- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
سورة التحریم
(سورة التحریم ۔ سورہ نمبر ٦٦ ۔ تعداد آیات ۱۲)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١﴾
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (۱) (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
١۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں گوشت مچھلی کی سی بو ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے تو زینب رضی اللہ کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے تھے یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ رضی اللہ موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ آگئیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ نے حضرت حفصہ کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ رضی اللہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ رضی اللہ کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں ۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے ۔