• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَ‌حْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ‌ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ ﴿٧٢﴾
غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی، جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ایمان لانے والے نہ تھے۔ (١)
٧٢۔١ اس قوم پر باد تند کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل جاری رہا، جس نے ہر چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور یہ قوم عاد کے لوگ، جنہیں اپنی قوت پربڑا ناز تھا، ان کے لاشے کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی طرح زمین پر پڑے نظر آتے تھے۔ (دیکھئے سورۃ الحاقہ ٦۔٨ سورہ ھود۔ ٥٣۔٥٦ سورہ احقاف ٤٢۔٢٥ آیات)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۖ هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُ‌وهَا تَأْكُلْ فِي أَرْ‌ضِ اللَّـهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٧٣﴾
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ (١) انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی ہے۔ یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لیے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آ پکڑے۔
٧٣۔١ یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے۔ ٩ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی الله عنہم کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو (صحيح بخاری، كتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف، صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين) ان کی طرف حضرت صالح عليہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے نکلتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت صالح عليہ السلام نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کی بابت انہیں تاکید کر دی گئی، کہ اسے بری نیت سے کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جاؤ گے۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑا (صَيْحَةٌ ۔ سخت چیخ اور رَجْفَةٌ ۔ زلزلہ) کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاذْكُرُ‌وا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورً‌ا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ فَاذْكُرُ‌وا آلَاءَ اللَّـهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْ‌ضِ مُفْسِدِينَ ﴿٧٤﴾
اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو (١) اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو، (٢) سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔ (٣)
٧٤۔١ اس کا مطلب ہے کہ نرم زمین سے مٹی لے لے کر اینٹیں تیار کرتے ہو اور ان اینٹوں سے محل، جیسے آج بھی بھٹوں پر اسی طرح مٹی سے اینٹیں تیار کی جاتی ہیں۔
٧٤۔٢ یہ ان کی قوت، صلابت بدن اور مہارت فن کا اظہار ہے۔
٧٤۔٣ یعنی ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کا راستہ اختیار کرو، نہ کہ کفران نعمت اور معصیت کا ارتکاب کر کے فساد پھیلاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْ‌سَلٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۚ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْ‌سِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿٧٥﴾
ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا، کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بے شک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے۔ (١)
٧٥۔١ یعنی جو دعوت توحید وہ لے کر آئے ہیں، وہ چونکہ فطرت کی آواز ہے، ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ صالح واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ جو ان کا سوال تھا، اس سے ان اہل ایمان نے تعرض ہی نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے رسول من اللہ ہونے کو وہ بحث کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کےنزدیک ان کی رسالت ایک مسلمہ حقیقت و صداقت تھی۔ جیسا کہ فی الواقع تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا إِنَّا بِالَّذِي آمَنتُم بِهِ كَافِرُ‌ونَ ﴿٧٦﴾
وہ متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین لائے ہوئے ہو، ہم تو اس کے منکر ہیں۔ (٢)
٧٦۔١ اس معقول جواب کے باوجود وہ اپنے استکبار اور انکار پر اڑے رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَعَقَرُ‌وا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّهِمْ وَقَالُوا يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿٧٧﴾
پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح! جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اس کو منگوائیے اگر آپ پیغمبر ہیں۔

فَأَخَذَتْهُمُ الرَّ‌جْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِ‌هِمْ جَاثِمِينَ ﴿٧٨﴾
پس ان کو زلزلہ نے آ پکڑا (١) اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔
٧٨۔١ یہاں رَجْفَةٌ (زلزلے) کا ذکر ہے۔ دوسرے مقام پر صَيْحَةٌ (چیخ) کا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قسم کا عذاب ان پر آیا۔ اوپر سے سخت چیخ اور نیچے سے زلزلہ۔ ان دونوں عذابوں نے انہیں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِ‌سَالَةَ رَ‌بِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ ﴿٧٩﴾
اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے (١) کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
٧٩۔١ یہ یا تو ہلاکت سے قبل کا خطاب ہے یا پھر ہلاکت کے بعد اسی طرح کا خطاب ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر ختم ہونے کے بعد قلیب بدر میں مشرکین کی لاشوں سے خطاب فرمایا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٨٠﴾
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا (١) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔
٨٠۔١ حضرت لوط عليہ السلام، حضرت ابراہیم عليہ السلام کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم عليہ السلام پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر خود ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک علاقے میں نبی بنا کر بھیجا۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ زمین سرسبز و شاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی۔ قرآن نے اس جگہ کو مُؤْتَفِكَةٌ یا مُؤْتَفِكَاتٌ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ حضرت لوط عليہ السلام نے غالباً سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، (جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اسی کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حالات میں، جن کا ذکر ابھی گزرا ہے، دیکھا جا سکتا ہے) جو دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بد فعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناعت و قباحت بیان فرمائی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑ گیا۔ اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم عليہ السلام کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہو گی۔ لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیرشادی شدہ ہو تو سو کوڑے۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر دینا چاہیے۔ البتہ امام ابو حنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں (تحفة الأحوذي جلد 5 ص17)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّ‌جَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِ‌فُونَ ﴿٨١﴾
تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو (١) عورتوں کو چھوڑ کر، (٢) بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو (٣)
٨١۔١ یعنی مردوں کے پاس تم اس بے حیائی کے کام کے لیے محض شہوت رانی کی غرض سے آتے ہو، اس کے علاوہ تمہاری اور کوئی غرض ایسی نہیں ہوتی جو موافق عقل ہو۔ اس لحاظ سے وہ بالکل بہائم کی طرح تھے جو محض شہوت رانی کے لیے ایک دوسرے پر چڑھتے ہیں۔
١٨١۔٢ جو قضائے شہوت کا اصل محل اور حصول لذت کی اصل جگہ ہے۔ یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی اللہ نے مرد کی جنسی لذت کی تسکین کے لیے عورت کی شرم گاہ کو اس کا محل اور موضع بنایا ہے اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کر کے مرد کی دبر کو اس کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
٨١۔٣ لیکن اب اسی فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الٰہی سے تجاوز کو مغرب کی (مہذب) قوموں نے اختیار کر لیا ہے تو یہ انسانوں کا (بنیادی حق) قرار پا گیا ہے جس سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ اب وہاں لواطت کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔ اور یہ سرے سے جرم ہی نہیں رہا۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِ‌جُوهُم مِّن قَرْ‌يَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُ‌ونَ ﴿٨٢﴾
اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا، بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔ (١)
٨٢۔١ یہ حضرت لوط کو بستی سے نکالنے کی علت ہے۔ باقی ان کی پاکیزگی کا اظہار یا تو حقیقت کے طور پر ہے اور مقصد ان کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اس برائی سے بچنا چاہتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہماری بستی ہی میں نہ رہیں یا استہزا اور تمسخر کے طور پر انہوں نے ایسا کہا۔
 
Top