• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۂ اخلاص

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
پہلی نشات کے وقت جس قدر استحالات واقع ہوئے ہیں۔ نشات ثانیہ کے لئے ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ وجوہ مذکورہ بالا سے اس اعتراض کا جواب بھی مل گیا کہ بدن کے اجزاء ہمیشہ تحلیل ہوتے رہتے ہیں، کیونکہ بدن کا تحلیل اس بات سے زیادہ عجیب نہیں ہے کہ نطفہ سے علقہ اور علقہ سے مضغہ بنایا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی حقیقت دوسرے سے مختلف ہے اور متحلل جسم کے دوسرے اجزاء سے مشابہ و متماثل ہوتے ہیں۔ جب دوبارہ پیدا کرنے کے وقت جسم کو ایک حقیقت سے دوسری حقیقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تو اس انقلاب کی کیا ضرورت ہے جو تحلل کے باعث واقع ہوتا ہے ایک شخص دوسرے شخص کو ایک مرتبہ حالتِ شباب میں دیکھتا ہے اور پھر اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس استحالہ (تغیر حالت) کے باوجود وہ معلوم کر لیتا ہے، کہ یہ وہی شخص ہے جسے اس نے جوانی کی حالت میں دیکھا تھا۔ تمام حیوانات اور نباتات کی یہی حالت ہے۔ ایک مدت تک ایک شخص ایک درخت سے غائب ہو جاتاہے، اس کے بعد جب آکر دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے کہ یہ وہی پہلا درخت ہے، حالانکہ تحلل و استحالہ تمام حیوانات و نباتات میں بھی اسی طرح ہوتا رہتا ہے جس طرح بدنِ انسانی میں واقع ہوتا ہے۔ ایک انسانِ عاقل کو یہ سمجھنے کے لئے کہ یہ وہی پہلا درخت ہے یہ وہی گھوڑا ہے جو چند سال قبل اس کے پاس تھا اور یہ وہی انسان ہے جسے بیس سال ہوئے اس نے دیکھا تھا اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ اصلی اجزاء کو باقی رکھنے پر قادر ہو جو تحلیل نہ ہوئے ہوں۔ یہ بات کسی کے دل میں کھٹکتی تک نہیں، اس بات کی پہچان اور تمیز بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ وہی اجزاء ہیں یا اور ہیں اور بسا اوقات یہ چیزیں چھوٹی ہوتی ہیں اور مرور زمانہ پر بہت بڑی ہو جاتیں ہیں لیکن اس کے باوجود عقلاً نہ صرف یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ فلاں چیز ہے۔ بلکہ ان تمام درختوں، گھوڑوں اور انسانوں کی طرف اشارہ کر کے بتا دیتے ہیں جنھیں انھوں نے کسی گزشتہ زمانہ میں دیکھا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ چیزیں اس لحاظ سے فلاں چیزیں ہیں کہ نفسِ ناطقہ ایک ہے جیسا کہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ دوسرا بدن پہلے بدن کا عین نہیں ہے، بلکہ مقصود صرف نفسِ نعمت یا عذاب چکھانا ہے اور بدن جو بھی ہو، اس میں یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی باطل اور قرآن و سنت اور اجماع سلف صالحین کے مخالف ہے اور اعادہ کے جو معنی سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی اس توجیہ کے خلاف ہیں۔
ہم عرض کر چکے ہیں کہ تمام عقلاء کہہ دیتے ہیں کہ یہ گھوڑا وہی ہے اور یہ درخت وہی ہے جو کئی برس پہلے تھا۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ نباتات کا نفس ناطقہ ہوتا ہی نہیں جو اس سے جدا ہو جائے اور اپنی ذات پر قائم ہو۔ حیوان و انسان کے متعلق بھی وہ یہی کہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دلوں میں یہ خیال تک نہیں گزرتا کہ ’’یہ اور وہی‘‘ کا مشار الیہ نفس ناطقہ ہے تو معلوم ہوا کہ عقلاء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ استحالہ کے باوجود معاد کے وقت جسم وہی ہو گا جو مبدا کے وقت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دوبارہ پیدا شدہ جسم ان اعمال کی گواہی دے گا جو انسان نے دنیا میں کیے ہوں گے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٦٥﴾ (سورة يس)
آج ہم ان کے لبوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں، اس کے متعلق ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔
نیز فرمایا:
حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢٠﴾ وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّـهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ﴿٢١﴾ (سورة فصلت)
اتنے میں وہ سب دوزخ کے پاس آجمع ہوں گے۔ ان کے کان، ان کی آنکھیں اور انکے گوشت پوست انکے اعمال پر گواہی دے رہے ہوں گے۔ اور وہ اپنے گوشت پوست سے کہیں گے کہ تم نے ہم پر گواہی کیوں دے دی تو وہ جواب دینگے کہ اسی اللہ تعالیٰ نے ہم سے باتیں کرائیں جس نے ہر چیز کو ناطق بنایا ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ اگر انسان کوئی بات کہے، یا کوئی کام کرے یا کسی اور شخص کو کوئی کام کرتے دیکھے، یا کوئی بات کرتا سنے اور پھر تیس سال کے بعد اپنے قول و فعل کی شہادت دے اور وہ ایسا اقرار ہو جس کے بموجب اس کا مواخذہ ہو یا اپنے سوا کسی اور چیز یعنی مال و دولت پر گواہی دے اور اس کے ذریعے سے حقوق کا اقرار کرے تو اس کی شہادت مقبول ہو گی، خواہ اس طویل مدت میں اس کے بدن کی حالت متغیر ہی کیوں نہ ہو گئی ہو۔ کوئی عقلمند آدمی یہ نہیں کہتا کہ یہ گواہی مشہود علیہ کی مثل یا اس کے غیر پر دی گئی ہے۔ اگر مشہود علیہ حیوان یا نبات ہو اور گواہی دینے والے نے کہہ دیا کہ یہ حیوان فلاں شخص نے فلاں شخص سے لیا تھا اور یہ درخت فلاں شخص نے فلاں شخص کے سپرد کیا تھا تو استحالہ کے باوجود یہ شہادت معقول ہو گی اور جب استحالہ غیر موثر ہے تو یہ اعتراض محض جہل کا نتیجہ ہے کہ دوبارہ زندگی کے وقت جسم کی حالت مرنے کے وقت کی سی ہو گی، یا وہ جسم موٹا یا دبلا وغیرہ ہو گا، کیونکہ اس نشاۃ ثانیہ کی صورت اس صورت کی مماثل نہ ہو گی جو موجودہ زندگی کی ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ صفات ہی فنا ہو جائیں گی، کیونکہ وہاں نہ تو جسم کی حالت تبدیل ہو گی، نہ کوئی پاخانہ وغیرہ پھرے گا، نہ کھانے پینے سے سیری ہو گی اور نہ کوئی موٹا یا دبلا ہو گا۔ خصوصاً جنت میں داخل ہو نے کے وقت جب ہر انسان اپنے باپ ابو البشر آدم علیہ السلام کی صورت میں داخل ہو گا، اہل جنت نہ بول و براز کریں گے، نہ تھوکیں گے اور نہ ناک جھاڑیں گے یہ نشاۃ متضاد خلطوں سے تو ہو گی نہیں کہ اس کا کچھ حصہ دوسرے حصے سے الگ ہو جائے جیسا کہ اس زندگی میں ہوتا ہے، ان کا کھانا پینا مستحیل (تغیر پذیر) نہ ہو گا، کیونکہ وہ اس دنیا کے کھانے پینے کی طرح مٹی، پانی اور ہوا سے بنا ہوا نہ ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بستی سے گزرنے والے شخص (اس بستی کے متعلق مفسرین کا اختلاف ہے۔ مشہور روایت کے مطابق اول الذکر القدس اور موخر الذکر عزیز علیہ السلام ہیں) (مترجم) کا کھانا پینا سو برس تک سلامت رکھا، اور اس میں کسی طرح کا تسنہ اور تغیر واقع نہیں ہوا تھا، اس سے سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت کی طرف توجہ دلائی۔
جب اللہ تعالیٰ اس عالم کون و فساد میں طعام (کجھور، انگور وغیرہ) اور پانی وغیرہ کو سو سال تک بغیر تغیر کے باقی رکھنے پر قادر ہے تو وہ اس بات پر بدرجہ اولیٰ قادر ہے، کہ آئندہ زندگی میں کھانے پینے کی چیزوں کو ایسا بنا دے کہ وہ تغیر پذیر نہ ہوں۔ اور ان امور کی تفصیل کا مقام دوسرا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چقماق کی آگ کس مادے سے بنتی ہے؟

اس مقام پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ تولد کے لئے دو اصلوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خیال بھی غلط ہے کہ دو چقماقوں کی درمیان جو ہوا ہوتی ہے اسی کی حالت گرمی کے باعث بدل جاتی ہے اور وہ آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، چقماقوں سے کوئی مادہ خارج نہیں ہوتا جو آگ میں منقلب ہو جاتا ہو۔ کیونکہ اگر رگڑ کے باعث چقماقوں سے کوئی مادہ خارج نہ ہو تو آگ نہیں نکلتی اور مجرد رگڑ سے آگ نہیں نکلتی۔ بلکہ دو چقماقوں میں سے نیچے کی چیز مثلاً صوفان اور حراق پر چنگاری پیدا کی جاتی ہے۔ اور اس پر آگ گرتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ گرتی وہی چیز ہے جو بوجھل ہو۔ اگر چقماق کے لوہے اور پتھر کا کوئی ثقیل حصہ خارج نہ ہو تو آگ نیچے نہیں گر سکتی اگر صرف ہوا منقلب ہو کر آگ بن جاتی تو وہ نیچے نہ اترتی۔ کیونکہ ہوا کا خاصہ صعو (اوپر کو جانا) ہے۔ نہ کہ ہبوط (نیچے اترنا) لیکن جب چقماق سے نکلنے والا مادہ آگ میں تبدیل ہو چکتا ہے تو پاس کی ہوا بھی آگ میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور یہ آگ یا تو ھوئیں کی صورت میں ہوتی ہے یا شعلے کی صورت میں۔
جمیع متولدات (پیدا ہونے والی چیزیں) دو اصلوں سے پیدا کی گئی ہیں۔ جس طرح آدم علیہ السلام مٹی اور پانی سے پیدا کئے گئے ہیں۔ ورنہ صرف مٹی سے جس کے ساتھ پانی ملا ہوا نہ ہو، کوئی جاندار چیز یا سبزی پیدا نہیں ہو سکتی۔ سبزی بھی ساری کی ساری دو اصلوں سے پیدا ہوتی ہے۔ مسیح علیہ السلام بھی مریم علیہ السلام اور جبریل علیہ السلام کی پھونک سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا ﴿١٢﴾ (سورة التحريم)
اور مریم بنت عمران جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی اور ہم نے اس کے پیٹ میں اپنی قدرت سے ایک روح پھونک دی۔
نیز فرمایا:
وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا ﴿٩١﴾ (سورة الأنبياء)
جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پس ہم نے اس میں اپنی قدرت کی ایک روح پھونک دی۔
پھر فرمایا:
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾ قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿١٨﴾ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴿١٩﴾ (سورة مريم)
تو ہم نے مریم علیہما السلام کی طرف جبریل علیہ السلام کو بھیجا اور وہ ایک پورے آدمی کی شکل میں ان کے سامنے کھڑے ہو گئے، آپ کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو اللہ ترس ہے تو میرے سامنے سے ہٹ جا جبریل علیہ السلام نے کہا میں صرف تیرے رب کا بھیجا ہو آیا ہوں، اس لیے کہ تجھے ایک پاکیزہ بچہ دوں۔
مفسرین کا بیان ہے کہ جبریل علیہ لسلام نے مریم علیہ السلام کی قمیض کے گریبان میں پھونک ماری جو مقام ولادت تک پہنچ گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تولد مسیح کے دو اصل

اس مقام پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مسیح علیہ السلام دو اصلوں سے پیدا ہوئے ہیں، ایک نفخ جبریل سے اور دوسرے اپنی ماں مریم علیہ السلام سے۔ اور یہ وہ نفخ (پھونک) نہیں ہے، جو چار مہینے گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ جبکہ بچہ لوتھڑے کی صورت میں ہوتا ہے، کیونکہ یہ نفخ ایسے بدن میں واقع ہوتا ہے جو پیدا ہو چکا ہو۔ جبریل علیہ السلام نے جب نفخ کیا تھا تو مسیح بالکل پیدا نہیں ہوئے تھے اور نہ مریم علیہ السلام حاملہ تھیں، بلکہ وہ نفخ کے بعد حاملہ ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کا قول اس دعویٰ کی دلیل ہے:
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴿١٩﴾ (الیٰ قولہ) فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ﴿٢٢﴾ (سورة مريم)
جبریل نے کہا کہ میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ دوں چنانچہ وہ حاملہ ہو گئیں اور اس حمل کو لیکر وہ کسی دور مقام پر چلی گئیں۔
جب جبریل علیہ السلام نے پھونکا تو مریم علیہ السلام کو حمل ہو گیا، اسی لئے مسیح علیہ السلام کو اس نفخ کے اعتبار سے "رُوحٌ مِّنْهُ" کا خطاب ملا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ قاصد جو اس کی روح ہے یعنی جبریل علیہ السلام ہی وہ روح ہیں جس نے مریم علیہ السلام سے خطاب کیا، اور کہا تھا "إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا"
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا ﴿٩١﴾ (سورة الأنبياء)
ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی۔
اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام اسی روح میں سے ایک ہیں۔ اس لئے وہ اس اعتبار سے ’’رُوْحٌ مِّنَ اللهِ‘‘ ہوئے اور مِنْ رُّوْحِنَا میں من ابتدائے غایت کے لئے ہے جب دو اصل باہم ملتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان ایک مادہ ہوتا ہے جو منقلب ہو جاتا ہے اور یہ انقلاب اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ان دو اصلوں میں سے ایک دوسرے سے رگڑا جاتا ہے۔ اندریں حالت یہ ضروری ہے کہ اس مادے کے اجزا میں کمی واقع ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تولد نار کے دو اصل

جب چقماق کا لوہا چقماق کے پتھر پر رگڑا جاتا ہے یا درخت درخت سے رگڑ کھاتا ہے تو اس رگڑ سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے، جس کے باعث ان دونوں کے بعض اجزاء کی حالت متغیر ہو جاتی ہے اور ان دونوں کے درمیان جو ہوا ہوتی ہے۔ وہ گرم ہو کر آگ بن جاتی ہے اور جب ایک چقماق دوسرے پر رگڑا جاتا ہے تو ان میں سے ایک کی قوت رگڑ کے باعث کم ہو جاتی ہے۔ اور آگ ان دو اصلوں سے مستحیل ہوکر پیدا ہوتی ہے، ایک ہوا سے اور دوسرے ان اجزاء سے جو دو چقماقوں کی باہم رگڑ سے خارج ہوتے ہیں سورج اور آگ وغیرہ روشنی بخش چیز کی شعاع اپنی مقابل کی کسی چیز پر منعکس ہوں تو روشنی حاصل ہوتی ہے۔
لفظ ’’نور‘‘ (روشنی) اور ’’ضوء‘‘ (روشنی) کا اطلاق بعض اوقات ایک جسم قائم بنفسہٖ پر ہوتا ہے۔ مثلاً وہ آگ جو سرِ چراغ پر ہوتی ہے۔ اور یہ اس مادے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی جو منقلب ہو کر آگ بنتا ہے، مثلاً لکڑی اور تیل۔
ہوا بھی آگ میں مستحیل ہو جاتی ہے اور یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے کہ جس مادے سے آگ کا شعلہ پیدا ہو، اس میں یا چقماقوں میں کمی واقع ہو۔ کبھی نور ضیاء، شعاع سے وہ شعاع مراد لی جاتی ہے جو آفتاب یا آگ سے زمین اور دیواروں پر پڑتی ہے۔ یہ روشنی عرض ہے قائم بنفسہ نہیں ہے۔ اس کے لئے ایک محل کی ضرورت ہے جس کے ساتھ وہ قائم ہو اورجو اس کے قابل ہو۔ شعاع کی لئے محل کی ضرورت ہے جس کے ساتھ وہ قائم ہو اور جو اس کے قابل ہو۔ شعاع کے لئے ایک روشنی بخش جسم کا وجود لا بدی ہے اور ایک ایسی چیز کا ہونا بھی ضروری ہے جو اس روشنی بخش چیز کے مقابل ہو، تاکہ اس پر شعاع منعکس ہو سکے۔ چراغ سے حاصل ہونے والی آگ کی بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ جب وہ آگ میں رکھی جاتی ہے یا اس میں آگ رکھی جاتی ہے تو اول اولا آگ، مادے یعنی تیل یا لکڑی کو حل کرتی ہے پھر محیط کی ہوا گرم ہو کر مبدل بآتش ہو جاتی ہے اور یہ تبدیلی مادے کے نقصان کے بعد واقع ہوتی ہے اور یہی صورت اس ہوا کی ہے جو آگ میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ مثلاً ہوا چلتی ہے تو لکڑی میں شعلے پیدا ہوتے ہیں۔ لوہار کی پھکنی کا عمل بھی یہی ہوتا ہے۔ محل آتش یعنی لکڑی کوئلہ وغیرہ میں آگ بننے کی اور تیز ہوا میں آگ کو جنبش دے کر اس کے مناسب مقام پر پہنچانے کی استعداد ہوتی ہے۔ اس لئے پھکنی وغیرہ کی ہوا آگ کو بھڑکاتی رہتی ہے۔ بعض اوقات آگ کے پاس کی ہوا کی حالت بھی بدل جاتی ہے۔ لہیب (شعلہ) دراصل ہوا ہوتی ہے جو آگ میں منقلب ہو جاتی ہے۔ جس طرح چراغ کے فتیلہ میں لہیب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آگ بجھ جاتی ہے تو دھواں پیدا ہو جاتا ہے۔ جو آگ سے ملی ہوئی ہوا ہوتی ہے۔ جس طرح بھاپ پانی سے ملی ہوئی ہوا ہوتی ہے اور غار مٹی سے ملی ہوئی ہوا ہوتی ہے۔ کبھی بھاپ کو بھی دھوئیں سے موسوم کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ ﴿١١﴾ (سورة فصلت)
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا۔
مفسرین نے ’’دخان‘‘ کی تفسیر پانی کے بخارات کی ہے۔ آثارِ مرویہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کے بخارات سے آسمان بنائے ہیں اور وہ ’’دخان‘‘ (دھواں) ہوتا ہے۔ اور ’’دخان‘‘ اس ہوا کو کہتے ہیں جس سے کوئی گرم چیز ملی ہو۔ اگر اس میں پانی نہ ہو تو یہ صرف دھواں کہلاتا ہے اور کبھی اس میں پانی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اسے دخان بمعنی ’’بخار‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جس میں پانی نہیں ہوتا۔ مثلا جو شخص خوشبو کے لیے کوئی چیز سلگائے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ "اس نے تبخر" کیا یعنی خوشبودار دھواں پیدا کیا۔
جوہری کا قول ہے کہ پانی کا بخار وہ ہوتا ہے جو اس سے دھوئیں کی صورت میں بلند ہوتا ہے۔ اور ’’بخور‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں، جس کو سلگانے سے خوشبودار دھواں پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن ہوا، آگ اسی وقت بنتی ہے جس وقت لکڑی اور تیل وغیرہ مادہ جس سے آگ بنتی ہے ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے معلوم ہوا کہ حیوان کی طرح آگ بھی مادے کے سوا پیدا نہیں ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
واحد الاصل مخلوق پر تولد کا اطلاق نہیں ہو سکتا

بتانا یہ مقصود ہے کہ قائم وجودوں میں سے جس چیز کے متعلق بھی ’’تولد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ وہ اصلوں سے بنی ہو اور دونوں میں سے ایک حصہ جدا ہو کر بنی ہو ۔جب کھانے اور پینے سے سیر ہونے یا روح نکلنے وغیرہ اعراض کے متعلق کہا جائے کہ وہ متولد ہیں تو جن امور کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے گا، وہ سب دو اصلوں سے ہوں گے۔ لیکن عرض محل کا محتاج ہوتا ہے، اس مادے کا محتاج نہیں ہوتا جو عرض میں منقلب ہو۔ اس کے خلاف اجسام مواد سے پیدا ہوتے ہیں، جو دوسری نوع میں منقلب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً پانی سے خون بستہ، پھر لوتھڑا اور پھر جاندار چیز پیدا ہوتی ہے۔ نباتات بھی اسی طرح حالت بدلتی ہیں۔ اور جو مخلوق ایک اصل سے ہو، وہ اگرچہ مادے سے پیدا ہوئی ہو، لیکن متولد نہیں کہلاتی۔ مثلاً حوا علیہما السلام آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئیں، اگرچہ وہ اس مادے سے پیدا ہوئیں جو آدم علیہ السلام سے لیا گیا۔ لیکن اس واقعہ کو تولد نہیں کہا جائے گا۔ یہ کوئی نہیں کہے گا کہ آدم علیہ السلام نے حوا کو جنا، یا وہ حوا کے باپ ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ جس طرح آدم علیہ السلام کو کیچڑ سے پیدا کیا۔ مسیح علیہ السلام کے متعلق البتہ کہا جاتا ہے کہ مریم علیہما السلام نے انھیں جنا اور مسیح علیہ السلام مریم علیہما السلام کے بیٹے ہیں، کیونکہ مسیح علیہ السلام مریم علیہما السلام کے جزو تھے۔ اور وہ مریم کے پیٹ میں روح پھونکنے کے بعد پیدا کئے گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ ﴿١٢﴾ (سورة التحريم)
اور مریم بنت عمران جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی تو ہم نے اس کے پیٹ میں اپنی قدرت سے روح پھونک دی اور وہ اپنے رب کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کرتی رہیں اور وہ فرمانبردار بندوں میں سے تھیں۔
دوسری آیت یوں ہے :
فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩١﴾ (سورة الأنبياء)
تو ہم نے ان میں اپنی قدرت سے روح پھونکی اور انھیں اور ان کے بیٹے کو دنیا جہان کے لوگوں میں سے ایک نشان بنا دیا۔
اور حوا علیہا السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے مادہ سے اسی طرح پیدا کیا، جس طرح آدم علیہ السلام کو مادہ ارضی سے پیدا کیا، پانی اور مٹی سے صورت بنائی گئی اور ہوا نے اسے خشک کرکے بجتی ہوئی مٹی بنا دیا۔ اس لئے یہ نہیں کہا جاتا، کہ ’’آدم علیہ السلام نے حوا کو جنا‘‘ اور نہ آدم کو مٹی نے جنا اور مسیح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں مریم نے جنا۔ یہ تولد دو اصلوں سے تھا، ایک اصل مریم اور دوسری نفخ جبریل۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾ قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿١٨﴾ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴿١٩﴾ قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ﴿٢٠﴾ (سورة مريم)
تو ہم نے انکی طرف جبریل علیہ السلام کو بھیجا اور وہ انکے سامنے ایک پورے آدمی کی صورت میں آ کھڑے ہوئے اور (مریم)کہنے لگیں اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتی ہوں کہ میرے سامنے سے ہٹ جاؤ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا میں تمہارے رب کا بھیجا ہوا آیا ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ بچہ دوں۔ وہ بولیں میرے ہاں لڑکا کیونکر ہو سکتا ہے مجھے تو کسی بشر نے چھوا بھی نہیں اور میں بدکار بھی کبھی نہیں رہی، جبریل نے کہا جیسا میں کہتا ہوں ویسا ہی ہو گا، تمہارا رب کہتا ہے کہ تمہارے ہاں بے باپ کے لڑکا پیدا کرنا ہم پر آسان ہے اور اس کے پیدا کرنے سے غرض یہ ہے کہ ہم اس کو لوگوں کے لیے ایک نشان بنائیں اور دنیا میں اپنی رحمت کا ذریعہ قرار دیں اور یہ بات فیصل ہو چکی ہے اس پر مریم کو حمل ہو گیا اور وہ اسے دور کے مکان میں لے جا کر علیحدہ بیٹھ گئیں۔
نفخ کے بعد حضرت مریم علیہا السلام کو حمل ہوا، مدت تک نفخ کے بغیر حمل نہ ہوا تھا۔ پھر اس حمل میں روح حیات پھونکی گئی، حمل کے لئے نفخ اور روح حیات کے لئے نفخ میں فرق ہے تو معلوم ہوا کہ قائم بنفسہٖ وجودوں میں سے کسی وجود سے جب کوئی چیز پیدا ہو گی اور وہ متولد کہلائے گی او لا بدی ہے کہ والد سے کچھ مادہ خارج ہو اور دو اصلوں سے تولد ہوا ہو، اللہ تعالیٰ صمد ہے اس لئے یہ امر محال ہے کہ اس سے کوئی چیز خارج ہو اور اس کی کوئی بیوی نہیں، اس کا بچہ پیدا ہونا محال ہے۔
شعاع کا تولد، سوچنے سے علم کا تولد، کھانے سے سیری کا تولد اور حرکت سے حرارت کا تولد وغیرہ وجودوں کے تولد نہیں ہیں۔ اعراض کے تولد ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے لئے محل کی اور دو اصلوں کی ضرورت ہے، اس لئے نصارٰی کے اس قول سے کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ لازم آتا ہے کہ وہ مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیں اور وہ جس طرح اللہ کے لئے ایک بیٹے کا وجود قرار دیتے ہیں، اسی طرح اس کی بیوی بناتے ہیں، وہ جس معنی میں اللہ کے لئے بیٹا موجود ہونے کے قول کی تفسیر کریں، اسی معنی میں بیوی کا موجود ہونا بھی لازم ہو جاتا ہے اور دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بیوی سے منزہ ہے۔ انہی دلائل سے لازمی طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے بھی منزہ ہے تو جب وہ اللہ کے لئے ایسے اوصاف بیان کرتے ہیں جن سے متصف ہونا اس کی شان سے بعید تر ہے۔ تو ان کی قول کے مطابق اللہ کا ان اوصاف سے متصف ہونا لازم آئے گا۔ جن سے متصف ہونا اس کی شان سے کمتر بعید ہے۔ اور یہ بحث شرح و بسط کے ساتھ ’’الرد علی النصٰریٰ‘‘ میں آچکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس سے کسی قدر واضح ہو جاتا ہے کہ :
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ اس نے کوئی بیٹا جنا اور نہ اسے کسی نے جنا۔
اور:
أَلَا إِنَّهُم مِّنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ ﴿١٥١﴾ وَلَدَ اللَّـهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿١٥٢﴾ (سورة الصافات)
خبردار وہ جھوٹ کہتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا ہے۔ اور وہ بالکل جھوٹے ہیں۔
اور:
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٠٠﴾ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿١٠١﴾ (سورة الأنعام)
اور جنون میں سے اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں پیدا کیا ہے اور جہالت سے اللہ کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراشتے ہیں، وہ ان اوصاف سے پاک و برتر ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنیوالا ہے اس کا بچہ کیونکر ہو سکتا ہے اسکی تو بیوی ہی کوئی نہیں اسی نے ہر چیز پیدا کی ہے اور وہ ہر چیز سے اچھی طرح واقف ہے۔
ان آیات بینات میں اللہ تعالیٰ نے جن اوصاف سے اپنے آپ کو منزہ قرار دیا اور اپنے متعلق جن امور کی نفی فرمائی ہے وہ ان تمام انواع پر حاوی ہے، جو اس باب میں بعض قوموں سے مذکور ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ ’’اتخاذِ ولد‘‘ (بیٹا بنانا) کی نفی سے تمام قسم کے اتخاذات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٨﴾ (سورة المائدة)
اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور دوست ہیں۔ اے رسول ﷺ ان سے کہہ دو کہ پھر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے دراصل تم بھی دیگر مخلوق کی طرح بشر ہو (اللہ) جسے چاہتا ہے بخشتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں اور انکے مابین کی ساری چیزوں کی ملکیت اسی کیلئے ہے اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
سدی یہود و نصاریٰ کا یہ قول بیان کرتے ہیں، کہ "اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ تیری اولاد میری اولین اولاد ہے۔ میں اسے آگ میں داخل کروں گا اور وہ چالیس دن تک اس میں رہے گی۔ حتیٰ کہ آگ اس کا دامن اعمال پاک کر دے گی اور اس کے گناہوں اور خطاؤں کو نگل جائے گی۔ پھر ندا دی جائے گی کہ بنی اسرائیل میں سے ہر ایک مختون کو (آگ سے) نکال دو۔" اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
مَا اتَّخَذَ اللَّـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ ﴿٩١﴾ (سورة المؤمنون)
اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں، اور اس کے ساتھ کوئی اور معبود شریک نہیں۔
نیز ارشاد ہوتا ہے :
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ﴿١١١﴾ (سورة الإسراء)
اور کہہ دو اے رسول ﷺ ! کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو اولاد سے بے نیاز ہے اور مملکتِ دارین کا بلا شرکت غیرے بادشاہ ہے، اور وہ کمزور نہیں کہ اس کا کوئی مددگار ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عیسائیت کی تردید

اہل عرب میں سے جو لوگ یہ کہتے تھے، کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی اور ان کے اس قول کی نفی، کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے قبیلے میں شادی کی اور اس شادی سے ملائکہ پیدا ہوئے، اس امر سے کی کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور جزو کا ہونا محال ہے۔ کیونکہ وہ ’’صمد‘‘ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ
اور اس کی کوئی بیوی نہیں۔
اور جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، ولات کے لیے دو اصلوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور اس باب میں اعیان (اجسام) کا تولد، جنھیں جوہر کہا جاتا ہے اور اعراض و صفات کا تولد برابر ہے بلکہ اعیان کا تولد تو اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا، جب تک والد سے ایک حصہ علیحدہ نہ ہو۔ سو جب اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی کا ہونا ممتنع ہے تو اس کے لیے اولاد کا ہونا بھی ممتنع ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے نہ ملائکہ میں سے نہ جنوں میں سے۔ اور نہ انسانوں میں سے۔ ان لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، کہ اللہ کی بیوی ہے، اس لیے یہ امر ان کے خلاف حجت ہے۔
اور بعض کفار عرب سے جو عقیدہ مروی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جنوں کے قبیلے میں شادی کی‘‘ اول تو یہ روایت ہی محل نظر ہے اور اگر ایسا کہا بھی گیا ہے تو اس کا انتفاء بہت سے وجوہ سے معلوم ہو چکا ہے۔ نصاریٰ کا مسیح علیہ السلام کو اور یہود کا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنا بھی اسی طرح وجوہ کثیرہ سے باطل قرار دیا جا چکا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی نفی دو صورتوں سے کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عیسائیت کی تردید

اہل عرب میں سے جو لوگ یہ کہتے تھے، کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی اور ان کے اس قول کی نفی، کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے قبیلے میں شادی کی اور اس شادی سے ملائکہ پیدا ہوئے، اس امر سے کی کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور جزو کا ہونا محال ہے۔ کیونکہ وہ ’’صمد‘‘ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ
اور اس کی کوئی بیوی نہیں۔
اور جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، ولات کے لیے دو اصلوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور اس باب میں اعیان (اجسام) کا تولد، جنھیں جوہر کہا جاتا ہے اور اعراض و صفات کا تولد برابر ہے بلکہ اعیان کا تولد تو اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا، جب تک والد سے ایک حصہ علیحدہ نہ ہو۔ سو جب اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی کا ہونا ممتنع ہے تو اس کے لیے اولاد کا ہونا بھی ممتنع ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے نہ ملائکہ میں سے نہ جنوں میں سے۔ اور نہ انسانوں میں سے۔ ان لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، کہ اللہ کی بیوی ہے، اس لیے یہ امر ان کے خلاف حجت ہے۔
اور بعض کفار عرب سے جو عقیدہ مروی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جنوں کے قبیلے میں شادی کی‘‘ اول تو یہ روایت ہی محل نظر ہے اور اگر ایسا کہا بھی گیا ہے تو اس کا انتفاء بہت سے وجوہ سے معلوم ہو چکا ہے۔ نصاریٰ کا مسیح علیہ السلام کو اور یہود کا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنا بھی اسی طرح وجوہ کثیرہ سے باطل قرار دیا جا چکا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی نفی دو صورتوں سے کی ہے۔
صفۃ اللہ سے مراد ابن اللہ نہیں لی جا سکتی
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عوام نصاریٰ کے اقوال منضبط نہیں ہیں۔ ان کے علماء کے کلام اور کتابوں میں موجود ہے، کہ قنوم کلمہ نے جسے وہ بیٹے سے موسوم کرتے ہیں، مسیح علیہ السلام کا جامہ پہنا، یعنی اس نے مسیح کو اپنی زرہ بنایا، جس طرح انسان قمیض پہنتا ہے، اسی طرح لاہوت نے ناسوت کا جامہ پہنا۔ یہ لوگ کہتے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس ایک خدا ہے۔ کہا گیا ہے کہ وہ پروردگار کو موجود، حیی اور علیم سمجھتے ہیں۔ موجود سے باپ، علم سے بیٹا اور حیات سے روح القدس مراد لیتے ہیں۔ یہ بہت سے عیسائیوں کا قول ہے۔ بعض عیسائیوں کا قول ہے کہ پروردگار ہی موجود، عالم اور قادرہے، اور علم ہی کلمہ ہے۔ جس نے جامہ مسیحیت پہنا ہے اور قدرت روح القدس ہے۔ اس بات پر تمام عیسائیوں کا اتفاق ہے کہ جامہ مسیحیت پہننے والا اقنوم کلمہ ہی ہے۔ اور وہی بیٹا ہے۔ البتہ تدرع (جامہ پہننا) میں یہ اختلاف ہے کہ آیا وہ ایک جوہر ہے یا دو؟ اور کیا وہ ایک نسبت ہے یا دو نسبتیں ہیں۔ حلول و اتحاد کے متعلق بھی ان کے اقوال مضطرب ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
اقوال نصاریٰ میں باہم اس قدر اختلاف ہے کہ ان کا انضباط متعذر ہے کیونکہ ان کا قول نہ تو کسی منزل کتاب اور مرسل نبی سے ماخوذ ہے اور نہ وہ عقول عقلاء کے موافق ہے۔ یعقوبی کہتے ہیں کہ ’’وہ ایک جوہر، ایک طبیعت اور ایک اقنوم بن گیا ہے جس طرح دودھ میں پانی ہوتا ہے‘‘۔ فسطوری کہتے ہیں کہ ’’وہ دو جوہر، دو طبیعتیں اور مشیئتیں ہیں، لیکن لاہوت (خدا) نے ناسوت (انسان) میں اس طرح حلول کیا جس طرح پانی برتن میں حلول کرتا ہے‘‘۔ ملکانی کہتے کہ ’’وہ دونوں جوہر واحد ہیں، اس کی دو مشیئتیں دو طبیعتیں یا دو فعل ہیں جس طرح لوہے میں آگ ہوتی ہے‘‘۔
بعض لوگوں کی رائے ہے کہ:
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (سورة المائدة)
(جو لوگ مسیح ابن مریم کو اللہ مانتے ہیں وہ کافر ہیں) میں یعقوبی عیسائی مراد ہیں اور
وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّـهِ (سورة التوبة)
(اور نصارٰی کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے) میں ملکانی مراد ہیں۔ اور
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ (سورة المائدة)
(جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے ایک ہے، وہ کافر ہو گئے) میں نسطوریوں کی طرف اشارہ ہے۔
یہ تین اقوال جو نصارٰی کے تین فرقوں سے منسوب ہیں، وہ سب کہتے ہیں کہ وہی اللہ ہے، اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کا بیٹا ہے۔ ’’امانت‘‘ میں جس پر وہ سب متفق ہیں، اسی طرح درج ہے، کہتے ہیں کہ سچے خدا سے ایک سچا خدا پیدا ہوا ہے۔’’ثالث ثلثہ‘‘ (تین میں کا ایک) کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:
وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ (سورة المائدة)
اور جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسٰی! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا، مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ؟ تو عیسٰی علیہ السلام عرض کریں گے، کہ الہٰی تو پاک ہے مجھ سے یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ میں ایسی بات کہوں، جس کے کہنے کا مجھے حق حاصل نہیں۔
الوالفج ابن جوزی لکھتے ہیں کہ مفسرین نے ’’لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ‘‘ کے معنی یہ کیے ہیں، کہ نصارٰی کے نزدیک معبودیت اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام اور مریم علیہا السلام میں مشترک ہے۔ ان میں سے ہر ایک معبود ہے۔ ابنِ جوزی نے زجاج کے حوالے سے لکھا ہے۔ کہ ’’غلو‘‘ ظلم میں حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں عیسٰی علیہ السلام کے متعلق نصاری نے جو غلو کیا ہے، وہ ان کے اس قول سے ظاہر ہے کہ ’’عیسٰی ہی اللہ ہے‘‘ بعض نے کہا کہ ’’وہ اللہ کا بیٹا ہے‘‘ اور بعض نے کہا کہ ’’وہ تین معبودوں میں سے ایک ہے‘‘ اس بات پر وہ علمائے نصاری جو ’’ابن اللہ‘‘ کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ ’’کلمہ بیٹا ہے‘‘ اور تینوں فرقے متفق ہیں اور ان کے قول کی لغویت بہت سے عقلی وجوہ کی بناء پر روشن و آشکارا ہے، ایک یہ کہ انبیاء کے کلام میں سے کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی صفت کو خواہ وہ کلام ہو یا غیر کلام ہو، بیٹے سے موسوم کیا گیا ہو۔ پس ان لوگوں کا اللہ کی صفت کو بیٹے سے موسوم کرنا اللہ کلام انبیاء کی کھلی ہوئی تحریف کے مترادف ہے۔ انھوں نے مسیح علیہ السلام سے جو یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’باپ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے لوگوں کا قصد کرو‘‘ تو اس میں مسیح السلام کی مراد بیٹے سے ’’صفۃ اللہ‘‘ یعنی "کلمہ" نہ تھی اور نہ ’’روح القدس‘‘ سے مراد اس کی حیات تھی۔ کیونکہ کلام انبیاء سے اس طرح کے معنی کا کوئی منشا ظاہر نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ’’رد نصارٰی؎ٰ‘‘ (حضرت مصنف کی یہ کتاب ’’الجواب لمن بدل دین مسیح‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں چھپ چکی ہے اور نصارٰی کے بارے میں آج تک مسلم طور پر بہترین اور جامع ترین کتاب مانی جاتی ہے۔ (مترجم) میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ کلمہ جسے ابن (بیٹا) سے موسوم کیا جاتا ہے، دو صورتوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو یہ اللہ کی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے یا ایک جوہر ہے جو قائم ہے۔ اگر وہ اللہ کی صفت ہو تو ان کا مذہب حسب ذیل وجوہ سے باطل ثابت ہے۔
1۔ صفت معبود نہیں ہو سکتی، جو رزق دیتا ہے، پیدا کرتا ہے، زندہ کرتا ہے، اور مارتا ہے، اور مسیح علیہ السلام ان کے نزدیک ایسا معبود ہے جو پیدا کرتا، روزی دیتا، زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ سو جب وہ چیز معبود نہ ہوئی جس کا اس نے جامہ پہنا تو مسیح خود بطریق اولیٰ غیر معبود ٹھہرے۔
2۔ صفت موصوف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لیے اس سے جدا نہیں۔ اگر وہ (نصارٰی) کہیں کہ مسیح پر اللہ کا کلام نازل ہوا اور وہ یہ بھی کہیں کہ وہ کلمہ وغیرہ ہے تو یہ بات مسیح علیہ السلام اور سارے انبیاء کے درمیان مشترک ہے۔
3۔ صفت موصوف کی معیت کے بغیر کسی چیز سے متحد و متدرع (جامہ پہننے والی نہیں ہوتی) اور اگر ایسا ہو تو باپ خود مسیح بن جائے اور نصارٰی اس بات پر متفق ہیں، کہ مسیح باپ نہیں ہے۔ لہذا ان کا قول متناقض ہوا۔ مسیح کو معبود قرار دیتے ہیں۔ جو پیدا کرتا اور روزی دیتا ہے اور اسے باپ بھی نہیں کہتے جو معبود ہے۔ اور کہتے ہیں کہ معبود ایک ہے۔ ان کے بعض متکلمین مثلاً یحیٰی ابن عدی نے اسے اس مرد کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو طبیب تھی ہو، حاسب بھی ہو اور کاتب بھی ہو۔ اور اس پر ان میں سے ہر ایک صفت کا اطلاق ہوتا ہے۔ بے شک یہ بات سچ ہے۔ لیکن ان کا قول اس کی نظیر نہیں ہے۔ جب آپ کہیں کہ پروردگار موجود ہے، زندہ ہے، جاننے والا ہے، اور ان میں سے ہر ایک صفت کا اطلاق اس کی ذات پر ہوتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اگر متحد کوئی ایسی ذات ہو جو متصف بالصفات ہے تو ساری صفات اس کے تابع ہوں گی۔ چنانچہ جب زید، طبیب، حاسب اور کاتب کا جامہ پہن لے تو یہ تمام صفات اس کے ساتھ قائم ہوں گی، اور اگر جامہ پہننے والی چیز (متدرع) ایک صفت ہو اور دوسری صفت نہ ہو تو اس پر وہی اعتراض عائد ہو گا کہ صفت نے اپنے موصوف کی معیت کے بغیر اتحاد و تدرع کر لیا اور اگر یہ کہیں کہ مسیح ایک ذات ہے جس کے ساتھ ایک صفت ہے، اور دوسری نہیں تو افتراق صفتین لازم آتا ہے اور یہ محال ہے، کیونکہ جو صفات ایک موصوف کے ساتھ قائم ہوں اور اس کے لیے ضروری ہوں، وہ متفرق نہیں ہو سکتیں مخلوق کی صفات میں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک صفت باقی رہے اور دوسری صفت باقی نہ رہی، لیکن صفات باری تعالیٰ میں یہ بات نہیں آسکتی ۔
4۔ مسیح خود نہ تو ’’کلمۃ اللہ‘‘ ہے اور نہ اللہ کی صفات میں سے کوئی صفت ہے بلکہ وہ مخلوق ہے جو کلمۃ اللہ سے پیدا ہوئی، اور اس کا نام ’’کلمہ‘‘ اس لیے رکھا گیا، کہ اس کی تخلیق رسم معتاد کے مطابق نہیں ہوئی تھی ،بلکہ ’’کن‘‘ سے ہوئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (سورة آل عمران)
عیسٰی اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ’’بن جا‘‘ سو وہ بن گیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ ﴿٣٤﴾ مَا كَانَ لِلَّـهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ۖ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (سورة مريم)
یہ ہے عیسیٰ ابن مریم کی حقیقت، سچی سچی بات جس میں وہ جھگڑا کرتے ہیں، اللہ کی شان سے بعید ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ وہ پاک ہے جب کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ بات ہو جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ وہ خود تورات، انجیل اور اللہ کے سارے کلام کی طرح کلام اللہ ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ کا کلام یا اس کی کوئی صفت خالق، رب اور معبود نہیں ہو سکتی۔ سو جب نصاریٰ نے یہ کہا کہ ’’مسیح خالق ہے‘‘ تو وہ ایک تو اس لحاظ سے ضالین (گمراہ) پائے کہ انہوں نے اس صفت کو خالق قرار دیا، اور ایک اس لحاظ سے کہ انہوں نے مسیح ہی کو صفت قرار دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مسیح عليه السلام کلمۃ اللہ پیدا کیا گیا ہے۔ ان کا یہ قول باطل ہے کہ معبود تین ہیں اور صفات تین ہیں۔ حلول اتحاد کا عقیدہ بھی باطل ہے۔ ان وجوہ اور دیگر دلائل سے ان کے قول کا بطلان بالکل ظاہر ہو جاتا ہے۔ اگر وہ یہ کہتے کہ رب کی صفات اس کے ساتھ قائم ہیں اور اتحاد و حلول کا ذکر نہ کرتے تو یہ عقیدہ جمہور مسلمین کے عقیدہ کے مطابق تھا جو صفات ثابت کرتے ہیں اور اگر وہ یہ کہیں کہ صفات ایسے وجود اعیان ہیں جو خودبخود قائم ہیں تو یہ ہٹ دھرمی ہے۔ وہ متناقض باتوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ صفات کو تین کے عدد میں محدود کرنا بھی باطل ہے۔ کیونکہ رب کی صفات اس سے زیادہ ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ موجود ہے، زندہ ہے، علیم ہے، قدیر ہے۔ لیکن ان کے نزدیک اقانيم صرف تین ہیں، جنہیں وہ صفات قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کبھی تو ان صفات کی تفسیر وجود اور زندگی اور علم سے اور کبھی وجود اور قدرت اور علم سے کرتے ہیں۔ ان کے اقوال میں بے حد اضطراب ہے کیونکہ ان کا قول فی نفسہٖ باطل ہے۔ اور کسی ذی عقل کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر دس نصاریٰ جمع ہو جائیں تو ان میں گیارہ اقوال پر باہم اختلاف ہو گا۔ نیز اللہ کے کلمات کثیر و لا متناہی ہیں۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (سورة الكهف)
اے رسول! کہہ دے کہ اگر میرے رب کے کلمات قلمبند کرنے کے لئے سمندر سیاہی بنا دیے جائیں تو میرے پروردگار کے کلمات ختم ہونے سے قبل سمندر ختم ہو جائیں، اور اگر ہم ان سمندروں کی مثل اور سمندر بھی لا رکھتے جب بھی وہ کلمات ختم نہ ہونے پاتے۔
یہ جمہور مسلمین و غیر مسلمین کا عقیدہ ہے۔ امت کے سلف صالحین کا بھی یہی عقیدہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی مشیئت سے ہمیشہ باتیں کرتا رہتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کلام پر قادر رہتا ہے لیکن اپنی مشیئت سے ایسا کلام کرتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم اور از خود حادث ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا کلام مخلوق فی غیرہ ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے معنی ایک چیز کے ہیں جو قدیم الوجود ہے۔ ان لوگوں میں سے بعض کا قول یہ بھی ہے کہ ’’کلام معناً شے واحد ہونے کے باوجود امور متناہیہ کا نام ہے‘‘ اور انہی میں سے بعض کا قول یہ ہے کہ ’’کلام ایک حقیقت ہے لیکن اس کی عبارات متعدد ہیں‘‘۔
ان لوگوں کے نزدیک یہ امر ممتنع ہے، کہ یہ حقیقت خدا کے سوا قائم ہو۔ البتہ وہ پیدا شدہ عباراتِ خدا کے سوا قائم سمجھتے ہیں۔ اور یہ محال ہے کہ ان عبارات میں سے کوئی چیز مسیح علیہ السلام ہو۔ سو ان لوگوں اور جمہور کے قول کے مطابق یہ امر کہ ’’مسیح کلام اللہ‘‘ نہیں ہے، اس سے زیادہ ممتنع نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمات بہت سے ہیں اور مسیح وہ سب تو کہاں، ان سب سے پیدا کیا ہوا بھی نہیں ہے، بلکہ وہ ان میں سے صرف ایک کلمے سے پیدا ہوا ہے اور وہ اس کلمہ کا عین نہیں ہے۔ کیونکہ کلمہ صفات میں سے ایک صفت ہے اور مسیح علیہ السلام ایک وجود ہے جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے پھر ان پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ’’تمہارا علم اور کلمے کو ولد اور ابن (بیٹا) سے موسوم کرنا باتفاق علماء و عقلاء باطل ہے اور یہ کسی نبی سے منقول نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ علم اور کلام چونکہ اس ذات سے اسی طرح پیدا (متولد) ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک عالم آدمی کے نفس سے پیدا ہوتے ہیں۔ پس اس ذات سے علم، حکمت اور کلام تولد کے باعث کلمہ کا نام بیٹا رکھا گیا ہے۔ یہ نظریہ بھی کئی وجوہ سے باطل ہے۔
ہماری صفات حادث ہیں جو ہمارے تعلم، غور و فکر اور نظر و استدلال سے بدلتی رہتی ہیں، لیکن اللہ کا کلمہ اور اس کا علم قدیم اور اس کی ذات کے ساتھ لازم ہے۔ سو اس کو تولد کہنا منع ہے۔ اس سے یہ دعویٰ لازم آئے گا کہ ہر ایسی صفت جو اپنے موصوف کے ساتھ لازم ہو، وہ اس موصوف سے پیدا شدہ (متولد) ہوتی ہے اور صفت لازمہ اپنے موصوف کا بیٹا کہلاتی ہے، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ عقل اور لغات کے لحاظ سے یہ دعویٰ بالکل باطل ہے۔ انسان کی حیات، اس کی باتوں، اور دیگر صفاتِ لازمہ کے متعلق یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ اس کے ابن ہیں اور اس سے متولد ہیں۔ نیز اگر یہ مان لیا جائے تو یہ لازم آتا ہے کہ اللہ کی حیات اور اس کی قدرت بھی اس کے بیٹے ہیں، ورنہ بتایا جائے کہ علم کے تولد اور حیات اور قدرت وغیرہ صفات کے تولد میں کیا فرق ہے؟
1۔ اگر یہ تولد جواہر اور اعیان کے تولد کے باب سے ہے تو اس کے لئے دو اصلوں کا ہونا ضروری ہے اور اصل سے ایک جزو کا خروج لابدی ہے۔ رہا ہمارا علم اور ہمارا قول، تو یہ عین (وجود) نہیں ہے جو قائم بنفسہٖ ہو۔ اور اگر کوئی ایسی صفت ہو جو موصوف کے ساتھ وابستہ ہو اور ایسا عرض ہو جو ایک محل میں قائم ہو۔ مثلاً ہمارا علم اور ہمارا کلام، تو یہ بھی دو اصلوں ہی سے متولد ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک ایسا محل لابدی ہے جس میں اس کا تولد ہو اور ہم میں علم اور کلام صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں کہ اس سے پہلے چند اسباب و مقدمات معرض وجود میں آئیں۔ اور فرع کے لئے اصل بنیں۔ اور علم و کلام ایسے محل میں حاصل ہوتے ہیں، جہاں وہ اس سے پہلے نہیں ہوتے۔ اگر آپ کہیں کہ رب کا علم بھی اسی طرح ہے تو یہ لازم آئے گا کہ وہ کسی وقت اشیاء کا عالم نہیں بھی ہوتا، اور اس کے بعد وہ عالم بنتا ہے اور پہلے اس کی ذات متکلم نہیں تھی اور بعد میں متکلم بنی ہے۔ یہ بات جمہور مسلمین و نصاریٰ اور دیگر اہل ملل کے نزدیک کفر ہے۔ مزید برآں یہ بات عقل کے بھی صریح خلاف ہے، کیونکہ جو ذات عالم نہ ہو، اس کا عالم بننا اس وقت تک ممتنع ہے جب تک وہ کسی دوسرے عالم سے استعانت نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے لئے یہ امر ممتنع ہے کہ وہ اپنی مخلوقات سے علم سیکھے۔ علیٰ ھٰذا القیاس جو ذات کلام سے عاجز ہو، اس کے لئے بھی کسی ایسی ذات سے مدد لیے بغیر متکلم بننا محال ہے، جو اس کو کلام پر قادر بنا سکے۔ اور یہ بات بھی کسی کی قدرت میں نہیں ہے، کہ وہ اپنے سارے علوم کو (تولداً) پیدا کرے، لیکن بعض علوم اس میں تخلیقاً پیدا کئے جاتے ہیں جن کو وہ چار و ناچار حاصل کرتا ہے، اور جب ان امور پر غور و فکر کرتا ہے تو اسے اور علوم بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا بنی آدم میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان اپنے سارے علوم کو (تولداً) پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک انسان غیر متکلم ہونے کے بعد بطور خود بات چیت کرنا سیکھتا ہے، بلکہ ہر چیز کو وہی ناطق و متکلم بناتا ہے جو خود نطق پر قادر ہو۔
2۔ اگر وہ نصاریٰ یہ کہیں کہ رب اپنے علم اور اپنے کلام کا بعض حصہ خود پیدا کرتا ہے تو ان کا اس علم کو جو کلمہ ہے، مطلق ’’ابن‘‘ (بیٹا) سے موسوم کرنا باطل ٹھہرتا ہے، اور لفظ ’’ابن‘‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے ’’بعض علم‘‘ یا اس کے ’’بعض کلام‘‘ پر ہوتا ہے، حالانکہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ مسیح ’’کلمہ‘‘ ہے اور وہ ’’مطلقاً‘‘ اقنوم علم ہے، اور یہ سارا اس سے متولد نہیں۔ اور باتفاق عقلاً یہ سب ’’ابن‘‘ سے موسوم نہیں ہو سکتا۔
3۔ عالم کے علم اور کلام کو اس کے ولد (بیٹا) سے موسوم کرنا مشہور لغات میں سے کسی میں نہیں پایا گیا۔ اور عقلاً تو یہ بات باطل ہی ہے کیونکہ اس کا علم اور اس کا کلام اسی طرح ہے جس طرح اس کی قدرت اور اس کا علم ہے۔ پس اگر یہ جائز ہو تو یہ بھی جائز ہو گا کہ انسان کی ساری صفاتِ حادثہ اس سے متولد ہیں، اور ان کو بیٹوں سے موسوم کرنا صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تولّد علم سے استدلال

متکلمین قدریہ میں سے جس نے یہ کہا ہے کہ جو علم غور و نظر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے وہ انسان سے متولد ہوتا ہے، تو یہ بات ایسی ہی ہے جیسے اس کا یہ قول ہے کہ بھوک اور پیاس سے سیر ہونا کھانے اور پینے سے پیدا (متولد) ہوا ہے۔ پھر جس طرح وہ بھوک اور پیاس سے سیر ہونے کو اس کا بیٹا نہیں کہتا، اسی طرح اسے یہ بھی نہیں کہنا چاہیئے کہ علم اس کا ابن اور ولد ہے۔ کیونکہ یہ ان اعراض و معانی کے تولد کے باب سے ہے جو انسان کے ساتھ قائم ہیں۔ اور یہ اس کے بیٹے اور اولاد نہیں کہلاتے۔ کسی نے بطور استعارہ یہ کہہ دیا ہے کہ وہ اس کے فکر کے بیٹے "بنات فکرہٖ" ہیں لیکن یہ اسی طرح، جس طرح "بنات الطریق" (راستے کی بیٹیاں) اور "ابن السبیل" (راستے کا بیٹا) کہا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد ’’مسافر‘‘ لیا جاتا ہے۔ پانی کے پرندے کو ’’پانی کا بیٹا‘‘ کہا جاتا ہے، اور یہ تسمیہ مقید ہے اور مشہور ہے کہ ان سے مراد وہ نہیں ہے جو ’’اب‘‘ (باپ) اور ’’ابن‘‘ (بیٹا) والد اور ولد سے سمجھا جاتا ہے۔ انبیاء کے کلام میں بھی یہ بات کہیں نہیں پائی جاتی کہ اللہ کی صفات میں سے کسی کو ’’ابن‘‘ سے موسوم کیا گیا ہو۔ جس نے کلامِ انبیاء میں سے کسی حصے کو اس صورت پر محمول کیا ہے، اس نے ان پر جھوٹ باندھا ہے۔ اس بات کا اقرار علمائے نصاریٰ نے بھی کیا ہے۔ ان کے پاس جو تحریرات موجود ہیں، ان میں جو ’’مسیح‘‘ اور ’’اسرائیل‘‘ وغیرھما کے متعلق ’’ابن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہ صفاتِ خالق میں سے کسی چیز کا نام نہیں، بلکہ مخلوق کا نام ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ’’مکرم و معظم‘‘ تھے۔
4۔ اس تقدیر پر سوال پیدا ہوتا ہے، کہ جو بات مسیح علیہ السلام کو حاصل ہوئی، اگر وہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور اپنے کلام سے سکھائی، تو یہ بات تمام انبیاء میں مشترک ہے۔ پھر اس بناء پر مسیح علیہ السلام کی تخصیص کی کونسی وجہ موجود ہے کہ اسے اللہ کا بیٹا کہا جائے۔ اگر بات یہ ہو کہ علم اور کلام معبود ہیں جو مسیح کے ساتھ متحد ہو گئے، تو علم و کلام کو ایسا جوہر مانا جائے گا جو قائم بنفسہٖ ہو۔ پس اگر وہ باپ ہوا تو مسیح ہی باپ ہو گا اور اگر علم و کلام کوئی اور چیز ہو تو معبود دو ہوں گے، جو خود بخود قائم (بنفسہٖ) ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک صورت صراحۃً ان کے قول کے بطلان و فساد پر دلالت کرتی ہے۔
5۔ ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ جس حقیقت کے ساتھ مسیح مختص ہے۔ وہ اس کا باپ کے بغیر پیدا ہونا ہے۔ چونکہ نوعِ بشر میں سے اس کا باپ کوئی نہیں اس لئے نصاریٰ نے رب العالمین کو اس کا باپ بنا دیا۔ نصاریٰ نجران نے نبی اکرم ﷺ سے مناظرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مسیح اللہ کا بیٹا نہیں ہے تو بتائیں کہ اس کا باپ کون ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ نصاریٰ حقیقی نبوت (بیٹا ہونا) کے مدعی ہیں۔ اور ان کے علماء کے کلام کا جو ذکر آیا ہے، وہ محض مذہب کی تاویل ہے، جس سے مقصود یہ ہے کہ اس دعویٰ کی وہ لغویت، مہملیت اور برائی زائل ہو جائے جس سے عقل انسانی متنفر و بیزار ہے۔ ورنہ مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دینے کی اور کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ پس معلوم ہوا کہ نصاریٰ نے اسے اللہ کا بیٹا قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو حاملہ کیا، اور اللہ ہی مسیح کا باپ ہے، اور یہ بات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا کوئی حصہ مریم میں نازل نہ ہو۔ حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ’’الصمد‘‘ ہے۔
عیسائیوں کا قول بعض مشرکین عرب کے قول کے مماثل ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ہاں شادی کی اور اس سے ملائکہ پیدا ہوئے‘‘ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بطور برگزیدگی بیٹا بنایا تو ایک فعلی حقیقت ہے اور ان شاء اللہ ہم اس کو باطل ثابت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے قول ’’وَرُوْحٌ مِّنْہُ‘‘ (اور روح اللہ کی طرف سے) یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا کچھ حصہ عیسیٰ بن گیا، بلکہ ’’من‘‘ ابتدائے غایت کیلئے ہے۔ چنانچہ فرمایا:
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ (سورة الجاثية)
اور مسخر کیا اس نے تمہارے لئے ان سب چیزوں کو جو آسمانوں میں ہیں، اور جو زمین میں ہیں، سب اس کی طرف سے ہیں۔
اور فرمایا:
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ (سورة النحل)
اور جو نعمت تمہارے پاس ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔
جس چیز کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے یا کہا جائے کہ ’’وہ چیز اس سے ہے‘‘ تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں، اگر وہ ایسا وجود ہو جو خود بخود قائم ہو تو وہ اللہ کا مملوک ہو گا اور ’’من‘‘ ابتدائے غایت کے لیے ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا (سورة مريم)
سو ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔
اور مسیح علیہ السلام کے متعلق ’’وَرُوحٌ مِّنْهُ‘‘ فرمایا، اور اگر وہ صفت ہو جو خود بخود قائم نہیں ہوتی تو یہ اس کی صفت ہو گی۔ چنانچہ کہا جاتا ہے ’’کلام اللہ‘‘ اللہ کا کلام اور ’’علم اللہ‘‘ اللہ کا علم۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ (سورة النحل)
اتارا ہے اسے پاک روح یعنی جبریل (علیہ السلام) نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ۔
اور فرمایا:
وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ (سورة الأنعام)
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ قرآن بھی فی الحقیقت میرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے۔
مصادر کے الفاظ مفعولوں کے مابہ التعبیر ہوتے ہیں، ’’مامور بہ‘‘ کو ’’امر‘‘ سے اور ’’مقدور‘‘ کو ’’قدرت‘‘ سے، ’’مرحوم بہ‘‘ کو ’’رحمت‘‘ سے اور ’’مخلوق بالکلمہ‘‘ کو ’’کلمہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سو جب مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ ’’کلمۃ اللہ‘‘ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ "وہ اللہ کے کلمہ سے پیدا کیا گیا ہے"۔ پھر یہ کہ وہ طریق معتاد پر نہیں بلکہ ’’کن‘‘ کہہ کر پیدا کیا گیا ہے۔ ورنہ عیسیٰ علیہ السلام ہے جو خود بخود قائم ہے۔ وہ صفت کلام نہیں ہے جو متکلم کے ساتھ قائم ہو۔
 
Top