• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ هُمُ الْأَخْسَرُ‌ونَ ﴿٥﴾
یہی لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی وہ سخت نقصان یافتہ ہیں۔

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْ‌آنَ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ ﴿٦﴾
بیشک آپ کو اللہ حکیم و علیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے۔

إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارً‌ا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ‌ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ﴿٧﴾
(یاد ہو گا) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کر لو۔ (١)
٧۔١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لیے آگ کی ضرورت تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَن بُورِ‌كَ مَن فِي النَّارِ‌ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨﴾
جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے (١) اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (٢)
٨۔١ دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ ایک سرسبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فِي النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک وتعالی اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَهَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب، (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ”اگر اپنی ذات کو بے نقاب کردے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے“۔ (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب إن الله لا ينام..) تفصیل کے لیے دیکھیں فتاوى ابن تيميہ ج 5 ص459۔ 464)۔
٨۔٢ یہاں اللہ کی تنزیہ و تقدیس کا مطلب یہ ہے کہ اس ندائے غیبی سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس آگ یا درخت میں اللہ حلول کئے ہوئے ہے، جس طرح کہ بہت سے مشرک سمجھتے ہیں بلکہ یہ مشاہدۂ حق کی ایک صورت ہے جس سے نبوت کے آغاز میں انبیا علیہم السلام کو بالعموم سرفراز کیا جاتا ہے۔ کھبی فرشتے کے ذریعے سے اور کبھی خود اللہ تعالیٰ اپنی تجلی اور ہمکلامی سے جیسے یہاں موسیٰ عليہ السلام کے ساتھ معاملہ پیش آیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٩﴾
موسٰی! سن بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں غالب (١) با حکمت۔
٩۔١ درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، موسٰی! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَ‌آهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرً‌ا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْ‌سَلُونَ ﴿١٠﴾
تو اپنی لاٹھی ڈال دے، موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا، اے موسٰی! خوف نہ کھا، (٢) میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔
١٠۔١ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے۔ دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١١﴾
لیکن جو لوگ ظلم کریں (١) پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والا مہربان ہوں۔ (٢)
١١۔١ یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالٰی اس کی گرفت نہ فرما لے۔
١١۔٢ یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُ‌جْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ‌ سُوءٍ ۖ فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَىٰ فِرْ‌عَوْنَ وَقَوْمِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿١٢﴾
اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے، (١) تو نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا، (٢) یقیناً وہ بدکاروں کا گروہ ہے۔
١٢۔١ یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیا گیا۔
١٢۔٢ فِیْ تسْعِ آیَاتِ یعنی یہ دو معجزے ان ٩ نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان ٩ نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے، سورۃ بنی اسرائیل:101 کا حاشیہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَ‌ةً قَالُوا هَـٰذَا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿١٣﴾
پس جب ان کے پاس آنکھیں کھول دینے والے (١) ہمارے معجزے پہنچے تو وہ کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے۔
١٣۔١ مُبْصِرَۃً، واضح اور روشن یا یہ اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿١٤﴾
انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر۔ (١) پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
١٤۔١ یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ‌ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥﴾
اور یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا (۱) اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔
۱۵۔۱ سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے، اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داود علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا یہ قصہ ہے۔ انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داود علیہ السلام کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا۔ ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا، لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَوَرِ‌ثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ‌ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ ﴿١٦﴾
اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے (١) اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے (٢) اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں۔ (٣) بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے۔
١٦۔١ اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان علیہ السلام قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیا کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال و اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد)
١٦۔٢ بولیاں تو تمام جانورون کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لیے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر)
١٦۔٣ جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔
 
Top