• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعدّد ازواج

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
تعدّد ازواج

نظام اجتماعی کے لئے بنائے گئے قوانین اسی وقت کامل ، ترقی پسندا ور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں جب انسانی فطرت کے مطابق ہوں اور بشری ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کرتے ہوں۔قوانین بناتے وقت واضع قانون کے سامنے معاشرے کے تمام حالات ہوں ۔ اگر یہ صورت نہیں ہے تو پھر وہ قوانین باقی نہیں رہ سکتے ۔
اسلامی قوانین دنیا کے کسی خاص طبقے یا جگہ کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ تمام دنیا اور ہر زمان ومکان کے لئے ہیں اور نظام آفرینش کے عین مطابق بھی ہیں ۔ اسی لئے ہر زمانے میں بشری تقاضوں کو پورا کرتے رہے ہیں ۔ حوادثات کے مد وجزر میں مضمحل و نابود نہیں ہوئے اور نہ نابود ہو سکتے ہیں بلکہ اس دنیا میں جب تک انسان موجود ہے یہ قوانین اپنی برتری اور قدر و قیمت منواتے رہیں گے ۔
اسلام کے بر خلاف کلیسا اور مسیحی مبلغین نے تعدّد ازواج کے مسئلہ کو اس طرح غلط طریقے سے پیش کیا کہ آج یہ مسئلہ دنیا میں محل بحث بن گیا ہے۔ اپنی کمزور و سست پوزیشن کو بچانے کے لئے کلیسا ناواقف لوگوں پر تعدد ازواج کے مسئلے کوہزاروں تہمت و تبدیلی ٴحقائق کے ساتھ پیش کرتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں پر ظلم و جور کے مرادف ہے کیونکہ عیسائی مبلغین لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ مردوں کو حسب دل خواہ کسی قید و بند کے بغیر عورتوں سے شادی کرنے کا اختیار ہے اور اپنی سختیوں کا پابند بنانے کا حق ہے ۔
در حقیقت اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے حالانکہ ان لوگوں کے ذہنوں میںاس مسئلے کے خلاف دور از کار اور خلاف انصاف باتیں موجود ہیں لیکن اگر تعصب کی عینک اتار کر واقع بینی کے ساتھ عقل و منطق کی رو سے ، انسانی معاشرے کی فطرت پر غور کر کے بے شمار واقعات و حادثات کو نظر میں رکھتے ہوئے اور قوموں کی زندگی کے تغیرات اور تحولات کو دیکھتے ہوئے اس اسلامی قانون کے بارے میں سوچا جائے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے تو اس قانون کے اصولی و منطقی ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا ۔
گذشتہ انبیاء کی تاریخ اور موجودہ ادیان کے مطالعہ سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اسلام سے پہلے رائج و مرسوم تھا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جس کو صرف اسلام نے ایجاد کیا ہو ۔ مثلا چین میں ” لیکی “ قانون کی بناء پر ایک شخص کو ۱۳۰ عورتوں سے شادی کرنے کا حق تھا اور یہودی قانون میں ایک مرد کئی سو عورتوں سے شادی کر سکتا تھا ۔ (۱)
اسی طرح ” ارد شیر بابکان “ اور ” شارلمانی “ کے لئے لکھا گیاہے کہ ان میں سے ہر ایک کے حرم سرا میں تقریباً چار سو عورتیں تھیں ۔
توریت ( جو تعدد ازواج کو جائز سمجھتی ہے ) کے خلاف انجیل نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اس مسئلے میں خاموش ہے۔ اسی لئے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک یعنی شارلمانی بادشاہ فرانس کے زمانے تک مسیحی یورپ میں تعدد ازواج کی باقاعدہ رسم تھی اور کلیسا اس کی مخالفت نہیں کرتا تھا لیکن اسی بادشاہ ( شارلمانی ) کے زمانے میں کلیسا کے حکم سے پورے یورپ کے اندر یہ مسئلہ منسوخ قرار دیا گیا اور جن لوگوں کے پاس کئی کئی عورتیں تھیں ان کو شرعی لحاظ سے صرف ایک ایک عورت پر اکتفا کرنا پڑا اور اسی باعث عیسائی بد کاری و زنا کاری کی طرف مائل ہونے لگے اور جن کے پاس صرف ایک بیوی تھی وہ فسق و فجور کی طرف مائل ہو گئے زمانہٴ جاہلیت میں عرب کے مختلف قبیلوں میں نہایت نا پسند یدہ طریقے سے تعدد ازواج کا مسئلہ رائج تھا اورعدالت، مالی حیثیت اور دیگر شرائط کا لحاظ کئے بغیر ہر شخص اپنی حسب ِ خواہش جتنی عورتیں چاہے رکہ سکتا تھا ۔ اس وقت عورتوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی ، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا ایک عام بات تھی ۔ مردوں کی مطلق العنانی نے عورتوں پر عرصہٴ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔
اسلام نے اس ظلم کی مخالفت کی اور اس فساد کا خاتمہ کر دیا لیکن مخصوص شرائط کے ساتھ ۔اسلام نے اصل مسئلہ تعدد ازواج کو قبول کیا البتہ معاشرے کی ضرورتوں اور مرد و عورت کے مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورتوں کی تعداد کو صرف چار میں محدود کر دیا ۔
یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اسلام کی نظر میں شادی بیاہ کے مسئلے میں اصل تعدد نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی پیش بندی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ مختلف خطروں کو دور کیا جا سکے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑے ضرر سے بچنے کے لئے چھوٹا ضرر انسان کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ مثلا جان بچانے کے لئے مال کی قربانی مذموم نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ تعدد ازواج کا قانون تمام مسلمانوں کے لئے نماز ، روزے کی طرح ہر شخص پر واجب و لازم نہیں ہے کہ اگر ایک شخص چند عورتوں کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کر سکتا ہو اور اس کے معاشی حالت بھی چند عورتوں سے شادی کی اجازت دیتی ہو اور وہ اس کے باوجود صرف ایک عورت سے شادی کرے تو گویا اس نے فعل حرام کا ارتکاب کیا ! ایسا قطعاًنہیں ہے ۔
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
تعدد ازواج کے مسئلے میں عورتوں کو بھی ارادہ و عمل کی آزادی بخشی گئی ہے تاکہ وہ اپنی مرضی سے اس کام کو کریں کوئی جبر نہیں کیا گیا ہے ۔ تعدد ازواج کی اجازت دے کر اسلام نے عورتوں کی کسی قسم کی اہانت نہیں کی ہے بلکہ عورتوں کو صرف اجازت دی گئی ہے کہ حالات کے لحاظ سے اگر وہ چاہیں تو ایسا کر سکتی ہیں ان کو قید تنہائی پر مجبور نہیں کیا گیا ہے ۔
اگر شادی کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد برابر ہو تو وہاں پر ہر مرد کے حصے میں ایک ہی عورت آئے گی اور تعدد ازواج کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا ۔ لہذا جب معاشرے کو ضرورت نہ ہو تو پھر اس مسئلے کا وجود ہی نہ ہو گا لیکن اگر معاشرے کو شدید ضرورت ہو مثلاً عورتوں اور مردوں کا توازن مختلف اسباب کی وجہ سے باقی نہ رہے بلکہ مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابل میں کم ہو جائے تو فاضل عورتوںکے لئے کیاحل ہونا چاہئے؟
آئے دن کی جنگوں ، مشکل کاموں کی انجام دہی ، معادن کے اندر کام کرنا ( جس میں ہزاروں آدمی ہلاک ہوتے رہتے ہیں ) وغیرہ ان اسباب کی بناء پر مردوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور عورتوں کی تعداد بڑہتی جاتی ہے ۔ اب یہاں پر اعداد و شمار کر کے فیصلہ کیجئے کہ کیا کیا جائے کیونکہ صحیح فیصلہ تو مردم شماری کے بعد ہی ہوگا ۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں قطعی طور پر عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ زیادتی مندرجہ بالا اسباب کی بنا پر ہمیشہ سے دنیا میں رہی ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں ہے ۔ اس صورت حال میں تعداد ازواج کے علاوہ اس کا اورکیا حل ہو سکتا ہے ؟
فرانس کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سو پیدا ہونے والی لڑکیوں کے مقابلے میں ایک سو پانچ بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن اس کے با وجود عورتوں کی تعداددس لاکہ سات سو پینسٹہ ہزار سے زیادہ ہے ۔ حالانکہ پورے فرانس کی آبادی پانچ کروڑسے زیادہ نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں امراض کا مقابلہ کرنے کی طاقت کم ہے اس لئے پانچ فیصد لڑکے انیس سال کی عمر تک ختم ہو جاتے ہیں ، کچھ پچیس سال تک اسی طرح مردوں کی تعداد گھٹتی رہتی ہے اور اب یہ حال ہے کہ ۶۵ سال کی عمر میں پندرہ لاکہ عورتوں کے مقابلے میںساڑھے سات ہزار سے زیادہ مرد باقی نہ رہیں گے ۔(۲)
اس وقت امریکہ میں دو کروڑ عورتیں شوہر نہ ملنے کی وجہ سے کنواری ہیں اور مختلف عادتوں کی شکار ہیں ۔ (۳)
پروفیسر ” پیٹر مڈاوار(PROFESSOR PETER MUDAWAR) مندرجہ بالا نظریے کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس سبب سے اور دوسرے اسباب کی بناء پر بھی دنیا میں مردوں کی تعداد رو بہ نقصان ہے ۔ (۴)
جس طرح عورت ضروریات زندگی کا احساس کرتی ہے اسی طرح وہ اندرونی طور پر شوہر ، تولید نسل ، پرورش اولاد کی بھی ضرورت کا احساس کرتی ہے اور اس کی یہ خواہش شادی کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی ۔ محض وسائل زندگی کا مہیا ہو جانا اس کے باطنی التہاب کو ختم نہیں کر سکتا اور عورت ہی کیا مرد کے یہاں بھی یہ احساس موجود ہے اور اصولا ًان باتوں کا انکار ممکن نہیں ہے ۔
دنیا میں عورتوں کی کثرت کی علت بیان کرتے ہوئے اخبار اس اہم مسئلے کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ عورتوں کی تعداد روز بروز دنیا میں کیوں بڑہ رہی ہے ؟ اس کی دو علتیں ہیں ۔
1۔ عورتوں کی پیدائش ( مردوں کے بہ نسبت ) زیادہ ہوتی ہے ۔
2۔ مردوں کے مقابلے میں ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ عورتوں کی بہ نسبت مردوں کی عمر یں کم ہوتی ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک غیر شادی شدہ مردکے مقابلے میں بیس بیوہ عورتیں موجود ہیں۔ عورت کی تنہائی اس کے لئے بہت دشوار اور افسردہ کرنے والی چیز ہے ۔ غیر شوہر دار عورتیں ہمیشہ شریک زندگی کے انتظار میں رہتی ہیں اور ان کی پوری زندگی انتظار کے کمرے میں گزر جاتی ہے ۔
آخر کیا بات ہے کہ بڑی زحمت و محنت سے پکائے ہوئے کھانے عورتوں کو تنہا کھانے میں لطف نہیں آتا ؟ اس کی وجہ یہ ہے محض اپنے لئے کام کرنے کو عبث و بیکار سمجھتی ہیں ، حالانکہ بچوں اور شوہر کے لئے کام بڑی رغبت سے کرتی ہیں ۔ کنواری اور بیوہ عورتیں زیادہ تر اپنے دن کوبے مقصد اور بد دلی سے گزارتی ہیں ۔ دوستوںاورقرابت داروں کے یہاں شوہر دار عورتوں کو دیکھ کر ان کایہ احساس مزید بڑہ جاتا ہے ۔ (۵)
فاضل اور زائد عورتوں کا حل اسلام نے تعدد ازواج کی صورت میں نکالا ہے کہ عورتوں کو یہ حق ہے کہ شادی شدہ مرد کے ساتھ شادی کر کے اپنے رنج وتنہائی اور دیگر محرومیتیوں سے نجات حاصل کریں ۔
مردوں میں تولید نسل کی صلاحیت اور جنسی خواہش تقریباً ہمیشہ باقی رہتی ہے لیکن عورتیں پچاس سال کے بعد حمل و پیدائش کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیں ۔ اب جس زمانے میں عورت کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے مرد کی شہوت پھر بھی بیدار رہتی ہے ۔ اس لئے اگر مردوں کے لئے دوسری شادی کرنا غیر قانونی ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمر کے ایک حصے میں مرد کو اپنی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھا نانا ممکن ہو جائے گا ۔
اس کے علاوہ بہت سی عورتیںعقیم ہوتی ہیں لیکن میاں بیوی کے آپسی محبت کی بناء پر مرد سے جدائی بھی نہیں چاہتیں اور ادہر مرد کے اندر وجود فرزند اور بقائے نسل کی فطری خواہش موجود ہے ، ایسی صورت میں کس جرم کی بناء پر مرد پوری زندگی اولاد کی خاطر آتش حسرت میں جلتا رہے اور اپنے مقصد کو کیوں نہ حاصل کرے ؟
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
ایرانی اخبار” اطلاعات “ ” ایک مرد کی تین بیویاں شوہر کی چوتھی شادی پر راضی “ کے عنوان سے لکھتا ہے :
کل ظہر کے بعد ایک مرد اپنی تین عورتوں کو لے کرایران کے شہر رشت کی عدالت میں حاضر ہوا اور حاکم سے خواہش کی کہ میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ہوں مجھے اس سے شادی کی جازت دی جائے اور میری موجودہ بیویاں اس پر راضی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ تینوں عورتوں نے عدالت کے سامنے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا ۔ اس شخص نے عدالت کے سامنے اپنی مجبوری اس طرح بیان کی کہ میری تینوں بیویاں بانجھ ہیں لیکن زراعت کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتی ہیں اس لئے ان کو طلاق بھی نہیں دینا چاہتا اور چاہتا ہوں کہ ایک اور لڑکی سے شادی کروں جس سے میرے یہاں اولاد پیدا ہو ۔ لڑکی نے بھی ہمارے رشت کے نامہ نگار سے کہاکہ ہمارا ہونے والا شوہر ہمارے دیہات ” سفید کپلتہ “ کے بہت اچھے لوگوں میں سے ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے دیہات میں دو ہزار عورتیں اور صرف چار سو مرد ہیں ۔ مردوں میں بھی آدھے دس سے سولہ سال کے لڑکے ہیں یعنی ہمارے دیہات میں ایک مرد کے حصے میں پانچ عورتیں پڑتی ہیں ۔ ان دلائل کے پیش نظر اگر میں چوتھی بیوی بنوں تو جائے تعجب نہیں ہے ۔ (۶)
جو قانون مرد کو اس کی خواہش پوری نہ کرنے دے یعنی اولاد کی خواہش کو پوری نہ ہونے دے ، کیا وہ مرد کے حق میں ظالم قانون نہیں ہے ۔؟
اسی طرح زائد عورتوں کی صورت میں جب مردو عورت دونوں کے مصالح پیش نظر رکھے جائیں تو تعدد ازواج کی صورت کے علاوہ کون سا ایسا طریقہ ہے کہ معاشرے میں خلل واقع نہ ہو اورنسل کے اندر تعاون و توازن موجود رہے ؟
یہ ایک روحی، حیاتی و اجتماعی ضرورت ہے اور ایک واقعی حقیقت ہے جس کا سامنا کرنا ہی ہے،یہ کوئی افسانہ یا تخیل نہیں ہے ۔ اسی طرح کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عورت کسی زمانے میں کسی زمین گیر بیماری میں گرفتار ہو جائے جو ناقابل علاج ہو اور ہمبستری کے لائق بھی نہ ہو، دوسری طرف مرد کی شہوت میں کوئی کمی نہ ہو اور اسلام عفت و پاکدامنی کے مخالف کام کی اجازت تو دیتا نہیں اب دوسری شادی کو بھی روک دے تو یہ کتنا بڑا ظلم ہو گا ۔ اس موقع پر تعدد ازواج کے قانون سے بہتر کون سا طریقہ ہے جس سے مرد کی ضرورت پوری ہوجائے ؟
اسی طرح اگر شوہر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جائے جو ناقابل علاج ہو اور جنسی رابطہ عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کو بھی حق ہے کہ قاضی اسلام کی طرف رجوع کر کے طلاق کی خواہش کرے اور حاکم شرع شوہر سے اس کو طلاق دلوا دے گا ۔ اگر شوہر طلاق دینے پر تیار نہ ہو تو حاکم شرع اپنے اختیارات کو استعمال کر کے خود طلاق نافذ کر سکتا ہے ۔
اب ایسی صورت میں کہ جب عورت زمین گیر مرض میں مبتلا ہو کیا یہ بہتر ہے کہ مرد اس کو طلاق دیدے اور اس عضو معطل کے ذریعہ معاشرے کے بے سر و ساماں لوگوں میںایک اور فرد کا اضافہ کر دے ؟ یا پھر تعدد ازواج پر عمل کرتے ہوئے دوسری شادی کر لے اور اس عورت کو اپنی سر پرستی میں رکہ کر علاج و معالجہ کرائے ؟ ظاہر ہے دوسری صورت بہتر ہے کیونکہ جس عورت نے اپنی زندگی کے قیمتی حصے کو شوہر کے گھر میں گزارا ہو اس کے رنج و غم خوشی و مسرت میں برابر کی شریک رہی ہو کیا انصاف اور وجدان کا تقاضا یہ ہے کہ شوہر تندرستی کے زمانے میں تو شریک زندگی بنائے لیکن بیمار ہونے کے بعد اس کو علیحدہ کر دے ؟ کیا یہی انسانیت اور شرافت ہے؟
حفظ عفت عمومی اور جنسی بے راہ روی کی روک تھام کرنے ہی کے لئے اسلام نے ” تعدد ازواج “ جیسا موثر قانون ایجاد کیا ہے جس سے لاکھوں عورتوں کو انحرافات جنسی سے بچا کر ان کی فطری شوہر و اولادکی خواہش کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں جب کروڑوں افراد لقمہٴ اجل بن گئے اور بہت سی عورتیں بغیر شوہر کے رہ گئیں تو عورتوں کی انجمن نے جرمنی حکومت سے جرمن کے اندر ” تعدد ازواج “ کے قانون کے نفاذ کی مانگ کی لیکن کلیسا کی مخالفت کی وجہ سے ان کی مانگ پوری نہیں کی گئی اور خود کلیسا نے اس مسئلے کا کوئی عملی و منطقی حل نہیں پیش کیا اس لئے عورتیں مختلف اخلاقی مفاسد اور جنسی بے راہ روی کی شکار ہو گئیں اور ناجائز اولاد کی بھر مار ہو گئی ۔
اخباروں نے اس طرح تفصیل لکھی ہے :
” دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جرمنی کی بے شوہر عورتوں نے حکومت سے تعدد ازواج کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا تاکہ عورتوں کی شرعی و فطری مانگ ( شوہر و اولاد ) پوری ہو سکے مگر کلیسا نے مخالفت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا یورپ بد کاری کا اڈا بن گیا ۔ (۷)
زندگی کی وحشت تنہائی، بیس سالہ عورتوں تک میں عام ہو رہی ہے تیس چالیس سالہ عورتوں کا پوچھنا ہی کیا ۔ مردوں اور عورتوں کی آزادی بھی عورتوں کے دل سے ( شوہر ) کی خواہش نہیں نکال سکی ۔ آج بھی” بنت حوا“ کی نظریں ” ابن آدم “ کی متلاشی ہیں ۔ تمام امکانی صورتوں اور ترقیوں کے باوجود جو اتحادی جرمنی کے اندر عورتوں کے لئے مہیا کی گئی تھیں، آج بھی عورت اپنی حفاظت و پاسداری کے لئے شوہر کی تلاش میں ہے ۔
مغرب کا دعویٰ ہے کہ اس نے عورتوں کے ساتھ بڑی مہربانی برتی ہے اور ان کو کامل آزادی بخشی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ان کی جائز خواہشوں اور گھر بسانے کی تمنا کے سامنے کیوں دیوار کھڑی کرتا ہے ؟ ان کو ان کے اصلی فریضے ۔ تولید فرزند و تربیت اولاد ۔ سے کیوں محروم کرتا ہے ؟
ایک مرد کے گھر میں ایک یا چند عورتوں کے ساتھ رہ کر زندگی بسر کرنے پر آمادگی خود بتاتی ہے کہ بے شوہری اور تنہائی کی زندگی سے ”تعدد ازواج “ بہتر ہے ۔ یہ بے چارہ مرد ہے جو کئی شادیاں کر کے اپنی ذمہ داریوں میںاضافہ کر لیتا ہے ۔
ایک پڑھی لکھی معزز خاتون جنہوں نے حقوق میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اس مسئلے پر اظہار رائے کرتے ہوئے واضح الفاظ میں تحریر کرتی ہیں : کوئی بھی عورت چاہے وہ پہلی بیوی ہو یا دوسری یا کوئی اور ” تعدد ازواج “ سے اس کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ! بلکہ طے شدہ بات یہ ہے کہ اس قانون سے مردوں کو ضرر پہنچتا ہے کیونکہ ان کا بوجہ بڑہ جاتا ہے ان کی تکلیف زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرے گا تو شرعاً، اخلاقاً، قانوناً اور عرفاً اس عورت کا ذمہ دار ہو گا اور آخر عمر تک اس عورت کے شایان شان وسائل زندگی مہیا کرنا مرد کا فریضہ ہو گا ۔ اسی طرح عورت کے صحت کی ذمہ داری بھی اس پر ہو گی یعنی بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کرانااور اس کے مصارف برداشت کرنا ہوں گے اور خطرات سے بچانا بھی اس کا فریضہ ہو گا ۔ !
اگر مردان چیزوں میں کوتاہی کرتا ہے تو عرف اس کو فرائض کی انجام دہی پر مجبور کرے گا اس خاتون کے عقیدے کے لحاظ سے تعدد ازواج کے سلسلے میں نادانستہ جتنے اعتراض عورتوں کی زبان سے ہوتے ہیں یہ در حقیقت مردوں کے اعتراض ہیں جو عورتوں کی زبان سے ہوتے ہیں ۔ عورتیں طوطی کی طرح رٹ کر ہر جگہ اس راگ کو الاپتی رہتی ہیں ( گویا یہ عورتوں کی بے وقوفی اور مردوں کی عقل مندی ہے ) کیونکہ در حقیقت مرد مختلف شبہات پیدا کر کے شادی سے روکتے ہیں کیونکہ اس قانون سے انہیںکو نقصان ہے عورتوں کو کوئی نقصان نہیںہے اور مرد یہ چاہتا ہے کہ قانونی پابندی سے بچ کر اپنی جنسی خواہش پوری کرتا رہے مگر نادان عورت اس بات کو نہیں سمجھ پاتی ۔ اگر کسی مرد کی دو بیویاں ہیں تو جنسی تعلق سے عورت کو کوئی نقصان نہیں ہے بس روحانی طور پر عورت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میرے شوہر کی دوسری بیوی بھی ہے لیکن یہ روحانی تکلیف بھی حقیقی چیز نہیں ہے بلکہ مردوں کی سمجھائی ہوئی بات ہے اور اس کی دلیل یہ ہے زمانہٴ سابق میںلوگوں کی کئی بیویاں ہوتی تھی اب بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ ایک گھر میں دو تین بیویاں مل کر زندگی بسر کرتی ہیں اور کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن مردوں کے بہکائے میں آکر اب ان کو بھی تکلیف کا احساس ہونے لگا ہے اگر واقعاً دوسری بیوی باعث تکلیف ہوتی تو پہلے زمانے میں یہ احساس کیوں نہیں تھا ؟
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
اب آپ سمجھئے کہ مغرب نے جنسی بے راہ روی توجائزقرار دے دی لیکن فطری خواہش ( شوہر و اولاد ) پر پابندی لگا دی لیکن اسلام لوگوں کو معقول آزادی دیتا ہے اور ایسی آزادی جو مصالح فرد یا اجتماع کے لئے نقصان دہ ہو، اس کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دیتا ۔
چونکہ اسلام کی نظر میں عدل و انصاف، فرد و اجتماع کی سعادت کا اہم جزو ہے اسی لئے ” تعدد ازواج “ میں بھی اسلام نے عدالت کی شرط رکھی ہے اور مختلف امور میں عورتوں کے ساتھ کیسی عدالت برتی جائے اس سلسلے میں فقہ اسلامی کے اندر بہت زیادہ دستور بتائے گئے ہیں اور عورتوں کی آزادی و برابر ی کے حقوق وغیرہ کی بہت عمدہ طریقے سے ضمانت دی گئی ہے ۔
بہت سی ایسی عورتیں بھی ہیں جو رضا و رغبت کے ساتھ اپنے شوہروں کو دوسری شادی کی اجازت دے دیتی ہیں ، عورتوں کی یہ رضا مندی اس بات کی دلیل ہے کہ ” تعدد ازواج “ کا مسئلہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے ۔ اگر یہ خلاف فطرت قانون ہوتا تو عورت کسی بھی قیمت پر مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہ دیتی۔
اگر کسی گھر میں ناراضگی ، اختلافات دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں امتیاز برتا جاتا ہے عورتوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا ہے اسلام کا اعلان ہے”اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ہے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں دو تین ۔چار ان سے نکاح کر لو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ہے تو صرف ایک یا جو کنیزیں تمہارے ہاتھ کی ملکیت ہیں یہ بات انصاف سے تجاوز نہ کرنے سے قریب تر ہے “ ۔( ۸)
مختصر یہ بعض اوقات کچہ مردوں کے غیر معقول اور سخت گیر رویہ سے گھروں میں شدید اختلاف پیدا ہو جاتا ہے اور شرعی و اخلاقی فریضہ میں بیویوں سے انصاف نہ کرنے کی وجہ سے گھر یلو ماحول مہر و محبت کے بجائے دہکتا ہوا جہنم بن جاتا ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کے اعمال کی طرف توجہ دئے بغیر اسلام کے احکام کی گہرائی کو سوچنا چاہئے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے ۔ اسلام کے اندر ایسے بھی دستور و قانون موجود ہیں جن کی بناء پر مردوں کو عورتوں سے منصفانہ سلوک کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے مثلاً اگر کوئی مرد بیوی کا نان و نفقہ نہیں دیتا یا بیویوں میں عدالت سے کام نہیں لیتا اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتا تو اس سے شرعی باز پرس ہو گی اور اس کو سز ابھی دی جائے گی ۔
البتہ دلی لگاؤ اور قلبی جھکاؤ انسان کی قدرت سے باہر کی چیز ہے اور بہت ممکن ہے کہ کسی عورت کے اندر زیادہ خصوصیات ہوں جس کی بناء پر مرد اس سے زیادہ محبت کرتا ہو ، اسی لئے اسلام نے مرد کونان و نفقہ ، مکان ،ہمبستری اور تمام روحانی ، جسمانی اور مالی خواہشات کی مساوات پر مجبور کیاہے یعنی جو چیزیں انسان کے بس کی ہیں ان میں عدالت شرط ہے اس میں کسی قسم کی زیادتی اور ظلم و ستم جائز نہیں ہے لیکن جو باتیں انسان کے بس سے باہر ہیں ان میں عدالت شرط نہیں ہے ۔
عورتوں کے لئے جن حقوق کی خانگی زندگی میں زیادہ اہمیت ہے اسلام نے ان کی حفاظت کی ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ دلی لگاؤ کی وجہ سے اگر برتاؤ میں فرق پڑ جائے تب تو عورت کے حقوق ضائع ہوتے ہیں لیکن اگر کسی عورت سے قلبی لگاؤ ہونے کے باوجود لباس ، خوراک ، مکان ، اور دیگر ضروریات زندگی میں مثلا ہمبستری وغیرہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ عدالت کے موافق کام ہوتا ہے تو پھر اس قلبی لگاؤ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اسی لئے خانگی زندگی میں بے مہری ، کے آثار نہیں پیدا ہونے دنیا چاہئے۔ قرآن کہتا ہے : عورت کو معلق ( نہ شوہر دار نہ بے شوہر ) نہ کرو اس کو موت و زندگی کے بیچ میں مت پھنساؤ ۔ اسی لئے کسی مرد کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنی کچہ بیویوں کے ساتھ بے رخی سے پیش آئے اور ان کو بیچ منجدہار میں چھوڑ دے ۔
حضور سرور کائناتﷺ کے زمانے میں جب یہ حکم نافذ ہوا تو جن اصحاب کے پاس چار بیویاں تھیں ان کو پابند بنایا گیا کہ اگر سب کے ساتھ انصاف نہ کر سکو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کرو اور اگر انصاف بھی کر سکتے ہو تو چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتے ۔ اس حکم کے ذریعے اسلام نے ” تعدد ازواج “ کے غیر عادلانہ برتاؤ، عورتوں کے حقوق سے لا پرواہی اورمطلق العنان جنسی بے راہ روی پر پابندی عائد کر دی اور ہر ظلم و ستم کا خاتمہ کر دیا ۔
مسلمانوں میں جو مذہبی قانون کے پابند تھے ان میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جنہوں نے عورتوں کے مرنے کے بعد بھی عدالت و انصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا مثلاً
” معاذ بن جبل “ صحابی پیغمبر کی دو بیویاں تھیں اور طاعون میں دونوں ایک ساتھ فوت ہو گئیں ۔ معاذ اس وقت بھی عدل انصاف سے کام لینا چاہتے تھے کہ کس کو پہلے دفن کیا جائے ۔ چنانچہ انہوں نے اس کام کے لئے قرعہ اندازی سے کام لیا “ ( ۹)
مغرب میں بھی بعض ایسے منصف مزاج دانش مند پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ دیا ہے کہ ” تعدد ازواج “ معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے ۔ مشہور جرمنی فلسفی شوپنہاور (SCHOPENHAUER) اپنی کتاب عورتوں کے بارے میں چند باتیں میں تحریر کرتا ہے : جس مذہب میں ” تعدد ازواج “ کا قانون موجود ہے اس میں اس کا امکان ہے کہ عورتوں کی ایسی اکثریت جوکُل کے قریب ہو شوہر ،فرزند اور سرپرست سے ہمکنار ہو ۔ لیکن یورپ کے اندر کلیسا ہم کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتا اس لئے شوہر دار عورتیں بغیر شوہر والی عورتوں سے کئی گنا کم تعداد میں ہیں۔ بہت سی کنواریاں شوہر کی آرزو لے کر اور بہت سی عورتیں اولاد کی خواہش لے کر اس دنیا سے چلی گئیں اور بہت سی عورتیں اور لڑکیاں جنسی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی عفت کھو بیٹھیں اور بد نام ہو گئیں اور ساری زندگی آتش عصیاں و تنہائی میں جلتی رہیں اور انجام کار اپنی فطری خواہش تک نہ پہنچ سکیں اگر تعدد ازواج کا قانون ہوتا تو یہ بات نہ ہوتی ۔
کافی غور وخوض کے بعد بھی کوئی دلیل نہیں ملی کہ اگر کسی مرد کی بیوی زمین گیر مرض میں گرفتار ہو یا بانجھ ہو ، یا عمل حمل و وضع سے عاجز ہو تو وہ بے چارہ دوسری عورت سے شادی کیوں نہ کرے ؟ اس کا جواب کلیسا کو دینا چاہئے مگر کلیسا کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔ بہترین قانون وہ ہوتا ہے جس کے سہارے زندگی کی سعادت محفوظ رہے نہ کہ وہ جس کی بدولت زندگی جہنم کا نمونہ بن جائے ۔
آنی بسنٹ ( ANIE BESANT) تحریر کرتی ہے : مغرب کا دعویٰ ہے کہ اس نے ” تعدد ازواج “ کے قانون کو نہیں قبول کیا لیکن واقعیت یہ ہے کہ بغیرقبول کئے یہ قانون مغرب میں موجود ہے بایں معنی کہ مرد جب اپنی معشوقہ سے سیر ہو جاتا ہے تو اس کو بھگا دیتا ہے اور یہ بے چاری گلی کوچوں میں ماری ماری پھرتی ہے کیونکہ پہلا عاشق اپنی کوئی ذمہ دار ی محسوس ہی نہیں کرتا اور عورت کی یہ حالت ہزار درجہ اس عورت کی حالت سے بدتر ہے جو قانونی شوہر رکھتی ہے بال بچے والی ہے ،خاندان میں شوہر کے زیر حمایت زندگی بسر کر رہی ہے ۔ میں جب ہزاروں عورتوں کو رات کے وقت سڑکوں پر حیران و سر گرداں دیکھتی ہوں تو مجبورا ًسوچتی ہوں کہ اہل مغرب کو اسلام کے ”تعدد ازواج “ کے قانون پر ہرگز اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔جو عورت ”تعدد ازواج“ قانون کے ماتحت شوہر رکھتی ہے ، گود میں چھوٹے چھوٹے بچے رکھتی ہے اور نہایت احترام کے ساتھ شوہر کے خاندان میں زندگی بسر کرتی ہے وہ ہزاروں ہزار درجے اس عورت سے بہتر ہے جو گلی کوچے میں حیران و پریشاں گھومتی ہے، گود میں نا جائز بچہ رکھتی ہے جس بچے کو کوئی قانونی حمایت حاصل نہیں ہے ، جو دوسروں کی شہوتوں کے قربان گاہ پر بھینٹ چڑہ چکی ہے ۔
ڈاکٹر گوسٹاو لبون ( Dr. GUSTAVELEBON)لکھتا ہے : مشرقی رسم و رواج میںسے ” تعدد ازواج “ کے مسئلے کو مغرب میں جس قدر غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے کسی بھی رسم کے بارے میںایسا نہیں ہوا ہے ، اور کسی بھی مسئلے پر مغرب نے اتنی غلطی نہیں کی ہے جتنی ” تعدد ازواج “ کے مسئلے پر کی ہے ، میں واقعاً متحیر ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ مشرق میں” تعدد ازواج “ کا مسئلہ مغرب کے ” فریبی ازدواج “ سے کس طرح کم ہے اور اس میں کیا کمی ہے ۔ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ ” تعدد ازواج “ کا شرعی مسئلہ ہر لحاظ سے بہتر و شائستہ ہے ۔ ( ۱۰)
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
حوالہ جات
1۔حقوق زن در اسلام و اروپا ص ۲۱۵
2۔ ایرانی اخبار” اطلاعات“ ۱۱/ ۹/ ۳۵
3۔خواندینہا شمارہ ۷۱ سال ۱۴
4۔ ایرانی اخبار” کیہان“ ۳/۱۲/۳۸
5۔سروس مخصوص خبر گزاری فرانسہ اطلاعات ۱۲۲۳۹
6۔ ایرانی اخبار” اطلاعات“ ۲۰ بہمن ۴۸ شمارہ ۱۳۱۶
7۔ایرانی اخبار” اطلاعات“ ۲۹/۸/۴۰
8۔سورہ ٴ نسا/۳
9۔مجمع البیان ج۳ ص ۱۲۱
10۔تمدن اسلام و عرب ص ۵۲۶۔ ۵۲۷
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
ایک سوال جس کا جواب درکار ہے۔۔

حضور سرور کائناتﷺ کے زمانے میں جب یہ حکم نافذ ہوا تو جن اصحاب کے پاس چار بیویاں تھیں ان کو پابند بنایا گیا کہ اگر سب کے ساتھ انصاف نہ کر سکو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کرو اور اگر انصاف بھی کر سکتے ہو تو چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتے ۔ ( ۱۰)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ! محترمی میرا سوال یہ ہے کہ چار بیویاں ایک وقت میں رکھنے کی اجازت ہے یا پوری زندگی میں چار شادیوں کی اجازت ہے؟ یہ ایسا اشکال ہے جو دور نہیں ہوا اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یا شاید میری ناقص عقل اس معاملے میں آپ کی بیان کردہ تفصیل سمجھنے سے قاصر رہی۔ امید ہے آپ بہتر راہنمائی فرمائیں گے۔ اور چار شادیوں والے حکم کا جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جاری ہوا اس کا مکمل متن بمعہ ریفرنس بھی اگر یہیں اس پوسٹ کے جواب میں دے دیں تو میری معلومات میں اضافے کا سبب ہو گی آپ کی یہ نوازش۔
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ! محترمی میرا سوال یہ ہے کہ چار بیویاں ایک وقت میں رکھنے کی اجازت ہے یا پوری زندگی میں چار شادیوں کی اجازت ہے؟ یہ ایسا اشکال ہے جو دور نہیں ہوا اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یا شاید میری ناقص عقل اس معاملے میں آپ کی بیان کردہ تفصیل سمجھنے سے قاصر رہی۔ امید ہے آپ بہتر راہنمائی فرمائیں گے۔ اور چار شادیوں والے حکم کا جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جاری ہوا اس کا مکمل متن بمعہ ریفرنس بھی اگر یہیں اس پوسٹ کے جواب میں دے دیں تو میری معلومات میں اضافے کا سبب ہو گی آپ کی یہ نوازش۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
عزیزم نقطہ یہ ہے کہ بیوی کو کب بیوی کہا جاتا ہے؟ جس وقت بیوی کو بیوی کہا جاتا ہے اس وقت میں چار بیویوں کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ جب کسی عورت کو طلاق دی جائے تو وہ بیوی ہی نہیں رہتی تو پھر تعداد میں کیسے شمار ہوگی؟
اس لیے اگر کوئی بندہ بیک وقت چار ہی بیویاں رکھتا ہے لیکن ان چار میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ پہ کسی اور کو لے آتا ہے تو یہ صورت اسلام میں منع نہیں۔واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
عزیزم نقطہ یہ ہے کہ بیوی کو کب بیوی کہا جاتا ہے؟ جس وقت بیوی کو بیوی کہا جاتا ہے اس وقت میں چار بیویوں کی اسلام نے اجازت دی ہے۔
ماشا اللہ نہایت بہترین مختصر مگر جامع جواب دیا ہے آپ نے۔ اگر اسے سمندر کو کوزے میں بند کرنا کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائیں اور ہمیں اس سے مستفید ہونے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین۔
بس ایک چھوٹی سی عرض دوبارہ کہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جاری ہونے والے اس حکم کا مکمل متن بمعہ اردو ترجمہ یہاں شیئر کر دیں کہ مجھ جیسا کم علم مسلمان بھی اسے اپنی یاداشت میں محفوظ کر لے۔
جزاک اللہ
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
بس ایک چھوٹی سی عرض دوبارہ کہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جاری ہونے والے اس حکم کا مکمل متن بمعہ اردو ترجمہ یہاں شیئر کر دیں کہ مجھ جیسا کم علم مسلمان بھی اسے اپنی یاداشت میں محفوظ کر لے۔
رب غفور کا پیغام
فانكحوا ما طاب لكم من النسآء مثني وثلث وربع۔(سورة النساء)
پس جو عورتیں تمہیں پسند آئیں دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
أنَّ غيلانَ بنَ سلمةَ الثَّقفىَّ أسلمَ ولَهُ عشرُ نسوةٍ في الجاهليَّةِ فأسلمنَ معَهُ فأمرَهُ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم أن يتخيَّرَ منْهنَّ أربعًا
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 1128
خلاصة حكم المحدث: صحيح
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية[]=1420&xclude=

کہ جاہلیت میں غیلان ثقفی کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ جب غیلان ثقفی﷜ مسلمان ہوئے تو وہ سب بھی ان کے ساتھ مسلمان ہوگئیں تو نبی کریمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کو منتخب کرلیں (باقیوں کو چھوڑ دیں۔)
 
Top