• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی جامع تعریف

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جس میں نہ اس کاذکر ہے کہ تقلید کون کرے گانہ اس کا ذکر ہے کہ تقلید کس کی کرے گااورنہ ہی اس کاذکر ہے کہ تقلید کس بات میں کرے گا
آپ تقلید کی تعریف پوچھ رہےہیں یا اس پر مضمون کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ابتسامہ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ تعریف جامع اورمانع کس طرح ہے۔ نہ اس میں جس کی تقلید کی جائے اس کا ذکر ہے نہ اس میں تقلید کون کرے گااس کابیان ہے نہ اس میں کس امر میں تقلید کی جائے گی اسی کی وضاحت ہے۔
یعنی نہ فاعل کا ذکر نہ مفعول کا تذکرہ ہے اورنہ فعل کا بیان لیکن "جملہ فعلیہ "
ی
نہ فعل کاذکر ہو نہ فاعل کااورنہ مفعول کااوراس کے باوجود کوئی ایسے جملہ کوجملہ فعلیہ قراردیناچاہے تواس کے بارے میں کیاگمان رکھیں گے؟
وہی گمان ہمارااس شخص کے بارے میں ہوناچاہئے جو تقلید کی ایسی تعریف کررہاہے
جس میں نہ اس کاذکر ہے کہ تقلید کون کرے گانہ اس کا ذکر ہے کہ تقلید کس کی کرے گااورنہ ہی اس کاذکر ہے کہ تقلید کس بات میں کرے گا
جامع ومانع تعریف ابن ہمام حنفی نے یوں کی ہے " الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إِحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ"
جسکا خلاصہ یہ بنتا ہے " قبول قول ینافی الکتاب والسنہ"
راجا صاحب !
طحاوی دوراں ‘ غزالی زماں ‘ علامہ جمشید صاحب مد ظلہ العالی جملہ اسمیہ میں فاعل اور مفعول تلاش کر رہے ہیں ۔ اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ جملہ فعلیہ ہے یا شاید یہ زعم ہے کہ ہم نے اسے جملہ فعلیہ قرار دیا ہے ۔(ابتسامہ)
طحاوی دوراں کی جلالت شان میں کسی گستاخی کا کوئی ارادہ نہیں ‘ صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہماری ذکر کردہ تعریف جو ابن ہمام نے کی ہے وہ جملہ اسمیہ ہے نہ کہ جملہ فعلیہ ‘ اور جملہ اسمیہ میں فاعل مفعول نہیں ہوتے ۔ گوکہ فقہ حنفی فاعل ومفعول کے گرد ہی گھومتی ہے ۔ اسی لیے احناف مقلدین علت المشایخ کی تسکین کی خاطر فاعل ومفعول تلاش کرتے رہتے ہیں ‘ اسی عادت کو یہ جملہ اسمیہ میں بھی پورا کر کے اس میں سے بھی فاعل ومفعول ہی تلاش کر رہے ہیں ۔

اور غزالی زماں صاحب کو مشورہ دیں گے امام غزالی رحمہ اللہ کی اصول پر کتاب پڑھ لیں ‘ انہوں نے بہت سی جامع ومانع تعریفات ذکر فرمائی ہیں لیکن اکثر تعریفات میں فاعل ومفعول کا ذکر تک نہیں ہے ۔ ہاں تعریف کی شرح میں ایسا بہت کچھ مل جاتا ہے ۔
مثلا کتاب کے آغاز میں ہی فقہ کی تعریف کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
وَالْفِقْهُ عِبَارَةٌ عَنْ الْعِلْمِ وَالْفَهْمِ فِي أَصْلِ الْوَضْعِ۔۔۔۔ وَلَكِنْ صَارَ بِعُرْفِ الْعُلَمَاءِ عِبَارَةً عَنْ الْعِلْمِ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الثَّابِتَةِ لِأَفْعَالِ الْمُكَلَّفِينَ خَاصَّةً۔
فتدبر !
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
راجا صاحب !
طحاوی دوراں ‘ غزالی زماں ‘ علامہ جمشید صاحب مد ظلہ العالی جملہ اسمیہ میں فاعل اور مفعول تلاش کر رہے ہیں ۔ اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ جملہ فعلیہ ہے یا شاید یہ زعم ہے کہ ہم نے اسے جملہ فعلیہ قرار دیا ہے ۔(ابتسامہ)طحاوی دوراں کی جلالت شان میں کسی گستاخی کا کوئی ارادہ نہیں ‘ صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہماری ذکر کردہ تعریف جو ابن ہمام نے کی ہے وہ جملہ اسمیہ ہے نہ کہ جملہ فعلیہ ‘ اور جملہ اسمیہ میں فاعل مفعول نہیں ہوتے ۔
ابن جن استاد حدیث کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ میری بات جملہ فعلیہ ایک مثال کے تعلق سے تھی نہ کہ ابن ہمام کے مذکورہ تعریف کے تعلق سے ۔نہ میں نے ابن ہمام کا ذکر کیااورنہ ان کی تعریف کی جانب اشارہ کیا۔
میں نے توصرف اتناہی کہاتھا
سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ تعریف جامع اورمانع کس طرح ہے۔ نہ اس میں جس کی تقلید کی جائے اس کا ذکر ہے نہ اس میں تقلید کون کرے گااس کابیان ہے نہ اس میں کس امر میں تقلید کی جائے گی اسی کی وضاحت ہے۔
یعنی نہ فاعل کا ذکر نہ مفعول کا تذکرہ ہے اورنہ فعل کا بیان لیکن "جملہ فعلیہ "
اگرخدانے اردو کی شدبد دے رکھی ہے توہرایک کہے گاکہ جملہ فعلیہ کا طنز رفیق طاہر کے نام نہاد جامع ومانع تعریف سے تھا۔کہ جس طرح جملہ فعلیہ میں فعل فاعل اورمفعول کاذکر ضروری ہے اسی طرح جامع مانع تعریف میں کچھ توایسی بات ہو کہ پتہ چل سکے کون تقلید کرے گاکس کی تقلید کرے گاکس چیز میں تقلید کرے گا۔
گوکہ فقہ حنفی فاعل ومفعول کے گرد ہی گھومتی ہے ۔ اسی لیے احناف مقلدین علت المشایخ کی تسکین کی خاطر فاعل ومفعول تلاش کرتے رہتے ہیں ‘ اسی عادت کو یہ جملہ اسمیہ میں بھی پورا کر کے اس میں سے بھی فاعل ومفعول ہی تلاش کر رہے ہیں ۔
اب یہ تو یہ تواپنے اپنے ظرف کی بات ہے ۔ نجاست کی مکھیاں اچھی چیزیں چھوڑ کر گندگیوں پر بیٹھاکرتے ہیں۔
ویسے جس کو اردو عبارت پڑھنی اورسمجھنی مشکل ہواوروہ اپنے اوپر کئے گئے طنز کو ابن ہمام کی جانب پھیرے وہ ابن ہمام کی عبارت سمجھنے کا دعویٰ کرے تواس سے یہ قطعابعید نہیں کہ وہ ابن ہمام کی تعریف سے ایک ایسامطلب کشید کرے جس کے بارے میں شاید مصنف خواب میں بھی نہ سوچ سکے۔

اور غزالی زماں صاحب کو مشورہ دیں گے امام غزالی رحمہ اللہ کی اصول پر کتاب پڑھ لیں ‘ انہوں نے بہت سی جامع ومانع تعریفات ذکر فرمائی ہیں لیکن اکثر تعریفات میں فاعل ومفعول کا ذکر تک نہیں ہے ۔ ہاں تعریف کی شرح میں ایسا بہت کچھ مل جاتا ہے ۔
امام غزالی نے کہیں دعویٰ کیاکہ یہ میری تعریف ہے اورجامع ومانع تعریف ہے؟
مثلا کتاب کے آغاز میں ہی فقہ کی تعریف کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
وَالْفِقْهُ عِبَارَةٌ عَنْ الْعِلْمِ وَالْفَهْمِ فِي أَصْلِ الْوَضْعِ۔۔۔۔ وَلَكِنْ صَارَ بِعُرْفِ الْعُلَمَاءِ عِبَارَةً عَنْ الْعِلْمِ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الثَّابِتَةِ لِأَفْعَالِ الْمُكَلَّفِينَ خَاصَّةً۔
فتدبر !
تعریف ضرور کی ہے لیکن آپ کی طرح ڈینگ نہیں ہانکی ہے کہ میری تعریف جامع مانع اوردنیا میں جتنی دیگر تعریفات تقلید کی ہیں وہ سب غیر جامع ومانع۔
اس جامع ومانع تعریف کا توبھرم کھل ہی چکاہے۔قباء کابند دھیرے دھیرے مزید کھلے گا۔
جس کواصرار ہے کہ میری تعریف جامع ومانع ہے اس کوجامع ومانع ثابت کرنااسی کاکام ہے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ تقلید کی تعریف پوچھ رہےہیں یا اس پر مضمون کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ابتسامہ۔
سبحان اللہ یعنی ایسی تعریف کہ جس میں فن کا کچھ بھی ذکر نہ ہو لیکن پھر بھی وہ جامع ومانع تعریف ہو۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
آپ نے تو تعریف کی جامعیت اور مانعیت پر بات ابھی تک شروع ہی نہیں کی ہے ۔ ابھی تو فاعل ومفعول کے پیچھے پڑھے ہوئے ہیں ۔
کون کرے گا کسی کی کرے گا کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں لیکن آنجناب کو وہ نظر نہیں آتا ۔
پھر دہرا دیتا ہوں
کہ ہر وہ آدمی تقلید کرے گا جو کسی کی کتاب وسنت کے مخالف بات مانے گا
اور ہر اس آدمی کی تقلید ہوگی جسکی کتاب وسنت کے مخالف بات مانی جا رہی ہوگی !
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کہ ہر وہ آدمی تقلید کرے گا جو کسی کی کتاب وسنت کے مخالف بات مانے گا
اور ہر اس آدمی کی تقلید ہوگی جسکی کتاب وسنت کے مخالف بات مانی جا رہی ہوگی !
اس میں مجتہد وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ہے۔ خواہ کسی کی بھی تقلید ہو۔اب ذراہم رفیق طاہر صاحب کے تقلید پر کی تعریف پر کئے گئے ایک اعتراض کونقل کرتے ہیں تاکہ قارئین بھی دیکھ لیں کہ ان کا موقف اب کتنابدل چکاہے۔
رفیق طاہر صاحب کے ماضی کے اعتراضات​

العمل بقول المجتهد من غير معرفة دليله معرفة تامة
مجتہد کے قول پر عمل کرنا اس کے دلیل کی مکمل اورپوری معرفت کے بغیر
مجتہد​
لفظ مجتہد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خواہ مجتہد مطلق ہو یا مجتہد فی المذہب جسے آپ مجتہد مقید کا نام دیتے ہیں ہر ایک کی بات ماننے والا اسکا مقلد ٹھہرے گا اسی کے نتیجہ میں برھان الدین مرغینانی جو کہ مجتہد فی المذھب تھے انکی بات ماننے والا برھان الدین کا بھی مقلد ٹھہرے گا
کیونکہ آپ نے تعریف کو مانع بنانے کے لیے لفظ مجتہد مطلق نہیں بولا بلکہ صرف لفظ مجتہد بولا ہے جو کہ عام ہے اور عام اپنے تمام تر افراد کو شامل ہوتا ہے۔
خوب سمجھ لیں

کے قول پر​
لفظ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی صرف ایک قول پر بھی عمل کرلے اور باقیوں پر نہ کرے تو وہ اس مجتہد کا مقلد کہلائے گا کیونکہ وہ بھی قول پر تو عمل کرنیوالا ہے ہی خواہ تمام اقول پر نہیں
کیونکہ آپ نے لفظ "قول " بولا ہے لفظ "تمام تر اقوال " نہیں
اس کے دلیل​

یہ لفظ " اسکی دلیل " اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر اسکو اس کے قول کی دلیل کتاب وسنت سے مل بھی جائے تو بھی وہ مقلد ہی رہے گا کیونکہ اسکو یہ علم نہیں کہ یہ دلیل مجتہد کے ذہن میں مسئلہ استنباط کرتے ہوئے مستحضر تھی یا نہیں۔اور کسی کے دل و دماغ میں کیا ہے اسکا علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں الا کہ وہ صاحب خود بتا دیں
مکمل اورپوری معرفت
لفظ " مکمل اور پوری معرفت " اس بات پر دال ہے کہ اگر مقلد کو دلیل مل بھی جائے لیکن اس دلیل کی مکمل معرفت نہ ہو یا یوں کہہ لیں کہ اسکو دلیل کی کچھ نہ کچھ معرفت حاصل ہو بھی جائے تو تب بھی وہ مقلد ہی رہتا ہے تا آنکہ اسکو "مکمل اور پوری معرفت" حاصل نہ ہو جائے۔
کچھ مزید اعتراضات ملاحظہ ہوں

آپکی تعریف میں تو یہ الفاظ ہیں کہ
مجتہد کے قول پر عمل کرنا​
یہ نہیں ہے کہ مجتہد کے قول پر مجتہد کے کہنے کی وجہ سے ہی عمل کرنا
یہ اعتراض آپ کا تب بنتا تھا جب آپکی بیان کردہ تعریف میں یہ قید موجود ہوتی !!!
دیکھیے مسائل خلاف میں جمہور کے رائے پر عمل کرنے والے کہتے ہیں کہ تم تو صرف دوچار شخصیتوں کے قول پر عمل کر رہے ہو جبکہ ہم اسقدر زیادہ شخصیتوں کے اقوال پر عمل پیرا ہیں
لہذا آپ اپنی تعریف کو مانع بنائیں تاکہ آپ اعتراض کرنے کے حقدار ٹھریں !!!!!!
کیونکہ جب دو یا تین مجتہدین کا قول ایک ہی ہو تو اس ایک قول پر عمل کرنے والا دو یاتین اقوال پر عمل کرنے والا ہوتا ہے اور جب اس قول کو کتاب وسنت کی تائیید ونصرت بھی حاصل ہوتو وہ ان مجتہدین کے اقوال اور کتاب وسنت پر بھی عمل کرنے والا ہوتا ہے
فتفکر وتدبر ...........!!!!!!
3- اسکا تفصیلی جواب 2 میں موجود ہے لیکن آنجناب کی تسلی وتشفی کے پھر عرض کر دیتا ہوں کہ آپ نے یہ قید نہیں لگائی کہ مجتہد کے قول پر مجتہد کے ہی کہنے کی بناء پر عمل کیا جائے
بلکہ آپ نے مطلقا مجتہد کے قول پر عمل کرنے کو تقلید قرار دیا ہے
اور یہ بات کہ انکو امام صاحب کی دلیل کا علم نہیں تھا بہت ہی واضح ہے کیونکہ انہوں نے امام صاحب سے اسکی دلیل نہیں پوچھی اور نہ ہی کسی نے انکو بتائی ہے اگر ایسا کچھ ہوا ہے آپکے زعم باطل کے مطابق تو دلیل بتائیے کہ کس نے انکو بتایا ہے کہ امام صاحب کی یہ دلیل ہے ؟؟؟؟
4- اسکا جواب بھی 2 میں موجود ہے کہ آپ نے یہ قید ہی نہیں لگائی کہ مجتہد کے قول پر محض مجتہد کے کہنے کی بناء پر عمل کیا جائے
فاعتبروا یا اولی الابصار
5- اسکی وضاحت بھی میں آغاز میں کر چکا ہوں کہ آپ نے تعریف میں کہا ہے کہ " مجتہد کے قول پر "
تو ایک قول بھی قول ہی ہوتا ہے
اگر آپ نے تعریف میں یہ کہا ہوتا کہ " مجتہد کے تمام اقوال پر " تو پھر آپ کا یہ اعتراض بنتا تھا
لہذا اب تو آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ یہ معنی تعریف سے کیسے نکلا ہے
خوب سمجھ لیں ..........!!!
ان کے یہ اعتراضات محض اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ کوئی صاحب رفیق طاہر صاحب کی تعریف پراعتراضات کو ہماری "بال کی کھال"نکالنے کی کوشش نہ سمجھیں بلکہ انہی کا"شامت اعمال"قراردیں۔

کہ ہر وہ آدمی تقلید کرے گا جو کسی کی کتاب وسنت کے مخالف بات مانے گا
اور ہر اس آدمی کی تقلید ہوگی جسکی کتاب وسنت کے مخالف بات مانی جا رہی ہوگی !
آپ کی مذکورہ تعریف پر تواعتراضات کی حد نہیں ہے لیکن اس سے پہلے ذراہمیں کتاب وسنت کی مخالفت کی ذراوضاحت کردیں کہ کتاب وسنت کی مخالفت کس کوکہتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ یہ سوال دوہراچکاہوں لیکن جواب سے محرومی ہی ہاتھ آئی ہے۔تاکہ بات آگے چلے اورکوشش کیجئے گاکہ بات گول مول نہ ہو۔ واضح حدبندی کےساتھ ہو جس پر فقہاء کے اجتہادات کو تولاجاسکے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
طحاوی دوراں صاحب !
یہ بات تو میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ اس تعریف کے نتیجہ میں مقلد کی بھی تقلید ہو سکتی ہے ۔ شاید گزشتہ صفحہ پر میرا وہ مراسلہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا !!!
رہی یہ بات کہ مخالفت کسے کہتے ہیں تو اسے ایک مثال کے ساتھ سمجھیں :
ملاحظہ فرمائیں :


مولانا محمو د الحسن سابقہ شيخ الحديث ديوبند لکھتے ہيں:-
”حق و انصاف يہ ہے کہ امام شافعي رحمتہ اللہ عليہ کے مذہب کو اس مسئلہ (بيع خيار) ميں ترجيح خاص ہے ليکن ہم مقلد ہيں اس لئے ہم پر اپنے امام ابو حنيفہ رحمتہ اللہ عليہ کي تقليد واجب ہے “
(تقرير ترمذي ، جلد 1، صفحہ 49)
يعني مقلد کے لئے حق اپنانا واجب نہيں بلکہ امام کي تقليد کرنا واجب ہے۔








 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
طحاوی دوراں صاحب !
یہ بات تو میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ اس تعریف کے نتیجہ میں مقلد کی بھی تقلید ہو سکتی ہے ۔ شاید گزشتہ صفحہ پر میرا وہ مراسلہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا !!!
رہی یہ بات کہ مخالفت کسے کہتے ہیں تو اسے ایک مثال کے ساتھ سمجھیں :
مثال کسی چیز کے تقریب للفہم کے لئے ہوتی ہے لہذا پہلے کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت کردیں اس کے بعد مثالیں پیش کریں توزیادہ بہتر ہوگا۔
پہلے آپ کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت اورحد بندی کردیں پھراس کے بعد مثال پیش کریں۔
آپ نے براہ راست مثال پیش کردی ہے۔آپ کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے ؟
لیکن اپنی مجبوریوں سے قطع نظرہماری گزارش پربھی ذراغورکرلیں
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
میں تو بغرض اختصار مثال پر اکتفاء کیا تھا ۔ چلو اشارہ نہ سمجھنے والوں کے لیے مخالفت وتناقض وتباین کی وضاحت ان اشعار سے کر دیتے ہیں :

در تناقض هشت وحدت شرط دان وحدت موضوع و محمول و مکان
وحدت شرط و اضافه، جزء و کل قوه و فعل است و در آخر زمان​


خوب سمجھ لیں
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
در تناقض هشت وحدت شرط دان وحدت موضوع و محمول و مکان
وحدت شرط و اضافه، جزء و کل قوه و فعل است و در آخر زمان


خوب سمجھ لیں
آپ نے "خوب سمجھ لیں"کاگردان ضروریاد کیاہے لیکن شاید اسے خود نہیں سمجھاہے
لہذا پہلے کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت کردیں اس کے بعد مثالیں پیش کریں توزیادہ بہتر ہوگا۔
پہلے آپ کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت اورحد بندی کردیں پھراس کے بعد مثال پیش کریں۔
یہ تھامطالبہ اورآپ کی دلیل وہ ہے جو ماقبل میں مذکور ہوئی ۔
ایک مرتبہ خود ہی "خوب سمجھ لیں"کہ میں نے کیاکہاہے اورآپ نے جواب میں کیاارشاد فرمایاہے۔والسلام
 
Top