• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُ‌هُ عِندَ رَ‌بِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾
سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ (١) بے شک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہو گا، نہ غم اور اداسی۔
١١٢۔١ ﴿أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ﴾ کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لیے کام کرے اور﴿وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾ کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لیے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی ان ہی اصولوں کے مطابق کیے گئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے، نہ کہ محض آرزوؤں پر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَ‌ىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَ‌ىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿١١٣﴾
یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں (١) اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں، حالانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ان ہی جیسی بات بے علم بھی کہتے ہیں۔ (٢) قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کر دے گا۔
١١٣۔١ یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات کے مِنْ عِنْد اللہ ہونے کی تصدیق ہے، اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفر و عناد اور اپنے اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔
١١٣۔٢ اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ (أُمِّيِّينَ) تھے، اس لیے انہیں بے علم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود و نصاریٰ کی طرح، اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ وہی حق پر ہیں۔ اسی لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی یعنی بے دین کہا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ‌ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَ‌ابِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١١٤﴾
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اللہ تعالٰی کے ذکر کئے جانے کو روکے (١) ان کی بربادی کی کوشش کرے, (٢) ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے, (٣) ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔
١١٤۔١ جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں : ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا۔ ابن جریر طبری نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا ہے، جنہوں نے ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله عنہم کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔
١١٤۔٢ تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے کہ اسے ڈھا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔
١١٤۔٣ یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں تمکن اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا، چنانچہ جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدے کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا ہے کہ یہ خوشخبری اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو جائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں گے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر پہلے زیادتیاں کی ہیں، ان کے بدلے میں ہمیں سزا سے دوچار یا قتل نہ کر دیا جائے۔ چنانچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہو گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلِلَّـهِ الْمَشْرِ‌قُ وَالْمَغْرِ‌بُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿١١٥﴾
اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے، (١) اللہ تعالٰی کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔
١١٥۔١ ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اس وقت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے، پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہو جاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لیے ایک ہی آیت نازل ہو جاتی ہے۔ ایسی آیتوں کے شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے (ملخص از احسن التفاسیر)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ ﴿١١٦﴾
یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی اولاد ہے، (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کا فرما نبردار ہے۔

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرً‌ا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿١١٧﴾
وہ زمین اور آسمانوں کو ابتداءََ پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، بس وہیں ہو جاتا ہے۔ (١)
١١٧۔١ یعنی وہ اللہ تو وہ ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز اس کی فرماں بردار ہے، بلکہ آسمان و زمین کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لیے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿١١٨﴾
اسی طرح بے علم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالٰی ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ (١) اسی طرح ایسی ہی بات ان کے اگلوں نے بھی کہی تھی، ان کے اور ان کے دل یکساں ہو گئے۔ ہم نے تو یقین والوں کے لیے نشانیاں بیان کر دیں۔ (٢)
١١٨۔١ اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی کیوں نہیں دکھا دیتا؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہو جائیں جس طرح کہ سورۂ بنی اسرائیل (آیت 90 تا 93) میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔
١١٨۔٢ یعنی مشرکین عرب کے دل، کفر و عناد اور انکار و سرکشی میں اپنے ماقبل کے لوگوں کے دلوں کے مشابہ ہو گئے۔ جیسے سورۂ ذاریات میں فرمایا گیا: ﴿كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾۔ ”ان سے پہلے جو بھی رسول آیا، اس کو لوگوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کر جاتے تھے؟ نہیں یہ سب سرکش لوگ ہیں۔“ یعنی قدر مشترک ان سب میں سرکشی کا جذبہ ہے، اس لیے داعیان حق کے سامنے نئے نئے مطالبے رکھتے ہیں، یا انہیں دیوانہ گردانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنَّا أَرْ‌سَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرً‌ا وَنَذِيرً‌ا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ ﴿١١٩﴾
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہو گی۔

وَلَن تَرْ‌ضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَ‌ىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌ ﴿١٢٠﴾
آپ سے یہودی و نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، (١) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے (٢) اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہو گا اور نہ مددگار۔ (٣)
١٢٠۔١ یعنی یہودیت یا نصرانیت اختیار کر لے۔
١٢٠۔٢ جو اب اسلام کی صورت میں ہے، جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں، نہ کہ تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت۔
١٢٠۔٣ یہ اس بات پر وعید ہے کہ علم آ جانے کے بعد بھی اگر محض ان پر برخود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی پیروی کی تو تیرا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لیے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں مداہنت اور بے جا تاویل کا ارتکاب کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿١٢١﴾
جنہیں ہم نے کتاب دی ہے (١) اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں، (٢) وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے۔ (٣)
١٢١۔١ اہل کتاب کے ناخلف لوگوں کے مذموم اخلاق و کردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو لوگ کچھ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مومن ہونے کی خبر دی جا رہی ہے۔ ان میں عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔
١٢١۔٢ "وہ اس طرح پڑھتے ہیں، جس طرح پڑھنے کا حق ہے" کے کئی مطلب بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً 1- خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ 2- اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے)۔ 3- اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں، اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں۔ 4- اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے، متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، انہیں علما سے حل کراتے ہیں۔ 5- اس کی ایک ایک بات کا اتباع کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق تلاوت میں یہ سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مذکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
١٢١۔٣ اہل کتاب میں سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں جائے گا۔ كَمَا فِي الصَّحِيحِ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿١٢٢﴾
اے اولاد یعقوب! میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تو تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿١٢٣﴾
اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے گا، نہ کسی شخص سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے گی نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ رَ‌بُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾
جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا (١) اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے: میری اولاد کو، (٢) فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔
١٢٤۔ ١ کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت، نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم عليہ السلام گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب و کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی عیسائی حتیٰ کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی اور سمجھی جاتی ہے۔
١٢٤۔٢ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عليہ السلام کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہی ہے: ﴿وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ﴾۔ (العنکبوت: 27) ”ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کر دیا۔“ پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم عليہ السلام کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا۔ (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ (میرا وعدہ ظالموں سے نہیں) اس امر کی وضاحت فرما دی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عند اللہ منزلت کے باوجود، اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے، ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہو گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه" (صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء ... باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ...) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔“
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَ‌اهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّ‌كَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥﴾
ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی، (١) تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو، (٢) ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔
١٢٥۔١ حضرت ابراہیم عليہ السلام کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائیں: ایک ﴿مَثَابَةً لِلنَّاسِ﴾ ”لوگوں کے لیے ثواب کی جگہ“ دوسرے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ۔ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی، بلکہ روز افزوں رہتا ہے۔ دوسری خصوصیت (امن کی جگہ) یعنی یہاں کسی دشمن کا بھی خوف نہیں رہتا چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔
١٢٥۔٢ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم عليہ السلام تعمیر کعبہ کرتے رہے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم عليہ السلام کے قدم کے نشانات ہیں۔ اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کر دیا گیا ہے، جسے ہر حاجی و معتمر طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾۔
 
Top