ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی اصل زبان لغت قریش تھی، جس میں بعد ازاں مشقت کے خاتمے کے لیے دیگر لغات میں پڑھنے کی اجازت اگرچہ دیدی گئی تھی، لیکن جب وہ مشقت ختم ہوگئی تو لغات کے اس اختلاف ختم فرما کر اصل لغت قریش کو باقی رکھا گیا، جس میں اب ذیلی طور پر لہجات (اصول) اور اسالیب بلاغت(فروش) کا موجودہ اختلاف شامل ہے۔
عصر حاضر میں عام طور پر ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین امام طبری رحمہ اللہ کے موقف پر ایک بنیادی اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کے بعد جہاں چھ لغات کا نسخ ماننا پڑتا ہے،پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ لوگ جب کہتے ہیں کہ حضرت عثماننے فتنہ وفساد کے خاتمہ کے لیے چھ حروف کو موقوف کردیا تھا، تو اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ حروف کو موقوف کرنے کے باوجود انہوں نے موجودہ قراء توں کے اختلاف کو باقی کیوں رکھا؟ اس کے جواب میں ہم واضح کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کے ضمن میں امام طبری رحمہ اللہ کے ساتھ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ابتداء اً ’سبعۃ أحرف‘ میں مترادفات کا ایک وسیع اختلاف موجود تھا جسے عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیا گیا، لیکن لہجوں اور اسالیب ِبلاغت کا اختلاف باقی رکھا گیا، چنانچہ اس بات کا تو جواب واضح ہے کہ حضرت عثمانt نے اول تو اپنی طرف سے کوئی کام کیا ہی نہیں تھا، بلکہ عرضہ اخیرہ میں منسُوخ التِّلاوۃ اختلاف کوختم فرما یا تھا جوکہ دور عثمانی میں خصوصافتنہ کی بنیاد بنا ہوا تھا، لیکن جو اختلاف منسوخ نہیں ہوا تھا اسے حضرت عثمان نے بھی باقی رکھا تھا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کو صحیح ماننے کی صورت میں لازم آتا ہے کہ حروف اور قراء ات دو الگ الگ چیزیں ہیں، جن میں سے حروف تو منسوخ ہوگئے، البتہ قراء ات کا اختلاف باقی ہے، تو اس کے جواب میں حافظ ابن جریررحمہ اللہ کی طرف سے ہم کہنا چاہیں گے کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لینے کی صورت میں بھی حروف اور قراء ات کو الگ الگ ماننا پڑتا ہے، کیونکہ موجودہ قراء ات سبعہ یا عشرہ سے بھی ’سبعۃ أحرف‘کی نسبت توافق کی نہیں۔ جمیع علمائے قراء ات کے ہاں بھی ’سبعۃ أحرف‘ اورموجودہ سبعہ قراء ات ایک چیز نہیں، بلکہ ’سبعۃ أحرف‘اساس ہیں اور موجودہ قراء ات سبعہ یا قراء ات عشرہ انہی سے ماخوذ ہیں۔ مزید برآں جمیع اہل علم کا اتفاق ہے کہ آج ’سبعۃ أحرف‘ کا مصداق دنیا میں موجودہ قراء ات عشرہ ہی ہیں۔
عصر حاضر میں عام طور پر ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین امام طبری رحمہ اللہ کے موقف پر ایک بنیادی اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کے بعد جہاں چھ لغات کا نسخ ماننا پڑتا ہے،پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ لوگ جب کہتے ہیں کہ حضرت عثماننے فتنہ وفساد کے خاتمہ کے لیے چھ حروف کو موقوف کردیا تھا، تو اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ حروف کو موقوف کرنے کے باوجود انہوں نے موجودہ قراء توں کے اختلاف کو باقی کیوں رکھا؟ اس کے جواب میں ہم واضح کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کے ضمن میں امام طبری رحمہ اللہ کے ساتھ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ابتداء اً ’سبعۃ أحرف‘ میں مترادفات کا ایک وسیع اختلاف موجود تھا جسے عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیا گیا، لیکن لہجوں اور اسالیب ِبلاغت کا اختلاف باقی رکھا گیا، چنانچہ اس بات کا تو جواب واضح ہے کہ حضرت عثمانt نے اول تو اپنی طرف سے کوئی کام کیا ہی نہیں تھا، بلکہ عرضہ اخیرہ میں منسُوخ التِّلاوۃ اختلاف کوختم فرما یا تھا جوکہ دور عثمانی میں خصوصافتنہ کی بنیاد بنا ہوا تھا، لیکن جو اختلاف منسوخ نہیں ہوا تھا اسے حضرت عثمان نے بھی باقی رکھا تھا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کو صحیح ماننے کی صورت میں لازم آتا ہے کہ حروف اور قراء ات دو الگ الگ چیزیں ہیں، جن میں سے حروف تو منسوخ ہوگئے، البتہ قراء ات کا اختلاف باقی ہے، تو اس کے جواب میں حافظ ابن جریررحمہ اللہ کی طرف سے ہم کہنا چاہیں گے کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لینے کی صورت میں بھی حروف اور قراء ات کو الگ الگ ماننا پڑتا ہے، کیونکہ موجودہ قراء ات سبعہ یا عشرہ سے بھی ’سبعۃ أحرف‘کی نسبت توافق کی نہیں۔ جمیع علمائے قراء ات کے ہاں بھی ’سبعۃ أحرف‘ اورموجودہ سبعہ قراء ات ایک چیز نہیں، بلکہ ’سبعۃ أحرف‘اساس ہیں اور موجودہ قراء ات سبعہ یا قراء ات عشرہ انہی سے ماخوذ ہیں۔ مزید برآں جمیع اہل علم کا اتفاق ہے کہ آج ’سبعۃ أحرف‘ کا مصداق دنیا میں موجودہ قراء ات عشرہ ہی ہیں۔