• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَ‌أَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِ‌ينَ ﴿٨٣﴾
سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے۔ (١)
٨٣۔١ إِنَّهَا كَانَتْ مِنَ الْبَاقِينَ فِي عَذَابِ اللهِ، یعنی وہ ان لوگوں میں باقی رہ گئی جن پر اللہ کا عذاب آیا ۔ کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھی اور اس کی ہمدردیاں بھی مجرمین کے ساتھ تھیں بعض نے اس کا ترجمہ (ہلاک ہونے والوں میں سے) کیا ہے۔ لیکن یہ لازمی معنی ہیں، اصل معنی وہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهِم مَّطَرً‌ا ۖ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِ‌مِينَ ﴿٨٤﴾
اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ (۱) برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟ (۲)
٨٤۔١ یہ خاص طرح کا مینہ کیا تھا ؟ پتھروں کا مینہ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ ﴾ [هود: 82]. ”ہم نے ان پر تہ بہ تہ پتھروں کی بارش برسائی“۔ اس سے پہلے فرمایا: ﴿جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا ﴾ ”ہم نے اس بستی کو (الٹ کر) نیچے اوپر کر دیا“۔
٨٤۔۲ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے تو سہی، جو لوگ علانیہ اللہ کی معاصی کا ارتکاب اور پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٨٥﴾
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ اسلام) کو بھیجا۔ (١) انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے۔ پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت (٢) دو اور روئے زمین میں، اس کے بعد اسکی درستی کر دی گئی، فساد مت پھیلاؤ، یہ تمہارے لیے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو۔
٨٥۔١ مدین حضرت ابراہیم عليہ السلام کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا، پھر انہی کی نسل پر مبنی قبیلے کا نام بھی مدین اور جس بستی میں یہ رہائش پذیر تھے، اس کا نام بھی مدین پڑ گیا۔ یوں اس کا اطلاق قبیلے اور بستی دونوں پر ہوتا ہے۔ یہ بستی حجاز کے راستے میں ”معان“ کے قریب ہے۔ انہی کو قرآن میں دوسرے مقام پر أَصْحَابُ الأَيْكَة (بن کے رہنے والے) بھی کہا گیا ہے۔ ان کی طرف حضرت شعیب عليہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے۔ (دیکھئے الشعراء:176 کا حاشیہ)
ملحوظہ: ہر نبی کو اس قوم کا بھائی کہا گیا ہے، جس کا مطلب اسی قوم اور قبیلے کا فرد ہے، جس کو بعض جگہ رَسُولا مِنْهُم یا مِنْ أَنْفُسِهِمْ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے اور مطلب ان سب کا یہ ہے کہ رسول اور نبی انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیتا ہے اور وحی کے ذریعے سے اس پر اپنی کتاب اور احکام نازل فرماتا ہے ۔
٨٥۔٢ دعوت توحید کے بعد، اس قوم میں ناپ تول میں کمی کی جو بڑی خرابی تھی، اس سے اسے منع فرمایا اور پورا پورا ناپ اور تول کر دینے کی تلقین کی۔ یہ کوتاہی بھی بہت خطرناک ہے جس سے اس قوم کی اخلاقی پستی اور گراوٹ کا پتہ چلتا ہے جس کے اندر یہ ہو۔ یہ بدترین خیانت ہے کہ پیسے پورے لیے جائیں اور چیز کم دی جائے۔ اسی لیے سورۂ مطففین میں ایسے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَ‌اطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُ‌وا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَ‌كُمْ ۖ وَانظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨٦﴾
اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والے کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راہ سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو۔ (١) اور اس حالت کو یاد کرو جب تم کم تھے پھر اللہ نے تم کو زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا۔
٨٦۔١ اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا جس کے نمونے آج کل کے متجددین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. علاوہ ازیں راستے میں بیٹھنے کے اور بھی کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لیے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ یا حضرت شعیب عليہ السلام کی طرف جانے والے راستوں میں بیٹھنا تاکہ ان کے پاس جانے والوں کو روکیں اور ان سے انہیں بدظن کریں، جیسے قریش مکہ کرتے تھے یا دین کے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کر لیں۔ یا بعض کے نزدیک محصول اور چنگی وصول کرنے کے لیے ان کا راستوں پر بیٹھنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ یہ سب ہی کچھ کرتے ہوں ( فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْ‌سِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُ‌وا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ‌ الْحَاكِمِينَ ﴿٨٧﴾
اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس حکم پر، جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا، ایمان لے آئے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لائے تو ذرا ٹھہر جاؤ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کیے دیتا ہے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔
٨٧۔١ کفر پر صبر کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کے لیے تہدید اور سخت وعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اہل حق کا اہل باطل پر فتح و غلبہ ہی ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿فَتَرَبَّصُوٓاْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ﴾ [التوبة:52]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پارہ 09
قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِ‌جَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْ‌يَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِ‌هِينَ ﴿٨٨﴾
ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آ جاؤ۔ (١) شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آ جائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں۔ (۲)
٨٨۔١ ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان و توحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کر کے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ یا تو اپنے آبائی مذہب پر واپس آ جاؤ، نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ اہل ایمان کے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے، کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا ۔ لیکن حضرت شعیب عليہ السلام کو بھی ملت آبائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ و دعوت سے پہلے اپنا ہم مذہب ہی سمجھتے تھے، گو حقیقتاً ایسا نہ ہو۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کر لیا ہو۔
٨٨۔۲ یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لیے اور واو حالیہ ہے۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنی بستی سے نکال دو گے درآں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَدِ افْتَرَ‌يْنَا عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّـهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَ‌بُّنَا ۚ وَسِعَ رَ‌بُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَ‌بَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ‌ الْفَاتِحِينَ ﴿٨٩﴾
ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آ جائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی (١) اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آ جائیں، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو۔ (٢) ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (٣) اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔
٨٩۔١ یعنی اگر ہم دوبارہ اس دین آبائی کی طرف لوٹ آئے، جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے ایمان و توحید کی دعوت دے کر اللہ پر جھوٹ باندھا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہماری طرف سے ایسا ہو۔
٨٩۔٣ اپنا عزم ظاہر کرنے کے بعد معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد کر دیا۔ یعنی ہم تو اپنی رضا مندی سے اب کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ﴿حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ﴾ کی طرح تعلیق بالمحال ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُ‌ونَ ﴿٩٠﴾
اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راہ پر چلو گے تو بے شک بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔ (١)
٩٠۔١ اپنے آبائی مذہب کو چھوڑنا اور ناپ تول میں کمی نہ کرنا، یہ ان کے نزدیک خسارے والی بات تھی درآں حالیکہ ان دونوں باتوں میں ان ہی کا فائدہ تھا۔ لیکن دنیا والوں کی نظر میں تو نفع عاجل (دنیا میں فوراً حاصل ہو جانے والا نفع) ہی سب کچھ ہوتا ہے جو ناپ تول میں ڈنڈی مار کر انہیں حاصل ہو رہا تھا، وہ اہل ایمان کی طرح آخرت کے نفع آجل (دیر میں ملنے والے نفع) کے لیے اسے کیوں چھوڑتے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَخَذَتْهُمُ الرَّ‌جْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِ‌هِمْ جَاثِمِينَ ﴿٩١﴾
پس ان کو زلزلے نے آ پکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔
٩١۔١ یہاں رَجْفَة زلزلہ کا لفظ آیا ہے اور سورۂ ہود آیت 94 میں صَيْحَةٌ (چیخ) کا لفظ ہے اور سورۂ شعراء۔ 189 میں ظُلَّةٌ (بادل کا سایہ) کے الفاظ ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عذاب میں ساری ہی چیزو ں کا اجتماع ہوا۔ یعنی سائے والے دن ان پر عذاب آیا۔ پہلے بادل نے ان پر سایہ کیا جس میں شعلے، چنگاریاں اور آگ کے بھبھوکے تھے، پھر آسمان سے سخت چیخ آئی اور زمین سے بھونچال، جس سے ان کی روحیں پرواز کر گئیں اور بے جان لاشے ہو کر پرندوں کی طرح گھٹنوں میں منہ دے کر اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ۚ الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٩٢﴾
جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہو گئی جیسے ان کے گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ (١) جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی وہ ہی خسارے میں پڑ گئے۔
٩٢۔١ یعنی جس بستی سے یہ اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو نکالنے پر تلے ہوئے تھے، اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہونے کے بعد ایسے ہو گئے جیسے وہ یہاں رہتے ہی نہ تھے۔
٩٢۔٢ یعنی خسارے میں وہی لوگ رہے جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی، نہ کہ پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے۔ اور خسارہ بھی دونوں جہانوں میں۔ دنیا میں بھی ذلت کا عذاب چکھا اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ عذاب شدید ان کے لیے تیار ہے۔
 
Top