• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَدَعَا رَ‌بَّهُ أَنَّ هَـٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُّجْرِ‌مُونَ ﴿٢٢﴾
پھر انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ سب گنہگار لوگ ہیں (١)۔
٢٢۔١ یعنی جب انہوں دیکھا کہ دعوت کا اثر قبول کرنے کی بجائے، اس کا کفر و عناد بڑھ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دیئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَأَسْرِ‌ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ ﴿٢٣﴾
(ہم نے کہہ دیا) کہ راتوں رات تو میرے بندوں کو لے کر نکل، یقیناً تمہارا (١) پیچھا کیا جائے گا۔
٢٣۔١ چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور دیکھو! گھبرانا نہیں، تمہارا پیچھا بھی ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَاتْرُ‌كِ الْبَحْرَ‌ رَ‌هْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَ‌قُونَ ﴿٢٤﴾
تو دریا کو ساکن چھوڑ کر چلا جا (١) بلاشبہ یہ لشکر غرق کر دیا جائے گا۔
٢٤۔١ رَھْوًا بمعنی ساکن یا خشک۔ مطلب یہ ہے کہ تیرے لاٹھی مارنے سے دریا معجزانہ طور پر ساکن یا خشک ہو جائے گا اور اس میں راستہ بن جائے گا، تم دریا پار کرنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا تاکہ فرعون اور اس کا لشکر بھی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس میں داخل ہو جائے اور ہم اسے وہیں غرق کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
كَمْ تَرَ‌كُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٢٥﴾
وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے۔
وَزُرُ‌وعٍ وَمَقَامٍ كَرِ‌يمٍ ﴿٢٦﴾
اور کھتیاں اور راحت بخش ٹھکانے۔
وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ ﴿٢٧﴾
اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کر رہے تھے۔
كَذَٰلِكَ ۖ وَأَوْرَ‌ثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِ‌ينَ ﴿٢٨﴾
اسی طرح ہوگیا (١) اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا (١)
٢٨۔١ بعض کے نزدیک اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کا دوبارہ مصر آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں، اس لئے ملک مصر کی وارث کوئی اور قوم بنی، بنی اسرائیل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْ‌ضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾
سو ان پر نہ تو آسمان و زمین (١) روئے اور نہ انہیں مہلت ملی۔
٢٩۔١ یعنی ان فرعونیوں کے نیک اعمال ہی نہیں تھے جو آسمان پر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے، نہ زمین پر ہی وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ اس سے محرومی پر زمین روتی۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں تھا (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿٣٠﴾
اور بیشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی۔
مِن فِرْ‌عَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِّنَ الْمُسْرِ‌فِينَ ﴿٣١﴾
(جو) فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی۔ فی الواقع وہ سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں تھا۔
وَلَقَدِ اخْتَرْ‌نَاهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٣٢﴾
ہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی (١)۔
٣٢۔١ اس جہان سے مراد بنی اسرائیل کے زمانے کا جہان ہے کل جہان نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں امت محمدیہ کو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے یعنی بنی اسرائیل اپنے زمانے میں دنیا جہان والوں پر فضیلت رکھتے تھے ان کی یہ فضیلت اس استحقاق کی وجہ سے تھی جس کا علم اللہ کو ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَآتَيْنَاهُم مِّنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُّبِينٌ ﴿٣٣﴾
اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی۔
إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ ﴿٣٤﴾
یہ لوگ تو یہی کہتے ہیں (١)
٣٤۔١ یہ اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے۔ اس لئے کہ سلسلہ کلام ان ہی سے متعلق ہے۔ درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُنشَرِ‌ينَ ﴿٣٥﴾
کہ (آخری چیز) یہی ہمارا پہلی بار (دنیا سے) مر جانا اور ہم (١) دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔
٣٥۔١ یعنی یہ دنیا کی زندگی ہی بس آخری زندگی ہے اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب ہونا ممکن نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٣٦﴾
اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لے آؤ (١)
٣٦۔١ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واضح اور صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھا دو یہ ان کی کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہو جانا یا کر دینا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَهُمْ خَيْرٌ‌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِ‌مِينَ ﴿٣٧﴾
کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تمہاری قوم کے لوگ اور جو ان سے بھی پہلے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک کر دیا یقیناً وہ گنہگار تھے (١)
٣٧۔١ یعنی یہ کفار مکہ اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد و ثمود وغیرہ سے زیادہ طاقتور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کر دیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
 
Top