آپ تقلید کی تعریف پوچھ رہےہیں یا اس پر مضمون کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ابتسامہ۔جس میں نہ اس کاذکر ہے کہ تقلید کون کرے گانہ اس کا ذکر ہے کہ تقلید کس کی کرے گااورنہ ہی اس کاذکر ہے کہ تقلید کس بات میں کرے گا
آپ تقلید کی تعریف پوچھ رہےہیں یا اس پر مضمون کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ابتسامہ۔جس میں نہ اس کاذکر ہے کہ تقلید کون کرے گانہ اس کا ذکر ہے کہ تقلید کس کی کرے گااورنہ ہی اس کاذکر ہے کہ تقلید کس بات میں کرے گا
سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ تعریف جامع اورمانع کس طرح ہے۔ نہ اس میں جس کی تقلید کی جائے اس کا ذکر ہے نہ اس میں تقلید کون کرے گااس کابیان ہے نہ اس میں کس امر میں تقلید کی جائے گی اسی کی وضاحت ہے۔
یعنی نہ فاعل کا ذکر نہ مفعول کا تذکرہ ہے اورنہ فعل کا بیان لیکن "جملہ فعلیہ "
ی
نہ فعل کاذکر ہو نہ فاعل کااورنہ مفعول کااوراس کے باوجود کوئی ایسے جملہ کوجملہ فعلیہ قراردیناچاہے تواس کے بارے میں کیاگمان رکھیں گے؟
وہی گمان ہمارااس شخص کے بارے میں ہوناچاہئے جو تقلید کی ایسی تعریف کررہاہے
جس میں نہ اس کاذکر ہے کہ تقلید کون کرے گانہ اس کا ذکر ہے کہ تقلید کس کی کرے گااورنہ ہی اس کاذکر ہے کہ تقلید کس بات میں کرے گا
راجا صاحب !جامع ومانع تعریف ابن ہمام حنفی نے یوں کی ہے " الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إِحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ"
جسکا خلاصہ یہ بنتا ہے " قبول قول ینافی الکتاب والسنہ"
ابن جن استاد حدیث کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ میری بات جملہ فعلیہ ایک مثال کے تعلق سے تھی نہ کہ ابن ہمام کے مذکورہ تعریف کے تعلق سے ۔نہ میں نے ابن ہمام کا ذکر کیااورنہ ان کی تعریف کی جانب اشارہ کیا۔طحاوی دوراں ‘ غزالی زماں ‘ علامہ جمشید صاحب مد ظلہ العالی جملہ اسمیہ میں فاعل اور مفعول تلاش کر رہے ہیں ۔ اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ جملہ فعلیہ ہے یا شاید یہ زعم ہے کہ ہم نے اسے جملہ فعلیہ قرار دیا ہے ۔(ابتسامہ)طحاوی دوراں کی جلالت شان میں کسی گستاخی کا کوئی ارادہ نہیں ‘ صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہماری ذکر کردہ تعریف جو ابن ہمام نے کی ہے وہ جملہ اسمیہ ہے نہ کہ جملہ فعلیہ ‘ اور جملہ اسمیہ میں فاعل مفعول نہیں ہوتے ۔
اگرخدانے اردو کی شدبد دے رکھی ہے توہرایک کہے گاکہ جملہ فعلیہ کا طنز رفیق طاہر کے نام نہاد جامع ومانع تعریف سے تھا۔کہ جس طرح جملہ فعلیہ میں فعل فاعل اورمفعول کاذکر ضروری ہے اسی طرح جامع مانع تعریف میں کچھ توایسی بات ہو کہ پتہ چل سکے کون تقلید کرے گاکس کی تقلید کرے گاکس چیز میں تقلید کرے گا۔سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ تعریف جامع اورمانع کس طرح ہے۔ نہ اس میں جس کی تقلید کی جائے اس کا ذکر ہے نہ اس میں تقلید کون کرے گااس کابیان ہے نہ اس میں کس امر میں تقلید کی جائے گی اسی کی وضاحت ہے۔
یعنی نہ فاعل کا ذکر نہ مفعول کا تذکرہ ہے اورنہ فعل کا بیان لیکن "جملہ فعلیہ "
اب یہ تو یہ تواپنے اپنے ظرف کی بات ہے ۔ نجاست کی مکھیاں اچھی چیزیں چھوڑ کر گندگیوں پر بیٹھاکرتے ہیں۔گوکہ فقہ حنفی فاعل ومفعول کے گرد ہی گھومتی ہے ۔ اسی لیے احناف مقلدین علت المشایخ کی تسکین کی خاطر فاعل ومفعول تلاش کرتے رہتے ہیں ‘ اسی عادت کو یہ جملہ اسمیہ میں بھی پورا کر کے اس میں سے بھی فاعل ومفعول ہی تلاش کر رہے ہیں ۔
امام غزالی نے کہیں دعویٰ کیاکہ یہ میری تعریف ہے اورجامع ومانع تعریف ہے؟اور غزالی زماں صاحب کو مشورہ دیں گے امام غزالی رحمہ اللہ کی اصول پر کتاب پڑھ لیں ‘ انہوں نے بہت سی جامع ومانع تعریفات ذکر فرمائی ہیں لیکن اکثر تعریفات میں فاعل ومفعول کا ذکر تک نہیں ہے ۔ ہاں تعریف کی شرح میں ایسا بہت کچھ مل جاتا ہے ۔
تعریف ضرور کی ہے لیکن آپ کی طرح ڈینگ نہیں ہانکی ہے کہ میری تعریف جامع مانع اوردنیا میں جتنی دیگر تعریفات تقلید کی ہیں وہ سب غیر جامع ومانع۔مثلا کتاب کے آغاز میں ہی فقہ کی تعریف کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
وَالْفِقْهُ عِبَارَةٌ عَنْ الْعِلْمِ وَالْفَهْمِ فِي أَصْلِ الْوَضْعِ۔۔۔۔ وَلَكِنْ صَارَ بِعُرْفِ الْعُلَمَاءِ عِبَارَةً عَنْ الْعِلْمِ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الثَّابِتَةِ لِأَفْعَالِ الْمُكَلَّفِينَ خَاصَّةً۔
فتدبر !
سبحان اللہ یعنی ایسی تعریف کہ جس میں فن کا کچھ بھی ذکر نہ ہو لیکن پھر بھی وہ جامع ومانع تعریف ہو۔آپ تقلید کی تعریف پوچھ رہےہیں یا اس پر مضمون کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ابتسامہ۔
اس میں مجتہد وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ہے۔ خواہ کسی کی بھی تقلید ہو۔اب ذراہم رفیق طاہر صاحب کے تقلید پر کی تعریف پر کئے گئے ایک اعتراض کونقل کرتے ہیں تاکہ قارئین بھی دیکھ لیں کہ ان کا موقف اب کتنابدل چکاہے۔کہ ہر وہ آدمی تقلید کرے گا جو کسی کی کتاب وسنت کے مخالف بات مانے گا
اور ہر اس آدمی کی تقلید ہوگی جسکی کتاب وسنت کے مخالف بات مانی جا رہی ہوگی !
کچھ مزید اعتراضات ملاحظہ ہوںرفیق طاہر صاحب کے ماضی کے اعتراضات
العمل بقول المجتهد من غير معرفة دليله معرفة تامة
مجتہد کے قول پر عمل کرنا اس کے دلیل کی مکمل اورپوری معرفت کے بغیر
مجتہدلفظ مجتہد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خواہ مجتہد مطلق ہو یا مجتہد فی المذہب جسے آپ مجتہد مقید کا نام دیتے ہیں ہر ایک کی بات ماننے والا اسکا مقلد ٹھہرے گا اسی کے نتیجہ میں برھان الدین مرغینانی جو کہ مجتہد فی المذھب تھے انکی بات ماننے والا برھان الدین کا بھی مقلد ٹھہرے گا
کیونکہ آپ نے تعریف کو مانع بنانے کے لیے لفظ مجتہد مطلق نہیں بولا بلکہ صرف لفظ مجتہد بولا ہے جو کہ عام ہے اور عام اپنے تمام تر افراد کو شامل ہوتا ہے۔
خوب سمجھ لیں
کے قول پرلفظ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی صرف ایک قول پر بھی عمل کرلے اور باقیوں پر نہ کرے تو وہ اس مجتہد کا مقلد کہلائے گا کیونکہ وہ بھی قول پر تو عمل کرنیوالا ہے ہی خواہ تمام اقول پر نہیں
کیونکہ آپ نے لفظ "قول " بولا ہے لفظ "تمام تر اقوال " نہیں
اس کے دلیل
یہ لفظ " اسکی دلیل " اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر اسکو اس کے قول کی دلیل کتاب وسنت سے مل بھی جائے تو بھی وہ مقلد ہی رہے گا کیونکہ اسکو یہ علم نہیں کہ یہ دلیل مجتہد کے ذہن میں مسئلہ استنباط کرتے ہوئے مستحضر تھی یا نہیں۔اور کسی کے دل و دماغ میں کیا ہے اسکا علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں الا کہ وہ صاحب خود بتا دیں
لفظ " مکمل اور پوری معرفت " اس بات پر دال ہے کہ اگر مقلد کو دلیل مل بھی جائے لیکن اس دلیل کی مکمل معرفت نہ ہو یا یوں کہہ لیں کہ اسکو دلیل کی کچھ نہ کچھ معرفت حاصل ہو بھی جائے تو تب بھی وہ مقلد ہی رہتا ہے تا آنکہ اسکو "مکمل اور پوری معرفت" حاصل نہ ہو جائے۔مکمل اورپوری معرفت
ان کے یہ اعتراضات محض اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ کوئی صاحب رفیق طاہر صاحب کی تعریف پراعتراضات کو ہماری "بال کی کھال"نکالنے کی کوشش نہ سمجھیں بلکہ انہی کا"شامت اعمال"قراردیں۔آپکی تعریف میں تو یہ الفاظ ہیں کہ
مجتہد کے قول پر عمل کرنایہ نہیں ہے کہ مجتہد کے قول پر مجتہد کے کہنے کی وجہ سے ہی عمل کرنا
یہ اعتراض آپ کا تب بنتا تھا جب آپکی بیان کردہ تعریف میں یہ قید موجود ہوتی !!!
دیکھیے مسائل خلاف میں جمہور کے رائے پر عمل کرنے والے کہتے ہیں کہ تم تو صرف دوچار شخصیتوں کے قول پر عمل کر رہے ہو جبکہ ہم اسقدر زیادہ شخصیتوں کے اقوال پر عمل پیرا ہیں
لہذا آپ اپنی تعریف کو مانع بنائیں تاکہ آپ اعتراض کرنے کے حقدار ٹھریں !!!!!!
کیونکہ جب دو یا تین مجتہدین کا قول ایک ہی ہو تو اس ایک قول پر عمل کرنے والا دو یاتین اقوال پر عمل کرنے والا ہوتا ہے اور جب اس قول کو کتاب وسنت کی تائیید ونصرت بھی حاصل ہوتو وہ ان مجتہدین کے اقوال اور کتاب وسنت پر بھی عمل کرنے والا ہوتا ہے
فتفکر وتدبر ...........!!!!!!
3- اسکا تفصیلی جواب 2 میں موجود ہے لیکن آنجناب کی تسلی وتشفی کے پھر عرض کر دیتا ہوں کہ آپ نے یہ قید نہیں لگائی کہ مجتہد کے قول پر مجتہد کے ہی کہنے کی بناء پر عمل کیا جائے
بلکہ آپ نے مطلقا مجتہد کے قول پر عمل کرنے کو تقلید قرار دیا ہے
اور یہ بات کہ انکو امام صاحب کی دلیل کا علم نہیں تھا بہت ہی واضح ہے کیونکہ انہوں نے امام صاحب سے اسکی دلیل نہیں پوچھی اور نہ ہی کسی نے انکو بتائی ہے اگر ایسا کچھ ہوا ہے آپکے زعم باطل کے مطابق تو دلیل بتائیے کہ کس نے انکو بتایا ہے کہ امام صاحب کی یہ دلیل ہے ؟؟؟؟
4- اسکا جواب بھی 2 میں موجود ہے کہ آپ نے یہ قید ہی نہیں لگائی کہ مجتہد کے قول پر محض مجتہد کے کہنے کی بناء پر عمل کیا جائے
فاعتبروا یا اولی الابصار
5- اسکی وضاحت بھی میں آغاز میں کر چکا ہوں کہ آپ نے تعریف میں کہا ہے کہ " مجتہد کے قول پر "
تو ایک قول بھی قول ہی ہوتا ہے
اگر آپ نے تعریف میں یہ کہا ہوتا کہ " مجتہد کے تمام اقوال پر " تو پھر آپ کا یہ اعتراض بنتا تھا
لہذا اب تو آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ یہ معنی تعریف سے کیسے نکلا ہے
خوب سمجھ لیں ..........!!!
آپ کی مذکورہ تعریف پر تواعتراضات کی حد نہیں ہے لیکن اس سے پہلے ذراہمیں کتاب وسنت کی مخالفت کی ذراوضاحت کردیں کہ کتاب وسنت کی مخالفت کس کوکہتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ یہ سوال دوہراچکاہوں لیکن جواب سے محرومی ہی ہاتھ آئی ہے۔تاکہ بات آگے چلے اورکوشش کیجئے گاکہ بات گول مول نہ ہو۔ واضح حدبندی کےساتھ ہو جس پر فقہاء کے اجتہادات کو تولاجاسکے۔کہ ہر وہ آدمی تقلید کرے گا جو کسی کی کتاب وسنت کے مخالف بات مانے گا
اور ہر اس آدمی کی تقلید ہوگی جسکی کتاب وسنت کے مخالف بات مانی جا رہی ہوگی !
مولانا محمو د الحسن سابقہ شيخ الحديث ديوبند لکھتے ہيں:-
”حق و انصاف يہ ہے کہ امام شافعي رحمتہ اللہ عليہ کے مذہب کو اس مسئلہ (بيع خيار) ميں ترجيح خاص ہے ليکن ہم مقلد ہيں اس لئے ہم پر اپنے امام ابو حنيفہ رحمتہ اللہ عليہ کي تقليد واجب ہے “
(تقرير ترمذي ، جلد 1، صفحہ 49)
يعني مقلد کے لئے حق اپنانا واجب نہيں بلکہ امام کي تقليد کرنا واجب ہے۔
مثال کسی چیز کے تقریب للفہم کے لئے ہوتی ہے لہذا پہلے کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت کردیں اس کے بعد مثالیں پیش کریں توزیادہ بہتر ہوگا۔طحاوی دوراں صاحب !
یہ بات تو میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ اس تعریف کے نتیجہ میں مقلد کی بھی تقلید ہو سکتی ہے ۔ شاید گزشتہ صفحہ پر میرا وہ مراسلہ آپ کی نظر سے نہیں گزرا !!!
رہی یہ بات کہ مخالفت کسے کہتے ہیں تو اسے ایک مثال کے ساتھ سمجھیں :
آپ نے "خوب سمجھ لیں"کاگردان ضروریاد کیاہے لیکن شاید اسے خود نہیں سمجھاہےدر تناقض هشت وحدت شرط دان وحدت موضوع و محمول و مکان
وحدت شرط و اضافه، جزء و کل قوه و فعل است و در آخر زمان
خوب سمجھ لیں
یہ تھامطالبہ اورآپ کی دلیل وہ ہے جو ماقبل میں مذکور ہوئی ۔لہذا پہلے کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت کردیں اس کے بعد مثالیں پیش کریں توزیادہ بہتر ہوگا۔
پہلے آپ کتاب وسنت کی مخالفت کی وضاحت اورحد بندی کردیں پھراس کے بعد مثال پیش کریں۔