السلام علیکم!
محمد فیض الابرار صاحب۔ یعنی آپ مجھ سے تفسیر میں یہ پوچھنا چہا رہے ہیں کہ۔
الحمد اللہ کی تفسیر۔
ساتوں قاری «الْحَمْدُ» کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور روبہ بن عجاج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «دال» پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔
ابن ابی عبلہ رحمہ اللہ «الْحَمْدُ» کی «دال» کو اور «اللہ» کے پہلے «لام» دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس «لام» کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے، مگر شاذ ہے۔
حسن رحمہ اللہ اور زید بن علی رحمہ اللہ ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور «لام» کے تابع «دال» کو کرتے ہیں۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بےشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:125/1)
«الْحَمْدُ لِلَّهِ» یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں گویا یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو «الْحَمْدُ لِلَّهِ» بعض نے کہا کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور «الشُّكْرُ لِلَّهِ» کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:138/1) لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لیے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق رحمہ اللہ، ابن عطا صوفی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں۔
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔جو میں سمجھا آپ یہ کچھ پوچھنا چہا رہے ہیں۔
اور آپ یہ کہنا چہا رہے ہیں جو میرا خیال بھی ہو سکتا ہے یہ جو آپ کے جواب سے معلوم ہو جائے گا۔
کہ آپ یہ کہنا چہا رہے ہیں کہ اگر ابن کثیر،یا اور دوسری تفاسیر کی کتابیں نہ ہوتیں تو ہم قرآن مجید سمجھ نہیں سکتے تھے۔
یعنی اگر یہ تفاسیر آج 2017 میں موجود نہ ہوتی تو ہم لاوارس تھے۔ہمیں قرآن مجید کی تعلیم سے مہروم تھے؟
اب اگر آپ اسلام کے ابتدائی دور میں جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ۔
قرآن مجید نزول کے ساتھ ساتھ لکھوایا بھی کیا اور ساتھ ساتھ زبانی یاد بھی کرایا گیا یعنی اس کی قرائت کو بھی یاد کروایا گیا اسی طرح یہ معجزہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس میں کوئی شک نہیں کوئی بھی قرآن مجید اٹھا لیں تمام ایک جیسے ہیں عربی زبان۔
اردو مفہوم میں کہیں کچھ اپنے اپنے فرقہ نے ڈنڈی مارنے کی کوشش کی لیکن باقی آیات نے اس کی تفسیر فرما دی ۔
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ تفسیر کے بغیر ہم قرآن سمجھ نہیں سکتے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ہی بندوں سے کام لیتا ہے اور آج 2017 میں ہمارے پاس یہ قرآن مجید واقع لاریب شکل میں موجود ہے ۔ جس کا کوئی علم والا انسان اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
اب اسی تفسیر کو دیکھ لیں کوئی عالم کہتا ہے۔کوئی کچھ کہہ رہا تو کوئی کچھ کوئی کہ رہا نہیں یہ بات درست نہیں کوئی کہہ رہا فلاں بات درست ہے ۔ یہ کیسی تفسیرں ہیں جن کو آپ لاریب کی طرح پوچتے ہیں۔