- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ﴿٥١﴾
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے (١) اور تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں (٢) اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دیدے اس پر سب کی سب راضی ہیں۔ (۳)
٥١۔١ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت کا بیان ہے، وہ یہ کہ بیویوں کے درمیان باریاں مقرر کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی باری چاہیں موقوف کر دیں یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔
٥١۔٢ یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔
٥١۔٣ یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہونگی، غمگین نہیں ہونگی اور جتنا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی اسلئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلے پر راضی اور مطمن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ملنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت حضرت عائشہ کے لئے ہبہ کر دی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر مقرر کر رکھی تھیں، اسی لیے آپ نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ کے پاس گزارے (ان تقر اعینھن) کا تعلق آپ کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی اس کے باوجود آپ نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔
٥٢۔٤ یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے ان میں یہ بات بھی یقینا ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیونکہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان، نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کر سکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار میں ہی نہیں ہے اس لئے اللہ تعالٰی اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث ہو۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ' یا اللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا اس میں مجھے ملامت نہ کرنا (مسند احمد)
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے (١) اور تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں (٢) اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دیدے اس پر سب کی سب راضی ہیں۔ (۳)
٥١۔١ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور خصوصیت کا بیان ہے، وہ یہ کہ بیویوں کے درمیان باریاں مقرر کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی باری چاہیں موقوف کر دیں یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔
٥١۔٢ یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔
٥١۔٣ یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہونگی، غمگین نہیں ہونگی اور جتنا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی اسلئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلے پر راضی اور مطمن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ملنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت حضرت عائشہ کے لئے ہبہ کر دی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر مقرر کر رکھی تھیں، اسی لیے آپ نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ کے پاس گزارے (ان تقر اعینھن) کا تعلق آپ کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی اس کے باوجود آپ نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔
٥٢۔٤ یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے ان میں یہ بات بھی یقینا ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیونکہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان، نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کر سکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار میں ہی نہیں ہے اس لئے اللہ تعالٰی اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث ہو۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ' یا اللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا اس میں مجھے ملامت نہ کرنا (مسند احمد)