• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ‌ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ‌هِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِ‌ينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴿١٤٠﴾
اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، (١) یقیناً اللہ تعالٰی تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔
١٤٠۔١ یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں، جہاں آیات الٰہی کا استہزا کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہو گے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ (مسند أحمد جلد 1 ص 20، جلد 3 ص 339) اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو، جیسے آج کل امرا، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے یا شادی بیاہ اور سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں کیا جاتا ہے، سخت گناہ ہے ﴿إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ﴾ کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کر دینے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يَتَرَ‌بَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّـهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِ‌ينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِ‌ينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا ﴿١٤١﴾
یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا سا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا؟ (١) پس قیامت میں خود اللہ تعالٰی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا (٢) اور اللہ تعالٰی کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا۔ (٣)
١٤١۔١ یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پالیسی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ جو ہم نے مسلمانوں میں ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آ گئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔
١٤١۔٢ یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کر لی، لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات و کیفیات کی روشنی میں ہو گا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں منافقت اختیار کر کے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا، جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہو گا۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ
١٤١۔٣ یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ 1- اہل اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہو گا۔ 2- حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آ سکتے۔ 3- کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہو گا کہ مسلمان کی دولت و شوکت کا بالکل خاتمہ ہی ہو جائے اور وہ حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہو جائیں۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ 4- جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آ سکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ ”یہ سب سے عمدہ معنی ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ﴾ (الشوری: 30) ”اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے“ (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَ‌اءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُ‌ونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾
بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے (١) اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں (٢) صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں، (٣) اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام سی کرتے ہیں۔ (٤)
١٤٢۔١ اس کی مختصر توضیح سورۂ بقرہ کے آغاز میں ہو چکی ہے۔
١٤٢۔٢ نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی وہ کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشا اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: أَثْقَلُ الصَّلاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلاةُ الْعِشَاءِ وَصَلاةُ الْفَجْرِ ... (صحیح بخاری، مواقيت الصلاة- صحيح مسلم، كتاب المساجد) ”منافق پر عشا اور فجر کی نماز سب سے زیادہ بھاری ہے“۔
١٤٢۔٣ اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں ”أی لا يُصَلُّونَ إِلا صَلاةً قَلِيلَةً“ جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ﴿وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ (البقرۃ: 45) سے واضح ہے، حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (یعنی غروب کے قریب) ہو جاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد- موطأ كتاب القرآن)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ﴿١٤٣﴾
وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں، نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح طور پر ان کی طرف (١) اور جسے اللہ تعالٰی گمراہی میں ڈال دے تو اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔
١٤٣۔١ کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہراً و باطناً وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ۔ ظاہر ان کا مسلمانوں کے ساتھ ہے تو باطن کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر و ایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب ہی کا شکار رہتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لیے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے، (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے، کبھی دوسرے کی طرف“۔ (صحيح مسلم، كتاب المنافقين)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِ‌ينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِ‌يدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّـهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا ﴿١٤٤﴾
اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالٰی کی صاف حجت قائم کر لو۔ (١)
١٤٤۔١ یعنی اللہ نے تمہیں کافروں کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اب اگر تم دوستی کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو یہ دلیل مہیا کر رہے ہو کہ وہ تمہیں بھی سزا دے سکے (یعنی معصیت الٰہی اور حکم عدولی کی وجہ سے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْ‌كِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ‌ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرً‌ا ﴿١٤٥﴾
منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے، (١) ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پا لے۔
١٤٥۔١ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ”هَاوِيَة“ کہلاتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا، منافقین کی مذکورہ عادات و صفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّـهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٤٦﴾
ہاں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ تعالٰی پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لیے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں، (١) اللہ تعالٰی مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔
١٤٦۔١ یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا وہ جہنم میں جانے کے بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مَّا يَفْعَلُ اللَّـهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْ‌تُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ شَاكِرً‌ا عَلِيمًا ﴿١٤٧﴾
اللہ تعالٰی تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو، (١) اللہ تعالٰی بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے۔
١٤٧۔١ شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا۔ یہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید و ربوبیت پر اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ہے۔
١٤٧۔٢ یعنی جو اس کا شکر کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائے گا، وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا سے نوازے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
پارہ 06
لَّا يُحِبُّ اللَّـهُ الْجَهْرَ‌ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ﴿١٤٨﴾
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالٰی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے (١) اور اللہ تعالٰی خوب سنتا اور جانتا ہے۔
١٤٨۔١ شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ، الا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو، اسی طرح کھلے عام اور علی الا علان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دوچند بلکہ دہ چند، بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ مذکورہ دونوں قسم کی برائیوں کے اظہار سے ممانعت کو شامل ہیں اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی شخص کو اس کی کردہ یا ناکردہ حرکت پر برا بھلا کہا جائے۔ البتہ اس سے ایک استثنا ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کر سکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آ جائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو“ اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر رہ گزر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کر لی اور آئندہ کے لیے ایذا نہ پہنچانے کا فیصلہ کر لیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داود، کتاب الادب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
إِن تُبْدُوا خَيْرً‌ا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرً‌ا ﴿١٤٩﴾
اگر تم کسی نیکی کو اعلانیہ کرو یا پوشیدہ، یا کسی برائی سے درگزر کرو، (١) پس یقیناً اللہ تعالٰی پوری معافی کرنے والا ہے اور پوری قدرت والا ہے۔
١٤٩۔١ کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالا، فَعَلَى الْبَادِي، مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب النهي من السباب حديث نمبر4587) ”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (یعنی جسے پہلے گالی دی گئی اور اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے۔“ لیکن بدلہ لینے کی اجازت کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفو و درگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لیے فرمایا ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ﴾ (الشوریٰ: 40) "برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی ہے، مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے"۔ اور حدیث میں بھی ہے ”معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب استحباب العفو والتواضع)
 
Top