- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
بعض صحابہ کرام مجہول ہیں۔۔۔حنفیہ کا موقف
16-قاعدہ:احناف کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مجہول صحابہ بھی ہیں جن کی روایت قبول نہیں کی جائے گی، مثال کے طور پر وابصہ بن معبد، معقل بن سنان اور فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہم۔( نورالانوار، ص184-185)
لیکن یہ قاعدہ بھی سراسر غلط اور اسلام کے خلاف ہے۔تمام اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ " الصحابة كلھم عدول فلا تضر جهالتھم"۔ کہ تمام صحابہ کرام صاحبِ عدالت ہیں۔ چاہے وہ مجہول ہی کیوں نہ ہوں۔ اسکے علاوہ یہ قاعدہ خود اصول کے خلاف ہے۔ اگر مقلدین کا خیال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر رد کیا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خود تو آپس میں ایک دورے پر کلام کر سکتے ہیں لیکن ہم اس طرح کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایتیں بالکل صحیح ہیں۔ ان کی روایتیں بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح معقل بن سنان رضی اللہ عنہ کی روایتیں بھی صحیح ہیں۔ (مشکوۃ ج2ص277)۔
ہم مقلدین سے صرف اتنی التماس ہی کرسکتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے کےلیے بہانے تراشنے سے باز رہیں ورنہ یہ اقدام ان کے ایمان کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
عمل علی روایۃ الراوی لا برایہ۔۔۔۔اور حنفیہ کا موقف
17-قاعدہ: کسی صحابی رسول کا حدیث کے خلاف عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث ثابت نہیں ہے۔(نورالانوار،ص195)
مذکورہ قاعدہ کی طرح یہ قاعدہ بھی سراسر غلط ہے، کیونکہ راوی کے عمل کے مقابلے میں اس کی روایت زیادہ معتبر ہوتی ہے۔ ا س لیے کہ ترکِ عمل کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس وقت اس کو حدیث یاد نہ ہو۔ مصطلح الحدیث میں یہ قاعدہ ہے کہ جب استاد کے ذہن سے کوئی حدیث نکل جائے اور شاگرد کو یاد ہو تو یہ حدیث بھی صحیح اور قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی راوی اجتہادی طور پر دوسری روایت پر بھی عمل کر لیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ احناف نے خود اس قاعدے کو توڑا ہے۔ مثال کے طور پر عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث بیان کرتی ہیں کہ : مسافر نماز کی قصر کرے گا۔ لیکن وہ خود سفر کی حالت میں پوری نماز پڑھتی تھی۔ یہاں پر احناف عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی روایت کو قبول کرتے ہیں۔