• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُ‌ونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورً‌ا ﴿١٦٣﴾
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ (١) ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔
١٦٣۔١ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بعد کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی و رسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول کا رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَرُ‌سُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُ‌سُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴿١٦٤﴾
اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں (١) اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کیے (٢) اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔ (٣)
١٦٤۔١ جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد ٢٤ یا ٢٥ ہے۔ (١) آدم (٢) ادریس (٣) نوح (٤) ہود (٥) صالح (٦) ابراہیم (٧) لوط (٨) اسماعیل (٩) اسحاق (١٠) یعقوب (١١) یوسف (١٢) ایوب (١٣) شعیب (١٤) موسیٰ (١٥) ہارون (١٦) یونس (١٧) داود (١٨) سلیمان (١٩) الیاس (٢٠) الیسع (٢١) زکریا (٢٢) یحیٰ (٢٣) عیسیٰ (٢٤) ذوالکفل۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک) (٢٥) حضرت محمد صلوٰت اللہ و سلامہ وعلیہم اجمعین۔
١٦٤۔٢ جن انبیاء و رسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کیے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ ٢٤ ہزار اور ایک حدیث میں ٨ ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار و حالات میں مبشرین و منذرین (انبیاء) آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلہء نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرما دیا گیا آپ سے پہلے کتنے نبی آئے؟ ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے بھی دعویداران نبوت ہو گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ۔ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی بھی۔
١٦٤۔٣ یہ موسیٰ علیہ السلام کی وہ خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیاء سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی رو سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم علیہ السلام و حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شریک مانا ہے۔ (تفسيرابن كثير زیر آیت تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رُّ‌سُلًا مُّبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّ‌سُلِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٦٥﴾
ہم نے انہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے (١) تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے۔ (٢) اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے۔
١٦٥۔ ایمان والوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دینا اور کافروں کو اللہ کے عذاب اور بھڑکتی ہوئی جہنم سے ڈرانا۔
١٦٥۔٢ یعنی نبوت یا انذار و تبشیر کا یہ سلسلہ ہم نے اس لیے قائم فرمایا کہ کسی کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں تو تیرا پیغام پہنچا ہی نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى﴾ (طہ: 134) "اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے) سے پہلے ہی ہلاک کر دیتے تو وہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر تیری آیات کی پیروی کر لیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّـٰكِنِ اللَّـهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴿١٦٦﴾
جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١٦٧﴾
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اوروں کو روکا وہ یقیناً گمراہی میں دور نکل گئے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّـهُ لِيَغْفِرَ‌ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِ‌يقًا ﴿١٦٨﴾
جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا، انہیں اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز نہ بخشے گا اور نہ انہیں کوئی راہ دکھائے گا۔ (١)
١٦٨۔١ کیونکہ مسلسل کفر اور ظلم کا ارتکاب کر کے، انہوں نے اپنے دلوں کو سیاہ کر لیا ہے جس سے اب ان کی ہدایت و مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَّا طَرِ‌يقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرً‌ا ﴿١٦٩﴾
بجز جہنم کی راہ کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، اور یہ اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّ‌سُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّ‌بِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرً‌ا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُ‌وا فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١٧٠﴾
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آ گیا ہے، پس تم ایمان لاؤ تاکہ تمہارے لیے بہتری ہو اور اگر تم کافر ہو گئے تو اللہ ہی کی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، (١) اور اللہ دانا اور حکمت والا ہے۔
١٧٠۔١ یعنی تمہارے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا ﴿إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ (ابراہیم: 8) ”اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کر لیں تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ تو بے پروا تعریف کیا گیا ہے“۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر تمہارے اول و آخر اور انس و جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے بڑا نافرمان ہو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اے میرے بندو! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہو جاؤ اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہو گی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْ‌يَمَ رَ‌سُولُ اللَّـهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْ‌يَمَ وَرُ‌وحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرً‌ا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّـهُ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ وَكِيلًا ﴿١٧١﴾
اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ (١) اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ) ہیں، جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح (٢) ہیں اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں (٣) اس سے باز آ جاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا۔
١٧١۔۱ ”غُلُوٌّ“ کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت و بندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام و حلال کے اختیار سے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبہ: 31) ”انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا“۔ یہ رب بنانا حدیث کے مطابق، ان کے حلال کیے کو حلال اور حرام کیے کو حرام سمجھنا تھا۔ دراں حالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا: لا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ؛ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد ا صفحہ 23، نیز دیکھیے مسند احمد جلد ا صفحہ 153) ”تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا“۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھہرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء و فقہاء کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا ہے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے: لَتَتَّبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ ”جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے“۔ یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔
١٧١۔۲ ”كَلِمَةُ اللهِ“ کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ”كُنْ“ سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ نفخة ( پھونک) ہے جو حضرت جبریل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کر دیا۔ یوں عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں، جسے لے کر جبریل علیہ السلام مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر)
١٧١۔٣ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ، بعض اللہ کا شریک اور بعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ ( تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آ جاؤ، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّـهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّ‌بُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ‌ فَسَيَحْشُرُ‌هُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا ﴿١٧٢﴾
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار نہیں یا تکبر و انکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، (١) اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔
١٧٢۔١ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی الوہیت میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَ‌هُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُ‌وا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا ﴿١٧٣﴾
پس جو لوگ ایمان لائے ہیں اور شائستہ اعمال کیے ہیں ان کو ان کا پورا پورا ثواب عنایت فرمائے گا اور اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دے گا (١) اور جن لوگوں نے تنگ و عار اور سرکشی اور انکار کیا، (٢) انہیں المناک عذاب دے گا (٣) اور وہ اپنے لیے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی، اور امداد کرنے والا نہ پائیں گے۔
١٧٣۔١ بعض نے اس (زیادہ) سے مراد یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو شفاعت کا حق عطا فرمائے گا، یہ اذن شفاعت پا کر جن کی بابت اللہ چاہے گا یہ شفاعت کریں گے۔
١٧٣۔٢ یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت سے رکے رہے اور اس سے انکار و تکبر کرتے رہے۔
١٧٣۔٣ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ (المؤمن: 60) ”بے شک جو لوگ میری عبادت سے استکبار (انکار و تکبر) کرتے ہیں، یقیناً ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْ‌هَانٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورً‌ا مُّبِينًا ﴿١٧٤﴾
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آ پہنچی (١) اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے۔ (٢)
١٧٤۔۱ برہان، ایسی دلیل قاطع، جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت جس سے ان کے شبہات زائل ہو جائیں، اسی لیے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔
١٧٤۔٢ اس سے مراد قرآن کریم ہے جو کفر و شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے ضلالت کی پگڈندیوں میں صراط مستقیم اور حبل اللہ المتین ہے۔ پس اس کے مطابق ایمان لانے والے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَ‌حْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَ‌اطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿١٧٥﴾
پس جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا، انہیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انہیں اپنی طرف کی راہ راست دکھا دے گا۔

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُ‌ؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَ‌كَ ۚ وَهُوَ يَرِ‌ثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَ‌كَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّ‌جَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿١٧٦﴾
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے (١) اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ (٢) پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ (٣) اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، (٤) اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔
١٧٦۔١ ”كَلالَةٌ“ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ ہو نہ بیٹا۔ یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دیا ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے۔ کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہو گی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یوں بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہو جاتی ہے۔
ملحوظہ: بیٹے سے مراد بیٹا اور پوتا دونوں ہیں۔ اسی طرح بہن سے مراد سگی بہن یا علاتی (باپ شریک) بہن ہے (ایسرالتفاسیر) احادیث سے ثابت ہے کہ کلالہ کی بہن کے ساتھ بیٹی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف اور بیٹی اور پوتی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف، پوتی کو سدس (چھٹا حصہ) اور بہن کو باقی یعنی ثلث دیا گیا۔ (فتح القدیر و ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی اولاد موجود ہو تو بہن کو بحیثیت ذوی الفروض کچھ نہیں ملے گا۔ اب اگر وہ اولاد بیٹا ہو تو کسی اور حیثیت سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اور اگر بیٹی ہو تو بہن اس کے ساتھ عصبہ ہو جائے گی اور مَابَقِيَ لے لے گی۔ یہ مابقی ایک بیٹی کی موجودگی میں نصف اور ایک سے زائد کی موجودگی میں ثلث ہو گا۔
١٧٦۔٢ اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لیے کہ باپ، بھائی سے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہو گا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر)
١٧٦۔٣ یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہو گا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصہ ملے گا۔
١٧٦۔٤ یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ”ایک مرد دو عورت کے برابر“ کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہو گی۔
 
Top