سورة المسد
(سورة المسد ۔ سورہ نمبر ۱۱۱ ۔ تعداد آیات ٥)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
اسے سورۃ المسد بھی کہتے ہیں۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنے رشتہ داروں کو انذار و تبلیغ کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر یا صباحاہ! کی آواز لگائی۔ اس طرح کی آواز خطرے کی علامت سمجھی جاتی ہے،چنانچہ اس آواز پر لوگ اکٹھے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ذرا بتلاؤ ، اگر میں تمہیں خبردوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک گھڑ سوار لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو تم میری تصدیق کرو گے؟ انہوں نے کہا، کیوں نہیں۔ ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں۔(اگر تم کفرو شرک میں مبتلا رہے) یہ سن کر ابو لہب نے کہا تباً لنا تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا؟جس پر اللہ تعالٰی نے یہ سورۃ نازل فرما دی۔(صحیح بخاری، تفسیر سورۃ تبت ) ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا، اپنے حسن جمال اور چہرے کی سرخی کی وجہ سے اسے ابو لہب (شعلہ فروزاں) کہا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے انجام کے اعتبار سے بھی اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بننا تھا ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا اور اس کی بیوی ام جمیل بنت حرب بھی دشمنی میں اپنے خاوند سے کم نہ تھی۔
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا (١)
١۔١
یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہو جائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔
وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہوگیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی،چنانچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔(ایسر التفاسیر)