عبدالوکیل بھائی کی اس پوسٹ سے واضح ہوجاتا ہے کہ "تقلید جھگڑے کی بنیاد" سے ان کی مراد "تقلید شخصی" ہے نہ کہ تقلید مطلق تو گویا اصل اختلاف تقلید شخصی پر ہے لحاظہ مناسب یہی ہوگا کہ تقلید شخصی پر گفتگو کی جائے۔
محترم انہوں نے تواس کی وضاحت نہیں کی ہے آپ نے یہ مطلب البتہ نکالاہے ۔
تقلید شخصی کی تردید کرنے سے پہلے تقلید مطلق کے تعلق سے اس فورم پر کے بیشتر حضرات اپناخیال بیان کردیں تو کتنااچھاہو۔تاکہ باری باری ہرایک سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
ویسے اہل حدیث کے بیشتر حضرات مطلقاتقلید کے ہی قائل نہیں ہیں؟میاں نذیر حسین صاحب ضرور تقلید کے قائل تھے لیکن موجودہ اہل حدیث تقلید کے قطعاقائل نہیں ہیں۔ لہذا پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلحدیث حضرات تقلید مطلق کے تعلق سے اپناخیال بیان کریں۔
بالخصوص عبدالوکیل صاحب کو توضرور بیان کرناچاہئے کیونکہ یہ تھریڈ انہی کا شروع کردہ ہے۔
تقلید سے میری مراد ایسی تقلید تھی جو واضح نص کے ہوتے ہوئے بھی امام کے اس قول کو اختیار کرنے کی طرف مجبور کرتی ہے جو نص کے مخالف ہوتاہے
بحمداللہ احناف ایسے تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ اس کی تردید کرتے ہیں۔
غیرمقلدین کا ایک طریقہ تویہ ہے کہ وہ ایک جانب حدیث رسول کو رکھتے ہیں اوردوسری جانب فقہ حنفی کاکوئی مجرد قول اوریہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ "احناف کا رسول اکرم سے اختلاف"حالانکہ علمی امانت اوردیانت کا تقاضہ یہ ہوتاہے کہ فریق مخالف کی بھی دلیل بیان کی جائے۔
آپ کے شیخ العرب والعجم نے بھی فقہ وحدیث نامی رسالے میں اسی تطفیفی شکل کو اختیار کیاہے۔
ویل للمطففین
ایک مثال دیکھئے۔
ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمہارے فقیروں کوفطرہ دینے سے بھی زیادہ عطافرمائے گا۔
بریکٹ بدیع الدین راشدی لکھتے ہیں یعنی فقیر بھی صدقہ فطر اداکرے۔
اس کے بعد فقہ حنفی کا مسئلہ لکھتے ہیں۔
صدقہ فطر واجب ہے آزاد مسلمان پر جب کہ وہ نصاب کا مالک ہو
مجھے واقعتا حیرت ہے کہ جس شخص کی تعظیم میں شیخ العرب والعجم جیسے مدحیہ جملے کہے جاتے ہیں اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ تعارض اورتناقض کیاہوتاہے اورکیسے ہوتاہے۔فقہ حنفی سے دشمنی رکھنے والوں سے واقعتااللہ فقاہت سلب کرلیتاہے۔
حدیث تویہ کہتی ہے کہ فقیروں کو فطرہ دیناچاہئے یہ کہاں ہے کہ فقیروں پر صدقہ دیناواجب اورضروری ہے ۔
جیسے ایک چھوٹے بچے کو نماز کو تاکید کی جاسکتی ہے نماز پڑھناچاہئے اچھی بات لیکن چھوٹے اورنابالغ پر نماز فرض کہاں ہے؟
ہرمسلمان کوخداکی راہ میں انفاق کرناچاہئے
لیکن ہرمسلمان پرانفاق واجب کہاں ہے
چاہے توایک مسلمان نصاب کا مالک نہ ہوکر بھی زکوٰۃ دے سکتاہے دیناچاہئے
لیکن ہرفقیرپر بھی زکوٰۃ کا دیناواجب کہاں سے ہوجائے گا۔
پھرحدیث میں خود بھی اگربدیع الدین صاحب فقہ حنفی سے تعصب کو دماغ میں جگہ دیئے بغیر غورکرتے توپتہ چل جاتاکہ حدیث میں فقیر کو جو صدقہ فطر اداکرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اس کا تعلق وجوب سے قطعانہیں ہے۔اولاًتوحدیث میں فطرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے مطلقایہ بات کہی گئی ہے کہ فقیروں کوبھی راہ خدامیں انفاق کرناچاہئے اس سے اللہ ان کومزید عطاکرے گا۔
دوسرے فقیر فقیر میں بھی فرق ہوتاہے صدقہ فطر کا اپناایک نصاب ہے۔یہ کیاضروری ہے کہ تمام فقیروں کے پاس صدقہ فطر اداکرنے کی وسعت ہو؟
یہ توآپ کے شیخ العرب والعجم کا حال تھا۔کسی امام کا قول نص کے مخالف ہے یانہیں اس کی پرکھ علماء کیلئے بھی آسان نہیں ہے۔چہ جائے کہ عامی حضرات۔
ایک عمر چاہئے کہ گواراہونیش عشق
ائمہ کے دلائل ،مدارک اجتہاد ،استنباط کی دقیقہ سنجیوں میں غوروفکر آسان نہیں ہے ہاں جس شخص نے اہلحدیث کے نام پر ظاہریت کو اپناشعار بنایاہے اس کیلئے آسان ہے کہ ظاہری طورپر جوکچھ سمجھ میں آتاہے اسی پر مطمئن ہوجائے ۔ورنہ ائمہ کے دلائل میں غوروفکر ،احادیث وآثار کا موازنہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہی وجہ ہے ک کہ ائمہ سے حدیث کے مقابلہ میں اپنے قول کو ترک کردینے کی ہدایت کے باوجود علماء نے اس قول کو متبحر علماء کیلئے قراردیاہے دیکھئے۔
اذاصح الحدیث فھو مذہبی
عبدالوکیل صاحب مزید کہتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ اختلافات کیسے ختم ہو سکتے ہیں
تو اس کا حل قرآن و حدیث ہی سے ممکن ہے
کیونکہ ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرے اور اس کے مطابق عمل کرے
اور جس جگہ بات اس کی سمجھ سے باہر ہو تو اھل علم کی طرف رجوع کرنا چاہئے
اور باقی رہی یہ بات کہ اختلافات کیسے ختم ہو سکتے ہیں
تو اس کا حل قرآن و حدیث ہی سے ممکن ہے
کیونکہ ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرے اور اس کے مطابق عمل کرے
اور جس جگہ بات اس کی سمجھ سے باہر ہو تو اھل علم کی طرف رجوع کرنا چاہئے
اور دلائل پرکھتے ہوئے حق کو تلاش کرنا چاہئے
انہوں نے تین باتیں بیان کی ہیں
اولا:ہرمسلمان قرآن وحدیث کا علم حاصل کرے
کتناعلم حاصل کرے اس کی وضاحت نہیں کی ہے ہمارے محترم نے ۔خیرانکا منشاء یہ ہوگاکہ حلال وحرام کاعلم حاصل کرلے ۔اب حلال وحرام کاعلم اگرقرآن وحدیث سے ہی حاصل کرناہے توا سکیلئے ایک عمر چاہئے۔کیوں کہ حلال حرام ہمارے دور میں اتنی ذوالجہت ہوگئی ہے کہ اسکامکمل علم قرآن وحدیث سے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
عبدالوکیل صاحب دوسری ذمہ داری عائد کرتے ہیں
باقی رہی یہ بات کہ اختلافات کیسے ختم ہو سکتے ہیں
تو اس کا حل قرآن و حدیث ہی سے ممکن ہے
کیونکہ ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کرے اور اس کے مطابق عمل کرے
اور جس جگہ بات اس کی سمجھ سے باہر ہو تو اھل علم کی طرف رجوع کرنا چاہئے
اور دلائل پرکھتے ہوئے حق کو تلاش کرنا چاہئے
ائمہ اربعہ کے دلائل کسی مسئلہ میں کیاہیں ان کو جاننے کیلئے ہی ایک عمر چاہئے۔ہماراتوخیال ہے کہ عامی تودورکی بات عبدالوکیل صاحب کو خود نہیں معلوم کہ ائمہ اربعہ کے دلائل کیاہیں۔ شاید انہوں نے کچھ اختلافی مسائل رفع یدین،آمین بالجہراورفاتحہ خلف الامام پر وقت کاایک بڑاعرصہ لگاکر کچھ حد تک دلائل سے واقفیت حاصل کرلی ہو لیکن حلال وحرام کا شعبہ بہت وسیع ہے۔میرایہ بھی خیال ہے کہ انہوں نے صحیح سے انہی کتابوں کا مکمل مطالعہ نہیں کیاہوگاجوائمہ اربعہ کے دلائل پر لکھی گئی ہیں۔
عبدالوکیل صاحب ہرمسلمان پر تیسرافرض یہ عائد کرتے ہیں
اور جس جگہ بات اس کی سمجھ سے باہر ہو تو اھل علم کی طرف رجوع کرنا چاہئے
اوراگروہ بات جواس کی سمجھ سے باہر ہے اہل علم سے پوچھتاہے اوراہل علم کااس بارے میں اختلاف ہے توبے چارہ کیاکرے پھر دلائل پر غوروفکرکرے قرآن وحدیث سے مدد لے۔اس کو منطق کی اصطلاح میں دوران دور کہاجاتاہے یاپھرتعریف المجہول بالمجہول سے تعبیر کیاجاتاہے۔
کسی نے پوچھاآپ کون ہیں
میں زید کا اباہوں
زید کون ہے
وہ میرابیٹاہے
عبدالوکیل صاحب کے برعکس علماء نے عامی پر ایک ہی ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ مجتہدین سے اس بارے میں مسئلہ دریافت کرے اگرمفتی خود مجتہد ہے تواپنے اجتہاد سے جواب دے گااوراگرخود مجتہد نہیں ہے تومجتہدین کے اقوال نقل کردے گاکیونکہ عامی کے دلائل مجتہد کے اقوال ہی ہوتے ہیں ۔
امام شاطبی لکھتے ہیں۔
فَتَاوَى الْمُجْتَهِدِينَ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْعَوَامِّ كالأدلة1 الشرعية بالنسبة إلى لْمُجْتَهِدِينَ.
وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّ وُجُودَ الْأَدِلَّةِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمُقَلِّدِينَ وَعَدَمَهَا سَوَاءٌ؛ إِذْ كَانُوا لَا يَسْتَفِيدُونَ مِنْهَا شَيْئًا؛ فَلَيْسَ النَّظَرُ فِي الْأَدِلَّةِ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ لَهُمْ أَلْبَتَّةَ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النَّحْلِ: 43] .وَالْمُقَلِّدُ غَيْرُ عَالِمٍ؛ فَلَا يَصِحُّ لَهُ إِلَّا سُؤَالُ أَهْلِ الذِّكْرِ، وَإِلَيْهِمْ مَرْجِعُهُ فِي أَحْكَامِ الدِّينِ عَلَى الإطلاق، فهم إذن الْقَائِمُونَ لَهُ مَقَامَ الشَّارِعِ، وَأَقْوَالُهُمْ قَائِمَةٌ مَقَامَ [أَقْوَالِ] الشَّارِعِ.
الموافقات للشاطبی5/337
خطیب تواس سے آگے بڑھ کر لکھتے ہیں کہ اگرعوام کو فروعات فقہیہ میں دلائل پر غوروفکر قرآن وحدیث سے استنباط وغیرہ کی زحمت دی جائے تودنیاکاکارخانہ ٹھپ ہوجائے گااورمعاش کے تمام وسائل معطل ہوجائیں گے۔کیونکہ اتنی فرصت کسے ہے کہ ہرمسئلہ میں غوروفکر کرکے قرآن وحدیث سے دلائل ڈھونڈے۔یہ ائمہ مجتہدین کاکام تھاجوانہوں نے بحسن وخوبی انجام دیاجیسے کہ محدثین حضرات نے حدیث کی تنقیح اورجال پر کلام کاکام انجام دیااب جس طرح ہرشخص کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی کہ وہ حدیث کے سندپر غوروفکر کرے رجال کا مطالعہ کرے اورپھرحدیث کی صحت وضعف کا فیصلہ کرکے حدیث پر عمل کرے۔ اسی طرح دلائل کی پرکھ وغیرہ کاکام بھی عوام کے سپرد نہیں کیاجاسکتا۔
رہا ائمہ کے درمیان اختلاف تو اس کی درج ذیل صورتیں بنتی ہیں
1۔
ایک کے پاس نص تھی اور دوسرے صاحب نے سائل کو بغیر نص کے اپنی رائے سے فیصلہ سنا دیا
ظاہر ہے جس کے پاس نص ہے اس کی بات کو اختیار کرنا اختلاف کا خاتمہ ہے
2۔
ہر صاحب کے پاس اپنے قول کے مطابق نص تھی مگر نقل ہونے میں ایک کی نص ثابت تھی اور دوسروں کی غیر ثابت
یہاں ثابت شدہ نص کے مطابق عمل کرنا اختلاف کا حل ہے
3۔
ہر صاحب قول کی دلیل ثابت شدہ نص ہی ہے مگر ایک کی دلیل راجح دوسرے کی مرجوح ہے
تو راجح دلیل والےقول کو مانا جائے گا
ابن تیمیہ نے دس صورتیں بیان کی ہیں آپ تین بیان کررہے ہیں ۔ کسے ترجیح دیاجائے ۔علماء نےاس کے علاوہ بھی دیگر صورتیں بیان کی ہیں جوالموافقات للشاطبی،الانصاف فی اسباب الاختلاف اوردیگر کتب میں مذکور ہیں لہذا اپنی تین صورتوں پر نظرثانی کریں؟یاپھرحصر کا دعویٰ ہے تودلیل پیش کریں۔
اگرچہ آپ کی پیش کردہ تین شکلوں پربھی اعتراض ہوسکتے ہیں لیکن فی الحال اسے ہم نظرانداز کرتے ہیں۔ ماقبل میں جوباتیں کہی گئی ہیں اس پر سنجیدگی سے غورکریں۔