• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ أَمْرً‌ا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَ‌ةُ مِنْ أَمْرِ‌هِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦﴾
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (١) یاد رکھو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
٣٦۔١ یہ آیت حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، جو کہ اصلا عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب کو نکاح کا پیغام بیجھا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وضاحت کی بنا پر تامل ہوا، کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا باہم نکاح ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَ‌جٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرً‌ا ۚ وَكَانَ أَمْرُ‌ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿٣٧﴾
یاد کرو) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا کہ جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر تو نے اپنے دل میں وہ جو چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالٰی اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اسے ڈرے (١) پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی (۲) ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا (۳) تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں (٤) اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا ہے (۵)
٣٧۔١ لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید کے دامن میں غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انکو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالٰی نے آپ کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرمادیا تھا کہ زید کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ایک کاری ضرب لگاکر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا ، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اسکی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں انہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انھی قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ان پر یہ تھا کہ انکی دینی تربیت کی۔ انکو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا ۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنی بہو سے نکاح کر لیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اسکے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگا، جس سے یہ بات سب کے علم کے ہی علم میں آجائے گی۔
٣٧۔٢ یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب عدت سے فارغ ہوگئیں۔
٣٧۔٣ یعنی یہ نکاح معرفت طریقے کے برعکس اللہ کے حکم سے قرار پاگیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی
٣٧۔٤ یہ حضرت زینب سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لے پالک کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔
۳۷۔۵ یعنی پہلے سے ہی تقدیر الہٰی میں تھا بہر صورت ہو کر رہنا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَ‌جٍ فِيمَا فَرَ‌ضَ اللَّـهُ لَهُ ۖ سُنَّةَ اللَّـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۚ وَكَانَ أَمْرُ‌ اللَّـهِ قَدَرً‌ا مَّقْدُورً‌ا ﴿٣٨﴾
جو چیزیں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کے لئے مقرر کی ہیں ان میں نبی پر کوئی حرج نہیں (١) (یہی) اللہ کا دستور ان میں بھی رہے جو پہلے ہوئے (٢) اور اللہ تعالٰی کے کام اندازے پر مقرر کئے ہوئے ہیں۔
٣٨۔١ یہ اسی واقعہ نکاح زینب کی طرف سے اشارہ ہے، چونکہ یہ نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال تھا، اس لئے اس میں کوئی گناہ اور تنگی والی بات نہیں ہے۔
٣٨۔٢ یعنی گزشتہ انبیاء علیہم السلام بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض قرار دیئے جاتے تھے چاہے قومی اور عوامی رسم و رواج ان کے خلاف ہی ہوتے۔
۳۸۔۳یعنی خاص حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں دنیاوی حکمرانوں کی طرح وقتی اور فوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے اسی طرح ان کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے جس کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِ‌سَالَاتِ اللَّـهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّـهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا ﴿٣٩﴾
یہ سب ایسے تھے کے اللہ تعالٰی کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے (۱) اللہ تعالٰی حساب لینے کے لئے کافی ہے۔ (۲)
٣٩۔١ اس لئے کسی کا ڈر یا خوف انہیں صرف اللہ کا پیغام پہنچانے میں مانع بنتا نہ طعن و ملامت کی انہیں کوئی پرواہ ہوتی تھی۔
٣٩۔۲ یعنی ہر جگہ وہ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے موجود ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہے اور اللہ کے دین کی تبلیغ و دعوت میں انہیں جو مشکلات آتیں ان میں وہ چارہ سازی فرماتا اور دشمنوں کے مذموم ارادوں اور سازشوں سے انہیں بچاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّ‌جَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّ‌سُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
(لوگو) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں (١) لیکن اللہ تعالٰی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں (٢) اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو (خوب) جانتا ہےـ
(۱) اس لیے وہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھی باپ نہیں ہیں جس پر انہیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا؟ بلکہ ایک زید رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کیا وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید تو حارثہ کے بیٹے تھےآپ صلی اللہ تعالٰی عنہ نے تو انہیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ حقیقتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صلبی بیٹے نہیں تھے اسی لیے (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ) 33۔ الاحزاب:5) کے نزول کے بعد انہیں زید بن حارثہ ہی کہا جاتا تھا علاوہ ازیں حضرت خدیجہ سے آپ کے تین بیٹے قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہوا لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر)
٤۰۔۲خاتم مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ورسالت کا خاتمہ کر دیا گیا آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر آئیں گے اس لیے ان کا نزول عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُ‌وا اللَّـهَ ذِكْرً‌ا كَثِيرً‌ا ﴿٤١﴾
مسلمانوں اللہ تعالٰی کا ذکر بہت کیا کرو۔
وَسَبِّحُوهُ بُكْرَ‌ةً وَأَصِيلًا ﴿٤٢﴾
اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِ‌جَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَ‌حِيمًا ﴿٤٣﴾
وہی ہے جو تم پر رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے اور اللہ تعالٰی مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے
تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرً‌ا كَرِ‌يمًا ﴿٤٤﴾
جس دن یہ (اللہ سے) ملاقات کریں گے ان کا تختہ سلام ہوگا (١) ان کے لئے اللہ تعالٰی نے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے۔
٤٤۔١ یعنی جنت میں فرشتے اہل ایمان کو یا مومن آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْ‌سَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرً‌ا وَنَذِيرً‌ا ﴿٤٥﴾
اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا (١) خوشخبری سنانے والا بھیجا ہے۔
٤۵۔۱بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کے اصل لفظ سے معنوی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر انبیاء علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَ‌اجًا مُّنِيرً‌ا ﴿٤٦﴾
اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ (١)
٤٦۔١ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے کفر و شرک کی تاریکیاں دور ہوجائیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کر کے جو کمال و سعادت حاصل کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَبَشِّرِ‌ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّـهِ فَضْلًا كَبِيرً‌ا ﴿٤٧﴾
آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔
وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا ﴿٤٨﴾
اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیے اور جو ایذاء (ان کی طرف سے پہنچے) اس کا خیال بھی نہ کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھیئے کافی ہے اللہ کام بنانے والا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّ‌حُوهُنَّ سَرَ‌احًا جَمِيلًا ﴿٤٩﴾
اے مومنوں جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو (١) پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو (۲) پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو (۳)۔
٤٩۔١ نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو وہ بھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے اور جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہو جائے تو عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے، البتہ ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے ٤ ماہ اور دس دن کی عدت گزارنا پڑے گی (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے۔ جماع (ہم بستری) سے نکاح لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق ہو جائے گی۔ اسی طرح بعض جو کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہو جائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں وضاحت ہے (لاطلاق قبل النکاح) اس سے واضح ہے 'کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے
٤٩۔٢ یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔
٤۹۔۳ یعنی انہیں عزت واحترام سے بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَ‌هُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْ‌نَ مَعَكَ وَامْرَ‌أَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَ‌ادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَ‌ضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَ‌جٌ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥٠﴾
اے نبی! ہم نے تیرے لئے وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے (۱) اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالٰی نے غنیمت میں تجھے دی ہیں (۲) اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خلاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے (۳) اور وہ با ایمان عورتیں جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے (٤) یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں (۵) ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں ( ٦ ) یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو (۷) اللہ تعالٰی بہت بخشنے والا اور بڑے رحم والا ہے۔
٥٠۔١بعض احکام شرعیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیاز حاصل تھا جنہیں آپ کی خصوصیات کہا جاتا ہے مثلا اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل (تہجد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھا صدقہ آپ پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے جن عورتوں کو آپ نے مہر دیا ہے وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا اور جویریہ رضی اللہ عنھا کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا صرف ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کا مہر نجاشی نے اپنے طرف سے دیا تھا۔
۵۰۔۲چنانچہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور جویریہ ملکیت میں آئیں جنہیں آپ نے آزاد کر کے نکاح کرلیا اور رحانہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا یہ بطور لونڈی آپ کے پاس رہیں۔
۵۰۔۳ اس کامطلب ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اسی طرح انہوں نے بھی مکے سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔
۵۰۔٤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آپ ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے۔
٥٠۔۵ یہ اجازت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے (دیگر مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ حق مہر ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔
٥٠۔ ٦ یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلا چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آجکل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔
٥٠۔۷ اس کا تعلق اِ نَّا اَ حْلَلْنَا سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اجازت اس لئے ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی تنگی محسوس نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کے نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔
 
Top