• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سُنَّةَ اللَّـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٦٢﴾
ان سے اگلوں نے بھی اللہ کا یہی دستور جاری رہا۔ اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز رد و بدل نہیں پائے گا۔
يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ ۚ وَمَا يُدْرِ‌يكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِ‌يبًا ﴿٦٣﴾
لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے، آپ کو کیا خبر ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو۔
إِنَّ اللَّـهَ لَعَنَ الْكَافِرِ‌ينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرً‌ا ﴿٦٤﴾
اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا ﴿٦٥﴾
جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ کوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے۔
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ‌ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّـهَ وَأَطَعْنَا الرَّ‌سُولَا ﴿٦٦﴾
اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے) کہیں گے کاش ہم اللہ تعالٰی کی اطاعت کرتے۔
وَقَالُوا رَ‌بَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَ‌اءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧﴾
اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا (١)۔
٦٧۔١ یعنی ہم نے تیرے پیغمبروں اور داعیان دین کی بجائے اپنے ان بڑے اور برزگوں کی پیروی کی، لیکن آج ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے ہمیں تیرے پیغمبروں سے دور رکھ کر راہ راست سے بھٹکائے رکھا۔ آبا پرستی اور تقلید فرنگ آج بھی لوگوں کی گمراہی کا باعث ہے کاش مسلمان آیات الٰہی پر غور کر کے ان پگڈنڈیوں سے نکلیں اور قرآن وحدیث کی صراط مستقیم کو اختیار کرلیں کہ نجات صرف اور صرف اللہ اور رسول کی پیروی میں ہی ہے نہ کہ مشائخ واکابر کی تقلید میں یا آبا واجداد کے فرسودہ طریقوں کے اختیار کرنے میں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
رَ‌بَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرً‌ا ﴿٦٨﴾
پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّ‌أَهُ اللَّـهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّـهِ وَجِيهًا ﴿٦٩﴾
اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا (١) اور اللہ کے نزدیک با عزت تھے۔
٦٩۔١ اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت با حیا تھے، چنانچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنو اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ علیہ السلام کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے۔ پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے دوڑے۔ حتٰی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ علیہ السلام نہایت حسین و جمیل ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تعالٰی نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کے اس الزام اور شبہہ سے صفائی کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحیح بخاری) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ قلق اور اضطراب محسوس کریں جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا جب آپ تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کا چہر مبارک سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو (١)۔
٧٠۔١ یعنی ایسی بات جس میں کجی اور انحراف ہو، نہ دھوکا اور فریب۔ بلکہ سچ اور حق ہو، یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانے پر جا لگے اسی طرح تمہاری زبان سے نکلی ہوئی بات اور تمہارا کردار راستی پر مبنی ہو، حق اور صداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧١﴾
تاکہ اللہ تعالٰی تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے (١) اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔
٧١۔١ یہ تقویٰ اور قول کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید تو فیق سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائیگی، تو اسے اللہ معاف فرما دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّا عَرَ‌ضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اٹھا لیا (۱) وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے (۲)۔
٧٢۔١ جب اللہ تعالٰی نے اہل اطاعت کا اجر و ثواب اور اہل مصیت کا وبال اور عذاب بیان کر دیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض و واجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض و انکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان اور زمین پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سےڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر و ثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شریعہ کو امانت سے تعبیر کر کے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اور آسمان اور زمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا؟ اور انسان نے کس طرح قبول کیا؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ اسے بیان کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق کیلئے ایک خاص قسم کا احساس و شعور رکھا ہے، گو ہم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالٰی تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اور یہ انکار انہوں نے سرکشی و بغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کر سکے تو اس کی سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے۔ اس نے عذاب کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اسے نے ذمے داری کو قبول کر لیا۔
٧٢۔٢ یعنی بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر و قیمت سے غفلت کر کے جہالت کا مظاہرہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لِّيُعَذِّبَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِ‌كِينَ وَالْمُشْرِ‌كَاتِ وَيَتُوبَ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٧٣﴾
(یہ اس لئے) کہ اللہ تعالٰی منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے (١) اور اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔
٧٣۔١ اس کا تعلق حَمَلَھَا سے ہے یعنی انسان کو اس امانت کا ذمے دار بنانے سے مقصد یہ ہے کہ اہل نفاق و اہل شرک کا نفاق و شرک اور اہل ایمان کا ایمان ظاہر ہو جائے اور پھر اس کے مطابق انہیں جزا و سزا دی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة سبأ

(سورة سبأ ۔ سورہ نمبر ۳٤ ۔ تعداد آیات ۵٤)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَ‌ةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ‌ ﴿١﴾
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے (١) آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے (۲) وہ (بڑی) حکمتوں والا اور پورا خبردار ہے
۱۔۱یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہرچیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔
۱۔۲ یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلا (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی جس سے انہیں لذت وفرحت محسوس ہوا کرے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا يَخْرُ‌جُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُ‌جُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّ‌حِيمُ الْغَفُورُ‌ ﴿٢﴾
جو زمین میں جائے (١) اور جو اس سے نکلے جو آسمان سے اترے (٢) اور جو چڑھ کر اس میں جائے (٣) وہ سب سے باخبر ہے اور مہربان نہایت بخشش والا۔
٢۔١ مثلا بارش خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔
٢۔٢ بارش اولے گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔
٢۔٣ یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَ‌بِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّ‌ةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا أَصْغَرُ‌ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ‌ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٣﴾
کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجئے! مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی (١) اللہ تعالٰی سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں (٢) نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہرچیز کھلی کتاب میں موجود ہے (٣)۔
٣۔١ قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لام تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی؟ وہ تو بہر صورت یقینا آئے گی۔
٣۔٢ یعنی جب آسمان و زمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کر کے دوبارہ تمہیں زندہ کر دینا کیوں ناممکن ہوگا
٣۔٣ یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لِّيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ ﴿٤﴾
تاکہ وہ ایمان والوں اور نیکوں کاروں کو بھلا بدلہ عطا فرمائے یہی لوگ ہیں جن کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔
٤۔۱یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی اس لیے برپا ہوگی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالٰی اس لیے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے کیونکہ جزا کے لیے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک و بد دونوں یکساں ہیں اور یہ بات عدل وانصاف کے قطعا منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہوگا ( وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ) 41۔فصلت:46)
 
Top