• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِ‌سَالَاتِ رَ‌بِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِ‌ينَ ﴿٩٣﴾
اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں۔ (١)
٩٣۔١ عذاب و تباہی کے بعد جب وہ وہاں سے چلے، تو انہوں نے وفور جذبات میں یہ باتیں کہیں۔ اور ساتھ ہی کہا کہ جب میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں؟ جو اس کے باوجود اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا فِي قَرْ‌يَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّ‌اءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّ‌عُونَ ﴿٩٤﴾
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہو تاکہ وہ گڑگڑائیں۔ (١)
٩٤۔١ بَأْسَاءُ وہ تکلیفیں جو انسان کے بدن کو لاحق ہوں یعنی بیماری اور ضَرَّاءُ سے مراد فقر و تنگ دستی ۔ مطلب یہ ہے کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا، انہوں نے اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کر دیا جس سے مقصد یہ تھا کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّ‌اءُ وَالسَّرَّ‌اءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ ﴿٩٥﴾
پھر ہم نے اس بد حالی کی جگہ خوش حالی میں بدل دی، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی اور کہنے لگے کہ ہمارے آبا و اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا (١) اور ان کو خبر بھی نہ تھی۔
٩٥۔١ یعنی فقر و بیماری کے ابتلا سے بھی جب ان کے اندر رجوع الی اللہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوا تو ہم نے ان کی تنگ دستی کو خوش حالی سے اور بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ لیکن اس انقلاب حال سے بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ کبھی تنگی آگئی کبھی خوش حالی آ گئی، کبھی بیماری تو کبھی صحت، کبھی فقیری تو کبھی امیری۔ یعنی تنگ دستی کا پہلا علاج ان کے لیے موثر ثابت ہوا، نہ خوش حالی، ان کے اصلاح احوال کے لیے کارگر ثابت ہوئی۔ وہ اسے لیل و نہار کی گردش ہی سمجھتے رہے اور اس کے پیچھے کار فرما قدرت الٰہی اور اس کے ارادہ کو سمجھنے میں ناکام رہے تو ہم نے پھر انہیں اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ اسی لیے حدیث میں مومنوں کا معاملہ اس کے برعکس بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ آرام و راحت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تکلیف پہنچنے پر صبر سے کام لیتے ہیں، یوں دونوں ہی حالتیں ان کے لیے خیر اور اجر کا باعث ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم- كتاب الزهد باب المؤمن أمره كله خير)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَ‌ىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَ‌كَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦﴾
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَ‌ىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿٩٧﴾
کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آ پڑے جس وقت وہ سوتے ہوں۔

أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَ‌ىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٩٨﴾
اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔

أَفَأَمِنُوا مَكْرَ‌ اللَّـهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ‌ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿٩٩﴾
کیا پس وہ اللہ کی اس پکڑ سے بے فکر ہو گئے۔ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آ گئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔ (١)
٩٩۔١ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایمان و تقویٰ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنا لیں تو ان پر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آسمان سے بارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہو کر خوب پیداوار دیتی ہے۔ نتیجتاً خوش حالی و فراوانی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں، پھر پتہ نہیں ہوتا کہ شب و روز کی کس گھڑی میں عذاب آ جائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کو آن واحد میں کھنڈر بنا کر رکھ دے۔ اس لیے اللہ کی ان تدبیروں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اس بے خوفی کا نتیجہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔ مکر کے مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورہ آل عمران آیت 54 کا حاشیہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِ‌ثُونَ الْأَرْ‌ضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿١٠٠﴾
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکورہ نے) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگا دیں، پس وہ نہ سن سکیں۔ (١)
١٠٠۔١ یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر بھی قفل لگ جاتے ہیں، پھر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے۔ دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق کی آواز کے لیے ان کے کان بند ہو جاتے ہیں۔ پھر انذار اور وعظ و نصیحت ان کے لیے بیکار ہو جاتے ہیں۔ آیت میں ہدایت تَبْيِينٌ (وضاحت) کے معنی میں ہے، اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے۔ ﴿أَوَلَمْ يَهْدِ للَّذِينَ﴾ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تِلْكَ الْقُرَ‌ىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُ‌سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٠١﴾
ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے، (١) پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے (٢) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے۔
١٠١۔١ جس طرح گزشتہ صفحات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا۔ بینات سے مراد دلائل و براہین اور معجزات دونوں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کر دی، ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا۔ کیونکہ: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ [الإسراء: 15] ”جب تک ہم رسول نہیں بھیج دیتے عذاب نازل نہیں کرتے“۔
١٠١۔٢ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب ان سے عہد لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے، اس لیے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے۔ کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا۔ جس کو حدیث میں فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلقَ لَهُ (صحيح بخاری، تفسير سورة الليل) سے تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو وہ اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کر چکے تھے۔ گویا ابتداءً جس چیز کی وہ تکذیب کر چکے تھے، یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کر لی گئی، اسی کو اگلے جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ﴿وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ [الأنعام: 109-110] ”اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی آ جائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے)“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِ‌هِم مِّنْ عَهْدٍ ۖ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَ‌هُمْ لَفَاسِقِينَ ﴿١٠٢﴾
اور اکثر لوگوں میں وفائے عہد نہ دیکھا (١) اور ہم نے اکثر لوگوں کو بے حکم ہی پایا۔
١٠٢۔١ اس سے بعض نے عہد الست، جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، بعض نے عذاب ٹالنے کے لیے پیغمبروں سے جو عہد کرتے تھے، وہ عہد اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ اور یہ عہد شکنی، چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، فسق ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْ‌عَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿١٠٣﴾
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا، (١) مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا؟ (٢)
١٠٣۔١ یہاں سے حضرت موسیٰ عليہ السلام کا ذکر شروع ہو رہا ہے جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل و معجزات دے کر بھیجا گیا تھا۔
١٠٣۔٢ یعنی انہیں غرق کر دیا گیا، جیسا کہ آگے آئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ مُوسَىٰ يَا فِرْ‌عَوْنُ إِنِّي رَ‌سُولٌ مِّن رَّ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠٤﴾
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں۔

حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ فَأَرْ‌سِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ ﴿١٠٥﴾
میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی لایا ہوں، (١) سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔ (٢)
١٠٥۔١ جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں واقعی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہوں۔ اس معجزے اور بڑی دلیل کی تفصیل بھی آگے آ رہی ہے۔
١٠٥۔٢ بنی اسرائیل، جن کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، حضرت یوسف عليہ السلام کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ فرعون نے ان کو غلام بنا لیا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا، جس کی تفصیل پہلے سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ عليہ السلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ عليہ السلام نے فرعون سے یہ دوسرا مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر دے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جا کر عزت و احترام کی زندی گزاریں اور اللہ کی عبادت کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿١٠٦﴾
فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں۔

فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴿١٠٧﴾
پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وہ صاف ایک اژدھا بن گیا۔

وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِ‌ينَ ﴿١٠٨﴾
اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وہ یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا۔ (١)
١٠٨۔١یعنی اللہ تعالیٰ نے جو دو بڑے معجزے انہیں عطا فرمائے تھے، اپنی صداقت کے لیے انہیں پیش کر دیا۔
 
Top