقہ اسلامی کی بنیادان چیزوں پر ہے‘‘
1-إنما الأعمال بالنیات [صحیح البخاري:۱]
’’تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘
2-من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد [متفق علیہ]
’’جس شخص نے ہماری شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑی جو نہ تھی وہ مردود ہے۔‘‘
اور اس معنی ایک اور حدیث ہے:
3-من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہورد [صحیح مسلم:۳۲۴۲]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری طرف سے کوئی امر نہ تھا ،وہ مردود ہے۔‘‘
4-الحلال بین والحرام بین [صحیح البخاري:۵۲]
’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔‘‘
اِن اصول ثلاثہ میں انقیاد باطنی(اخلاص)،انقیاد ظاہری(اطاعت رسولﷺ)اور تیسری اہم چیز رزق حلال مالہ وما علیہ کا اہتمام ہے۔
کلمہ توحید خالصتاً اخلاص ہے۔نماز کے بارے میں حکم ہے:
{وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ}[ البقرۃ:۴۳]
’’نماز پڑھا کرواورزکوۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔‘‘
ایک آیت چھوڑ کر آگے فرمایا:
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلَّا عَلَی الْخَاشِعِیْنَ}[البقرۃ:۴۵]
’’اور (رنج وتکلیف میں)صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔یقینا نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر گراں نہیں جو عجز کرنے اور ڈرنے والے ہیں۔‘‘
سفیان ثوری رح کہتے ہیں کہ:میں نے اعمشؒ سے خشوع کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے :
’’اے ثوریؒ!تم لوگوں کا امام بننا چاہتے ہواور خشوع کے بارے میں نہیں جانتے؟ سنئے!غیر مرغوب کھانا کھانا اور کھردرے کپڑے پہننا اور سر ک جھکا ئے رکھنا خشوع نہیں،بلکہ خشوع یہ ہے کہ آپ حق کے معاملے میں امیر وغریب کو ایک آنکھ دیکھیں اور تمام فرائض کی بجاآوری میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہو جائیں۔اور خشوع ایک دلی کیفیت کا نام ہے جس کا جوارح پر اثر ظاہر ہوتا ہے اور یہ نماز کی روح ہے۔‘‘ [فتح القدیر:۱؍۱۸۲]