• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَ‌ةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ ﴿٧٣﴾
ہم نے اسے سبب نصیحت (۱) اور مسافروں کے فائدے کی چیز بنایا (۲)
٧٣۔١ کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیا کی بیشمار چیزوں کی تیاری کے لئے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں جو اس سے ٦٩ درجہ حرارت میں زیادہ ہوگی۔
(۲) مقوین، مقوی کی جمع ہے، قواء یعنی خالی صحراء میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے، یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھین حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مقوی سے وہ فقراء مراد لیے ہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔ بعض نے اس کے معنی مستمعین (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر غریب، مقیم اور مسافر سب آجاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اور ان سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اور گھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٧٤﴾
پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو۔
فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ ﴿٧٥﴾
پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی (١)
٧٥۔۱ یعنی یہ قرآن کی کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ﴿٧٦﴾
اور اگر تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔
إِنَّهُ لَقُرْ‌آنٌ كَرِ‌يمٌ ﴿٧٧﴾
کہ بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے (١)
٧٧۔١ یہ جواب قسم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ﴿٧٨﴾
جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے (١)
٧٨۔١ یعنی لوح محفوظ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُ‌ونَ ﴿٧٩﴾
جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں (١)
٧٩۔١ یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتے ہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔ مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیوں کر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تَنزِيلٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨٠﴾
یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے۔
أَفَبِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ ﴿٨١﴾
پس کیا تم ایسی بات کو سرسری (اور معمولی) سمجھ رہے ہو۔
وَتَجْعَلُونَ رِ‌زْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ ﴿٨٢﴾
اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔
فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿٨٣﴾
پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے۔
وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٨٤﴾
اور تم اس وقت آنکھوں سے دیکھتے رہو (١)
٨٤۔١ یعنی روح نکلتے ہوئے دیکھتے ہو لیکن ٹال سکنے کی یا اسے کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٨٥﴾
ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں (١) لیکن تم دیکھ نہیں سکتے۔
٨٥۔١ یعنی مرنے والے کے ہم، تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اپنے علم، قدرت کے اعتبار سے۔ یا ہم سے مراد اللہ کے کارندے یعنی موت کے فرشتے ہیں جو اس کی روح قبض کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ‌ مَدِينِينَ ﴿٨٦﴾
پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں۔
تَرْ‌جِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٨٧﴾
اور اس قول میں سچے ہو تو (ذرا) اس روح کو تو لوٹاؤ (١)۔
٨٧۔١ یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیر فرمان اور ما تحت ہو یا کوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاؤ اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے اس کا مطلب تمہارا گمان باطل ہے۔ یقینا تمہارا ایک آقا ہے اور یقینا ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اسکے عمل کی جزا دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُقَرَّ‌بِينَ ﴿٨٨﴾
پس جو کوئی بارگاہ الٰہی سے قریب ہوگا۔
فَرَ‌وْحٌ وَرَ‌يْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ ﴿٨٩﴾
اسے تو راحت ہے اور غذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے۔
وَأَمَّا إِن كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ ﴿٩٠﴾
اور جو شخص داہنے (ہاتھ) والوں میں سے ہے (١)
٩٠۔١ یہ دوسری قسم ہے، عام مومنین۔ یہ بھی جہنم سے بچ کر جنت میں جائیں گے، تاہم درجات میں سابقین سے کمتر ہوں گے۔ موت کا فرشتے ان کو بھی سلامتی کی خوشخبری دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَسَلَامٌ لَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ ﴿٩١﴾
تو بھی سلامتی ہے تیرے لئے کہ تو داہنے والوں میں سے ہے۔
وَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ ﴿٩٢﴾
لیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہے (١)
٩۲۔١ یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغاز سورت میں کہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر و نفاق کی سزا یاس اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔
 
Top