• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے انکل کی ان محنتوں کو قبول فرمائے آمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔ کن لفظوں میں آپ کا شکریہ ادا کریں،،،،،،،،،،اخی محترم،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو دنیا و آخرت میں کامیاب کریں۔ آمین،۔
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے انکل کی ان محنتوں کو قبول فرمائے آمین
آمین یا رب العالمین۔ وایاکم
کتاب کا آخری حصہ "ضمیمہ"بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ضمیمہ

رسول کی اتباع و اطاعت کی اہمیت جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن کی وہ تمام آیات کامطالعہ کریں جن میں رسول پر ایمان لانے کا حکم ہے، یا جن میں رسول کی اطاعت و اتباع کو لازم قرار دیا گیا ہے، اور اس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، وہ آیات درج ذیل ہیں:
{ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَنَذِیْرًا } (البقرۃ)
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
{ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ } (البقرۃ)
اور جس قبلہ پر کہ آپ ہیں، وہ ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے، اور کون الٹے پاؤں کفر کی طرف واپس ہو جاتا ہے، اور رسول کی اطاعت اگرچہ بہت مشکل چیز ہے، مگر ان لوگوں کے لیے کچھ مشکل چیز نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اتباع رسول کتنی اہمیت کی چیز ہے کہ اس کی جانچ کے لیے احکام میں ترمیم و تنسیخ کی جا رہی ہے۔ ایسی ایسی باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ جن میں بظاہر کوئی اہمیت نظر نہیں آتی، تاکہ رسول پر ایمان لانے والے اور اپنی عقلوں پر ایمان لانے والوں میں امتیاز پیدا ہو جائے، اور رسول کے سچے متبعین، جھوٹوں سے ممتاز ہو جائیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اتباع رسول ہدایت والے ہی کرسکتے ہیں، اور جو اتباع رسول سے منہ موڑتے ہیں، محض اس لیے کہ حکم رسول کی مصلحت ان کی عقل میں نہیں آتی، وہ گویا کفر کی طرف واپس ہو جاتے ہیں۔
{ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ } (البقرۃ)
یہ نیکی نہیں ہے کہ مشرق کی طرف منہ کیا جائے یا مغرب کی طرف بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، قیامت پر، فرشتوں پر، کتاب پر، اور انبیاء پر ایمان لائے۔
{ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا } (البقرۃ)
ہر ایک ایمان لایا اللہ پر، اور اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، مومن اسی طرح کہتے ہیں کہ ہم رسولوں میں سے کسی ایک میں تفریق نہیں کرتے، اور اس طرح کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کی بات سنی، اور ہم نے اطاعت کی۔
{ فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلہِ وَ مَنِ اتَّبَعَن } (اٰل عمران)
پس اگر کافر حجت کریں تو کہہ دیجئے کہ میں نے اللہ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیا ہے، اور یہی کام ان لوگوں نے بھی کیا ہے، جو میری اتباع کرتے ہیں۔
{ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ } (اٰل عمران)
کہہ دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے، تو میری اتباع کرو، پھر اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اتباع رسول کرے ، خواہ اللہ سے محبت کرنے والا مرکز ملت ہو یا عام آدمی، خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اللہ اسی شخص سے محبت کرتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے۔
{ قُلْ اَطِیْعُوا اللہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ } (اٰل عمران)
کہہ دیجئے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اگر تم اس اطاعت سے منہ موڑو، تو اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں کرتا۔
گویا اطاعت رسول سے انحراف کفر ہے، اور غصب الٰہی کا سبب ہے۔
{ رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ } (اٰل عمران)
عیسیٰ علیہ السلام کے حواری دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے اس پر جو تو نے نازل فرمایا، اور ہم نے رسول کی پیروی کی، پس ہم کو شاہدین کے ساتھ لکھ لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کتاب الٰہی پر ایمان لانے کا ذکر کرکے پھر اتباع رسول کا ذکر کیا، حالانکہ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ اس کتاب کی ہم نے پیروی کی، لیکن اتباع رسول کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا، گویا اتباع رسول کے بغیر ایمان و عمل بے کار ہے۔
{ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ھٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } (اٰل عمران)
ابراہیم سے تو ان لوگوں کا تعلق ہے، جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اس نبی کا تعلق ہے اور مومنین کا تعلق ہے۔
یہاں بھی رسول کی پیروی پر زور دیا گیا ہے۔
{ وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ } (اٰل عمران)
اور جب اللہ نے انبیاء سے عہد لیا کہ جب تمہیں کتاب اور حکمت مل جائے، پھر کوئی نبی مبعوث ہو، جو تمہاری شریعت کی تصدیق کرتا ہو، تو اس پر ضرور ایمان لانا، اور اس کی مدد کرنا۔
{ وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللہِ وَ فِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ } (اٰل عمران)
تم کیسے کفر کرسکتے ہو، حالانکہ تمہارے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جا رہی ہیں اور اللہ کا رسول تم میں موجود ہے۔
گویا اللہ کے رسول کی موجودگی بہت ہی اہمیت رکھتی ہے۔
{ وَاَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } (اٰل عمران)
اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
گویا بغیر اطاعت رسول کے رحمت کی امید فضول ہے۔
{ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللہُ الشّٰکِرِیْنَ} (اٰل عمران)
محمد رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بھی رسول ہوچکے ہیں پس اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں کفر کی طرف واپس ہو جاؤ گے، اور جو کوئی واپس ہوگا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزائے خیر دے گا۔
{ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ } (اٰل عمران)
بے شک اللہ نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے، اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔
آیت نمبر ۱۳ میں فرمایا کہ شکر کرنے والوں کو جزا ملے گی اور آیت نمبر ۱۴ میں فرمایا کہ رسول کی بعثت احسان عظیم ہے۔ لہٰذا شکر بھی اس احسان ہی کا ادا کرنا مقصود ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے گا، جو بعث رسول کا شکر ادا کرتے ہیں اور وہ اس طرح نہیں کہ اس کی زندگی میں شکر ادا کریں، اور موت کے بعد نہیں، یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک نکتہ بیان فرمایا ہے، وہ یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بہرحال ایک رسول ہیں۔ لہٰذا ان کو موت آنا لازمی ہے، تو پھر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اطاعت کو زیست کا تابع بنا دیا جائے اور بعد میں اطاعت سے منہ موڑ لیا جائے، نہیں بلکہ رسول اور اس کی اطاعت کا سوال اس کی زیست کے ساتھ وابستہ نہیں، بلکہ دائمی ہے، اگر اس کی رسالت دائمی ہے، تو اطاعت بھی دائمی ہے۔
{وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰی۔ٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ }(اٰل عمران)
اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردیا، جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کا قلع قمع کررہے تھے یہاں تک کہ تم نے نامردی دکھائی اور حکم رسول میں اختلاف کیا، اور اس کے حکم کی نافرمانی کی، حالانکہ حسب دلخواہ تم کو فتح مل چکی تھی۔
گویا حکم رسول کی تاویل کرنے کی شامت میں فتح و کامرانی کو مصیبت میں تبدیل کردیا گیا۔
{ مَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رُسُلِہٖ } (اٰل عمران)
تم میں سے کسی کو اللہ غیب پر مطلع نہیں کرتا لیکن اپنے رسولوں کو اس کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے، پس تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔
بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ رسول جسے غیب پر مطلع کیا گیا ہو، اس کی تشریح قرآنی غیر مستند ہو، اور دوسروں کی مستند مانی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلٰی رُسُلِکَ } (اٰل عمران)
اے ہمارے رب ہمیں وہ چیزیں عطا فرما، جو تو نے اپنے رسول کے ذریعہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔
یہاں بھی کتاب الٰہی کا ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ کتاب الٰہی میں تمام وعدے نہیں ہوتے، بلکہ تمام وعدوں کا جامع رسول ہے، اس کے بیان میں کتاب الٰہی کے علاوہ دوسرے وعدے میں شامل ہوتے ہیں۔
{ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ } (النساء)
جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اللہ اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
{ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ } (النساء)
اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اس کے حدود سے آگے نکل گیا، اللہ اس کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں داخل کرے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہوگا۔
{ یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِھِمُ الْاَرْضُ وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللہَ حَدِیْثًا } (النساء)
قیامت کے دن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، اور رسول کی نافرمانی کی ہوگی یہ چاہیں گے کہ کاش انہیں مٹی میں ملا دیا جائے اور وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے۔
{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا } (النساء)
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے امراء کی ہاں اگر امراء سے تمہارا اختلاف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور عمدہ بات ہے۔
دو جگہ '' اَطِیعوا'' کا لفظ ذکر کرکے رسول کی اطاعت کو مستقل حیثیت دی گی ہے اور اس سے اختلاف کو جائز ہی نہیں سمجھا گیا، بلکہ تمام اختلافات کے وقت اس کی طرف رجوع کرنے کو ایمان کی نشانی بتایا گیا ہے۔
{ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا } (النساء)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کی نازل کردہ شریعت کی طرف اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافقین آپ کے پاس آنے سے اعراض کرتے ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول سے اعراض کرنے والا منافق ہے اگر '' الی ما انزل اللہ'' اور '' الی الرسول'' کی درمیانی واؤ کو واؤ تفسیری مانا جائے، تو صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ رسول کہے وہ سب '' ما انزل اللہ'' ہے اور اگر اس واؤ کو واؤ معطوفہ مانا جائے، اور '' ما انزل اللہ'' سے قرآن مراد لیا جائے، تو پھر یہ ظاہر ہے کی الی الرسول قرآن کے علاوہ مستقل ماخذ قانون ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ } (النساء)
اور ہم نے ہر رسول کو اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
یہاں بھی کتاب الٰہی کا ذکر نہیں کیا، بلکہ رسول کی اطاعت کا ذکر کیا، تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے اور لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ بس کتاب الٰہی کی اطاعت ہم پر فرض ہے، کیونکہ وہ اللہ کی اطاعت ہے اور اللہ کے ساتھ دوسرے کی اطاعت شرک ہے۔ لہٰذا اللہ ہی نے فرما دیا کہ ہمارے حکم سے رسول کی اطاعت کرو، گویا رسول کی اطاعت ہمارے حکم دینے کی وجہ سے شرک نہ ہوگی، بلکہ رسول ہونے کی وجہ سے وہ جو کچھ کہے گا، وہ ہمارا ہی حکم ہوگا۔ اس کا ذاتی حکم نہ ہوگا، ہاں اگر تم اپنی طرف سے کسی کی اطاعت کرو گے تو یہ شرک ہوگا، کیونکہ اللہ نے اس کی اطاعت کا حکم نہیں دیا اور اسی ضمن میں ائمہ کی تقلید بھی آجاتی ہے، جو شرک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی امام کی تقلید ہم پر فرض نہیں کی نہ اس کی اجازت دی، صرف رسول کی اطاعت کا حکم دیا، لہٰذا رسول کی اطاعت شرک نہیں، بلکہ اللہ کے حکم سے فرض عین ہے۔
یہاں ''رسول'' سے مراد مرکز ملت لینا کسی طرح صحیح نہیں، اس لیے کہ مرکز ملت کو اللہ نہیں بھیجتا بلکہ لوگ منتخب کرتے ہیں اور آیت میں بھیجنے کا ذکر ہے، لہٰذا رسول ہی کی اطاعت مستقلاً فرض ہے نہ کہ کسی اور کی۔
{ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا } (النساء)
آپ کے رب کی قسم لوگ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ سے دل میں تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ برضاو رغبت تسلیم کرلیں۔
اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و اطاعت کو کتنے مہتم بالشان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، کون کہہ سکتا کہ اس سے مرکز ملت کی اطاعت مراد ہے۔ اور پھر صرف عملی اور ظاہری اطاعت پر ہی زور نہیں دیا گیا، بلکہ دل کی اطاعت اور کشادگی پر بھی زور دیا گیا ہے، گویا ایمان کی شان یہ ہے کہ رسول کی بات دل سے مانی جائے، اس پر ایمان ہو جو شخص عملاً تو اطاعت کرتا ہے، لیکن دل سے تسلیم نہیں کرتا، آیت کی رو سے وہ بھی مومن نہیں، چہ جائے کہ وہ شخص جو نہ دل سے مانے نہ عمل سے، وہ تو کھلا باغی ہے۔
{ وَ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ } (النساء)
جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔
{ مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ } (النساء)
جس نے رسول کی اطاعت کی، پس در حقیقت اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔
گویا رسول کی اطاعت عین اطاعت الٰہی ہے اور اس بنا پر رسول کی اطاعت شرک نہیں ہے، اس لیے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے، اپنی طرف سے نہیں کہتا، بلکہ وہ تو احکام خداوندی پہنچاتا ہے۔
{ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآءَت مَصِیْرًا } (النساء)
جو شخص ہدایت کے ظاہر ہو جانے کے بعد رسول کے خلاف چلے اور مسلمانوں کے راستہ کے علاوہ کسی اور راستہ کو اختیار کرے، تو ہم بھی اسے اُدھر ہی جانے دیں گے اور اس کو دوزخ میں داخل کریں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
چودہ سو سال سے مسلمانوں کا یہی راستہ رہا ہے کہ وہ اللہ و رسول سے قرآن و حدیث ہی مراد لیتے رہے، اب جو اس راستہ کو چھوڑ کر اللہ و رسول کے معنی مرکز ملت کرتا ہے، وہ گویا ہدایت کے آجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا} (النساء)
اے ایمان والو! ایمان لاؤ، اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس پر نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی جو پہلے نازل کی گئی ہے، اور جو انکار کرے اللہ کا، اور اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اور اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا تو وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا} (النساء)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے مابین تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں لاتے اور چاہتے ہیں کہ درمیان میں کوئی راستہ نکال لیں، ایسے لوگ ہی حقیقی کافر ہیں۔

{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا} (النساء)
اے ایمان والو! ایمان لاؤ، اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس پر نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی جو پہلے نازل کی گئی ہے، اور جو انکار کرے اللہ کا، اور اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اور اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا تو وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا} (النساء)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے مابین تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں لاتے اور چاہتے ہیں کہ درمیان میں کوئی راستہ نکال لیں، ایسے لوگ ہی حقیقی کافر ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو اہل کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے، وہ کافر ہے۔
{ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْھِِمْ اُجُوْرَھُمْ وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } (النساء)
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں تفریق نہیں کی، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے گا اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
{ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } (النساء)
اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے، بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تاکہ لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس آیت میں بھی کتاب الٰہی کو حجت تمام کرنے والا نہیں فرمایا کیونکہ کتب الٰہی کی موجودگی میں اختلافات باقی رہ سکتے ہیں۔ اور گمراہی پھیل سکتی ہے، لیکن رسول کے آجانے کے بعد اختلافات ختم ہوجاتے ہیں، تاویلات بعید کا سدباب ہو جاتا ہے اور اختلافات اور گمراہی پر اڑے رہنے کی کوئی حجت باقی نہیں رہتی، گویا رسول کی ذات ہی اتمام حجت ہے، اور بس۔
{ یٰا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَکُمْ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَاْمِنُوْا خَیْرًا لَکُمْ } (النساء)
اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آگیا، پس ایمان لے آؤ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
{ فَامِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ } (النساء)
پس اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ۔
{ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْھُمْ } (المائدہ)
(اے بنی اسرائیل) میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی، اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی اعانت کی۔
{ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ } (المائدہ)
اے اہل کتاب بے شک تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا، جو شریعت کی ان باتوں میں سے جو تم چھپاتے تھے بہت سی باتوں کو بیان کرتا ہے اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے۔
{ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْم بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآءَکُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ } (المائدہ)
اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے، جو اگلے رسولوں کے آنے کے بہت مدت بعد آیا ہے کہ کہیں تم یہ نہ کہہ دو کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر اور نذیر آیا ہی نہیں لہٰذا اب تمہارے پاس بھی بشیر اور نذیر آگیا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی طرف بھی نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں، نہ کہ صرف مکہ کے کفار کی طرف جیسا کہ بعض لوگ غلط فہمی سے کہہ دیا کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَ اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ} (المائدہ)
اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور ڈرتے رہو، اگر تم اس کی اطاعت سے منہ موڑو، تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ تو صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
{ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَنَا اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ } (المائدہ)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں کہ جس راستہ پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا وہی کافی ہے کیا ایسی حالت میں بھی جب کہ ان کے آباؤ اجداد کو کچھ علم ہی نہ تھا اور نہ وہ ہدایت یافتہ تھے۔
اس آیت سے رسول کا ماخذ قانون ہونا بالبداہت ثابت ہے۔
{ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ } (المائدہ)
مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ۔
{ وَ اِذَا جَآءَْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللہِ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ} (الانعام)
اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں بھی ویسی ہی چیز نہ ملے جیسی اللہ کے رسولوں کو ملی، اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کو دے۔
اس آیت سے منصب رسالت کی بلندی آشکارا ہے، ایسی بلند مرتبہ شخصیت کی تشریح کے ہوتے ہوئے دوسرے شخص کی تشریح کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی شریعت میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہے۔
{ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن } (الاعراف)
میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، میں اپنی رحمت کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو رسول ، نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جس کا تذکرہ وہ تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ رسول ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے، بری باتوں سے روکتا ہے ، ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان کے طوق اور بوجھ اتار کر پھینک دیتا ہے جو طوق اور بوجھ ان پر رکھ دئیے گئے تھے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے ، اس کو قوت دی، اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اتباع رسول کی اہمیت کو کتنے شاندار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، پھر شریعت سازی کو اللہ تعالیٰ نے رسول کی طرف منسوب کرکے بتا دیا کہ جو کچھ رسول کہے ، وہ دین ہے، وہ نور ہے، اس کی اتباع موجب فلاح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ } (الاعراف)
کہہ دیجئے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، وہ اللہ جس کی حکومت آسمانوں میں اور زمینوں میں ہے، اس کے سوائے کوئی حاکم و معبود نہیں، وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے، پس اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول، نبی اُمی پر بھی ایمان لاؤ، وہ نبی بھی اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور تم اس ہی کی پیروی کرو تاکہ تمہیں ہدایت مل جائے۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اتباع رسول کے بغیر ہدایت نہیں مل سکتی کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس آیت اور گزشتہ آیت میں رسول سے مراد مرکز ملت ہے۔
{ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللہَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَ اَطِیْعُوا اللہَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } (الانفال)
کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ تعالیٰ اور رسول کے لیے ہے، پس اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے معاملات کی اصلاح کرو، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو۔
{ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ شَآقُّوا اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ } (الانفال)
کافروں پر یہ مصیبت اس لیے آئی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے، پس بیشک اللہ سخت عذاب والا ہے۔
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ } (الانفال)
اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اس سے منہ مت موڑو ایسی حالت میں کہ تم اس کا حکم سن رہے ہو۔
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ } (الانفال)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے احکام قبول کرو، جب وہ تمہیں بلائیں، ایسی چیز کی طرف جس کے ذریعہ تمہیں اصلی زندگی نصیب ہو۔
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (الانفال)
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی خیانت مت کرو، اور جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں بھی خیانت مت کرو۔
{ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ } (الانفال)
خبردار ہو جاؤ کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور رسول کے لیے ہے، اقربا، یتامی، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔
{ وَ اَطِیْعُوا اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ } (الانفال)
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ نامرد ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
{ بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ } (التوبۃ)
جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا تھا اللہ اور اس کا رسول ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔
{ وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللہَ بَرِیْٓئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ رَسُوْلُہٗ } (التوبۃ)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن اعلان عام ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں۔
اس آیت کے آخری حصہ میں اللہ اور اس کے رسول کے درمیان '' بَرِیٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ''کے الفاظ ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول دو مختلف ہستیاں ہیں، نہ یہ کہ '' اللہ و رسول'' ایک ہی ہستی ہے یعنی '' مرکز ملت'' اگر بالفرض محال ایسا ہوتا بھی تو دونوں کو اس طرح علیحدہ نہ کیا جاتا، بلکہ جہاں اللہ تھا اس کے متصل رسولہ بھی ہوتا، اور کیونکہ ایسا نہیں ہے، لہٰذا بالبداہت ثابت ہوا کہ '' اللہ و رسول'' سے مراد مرکز ملت ہرگز نہیں اور یہ آیت اس زعم باطل کے پرخچے اڑانے کے لیے بھرپور وار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ عِنْدَ اللہِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ } (التوبۃ)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک مشرکین کے لیے عہد کیسے ہوسکتا ہے ہاں جن سے تم نے مسجد حرام کے قریب معاہدہ کیا ہے، وہ مستثنیٰ ہیں۔
یہاں بھی '' عند اللہ و رسولہ'' نہیں ہے بلکہ '' عند اللہ'' اور '' عند رسولہ'' علیحدہ علیحدہ ہیں اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ یہ دو ہستیاں ہیں نہ کہ دونوں کو ملا کر ایک ہستی اسی طرح اللہ اور رسول کے ساتھ '' اطیعوا'' علیحدہ علیحدہ آنا بھی اسی بات کو ثابت کرتا ہے۔
{ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَ لَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً وَ اللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ } (التوبۃ)
کیا تم گمان کرتے ہو کہ یوں ہی چھوڑ دئیے جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ معلوم ہی نہیں کیا کہ کون تم میں سے جہاد کرتا ہے، اور کون اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مومنین کے علاوہ کسی کو دوست نہیں بناتا اور اللہ کو سب خبر ہے، جو تم کر رہے ہو۔
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے رسول کو اپنے سے اور مومنین سے علیحدہ ذکر کیا ہے، نہ کہ اللہ اور رسول کو ایک جگہ جمع کیا، جس سے مرکز ملت مراد لیا جائے اور نہ رسول کو مومنین میں شمار کیا، بلکہ رسول کو مومنین کا مطاع ہونے اور اپنا رسول ہونے کے لحاظ سے الگ ذکر کرکے اس کے بلندی مقام کی طرف اشارہ کیا، اس سے یہ دعویٰ بھی باطل ہوگیا کہ '' کیونکہ رسول بھی مومن ہے، لہٰذا اس پر بھی اللہ و رسول یعنی مرکز ملت کی اطاعت فرض ہے'' اس دعویٰ کی حقیقت ایسی ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ '' نفس اللہ کا بھی ہے'' جیسا کہ اس آیت میں۔
{ وَیْحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہٗ } (البقرۃ)
اللہ تعالیٰ اپنے نفس سے تم کو ڈراتا ہے۔
لہٰذا اللہ کو بھی (نعوذ باللہ) موت آئے گی ، جیسا کہ اس آیت میں ہے۔
{ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ } (اٰل عمران)
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
رسول کو مومنین میں شمار کرکے اس پر مرکز ملت کی اطاعت کو فرض قرار دینا ایسا کمزور دعویٰ ہے کہ اس کے توڑنے کی چنداں حاجت ہی نہیں ہے۔
 
Top