• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَیُغْنِہِمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ } (النور)
غیر شادی شدہ مردوں، عورتوں کا نکاح کردیا کرو اور تمہارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہوں ان کا نکاح کردیا کرو، اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کردے گا۔
{ وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ } (النور)
جو لوگ نکاح نہیں کرسکتے انہیں چاہیے کہ پاک دامن رہیں، یہاں تک اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کردے۔
پہلی آیت میں ہے کہ شادی سے فقر دور ہو جاتا ہے، دولتمندی آتی ہے، اور دوسری میں ہے کہ شادی سے پہلے فقر کو دور کرلو، دولتمندی حاصل کرلو، پھر شادی کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ } (البقرۃ)
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔
{ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ } (الکھف)
ابلیس جن تھا، اس لیے اس نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا، اور دوسری میں ہے کہ وہ جن تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ } (البقرۃ)
جو لوگ کافر ہیں، انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
{ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا } (النصر)
آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔
پہلی آیت میں ہے کہ ایمان نہیں لائیں گے اور دوسری میں ہے کہ فوج در فوج ایمان لے آئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ } (البقرۃ)
قرآن متقی لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔
{ ھُدًی لِلنَّاسِ } (اٰل عمران)
سب لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔
پہلی آیت میں صرف متقی لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور دوسری میں ہے کہ سب لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔
{ وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } (البقرۃ)
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ لیا، تو ان کے آنے کے بعد تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا، اور تم بڑے ظالم ہو، پھر ہم نے تم کو معاف کردیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ ذِلَّۃٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ } (الاعراف)
جنہوں نے بچھڑے کو معبود بنالیا، ان پر اللہ کا غضب ہوگا، اور دنیا کی زندگی میں ذلت نصیب ہوگی، اور افترا پردازی کرنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔
پہلی آیت میں ہے کہ سب کو معاف کردیا اور دوسری میں ہے کہ سب کو یا بعض کو عذاب ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَ اُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ } (ھود)
اور اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ تمہاری قوم میں سے اب کوئی ایمان نہیں لائے گا، سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں۔
{ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَہَارًا ۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآئِیْٓ اِلَّا فِرَارًا... رَبِّ لَا تَذَرْا عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الکافِرِیْنَ دَیَّارًا } (نوح)
نوح علیہ السلام نے کہا اے رب میں نے اپنی قوم کو دن رات تبلیغ کی لیکن وہ اور زیادہ ہی بھاگے... اے رب اب کافروں کو زمین پر زندہ نہ چھوڑ۔
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایمان لانے سے اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو نا امید کیا دوسری سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود نا امید ہوئے، اور ہلاکت کی دعا کی۔
{ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ } (اٰل عمران)
اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔
{ وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِنْ مَائٍ } (النور)
اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خلاصہ
غرض یہ کہ اس قسم کی متعدد آیات ایسی ہیں، جو غلط فہمی کی وجہ سے بظاہر ایک دوسرے سے متعارض نظر آتی ہیں، اب کیا ہمارا یہ فرض ہے کہ دونوں کو یا ایک کو مسترد کردیں نہیں، ہرگز نہیں، اور نہ ہم ایسا کرتے ہیں، اور نہ برق صاحب ایسا کریں گے اور جب ایسا نہیں کرتے تو کوئی صورت تطبیق کی نکالنی پڑتی ہے اور ظاہری تضاد کو دور کرلیتے ہیں، تو پھر آخر کیا مشکل ہے کہ اگر احادیث میں غلط فہمی کی وجہ سے تضاد نظر آئے، تو ان میں تطبیق کے عمل کو بالائے طاق رکھ کر مسترد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، احادیث کے اختلاف کو اکثر لوگوں نے ایک ہوا بنا رکھا ہے حالانکہ ایسا اختلاف تو قرآن میں بھی موجود ہے، پھر کیا قرآن کو چھوڑ دیا جائے؟ اگر نہیں تو احادیث کو چھوڑنے کی کیا وجہ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ساری امت حدث کو اسلام سمجھ بیٹھی ہے۔ (دو اسلام ص ۳۴۹) ۔
ازالہ
تو پھر برق صاحب آپ کا عقیدہ ساری امت کے خلاف کیوں؟ یہ صحیح ہے کہ ساری امت حدیث کو اسلام سمجھتی ہے اور اس کو سمجھنا ہی چاہیے، اس لیے کہ اس کے بغیر قرآن بازیچہ اطفال بن کر رہ جاتا ہے، جو چاہے جیسے معنی کرلے اور اس کی مثال میں گزشتہ صفحات میں اور خصوصاً تمہید میں دے چکا ہوں اور میرا خیال تو یہ ہے کہ حدیث کو اسلام تو آپ بھی سمجھتے ہیں ہاں موضوع حدیث کو آپ اسلام نہیں سمجھتے جیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے۔
اسلام دو ہیں، ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے، اور دوسرا وضعی احادیث کا اسلام۔ (دو اسلام ص ۲۰)
ہم بھی اس وضعی احادیث کے اسلام کی مخالفت میں آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:
حاشا وکلا مجھے حدیث سے بغض نہیں، بلکہ ان انسانی قوال سے ضد ہے، جنہیں یہودیوں، زندیقوں اور ہمارے فرقہ باز راہنماؤں نے تراش کو مہبط الوحی صلعم کی طرف اس لیے منسوب کردیا تھا کہ خدا رسول اور قرآن کا کوئی وقار دنیا میں باقی نہ رہے۔ (دو اسلام ص ۵۹)
ہمیں بھی آپ کے ارشاد سے اتفاق ہے، بے شک بعض لوگوں نے حدیثیں گھڑیں، لیکن وہ حدیثیں الگ چھانٹ دی گئیں، پھر آپ ہی کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:
ائمہ حدیث میں ایسے بزرگ بھی پائے جاتے ہیں، جن پر ملت اسلامیہ کو ہمیشہ ناز رہا ہے، ان کا علمی مقام اتنا بلند اور ان کے ثقافتی کارنامے اتنے عظیم ہیں کہ ہمیں ان پر تنقید کی جرأت ہی نہیں ہوسکتی۔ (دو اسلام ص ۹۴)
ہم بھی آپکی تائید کرتے ہیں، آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے، بلکہ آپ کا تو اقوال رسول پر ایمان ہے، جیسا کہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
م: تو کیا اقوال رسول قابل ایمان نہیں؟
ب: کیوں نہیں! بشرطیکہ کہیں سے کوئی قول رسول مل جائے، رونا تو اسی بات کا ہے کہ اقوال رسول کا دستیاب ہونا بے حد دشوار ہے، اگر اقوال رسول مل جاتے تو مجھے یقین ہے کہ ہر لفظ قرآن حکیم کی تشریح ہوتا، اور قرآن پہ ایمان لاتے ہی وہ ہمارے دائرہ ایمان میں شامل ہو جاتے۔ (دو اسلام ص ۱۱۱)
گویا برق صاحب اقوال رسول پر ایمان لانا ضروری سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک اقوال رسول قرآن حکیم کی تشریح ہیں اور ہمیں بھی برق صاحب سے اس معاملہ میں کلیۃً اتفاق ہے، اب رہی یہ بات کہ اقوال رسول ہیں کہاں؟ تو برق صاحب خود آپ ہی کا ارشاد ہے کہ بہت سے اقوال رسول موجود ہیں، محدثین نے کھرا کھوٹا الگ کردیا ہے، آپ کی عبارات یہ ہیں۔
بحمد اللہ کہ اسلام میں کچھ محققین بھی ہو گزرے تھے جنہوں نے ایسے تمام واقعات پر سخت تنقید کی، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔ (دو اسلام ۹۰)
اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ امام مالک کا کردار تقدس اور خلوص تمام شبہات سے دراتر تھا، اور کہ انہوں نے صحیح کو غلط سے جدا کرنے کے لیے تمام انسانی ذرائع استعمال کئے ہوں گے۔ (دو اسلام ص ۱۶۲)
اس میں کلام نہیں کہ امام بخاری (وفات ۲۵۶ھ) نے صحیح احادیث کی تلاش میں لمبے لمبے سفر کئے، ہر حدیث کو پرکھنے کے لیے تمام امکانی وسائل اختیار فرمائے... راویوں کا کھوج لگایا، ہر قابل ذکر محدث سے مشورہ کیا، اور سالہا سال کی مسلسل جستجو اور تگاپو کے بعد اپنا مجموعہ تیار کیا۔ (دو اسلام ص ۱۷۵)
برق صاحب کو اعتراف ہے کہ اس مجموعہ صحیح بخاری میں صرف چند احادیث ناقابل اعتناء ہیں، ان کے الفاظ یہ ہیں:
اس مجموعہ میں چند ایسی احادیث موجود ہیں ... ۔
گویا ان چند کو نکال کر باقی احادیث کو برق صاحب بھی صحیح سمجھتے ہیں، برق صاحب کو یہ شبہ تھا کہ اقوال رسول کہیں ہیں ہی نہیں، لیکن اب وہ خود ہی تسلیم کر رہے ہیں کہ چند احادیث کو نکال کر صحیح بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ فللہ الحمد
لہٰذا ان سے گزارش ہے کہ اس مجموعہ پر اب ان کو اعتماد کرلینا چاہیے، چند احادیث کے متعلق جو شکوک تھے، وہ دور کردئیے گئے، لہٰذا پورا مجموعہ صحیح بخاری قطعاً صحیح ہے، پھر برق صاحب آپ ہی نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ:
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی صحیح حدیث موجود ہی نہیں۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
دوم: کہ حدیث کا مضمون صحیح ہو، اور ان معنوں میں ہزاروں احادیث صحیح ہیں۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
آپ ہی کا ارشاد ہے کہ:
اس طرح کی ہزارہا احادیث ہمارے پاس موجود ہیں، جو نہ صرف تعلیمات قرآن کے عین مطابق ہیں، بلکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مطہرہ کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں، صحابہ کرام کی جرأت، شجاعت، ایثار، سرفروشی، خدمت خلق، حرارت ایمانی، عشق رسول، تقویٰ اور نظم و ضبط کی حیات انگیز داستانیں سناتی ہیں، اس عہد کے تمدن پر مکمل روشنی ڈالتی ہیں، اور بتاتی ہیں کہ اسلام کی حیرت انگیز ترقی کے اسباب کیا تھے؟ اکا سرہ کیوں مٹ گئے، قیاصرہ کو کیوں شکست ہوئی، مٹھی بھر مسلمان سندھ کے ریگستان سے فرانس کی عشرت گاہوں تک کیسے چھا گئے؟ لٹیرے فرمانروا کیسے بن گئے؟ گڈرئیے اورنگ جہانبائی پہ کیسے جا بیٹھے؟ وحشی فلسفہ و حکمت کا درس کیسے دینے لگے؟ شرابیوں اور جواریوں میں اس بلا کی پاکیزگی کہاں سے آگئی؟ ۳۶۰ بتوں کے پجای ایک خدا، ایک قبلہ، ایک مرکز اور ایک نصب العین کے تخیل پہ کیسے متحد ہوگئے؟
یہ تمام تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں، اور یہی وہ بیش بہا سرمایہ ہے، جس پہ ہم نازاں ہیں، اور جس سے اب تک کروڑوں غیر مسلم متاثر ہوچکے ہیں، مولانا شبلی کے ''الفاروق'' کا ماخذ یہی احادیث تھیں، اور یہ وہ کتاب عظیم ہے، جو اس وقت تک لاکھوں کیر کٹر (کردار) بنا چکی ہے اگر عہد رسول کے ایک فرد کی سیرت اس قدر انقلاب پیدا کرسکتی ہے تو اندازہ لگائیے کہ اگر احادیث کے تمام کردار اسی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کردئیے جائیں تو نتائج کس قدر حیرت انگیز ہوسکتے ہیں۔ (دو اسلام ص ۳۴۲، ۳۴۳)
برق صاحب آپ کی یہ عبارات بتا رہی ہیں کہ صحیح اقوال رسول آپ کو مل چکے ہیں، ہزارہا احادیث صحیح موجود ہیں، جن پر آپ نازاں ہیں، لہٰذا اب کیوں نہ ان احادیث پر آپ کا ایمان ہوگا، ضرور ہوگا، کیونکہ آپ نے اپنے آخری باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے کہ:
''صحیح احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فللہ الحمد
خلاصہ کتاب
برق صاحب ! غلط فہمی سے آپ نے تدوین حدیث اور بعض صحیح احادیث پر اعتراض کئے، اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ کی ان غلط فہمیوں کا گزشتہ صفحات میں ازالہ کردیا گیا ہے، آپ نے جو اعتراض کئے تھے، وہ نیک نیتی سے کئے تھے، ورنہ حقیقت میں آپ حدیث کے منکر نہیں ہیں، آپ نے جو کچھ لکھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے والہانہ عقیدت کی بنا پر لکھا، اس لیے اس میں ایک حد تک آپ معذور ہیں۔
اب اس کتاب کو ڈاکٹر محمد حمید اللہ مولوی فاضل۔ ایم، اے، ایل ایل، بی ۔ پی ایچ ڈی۔ ڈی لٹ۔ پروفیسر اسلامک اسٹڈیز پیرس یونیورسٹی کے ایک مفید اقتباس پر ختم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حدیث نبوی اصل میں دو ستونوں پر قائم ہے کتابت، اور قرأت سماعت، اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں، اگر کوئی شخص حدیث نبوی کے تحفظ اور صحت میں جو حزم و احتیاط برتی جاتی رہی ہے، اس کا مقابلہ اسلام سے پہلے دوسرے پیغمبروں کی حدیثوں کے ساتھ، جو معاملہ ہوا اس سے اور اسی طرح ہمارے اس موجودہ زمانہ کی ''تاریخ'' سے کرتا ہے، جو اخبارات و جرائد کے عمداً جھوٹ اور سرکاری دستاویزوں کے مکار، بیانات اور تدلیسات پر مبنی ہوتی ہے، اور فکر سلیم سے کام لے تو اس پر حدیث کی فضیلت اور فوقیت واضح ہو جائے گی اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ محدثین کے کارنامے ، عہد صحابہ سے لے کر آج تک جو زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہ سکے ہیں، کتنی فوقیت رکھتے ہیں! مسلمانوں کی حدیث اور غیروں کی حدیث میں وہی فرق ہے، جو زمین و آسمان میں ہے اور ان دونوں کے فرق کا کیا ٹھکانہ ہے۔ حدیث اسلامی کی خوبیوں پر نہ دشمن کا معاندانہ طعن و طنز پردہ ڈال سکتا ہے اور نہ دوستوں کی ناواقفیت ۔
(پیش لفظ صحیفہ ہمام بن منبہ طبع ثالث ص۶۲)
سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین۔ والحمد للہ رب العالمین
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔ کن لفظوں میں آپ کا شکریہ ادا کریں،،،،،،،،،،اخی محترم،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو دنیا و آخرت میں کامیاب کریں۔ آمین،۔
 
Top