• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَقُولُونَ لَئِن رَّ‌جَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ‌جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَ‌سُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٨﴾
یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا (١) سنو! عزت تو صرف اللہ تعالٰی کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے ہے (۲) لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔ (۳)
٨۔١ اس کا کہنے والا رئیس المنافق عبد اللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان۔
۸۔۲ یعنی عزت اور غلبہ صرف ایک اللہ کے لیے ہے اور پھر وہ اپنی طرف سے جس کو چاہے عزت وغلبہ عطا فرمادے۔
۸۔۳ اس لیے ایسے کام نہیں کرتے جو ان کے لیے مفید ہیں اور ان چیزوں سے نہیں بچتے جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿٩﴾
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں (١) اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔
٩۔١ یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہو جاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال وحرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَ‌زَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَ‌بِّ لَوْلَا أَخَّرْ‌تَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِ‌يبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٠﴾
اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو (١) کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہو جاؤں۔
١٠۔١ خرچ کرنے سے مراد زکوۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔
۱۰۔۲ اس سے معلوم ہوا کہ زکواۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعا تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آجائے؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَن يُؤَخِّرَ‌ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١١﴾
اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالٰی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالٰی بخوبی باخبر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة التغابن

(سورة التغابن ۔ سورہ نمبر ٦٤ ۔ تعداد آیات ۱۸)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
يُسَبِّحُ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١﴾
(تمام چیزیں) (۱) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے (۲) اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے۔
۱۔۱ یعنی آسمان و زمین کی ہر مخلوق اللہ تعالٰی کی ہر نقص وعیب سے تنزیہ وتقدیس بیان کرتی ہے زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی۔ جیسا کہ پہلے گزرا۔
١۔۲یہ دونوں خوبیاں بھی اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے تو وہ اسی کا عطا کردہ ہے جو عارضی ہے، کسی کے پاس کچھ حسن و کمال ہے تو اسی مبدأ فیض کی کرم گستری کا نتیجہ ہے، اس لئے اصل تعریف کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ‌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٢﴾
اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایماندار ہیں اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالٰی خوب دیکھ رہا ہے۔ (۱)
۲۔۱یعنی انسان کے لیے خیروشر، نیکی اور بدی اور کفروایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ واختیار کی جوآزادی دی ہے اس کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے اس نے کسی پر جبر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ جبر کرتا تو کوئی بھی شخص کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قادر نہ ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَ‌كُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَ‌كُمْ ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ‌ ﴿٣﴾
اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل و حکمت سے پیدا کیا (١) اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں (۲) اور اسی کی طرف لوٹنا ہے (۳)۔
٣۔١ اور وہ عدل و حکمت یہی ہے کہ محسن کو احسان کی اور بدکار کو اس کی بدی کی جزا دے، چنانچہ وہ اس عدل کا مکمل اہتمام قیامت والے دن فرمائے گا۔
۳۔۲ تمہاری شکل وصورت، قدو قامت اور خدوخال نہایت خوبصورت بنائے۔ جس سے اللہ کی دوسری مخلوق محروم ہے۔
٣۔٢ کسی اور کی طرف نہیں، کہ اللہ کے محاسبے اور مؤاخذے سے بچاؤ ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّ‌ونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ۚ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ ﴿٤﴾
وہ آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ظاہر کرو وہ (سب کو) جانتا ہے اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے والا ہے (١)۔
٤۔١ یعنی اس کا علم کائنات ارضی و سماوی سب پر محیط ہے بلکہ تمہارے سینوں کے رازوں تک سے واقف ہے، اس سے قبل جو وعدے اور وعیدین بیان ہوئی ہیں، یہ ان کی تاکید ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِ‌هِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٥﴾
کیا تمہارے پاس اس سے پہلے کے کافروں کی خبر نہیں پہنچی؟ جنہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا (۱) اور جن کے لئے دردناک عذاب ہے (۲)
٥۔١ یعنی دنیاوی عذاب کے علاوہ آخرت میں۔
۵۔۲ یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُ‌سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ‌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُ‌وا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّـهُ ۚ وَاللَّـهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿٦﴾
یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کرے گا پس انکار کر دیا (١) اور منہ پھیر لیا (٢) اور اللہ نے بےنیازی کی (٣) اور اللہ تو ہے بےنیاز (٤) سب خوبیوں والا۔ (۵)
٦۔١ چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ما ننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔
٦۔٢ یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے، اس پر انہوں نے غور و تدبر ہی نہیں کیا۔
٦۔٣ یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔
٦۔٤ اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان؟
٦ ۔۵ یا محمود ہے تمام مخلوقات کی طرف سے یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد وتعریف میں رطب اللسان ہے۔
 
Top