• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلیدجھگڑے کی بنیاد ہے

شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
محترم حسن صاحب!
آپ شکایت کریں گے کہ میں نے ایک ہی جملہ کو تکیہ کلام بنایا ہوا ہے کہ" آپ دھوکہ دیتے ہیں یا خود دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں"
حیرانی کی بات یہ ھے کہ جب شیخ نےمذاھب اربعہ کی اتباع کو واجب ہی نہیں کہا
شیخ صاحب فرماتے ہیں آئمہ اربعہ میں سے ایک کی تقلید واجب نہیں۔ ٹھیک ؟
آپ اپنے عقیدہ کی بنیاد پر فرماتے ہیں " تقلید حرام ہے" کوئی تقلید کو شرک کہتا ہے۔ کوئی تقلید کو فساد کی بنیاد قرار دیتا ہے۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں تقلید واجب نہیں اور وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ ۔۔۔لیکن آپ لوگ شیخ صاحب کی عبارت سے ایک باطل اور من گھڑت مفہوم تراش کر اسے حرام، شرک ، فساد کی جڑ بنادیتے ہیں۔
اگر دل میں ذرہ برابر بھی رب العالمین کا خوف ہوتا تو ضرور اپنی بات پر شرمندگی ہوتی،
ایک عالم دین فتوی دیتا ہے ڈاڑھی واجب ہے، دوسرا عالم دین فتوی جاری کرتا ہے ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں،
کوئی غیر مقلد دوسرے فتوی کو لے کر شور شرابہ مچادے کہ ڈاڑھی رکھنا حرام ہے، شرک ہے، فساد کی جڑ ہے ( العیاذ باللہ)
خود فیصلہ کریں فساد، جھگرا، انتشار کہاں سے ہے؟؟؟؟؟؟
اس پورے مضمون میں آئمہ اربعہ کی حقانیت کو بیان کرنے کے ساتھ ان میں سے کسی ایک کی تقلید کو لازم قرار دینے کی دعوت پر زور دے رہا تھا اور کس نے اور اس سے باہر نکلنے والے کو غلط کہا"-[/COLOR]
یہ اشارہ شیخ المنجد کی طرف ہے یا اللجنۃ کی طرف؟
2 - مراجع التراثيہ:

يہ مشہور مذاہب اربعہ كى صورت ميں ہے: يعنى حنفى، مالكى، شافعى اور حنبلى مسلكوں پر لوگوں كا لازم رہنے ميں بذاتہ ان مسالك كا بہت بڑا دخل ہے، كيونكہ اس سلسلہ ميں لوگ جن قوانين اور اصول قواعد پر عمل كرتے ہيں، اور مساجد و مدارس ميں جو تعليمى منہج مقرر ہے، علمى ميدان كے مراتب جن ميں علوم فقہ اور شريعت كے ماہر افراد بتدريج چلتے ہيں، اور وہ ورثہ جس كا عوام كے ذہنوں ميں مستقر ہونا ضرورى ہے جو ان كى فقہى ثقافت كى تشكيل كرے، اور اكثر مسائل كى سرچ كرنے كى فرصت نہ ركھنے اور اس ميں كسى نتيجہ پر نہ پہنچے والے مجتہدين كے ليے سيراب ہونے كى جگہ، اور معاشرے ميں نزاع و اختلاف كى بيخ كنى كرنے كا ضابطہ، اور شاذ قسم كى آراء و خواہشات كا دروازہ بند اس سے ہو سكتا ہے كہ مذاہب اربعہ كى طرف رجوع كيا جائے اور اتباع و پيروى اختيار كى جائے.
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ كى حكمت كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ: لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كا علم و فضل اور درايت احكام و فتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے، وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے، اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب احاطہ تحرير ميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايك امام كا مسلك اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كر ديے كہ احكام معلوم ہوں اور حلال و حرام كے مسائل معلوم ضبط كيے جا سكيں.

يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايك اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہر احمق كى جانب سے عجيب و غريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پر فخر بھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں.

ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناك دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كى جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے.

لكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تك ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تك پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تك نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہو گا. انتہى

ديكھيں: الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ ( 2 / 624 )

محترم حسن صاحب! ذرا آنکھیں کھول کر اور جاگ .اسے بگور پڑھیں، پھر اپنے عقیدہ پر غور و فکر کریں ، انشائ اللہ ضرور شرمندگی ہوگی اور توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
محترم حسن صاحب!
آپ شکایت کریں گے کہ میں نے ایک ہی جملہ کو تکیہ کلام بنایا ہوا ہے کہ" آپ دھوکہ دیتے ہیں یا خود دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں"
مجھے برا نہیں لگے گا کیونکہ غلط الزام اور زباندرازی کا نشانہ بننے سے میرے گناہ دھلیں گے-

شیخ صاحب فرماتے ہیں آئمہ اربعہ میں سے ایک کی تقلید واجب نہیں۔ ٹھیک ؟
آپ اپنے عقیدہ کی بنیاد پر فرماتے ہیں " تقلید حرام ہے" کوئی تقلید کو شرک کہتا ہے۔ کوئی تقلید کو فساد کی بنیاد قرار دیتا ہے۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں تقلید واجب نہیں اور وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ ۔۔۔لیکن آپ لوگ شیخ صاحب کی عبارت سے ایک باطل اور من گھڑت مفہوم تراش کر اسے حرام، شرک ، فساد کی جڑ بنادیتے ہیں۔
اگر دل میں ذرہ برابر بھی رب العالمین کا خوف ہوتا تو ضرور اپنی بات پر شرمندگی ہوتی،
ایک عالم دین فتوی دیتا ہے ڈاڑھی واجب ہے، دوسرا عالم دین فتوی جاری کرتا ہے ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں،
کوئی غیر مقلد دوسرے فتوی کو لے کر شور شرابہ مچادے کہ ڈاڑھی رکھنا حرام ہے، شرک ہے، فساد کی جڑ ہے ( العیاذ باللہ)
خود فیصلہ کریں فساد، جھگرا، انتشار کہاں سے ہے؟؟؟؟؟؟
میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ تقلید شخصی شرک ہے-

لیکن آپ ان لوگوں کو کیسے مجرم کہہ سکتے ہیں جبکہ آپ نے خود المنجد کے مضمون سے یہ باطل استدلال کیا کہ مذاھب اربعہ میں سے ایک کی تقلید لازم ہے اور اس سے باہر نکلنا غلط ہے- حلانکہ ان کا یہ مؤقف ہے ہی نہیں-

آپ نے خود شیخ کے فتوی کیساتھ جو بد سلوکی کی اسے تو مانیں-

2 - مراجع التراثيہ:

يہ مشہور مذاہب اربعہ كى صورت ميں ہے: يعنى حنفى، مالكى، شافعى اور حنبلى مسلكوں پر لوگوں كا لازم رہنے ميں بذاتہ ان مسالك كا بہت بڑا دخل ہے، كيونكہ اس سلسلہ ميں لوگ جن قوانين اور اصول قواعد پر عمل كرتے ہيں، اور مساجد و مدارس ميں جو تعليمى منہج مقرر ہے، علمى ميدان كے مراتب جن ميں علوم فقہ اور شريعت كے ماہر افراد بتدريج چلتے ہيں، اور وہ ورثہ جس كا عوام كے ذہنوں ميں مستقر ہونا ضرورى ہے جو ان كى فقہى ثقافت كى تشكيل كرے، اور اكثر مسائل كى سرچ كرنے كى فرصت نہ ركھنے اور اس ميں كسى نتيجہ پر نہ پہنچے والے مجتہدين كے ليے سيراب ہونے كى جگہ، اور معاشرے ميں نزاع و اختلاف كى بيخ كنى كرنے كا ضابطہ، اور شاذ قسم كى آراء و خواہشات كا دروازہ بند اس سے ہو سكتا ہے كہ مذاہب اربعہ كى طرف رجوع كيا جائے اور اتباع و پيروى اختيار كى جائے.
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ كى حكمت كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ: لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كا علم و فضل اور درايت احكام و فتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے، وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے، اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب احاطہ تحرير ميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايك امام كا مسلك اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كر ديے كہ احكام معلوم ہوں اور حلال و حرام كے مسائل معلوم ضبط كيے جا سكيں.

يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايك اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہر احمق كى جانب سے عجيب و غريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پر فخر بھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں.

ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناك دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كى جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے.

لكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تك ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تك پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تك نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہو گا. انتہى

ديكھيں: الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ ( 2 / 624 )

محترم حسن صاحب! ذرا آنکھیں کھول کر اور جاگ .اسے بگور پڑھیں، پھر اپنے عقیدہ پر غور و فکر کریں ، انشائ اللہ ضرور شرمندگی ہوگی اور توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
آپ اب بھی مصر ہیں کہ شیخ صالح المنجد کے مضمون میں مذکور دلائل مذاھب اربعہ میں سے ایک کے التزام پردال ہیں- جبکہ شیخ کا فتوی یہ ہے کہ ایسا کرنا ضروری نہیں- یہی تو وہ طریقہ واردات اور دھوکہ نہیں کہ دلائل بیان کچھ ہوتے ہیں اور پھر اپنے خیالات اوت نظریات کی بنیاد پر اس کا حاصل نکال کر فارورڈ کردیا جاتا ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
مجھے برا نہیں لگے گا کیونکہ غلط الزام اور زباندرازی کا نشانہ بننے سے میرے گناہ دھلیں گے-
[/COLOR]
یہ سراسر غلط بیانی اور ناانصافی ہے، میں نے کوئی زبان درازی نہیں کی، آپ کے نزدیک زبان درازی کیا ہوتی ہے مجھے نہیں معلوم، اور نہ جاننے کی خواہش ہے، جس دھاگہ میں ہم بات کررہے ہیں اس کی شیرینی سے یقینا ہم سب کے گناہ دھل رہے ہیں،
میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ تقلید شخصی شرک ہے-
[/COLOR]
اس لئے میں نے عبد الرحمن لاہوری صاحب کو نصیحت کی تھی، اور آپ کو بھی ایک نیکی کی نصیحت کررہا ہوں، پہلے اپنے گھر کی خبر لیں اور تمام غیر مقلدین صاحبان کو تقلید کے موضوع پر ایک نکتہ پر جمع کرلیں،
اب ہر کوئی الگ الگ نعرہ لگائے گا تو ہم کس کس کو جواب دیتے رہیں گے، ہم مقلدین پر تھوڑا رحم کریں،
لیکن آپ ان لوگوں کو کیسے مجرم کہہ سکتے ہیں جبکہ آپ نے خود المنجد کے مضمون سے یہ باطل استدلال کیا کہ مذاھب اربعہ میں سے ایک کی تقلید لازم ہے اور اس سے باہر نکلنا غلط ہے- حلانکہ ان کا یہ مؤقف ہے ہی نہیں-
آپ نے خود شیخ کے فتوی کیساتھ جو بد سلوکی کی اسے تو مانیں-
[/COLOR]
میں نے شیخ صاحب کے فتوی سے کوئ استدلال ہی نہیں لیا ، میں نے تو یہ کہا تھا کہ شیخ صاحب نے جو دلائل دئے ہیں ان میں آئمہ اربعہ اور تقلید کی حقانیت بیان ہوئی ہے، ہاں شیں کا اپنا کیا خیال اور تبصرہ ہے مجھے ان سے کوئی لینا دینا نہیں،
لیکن غیر مقلدین نے جو شیخ کے فتوی کے ساتھ سلوک کیا ہے ، اللہ ہی معاف کرنے والا ہے،
شیخ صاحب فرماتے ہیں تقلید واجب نہیں، لیکن غیر مقلدین نے اس کا مفہوم یہ تراشہ کہ تقلید حرام ہے، شرک ہے فتنہ کی بنیاد ہے، العیاذ باللہ
اس سے بڑا فراڈ اور شیخ صاحب کے فتوی کے ساتھ بد سلوکی کوئی مہذب اور شریف النفس انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
شیخ صاحب اگر فتوی دیتے ہیں کہ
" تقلید واجب نہیں"
تو کسی نہ کسی درجہ میں اس کا جواز تو شیخ صاحب کے ہاں ہوگا، ورنہ شیخ نے آئمہ اربعہ کی تقلید کے دلائل کیوں دئے،
لیکن غیر مقلدین کی جسارت کو داد دیجئے، کہ انہوں نے سرے سے تقلید کا انکار کرکے اسے حرام، دین میں فساد ، اور شرک بنادیا۔ (العیاذ باللہ)
اللہ تعالی ایمان کی حفاظت فرمائے۔
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
یہ سراسر غلط بیانی اور ناانصافی ہے، میں نے کوئی زبان درازی نہیں کی، آپ کے نزدیک زبان درازی کیا ہوتی ہے مجھے نہیں معلوم، اور نہ جاننے کی خواہش ہے، جس دھاگہ میں ہم بات کررہے ہیں اس کی شیرینی سے یقینا ہم سب کے گناہ دھل رہے ہیں،
میرے انداز گفتگو اور اپنے انداز کا موازنہ فرمائیں- فرق بدیہی ہے-

" آپ دھوکہ دیتے ہیں یا خود دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں"-

" آپ لوگ شیخ صاحب کی عبارت سے ایک باطل اور من گھڑت مفہوم تراش کر اسے حرام، شرک ، فساد کی جڑ بنادیتے ہیں۔ اگر دل میں ذرہ برابر بھی رب العالمین کا خوف ہوتا تو ضرور اپنی بات پر شرمندگی ہوتی"-

"ضرور شرمندگی ہوگی اور توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا"۔


اس لئے میں نے عبد الرحمن لاہوری صاحب کو نصیحت کی تھی، اور آپ کو بھی ایک نیکی کی نصیحت کررہا ہوں، پہلے اپنے گھر کی خبر لیں اور تمام غیر مقلدین صاحبان کو تقلید کے موضوع پر ایک نکتہ پر جمع کرلیں،
اب ہر کوئی الگ الگ نعرہ لگائے گا تو ہم کس کس کو جواب دیتے رہیں گے، ہم مقلدین پر تھوڑا رحم کریں،
اس مسئلہ پر آپ حنفیہ کے آپسی اختلاف سے واقف ہیں ؟ ان کے مؤقف درج ذیل ہیں:
١- تقلید شخصی واجب نہیں-
٢- تقلید شخصی واجب ہے مگر مختلف فیہ ہے-
٣- تقلید شخصی واجب ہےاور اس پر اجماع واقع ہوچکا ہے-

میں نے شیخ صاحب کے فتوی سے کوئ استدلال ہی نہیں لیا ،
دوبارہ یاد دہانی ! المنجد کے مضمون کے بارے میں آپ فرماچکے ہیں:

اس پورے مضمون میں آئمہ اربعہ کی حقانیت کو بیان کرنے کے ساتھ ان میں سے کسی ایک کی تقلید کو لازم قرار دینے کی دعوت پر زور دیا گیا ہے اور اس سے باہر نکلنے والے کو غلط کہا گیا ہے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم ماں کی دعا صاحب
تقلید سے شیخ کی مراد کونسی تقلید تھی ؟ جس کو آپ لوگ عوام میں پھیلاتے ہیں یا جس تقلید پر فریقین میں اختلاف جاری ہے؟ ذرا پلیز اس کی وضاحت پیش فرمادیں۔ اور پھر ساتھ یہ بھی فرمادیں کہ اہل حدیث جس تقلید کو حرام کہتے ہیں کیا شیخ صاحب اس کو بھی نرم انداز سے لیتے ہیں۔؟ ذرا اس بارے بھی شیخ صاحب کا فتویٰ معلوم کرلینا۔
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
میرے انداز گفتگو اور اپنے انداز کا موازنہ فرمائیں- فرق بدیہی ہے-
[/COLOR]
ایسی معصومیت سے قارئین سے ہمدردی وصول نہیں کی جاسکتی،
جب آپ دعوی کربیٹھے ہیں کہ " گناہ دھل" رہے ہیں تو کیا یہ اس دھاگہ کی کرامت کا اثر نہیں؟ گناہ تو سب کے دھل رہے ہیں، اور عبد الوکیل صاحب کو برا بر اجر مل رہا ہے۔
محترم حسن صاحب!
کیا کسی کے دھوکے اور فریب کو مترشح کرنا آپ کے نزدک " زبان درازی" ہے؟
شیخ صاحب فرماتے ہیں
تقلید واجب نہیں
آپ فرماتے ہیں
تقلید حرام ہے، آپ کے ہم مذہب تقلید کو جھگڑے کی بیناد قرار دیتے ہیں، ایک طبقہ اسے شرک کہتا ہے۔
کیا شیخ صاحب اور آپ کا نقطہ نظر ایک معنی میں ہے؟
اگر میں اس پر اللہ تعالی کا خوف دلاؤں تو کیا آپ کی ڈکشنری میں یہ " زبان دراز " ہے؟



اس مسئلہ پر آپ حنفیہ کے آپسی اختلاف سے واقف ہیں ؟ ان کے مؤقف درج ذیل ہیں:
١- تقلید شخصی واجب نہیں-
٢- تقلید شخصی واجب ہے مگر مختلف فیہ ہے-
٣- تقلید شخصی واجب ہےاور اس پر اجماع واقع ہوچکا ہے-
[/COLOR]
ایک کے نزدیک واجب ہے، دوسرے کے نزدیک واجب مگر مختلف فیہ اس سے کیسے لازم ہوگیا کہ یہاں ہمارے درمیان اختلاف حرام و حلال اور شرک و توحید اور فساد و رحمت کا ہے۔
تقلید دونوں کے نزدیک جائز اور لازم ہے،
جب کہ آپ کے فرقہ میں ایک طبقہ اسے شرک کہتا ہے، دوسرا شرک کہنے سے خود کو محفوظ رکھتا ہے، کوئی اسے حرام کہتا ہے، کوئی تقلید میں درجہ بندی کرتا ہے، کوئی اتباع اور تقلید میں تمیز کرتے ہوئے اتباع کا دعوی کرتا ہے اور تقلید کو حرام کہتا ہے، دوسرا اتباع اور تقلید کو ایک ہی معنی میں لیتا ہے،وغیرہ وغیرہ،

دوبارہ یاد دہانی ! المنجد کے مضمون کے بارے میں آپ فرماچکے ہیں:

اس پورے مضمون میں آئمہ اربعہ کی حقانیت کو بیان کرنے کے ساتھ ان میں سے کسی ایک کی تقلید کو لازم قرار دینے کی دعوت پر زور دیا گیا ہے اور اس سے باہر نکلنے والے کو غلط کہا گیا ہے
محترم جناب حسن صاحب!
شیخ صاحب نے فتوی کے لئے جن اکابر امت کے دلائل کا سہارا لیا ہے ، ان میں سے وہ حصہ پیش کررہا ہوں، جن میں آئمہ اربعہ کی حقانیت روشن ہے، اور ایک امام کی تقلید کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کیا ہے اور مزہب اربعہ سے دور رہنے والوں کو غلط کہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

امت اور افراد كے حساب سے دو مرجع ايسے ہيٹں جن كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے وہ درج ذيل ہيں.

اگر ان مذاہب اربعہ ميں سے كسى ايك كى تقليد حرج و تنگى كا باعث بنے تو يہ نہ كريں، كيونكہ شريعت اسلاميہ تو آسانى و سہولت پر مشتمل ہے اس ميں نہ تو تنگى ہے اور نہ ہى كوئى مشكل و حرج.
یہاں ایک کی تقلید کو لازم بتایا گیا ہے، ہاں اگر اس میں تنگی محسوس کریں تو ایک کی تقلید نہ کی جائے، یہ تنگی کی صورت بطور نصیحت بیان ہوئی ہے، یعنی وہ صورت جب تنگی کا باعث ہو، اگر تنگی اور حرج کا باعث نہیں تو ایک ہی امام کی تقلید ہوگی۔ الحمد للہ آج تک امت مسلمہ میں ان مذاہب کے آئمہ کی تقلید میں کبھی کسی کو تنگی محسوس نہیں ہوئی، ہاں تنگی اور حرج محسوس ہوئی ہے تو غیر مقلدین کو ہوئی ہے،
اور معاشرے ميں نزاع و اختلاف كى بيخ كنى كرنے كا ضابطہ، اور شاذ قسم كى آراء و خواہشات كا دروازہ بند اس سے ہو سكتا ہے كہ مذاہب اربعہ كى طرف رجوع كيا جائے اور اتباع و پيروى اختيار كى جائے
.

یہ ثابت ہوا کہ نزاع ، اختلاف، فساد اور انتشار عدم تقلید اور آئمہ اربعہ کی تقلید کو چھوڑنے میں ہے،
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ كى حكمت كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ: لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كا علم و فضل اور درايت احكام و فتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے، وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے، اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں.
سبحان اللہ
یہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايك اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہر احمق كى جانب سے عجيب و غريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پر فخر بھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں.
ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناك دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كى جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے.
لكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تك ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تك پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تك نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل
ہونا ہو گا. انتہى

محسوس ہوتا ہے ان آئمہ کا انتخاب ، آج کے غیر مقلدین صاحبان کے جنم لینے پر تھا، واللہ اعلم
آخری دور میں ایسے لوگ بھی جنم لیں گے جو احمق ہونگے لیکن خوف خدا کی پروا کئے بڑی جرات سے اپنے علم کا دعوی کرینگے،
بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ لوگ جس مدرسہ سے نكليں اور طالب علم اور علماء بنيں تو يہ مدرسہ كسى ان مذاہب اربعہ ميں سے كسى ايك مذہب سے ماخوذ ہو، پھر اگر اجتہاد كى اہليت ركھنے والے كے ليے اس مسلك كى كوئى غلطى سامنے آئے تو وہ اس مسلك كا فتوى ترك كرتے ہوئے دوسرے مسلك كى صحيح بات كو تسليم كر لے.

شيخ محمد بن ابراہيم كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" مذاہب اربعہ ميں سے كوئى ايك مسلك اختيار كرنا جائز ہے، بلكہ يہ اجماع كى طرح ہے، اس ميں كوئى ممانعت نہيں كہ آئمہ اربعہ ميں سے كسى ايك كى طرف منسوب ہوا جائے كيونكہ بالاجماع يہ امام ہيں
یہ عبارت اردو میں ہے پشتو میں نہیں۔اگر آپ اہل زبان ہے تو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی، اگر آپ بھی ایم۔ اے۔ اردو ہیں تو میں نہیں سمجھا سکتا، کیونکہ میں ایم۔ اے ۔ اردو نہیں

ليكن اس سلسلہ ميں لوگ تين قسم كے ہيں:
پہلى قسم يہ ہے كہ
وہ لوك جو كوئى بھى مسلك اختيار كرنے كو جائز نہيں سمجھتے، اور يہ غلط ہے.
یہ غیر مقلدین کا طبقہ ہے،

محترم حسن صاحب! یہ چند اقتباسات ہیں جو شیخ صاحب کے فتوی کے دلائل سے نقل کئے ہیں۔
اب آپ اپنی بات اور میرے بات کا موازنہ کیجئے گا ، تعصب سے ہٹ کر۔
شکریہ
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
محترم ماں کی دعا صاحب
تقلید سے شیخ کی مراد کونسی تقلید تھی ؟ جس کو آپ لوگ عوام میں پھیلاتے ہیں یا جس تقلید پر فریقین میں اختلاف جاری ہے؟ ذرا پلیز اس کی وضاحت پیش فرمادیں۔ اور پھر ساتھ یہ بھی فرمادیں کہ اہل حدیث جس تقلید کو حرام کہتے ہیں کیا شیخ صاحب اس کو بھی نرم انداز سے لیتے ہیں۔؟ ذرا اس بارے بھی شیخ صاحب کا فتویٰ معلوم کرلینا۔
محترم گڈ مسلم صاحب!
پہلے آپ اس دھاگے کا "ٹائٹل" اچھی طرح پڑھ لیں، اور پھر محترم عبدالوکیل صاحب سے شکایت کریں کہ حنفیوں سے تقلید کے جس حصے سے بحث ہے اس تقلید کا ذکر کرتے ہوئے ٹائٹل بناتے،
یہاں " لفظ تقلید" کو جھگڑے کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ پہلے آپ اپنے گھر کو ٹھیک کرلیں مسلہ آسان ہوجائے گا۔
لفظ " اہل حدیث " سے آپ کی کون مراد ہے؟
یہاں میں غیر مقلدین سے مخاطب ہوں۔
میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں کہ شیخ صاحب کے نظریہ اور تبصرہ سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں، ہاں شیخ نے اپنے فتوی میں جن اکابر کے اقوال کے دلائل دئے ہیں ان اقتباسات پر آپ کی توجہ مرکوز کرائی تھی۔
گڈ مسلم صاحب! کیا شیخ صاحب نے بھی تقلید کو حرام، شرک، یا جھگڑے کی بنیاد کہا ہے؟
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
کچھ احباب کا یہ دعوی ہے کہ تقلید کے ذریعے ہم اختلافات سے بچ سکتے ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
تقلید ہی اختلافات کا باعث بنتی ہے
مثال سے اس بات کو واضح کئے دیتا ہوں
اگر ایک گھر کے کئی افراد الگ الگ ائمہ کے مقلد ہوں تو کسی ایک ہی مسئلہ میں انکی آراء مختلف ہوں گی اور یہی چیز جھگڑے کا پیش خیمہ ہو گی
اگر وہ تمام اپنے دل میں اتباع رسول ﷺ کا جزبہ پیدا کر لیں تو وہ ایک نقطہ پر جمع ہو سکتے ہیں
چلیے ہم بھائی عبد الوکیل ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ جس "تقلید" کو انہوں نے جھگڑے کی بنیاد قرار دیا اس سے ان کی مراد کون سے تقلید ہے؟

بھائی عبدالوکیل صاحب آپ سے التماس ہے کہ جس تقلید کو آپ جھگڑے کی بنیاد سمجھتے ہیں اس سے آپ کی مراد کونسی تقلید ہے؟ تقلید شخصی یا تقلید مطلق؟

براہ کرم وضاحت فرما دیجئے!!!
 
Top