• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت اور مقلدین کی اقسام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تیسری بحث: اصول فقہ کے بعض قواعد پر کلام

اصول فقہ پر کلام کا مقصد یہ نہیں ہے کہ فقہی کتابوں سے مطلقاََ فائدہ نہیں اُٹھایا جائے اور ان قواعد کو مسترد کر دیا جائے ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان اصول وقواعد کو کتاب اور سنت پر پیش کیا جائے۔ صحیح اور غلط قاعدے کا امتیاز کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی غلط قاعدے پر احکامِ دینی کی بنیاد رکھی جائے جس سے وہ باطل ہو جائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آگے ہم کتابوں کے حوالے دیں گے کہ اس مسئلے کی تفصیل کہاں دیکھی جاسکتی ہے تو ان حوالوں سے مراد طلبِ تفصیل ہوگا نہ کی تخریج۔ کیونکہ پہلے سوالات کے ضمن میں دیئے گئے حوالوں پر بعض مقلدین نے اعتراض کیا تھا کہ یہ حدیث تو فلاں کتاب میں نہیں ہے۔ یا وہاں نامکمل ہے۔ تو پہلے مصنف کے مقصد کو سمجھا جائے پھر اعتراض کیا جائے۔
قارئین محترم: اصول فقہ پر تفصیلی کلام کے لیے تو وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں صفحات پر بسیط کتاب کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں اختصار کی غرض سے محض مثال کے طور پر چند قواعد کی نشاندہی کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ عاقل تو چند قواعد کی نشاندہی سے تحقیق پر آمادہ ہوسکتا ہے جبکہ متعصب کو مکمل واضح البیان کتاب بھی تحقیق پر آمادہ نہیں کرسکتی۔ اصل کتاب میں ہم نے مقلدین پر جو اعتراضات کئے تھے ان کا جواب اب تک مقلدین نہیں دے پائے۔ اور ان شاء اللہ ہماری طرف سے اصول فقہ پر ہونے والے آئندہ اعتراضات کا جواب بھی حنفی مقلدین نہیں دے سکیں گے۔ ایک تو اوراق کو سیاہ کرنا ہے یہ تو بچہ بھی کرسکتا ہے لیکن دلائل سے کسی کو قائل کرنا مقلدین کی محدود قابلیت اور استطاعت سے باہر ہے۔والله المستعان وعليه التكلان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شریعت اسلامیہ کے چار اصول۔۔۔حنفیہ کا موقف

1- قاعدہ: فقہ کا اصول ہے کہ " قرآن وسنت، قیاس اور اجماع شریعتِ اسلامیہ کے چار اصول ہیں"۔
حالانکہ قیاس اور اجماع شریعت میں مستقل دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اجماع کے لیے ماخذ کا ہونا ضروری ہے۔ اور قیاس پوری اُمت کے لیے دلیل کی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ صرف مجتہد کے لیے بوقتِ ضرورت دلیل ہے، امت کےلیے حجت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قیاس اکثر مقامات پر صاحبین رح اور امام شافعی رحمہ اللہ نے رد کیا ہے۔ اگر قیاس امت کے لیے مطلقاََ حجت اور دلیل ہوتا تو پھر صاحبین رحمہا اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے لیے ایسا کرنا صحیح نہیں تھا اور نہ ہمارے لیے کسی قیاس کو رد کرنا صحیح ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کے صرف دو اصول ہیں" أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" یعنی صرف کتاب وسنت۔ باقی قیاس، اجماع استصحاب الحال، گذشتہ شریعتیں، اقوال صحابہ، مصالح مرسلہ، سدِ ذرائع، عرف اور استحسان امت کےلیے مستقل دلائل نہیں ہیں۔ اگر یہ قرآن وحدیث کے موافق ہوئے تو صحیح ہیں ورنہ ان پر احکام شریعت کو مبنی قرار دینا باطل ہوگا۔
قیاس کی باقی تفصیل آئندہ صفحات پر ملاحظہ کیجیئے گا۔ ان شاء اللہ
2- قاعدہ: اصولین کتاب اللہ کو بیس(20) حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ کتاب اللہ میں حقیقت، مجاز اور خاص وغیرہ نہیں ہے۔ (تفصیل آئندہ صفحات پر دیکھئے)۔
دوسری بات یہ ہے کہ کتاب اللہ کو بیس (20) حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد اصولین طلاق، غلاموں اور وصیتوں کے مسائل بیان کرتے ہیں۔لیکن قرآن مجید سے ہر مسئلے میں مثالیں پیش نہیں کرتے۔ اصول کی کتابوں میں تقریباََ بیس (20) آیتیں بھی نہیں ہوگی۔ ان میں باقی تمام مسائل بے جا بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے اصول الشاشی، نورالانوار، حسامی اور تلویح و توضیح وغیرہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین کی اصول میں کوئی کتاب نہیں

3-قاعدہ: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام محمد رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے اصول کی کوئی خاص کتاب نہیں لکھی ہے۔ صرف جزئیات اور فرضی مسائل اپنی کتابوں میں لکھے ہیں۔ متاخرین نے انہی جزئیات اور فروع کو اصول کا رنگ دے دیا۔
یہی وجہ ہے کہ احناف کے اصول و قواعد اکثر جزئیات کے تابع ہیں۔ حالانکہ جزئیات کو اصول کے تابع کرنا چاہیے تھا۔ احناف صرف ایک جزئی مسئلے کے لیے ایسا قاعدہ وضع کرتے ہیں جس پر دوسرے مسائل تفریع نہیں ہو سکتے ۔
یہی وجہ ہے کہ احناف اصول میں فقہی مسائل کو چھیڑتے ہیں۔
اس بارے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وجدت اكثرھم يزعمون ان بناء الخلاف بين ابی حنيفة والشافعی علی ھذہ الاصول المذکورۃ فی کتاب البزدوي ونحوه، وانما الحق ان اكثرھا اصول مخرجة علی قولھم وانھا لاتصح بھا رواية عن ابی حنيفة وصاحبيه" ۔ الانصاف ص88، حجة الله البالغة ج1ص160
اكثر مقلدین کا خیال ہے کہ اصول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین رح سے منقول ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اصول ان کے فروعی مسائل اور اقوال سے بنائے گئے ہیں۔ لہذا اصول کو ان کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-قاعدہ: "القرٓن اسم للنظم والمعنی جميعاََ" اور پھر ماتریدیہ اور اشعریہ کہتے ہیں کہ: قرآن لفظاََ مخلوق ہے اور کلام نفسی غیر مخلوق ہے۔ حالانکہ ان دونوں باتوں میں تضاد ہے کیونکہ لفظی قرآن کو بھی اگر حقیقی کلام سمجھا جائے تو یہ بھی غیر مخلوق ہوا۔ اور اگر حقیقی کلام نہ سمجھا جائے تو پھر اُس کو قرآن کیوں کہتے ہیں؟۔ جب قرآن الفاظ اور معانی کا نام ٹھہرا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ"۔ جتنا بھی قرآن تمہیں یاد ہو اس کی تلاوات کرو۔ تو پھر احناف کے نزدیک فارسی میں قراءت کیسے جائز ہوئی؟۔ یہ بات قرآن مجید کے نص کے خلاف ہے۔ نورالانوار ص 9 کی عبارت کے مطابق " ممکن ہے قرآن کے الفاظ اللہ تعالی اور بندے کے درمیان حجاب ہوں"۔ صریح جھوٹ ہے۔ کیونکہ قرآنی الفاظ اللہ تعالی کے تعلق کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ "۔ ايك اور جگہ فرمایا: يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ"۔ یہ حجاب نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ احناف اپنی مرضی سے دین گھر بیٹھ بناتے ہیں۔
کتاب اللہ کا خاص۔۔۔ایک غلط قاعدہ

5-قاعدہ: کتاب اللہ کا خاص بیّن بنفسہ ہوتا ہے جس میں وضاحت اور بیان کا احتمال نہیں پایا جاتا۔(نورالانوار ص15، خلاصۃ الافکار شرح المنار ص66 حسامی)
یہ ایک غلط قاعدہ ہے، جس کو متاخرین معتزلہ اور احناف نے صرف اس لیے بنایا ہے کہ جن صحیح احادیث میں حنفی مذہب سے متضاد مسائل بیان ہوئے ہیں ان احادیث کو اس قاعدے کے ذریعے ترک کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ اس قاعدے کے وجود میں آنے کا مقصد اور کوئی نہیں ہے۔ یہ قاعدہ قرآن کے بالکل خلاف ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے: "وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ"۔ كہ قرآن مجید کی توضیح اور تبیین کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے۔ خاص اور عام کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن کے بعض حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں گےا ور بعض حصے بیان نہیں کریں گے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح نے الانصاف ص88 اور حجۃ اللہ البالغۃ ج1ص160 میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس قاعدے کی روسے مندرجہ ذیل احادیث رد کی گئی ہیں۔
نماز میں تعدیل ارکان اور طمانیت (اطمینان) سے متعلق احادیث، وضوء میں نیت سے متعلق احادیث، وضوء کی ترتیب مسنونہ سے متعلق احادیث، تضمین مسروق سے متعلق احادیث، وضوء میں پے درپے والی سے متعلق وارد ہونے والی احادیث۔ نورالانوار نے ان تمام احادیث کو مذکورہ قاعدہ کے ذریعے رد کر دیا ہے۔ (نورلانواف ص15 اور ص26۔)
مسائل کی صحت اور ضعف کا اعتبار اساس اور بنیاد پر مبنی ہوتا ہے۔ جب اساس ہی صحیح نہ ہو تو اس پر مبنی تمام مسائل خودبخود باطل ٹھہرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان تکون تلك الفروع والمسائل مبنية علی اصول فاسدةِِ فمن عرف السنة بين حكم ذلك الاصل فسقطت تلك الفزوع المولدة كلھا وھذا كما فرعه صاحب الجامع الكبير (يريد محمد بن الحسن الشيباني) فان غالب فروعه كما بلغنا عن الامام ابی محمد المقدسی انه كان يقول مثله كمثل من بنٰي داراََ حسنة علی اساس مغصوب فلما جاء صاحب الاساس ونازعه فی الاساس وقلعه انھدمت تلك الدار۔ (كتاب الاستقامة ص9)
اصول فاسدہ پر مبنی مسائل اور فروع کبھی بھی نقطہ صحت کو نہیں پہنچ سکتے۔ جب اساس اور بنیاد ہی کسی اور کی ہو تو اس پر جتنی بھی خوبصورت بلند وبالا عمارت تعمیر کی جائے وہ زمین کے مالک کے رحم وکرم پر ہوگی۔ وہ جس وقت چاہے اس کو منہدم کرنے کا حق رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنی زمین خالی کرانے کا قانونی اہل ہے۔
مقصد یہ ہے کہ : جو بنیاد غیر قانونی اور گردش دوراں کی زد میں ہو۔ اس کا سہار لینے کی توقع اہل دانش وخرد سے نہیں کی جاسکتی لیکن۔۔۔استعمالِ عقل سے گریزاں مقلدین ہمیشہ سے ایسی ہی بنیادوں کے سہارے اپنے مسلک کی کمزور عمارتیں کھڑی کرتے آئیں ہیں۔
امام محمد رحمہ اللہ کی تصانیف میں مرقوم تقریباََ ان تمام مسائل کا ان خستہ حال بنیادوں پر مبنی ہونا اس حقیقیت کا بیّن ثبوت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
امر وجوب کا متقاضی ہے

6-قاعدہ: "الامر للوجوب" (نورالانوار،ص31)
یہ قاعدہ قرآن مجید کے مطابق ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:" فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ "۔ جو لوگ اللہ کے امر کی مخالفت کرتے ہیں وہ اللہ سے ڈر جائیں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے: "واذا امرتكم بامر فاتوا منه ما استطعتم"۔جب میں تمہیں حکم کروں تو جتنا ممکن ہو سکے اس پر عمل کرو۔ لیکن بے شمار مقامات پر احناف نے اس قاعدے کی مخالفت کی ہے۔
مثال کے طور پر نبی علیہ السلام نے وضوء کے دوران کلی کرنے "مضمض" ناک صاف کرنے "اِستنثر" اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھانے "وبالغ فی الاستنشاق"۔ کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تسبیحات پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد مقامات ہیں جہاں اسلام امر کے صیغوں سے مسلمانوں سے مخاطب ہے۔ لیکن احناف وضوء کے مندرجہ بالا اوامر اور اس کے علاوہ متعدد حکموں کو سنت یا مستحب کہتے ہیں۔ حالانکہ کوئی ایسا قرینہ صادقہ نہیں ہے جو امر کے وجوب کو استحباب میں بدل دے۔
امر تکرار کا متقاضی نہیں۔۔۔۔فقہی اصول کا متن

7-قاعدہ: "امر تکرار کا تقاضا نہیں کرتا" (نورالانوار، ص23،44)
یہ قاعدہ مطلقاََ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ کتاب وسنت کے اکثر اوامر تکرار کا تقاضا کرتے ہیں۔ جیسے " اُذُکُرُوا الله" (اللہ کو یاد کرو)، "وَاشُكُرُوا لِیُ" (میرا شکر ادا کرو)، "اُتلُ مَا اُوحِیَ اِلَیكَ" (قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو)، "وَاعبُد رَبِّكَ" (اپنے رب کی عبادت کرو)،" وَاقتَرِبُ"(اللہ کی قربت کے منازل طے کرتے رہو)، "وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ" (اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو)، "وَاصبِر" (صبر سے کام لیتے رہو)، "وَخَالِقِ الناسَ بَخُلقِِ حَسَنِِ" (لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے رہو) مذکورہ اوامر اور اسی طرح کے اور اوامر تکرار کے متقاضی ہیں۔ یہ قاعدہ اس وقت کارآمد اور کتاب وسنت کے موافق ہوگا جب اس کو چند مخصوص احکامات کے ساتھ مقید کر دیا جائے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
امر خصوصیت کا متقاضی ہے۔۔۔فقہ کا تضاد

8- قاعدہ: "امر خاص ہوتا ہے" اور خاص کی تعریف یوں کرتے ہیں۔ "لفظ وضع لمعنی معلوم علی الانفراد۔۔۔"
خاص وہ لفظ ہے جس کو معلوم اور منفرد معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ ایک طرف خاص کی یہ تعریف کرتے ہیں اور دوسری طرف علامہ فخر الاسلام بزدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ "امر ندب اور اباحت کے لیے بھی آتا ہے"
اسی طرح عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " کہ امر وجوب کے لیے اس وقت آئے گا جب قرائن سے خالی ہوگا"۔ یہ دونوں باتیں خاص کے معنی سے منافات رکھتی ہیں۔ کیونکہ خاص کا اطلاق معنی معلومہ پر ہوتا ہے۔ اور جب اس کا اطلاق معانی کثیرہ پر ہو یا اس میں قرائن پائے جائیں تو پھر خاص کی تعریف غلط ہوئی۔
(عمدۃ القاری ج4ص91) حاشیہ خلاصۃ الافکار ص7 لثناء اللہ الزاھدی)
تو امر کو خاص میں داخل کرنا غلط ہے۔ اور اکثر احناف اس کو ندب اور وجوب میں حقیقت سمجھتے ہیں۔ جبکہ کچھ اس کو مطلب طلب میں شمار کرتے ہیں۔ یہاں خاص کی تعریف پر یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ خاص یقین کا فائدہ دیتا ہے یا ظنِ غالب کےلیے آتا ہے۔ اگر دونوں کے لیے آتا ہے تب تو خصوص کا معنی ختم ہوا کیونکہ خاص کا معنی ایک ہے۔ اور یہاں یقین اور گمان دونوں کا احتمال پیدا ہوا۔ اور اگر یقین کے لیے ہو تو بہت سے ایسےدلائل ہیں جو آپ کے نزدیک خاص تو ہیں لیکن اُن سے یقین کا فائدہ نہیں ہوتا۔ (تعلیق خلاصۃ الافکار لثناء اللہ الزاھدی ص 64،65،66)
افعال مشروعہ سے نہی

9-قاعدہ: "نہی افعالِ مشروعہ سے بقاءِ مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے" (نورالانوار، اصول الشاشی وغیرہ) یہ قاعدہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگرا یک صحیح کام کیا جائے تو شارع کا اس پر راضی ہونا ایک فطری امر ہے۔ اسی طرح اللہ اور اس کا رسول اگر ایک کام سے منع کرتے تو اس کے کرنے سے اللہ تعالی اور رسول اللہ کا ناراض ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اور جب اللہ تعالی اور اس کا رسول ناراض ہوگیا تو پھر یہ کام کس طرح مشروع رہ گیا۔ جس طرح عیدکے دن روزے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اور بھی مناہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حقیقت اور مجاز۔۔۔فقہی مسائل کے لیے تفریعی بنیاد

10-قاعدہ: یہ قاعدہ حقیقت اور مجاز کے بارے میں ہے۔ اصول فقہ میں حقیقت اور مجاز پر لاتعداد فرضی اور غیرفرضی مسائل کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اور بہت سارے فروعات کو حقیقت اور مجاز پر تفریع کیا گیا ہے۔ اپنی طرف سے ائمہ مجتہدین کی مخالفت میں ان قواعد کو وضع کیا گیا ہے۔ اور ایک دوسرے کے خلاف دلائل قائم کئے ہیں۔ جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ "حقیقت ومجاز" نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ سے۔ اسی طرح امام ابو یوسف اور امام محمد سے بھی کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ لغت اور نحو کے اماموں:سیبویہ، خلیل اور کسائی وغیرہم سے بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
حقیقت اور مجاز۔۔۔تیسری صدی ھجری کی پیداوار

اس کو تیسری صدی میں ابوالعلاء المعری نے وضع کیا ہے۔ لہذا اس پر دین کے احکام کو مبنی قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اتنی "مؤخرالوجود" چیز احکاماتِ دین کے لیے بنیاد نہیں بن سکتی۔ اگر اس کو بنیاد بنا بھی دیا جائے تو وہ نقصان سے خالی نہ ہوگا۔ ہمارے خیال میں حقیقت اور مجاز کی لاحاصل اور بے فائدہ بحث میں پڑنا سعی لاحاصل ہے۔ اصول فقہ میں حقیقت اور مجاز کے باب میں غلاموں، طلاق، قسم اور وصیت سے متعلق جتنے بھی مسائل ہیں وہ تمام کے تمام فرضی اور بے فائدہ ہیں۔
قارئین محترم: اپنا قیمتی وقت اور دماغ اس لاحاصل بحث میں صرف کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ اس سے بچنا ہی دین کے مفاد میں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ تمام الفاظ حقیقت ہیں مجاز اس میں بالکل نہیں ہے۔
مجاز کی تعریف یوں کی جاتی ہے "استعمال لفظ فی غیر موضوع له بوجود قرینة"۔ کہ لفظ قرینے کی موجودگی میں موضوع لہ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے ک وضع اور استعمال میں فرق نہیں ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پہلے الفاظ کو وضع کیا گیا ہو اور پھر اس کا استعمال بتایا گیا ہو۔ بلکہ لغات دنیا میں طریقہ استعمال کے ساتھ آئے ہیں۔ تو جس دن عربی لغت دنیا میں آئی"اسد" اسی دن سے حیوان مفترس (چیر پھاڑنے والاجانور) کے معنی میں مستعمل ہے۔ یہ ایک دقیق اور عمیق بحث ہے۔ (مجموعۃ الفتاوی میں اس کو تفصیلا دیکھا جاسکتا ہے (ج20ص497)۔
لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ مجاز ہے تو اُسے صرف لغت تک محدود رکھا جائے۔ دین کے احکامات میں اس کو داخل کر دینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث ہی مسلمان کے لیے کافی ہے۔ وباللہ التوفیق!
مفہوم کا اعتبار

11-قاعدہ: احناف کے ہاں کتاب وسنت کے مفہوم کا تو اعتبار نہیں ہوتا لیکن اپنی کتابوں کے متن کا اعتبار ضرور ہوتا ہے۔ اور اس کے مفہوم مخالف کو معتبر بھی سمجھتے ہیں۔ (ردالمحتار ج5ص35)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
خبر واحد مفید للیقین نہیں۔۔۔۔فقہی اصول

12-قاعدہ: "خبر واحد سے ظن لازم آتا ہے۔ اس لیے اس سے فرضیت ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن پر زیادتی آئے تو خبرِ واحد کو رد کر دیا جائے گا" ۔ یہ قاعدہ بھی غلط ہے کیونکہ خبر واحد "جو مقبولیت کا درجہ رکھتی ہو وہ یقین کا فائدہ ضرور دیتی ہے"۔
شرح نخبۃ الفکر و ردالمختار ج1ص95، مکانۃ الصحیحین ص95، تعلیق الباعث الحثیث لااحمد شاکر ص25 الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم ج1ص119، خبرالواحد حجۃ فی العقائد والاحکام لشیخ الالبانی۔ تفصیلا دیکھئے۔
مذکورہ بالا تمام حوالہ جات بالتفصیل دیکھا جاسکتا ہے کہ خبر واحد ظنی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے اس قاعدے پر مبنی مسائل بھی غلط ہیں۔
خبر واحد۔۔۔۔۔قرآن پر زیادتی کا امکان اور احناف کا تناقض

13-قاعدہ: "خبر واحد کے ذریعے کتاب اللہ پر زیادتی جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے نسخ لازم آتا ہے اور خبر واحد کے ذریعے کتاب اللہ کا نسخ نہیں ہوسکتا"۔
یہ قاعدہ بھی قابلِ مذمت ہے۔ حقیقتاََ یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جس نے دین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ اس کے ذریعے رد کر دیا گیا ہے۔ خود احناف نے بھی سینکڑوں مسائل میں اس کو فراموش کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر نبیذالتمر (کھجور کے رس) سے وضوء کے بارے میں ایک ضعیف حدیث آئی ہے جس پر احناف نے عمل کیا ہے، حالانکہ نبیذ التمر سے وضوء قرآن پر زیادتی ہے کیونکہ قرآن میں وضوء کے لیے پانی کے استعمال کا حکم آیا ہے۔ (کما فی الھدایہ)۔
جب ان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو خبر واحد ہے جس سے قرآن پر زیادتی لازم آرہی ہے تو اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ خبر مشہور ہے اور صاحب حاشیہ فرماتے ہیں کہ: "مشہور تو نہیں البتہ اس کو مشہور لغوی لیا جاسکتا ہے"۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موضوعی حدیث بھی مشہور لغوی ہوسکتی ہے۔ تو کای اس کو یہ جواب فائدہ دے گا؟۔ سوچنے کا مقام ہے۔
اسی طرح مہر کے نصاب کو دس درہم مقرر کرنا قرآن مجید کے قول:" أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم "۔ پر زیادتی ہے:" وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ"۔ کہ چور مرد اور چور عورت کا ہاتھ کاٹ دو۔ کیونکہ یہاں کوئی مقدار مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ تو اس قاعدے کا اور کوئی فائدہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ آدمی پرویزی بن جائے۔ اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے اعلام الموقعین لابن القیم ج2ص309) فتح الباری ج5ص215) مرعاۃ المفاتیح ج1ص258)۔
اصل بات یہ ہے کہ خبر واحد کتاب اللہ کے عام کو خاص کرسکتی ہے اور مطلق کو مقید کرسکتی ہے وغیرہ۔ کیونکہ نبی علیہ السلام قرآن مجید کے بیان کرنے والے ہیں اگر نبی علیہ السلام کی باتیں قرآن مجید کے خلاف ہوں تو پھر اور کس کی باتیں قرآن مجید کے موافق ہوں گی؟۔ اگر مقلدین کا خیال ہے کہ قرآن مجید کی مخالفت میں خبر واحد کو اس لیے رد کردیا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے وہ ثابت نہ ہو؟۔ تو میں کہتا ہوں کہ مقلدین کا سارا مسلک "ہوسکتا ہے" (ممکن ہے) اور دیگر شکوک واحتمالات سے مرتّب ہے۔ مقلدین کی اس بات سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے تمام احادیثِ صحیحہ ثابت نہ ہوں۔ اگر یہی طریقہ چل نکلا تو بہت چلد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔ ہمارے خیال میں متاخرین کے یہ اصول پرویزیت کی پہلی سیڑھی ہیں۔ اور کسی بہانے سے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے کی سازش ہے۔ اس قاعدے کے بطلان پر بسیط کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ مختصر رسالہ اس تفصیل کا متحمل نہیں ہے۔ واللہ المستعان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- قاعدہ: مرسل حدیث اگر دوسری یا تیسری صدی میں کسی سے منقول ہو تو وہ حجت ہے کیونکہ یہ حدیث اگر اس راوی کے نزدیک ثابت نہ ہوتی تو وہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوتا۔
صحیح بات یہ ہے کہ مرسل حدیث چند شرائط کی روح سے حجت ہے۔
(1)۔ مرسِل ثقہ ہو (2)۔ ارسال صرف ثقات سے کیا جائے۔(3)۔ اسکی تائید بھی ہو۔
احناف کی یہ بات کہ "راوی ذمہ داری قبول کرنے کےلیے تیار نہ ہوتا" غلط ہے کیونکہ اگر اصول حدیث میں تعدیل مبہم قبول نہیں ہے تو ارسال کس طرح قابلِ قبول ہے؟ جس طرح کہ ایک راوی یوں کہے کہ "حدثنی الثقة"۔ تو یہ روایت تحقیقی قول کے مطابق قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ایک الگ علمی بحث ہے جس کی تفصیل یہاں مطلوب نہیں ہے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہما احناف کے نزدیک غیر فقیہ

15-قاعدہ: احناف نے ایک قاعدہ وضع کیا ہے:
"اگر کسی غیر فقیہ صحابی کی حدیث قیاس (عقل) کے خلاف آئے تو صحابی کی حدیث کو رد کر دیا جائے گا۔ اور اپنی رائے یعنی قیاس پر عمل کیا جائے گا۔ کیونکہ ممکن ہے صحابی رضی اللہ عنہ نے روایت بالمعنی کی ہو اور حدیث کے مطلب کو نہ سمجھ سکے ہوں"۔ اور چونکہ ہم صحابی رضی اللہ عنہ سے زیادہ جانتے ہیں لہذا ہماری رائے کو صحابی کی حدیث پر فوقیت حاصل ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ غیر فقیہ صحابہ کون ہیں؟۔ تو نورالانوار ص183 اور اصول الشاشی میں ہے کہ وہ غیر فقیہ صحابہ ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما ہیں۔
یہ باطل قاعدہ عیسٰی بن ابان کا وضع کردہ ہے۔ جبکہ احناف اپنے آپ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد کہلاتے ہیں ۔ تو کیا یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ہے یا کسی اور کی۔
مذکورہ بالا قاعدے کو قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ احناف مقلدین کے مقلد ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے 4434 حدیثیں مروی ہیں ۔ جبکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے 2200 حدیثیں مروی ہیں جن کو احناف اس قاعدے کی رو سے چھوڑ دیتے ہیں۔
پرویزی اور معتزلہ نبی علیہ السلام کی احادیث کے پورے ذخیرے پر اپنی عقل کو ترجیح دیتے ہیں اور مقلدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی 6634 احادیث کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو ہم معتزلہ اور پرویزیوں سے کیا گلہ کریں؟۔ جب ہمارے احناف بھائیوں ہی کی یہ حالت ہو۔ غیر ذمہ داری سے اس طرح کے قواعد وضع کر کے احناف شیعوں کے لیے احادیث کو رد کرنے کا راستہ کھول رہے ہیں۔ اس طرح اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر جس کے سامنے بھی صحیح حدیث پیش کی جائے اور وہ اس کے مطلب کی نہ ہو تو اس کو یہی کہہ کر جھٹلا دیگا کہ یہ حدیث غیر فقیہ صحابی سے مروی ہے اور عقل کے خلاف ہے۔ اور پھر یہ کہ عدمِ فقاہت کا احتمال تو اور راویوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح تو احادیث کا پورا ذخیرہ عقل اور رائے کے مقابلے میں ناقابل قبول ٹھہر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حنفی فقہ میں قرآن وسنت کو اتنی اہمیت نہیں جاتی جتنی کہ دلیلِ قیاسی کو دی جاتی ہے۔ اگر طالبِ حق کی سی نظر سے ہدایہ شریف کا صرف سرسری مطالعہ کیا جائے تو یہ بات قاری پر بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس میں دلیلِ عقل کو جس اہمیت کی نظر سے دیکھا گیا ہے اتنی اہمیت قرآن وحدیث کے نص کو نہیں دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے احناف کو اہل الرائے کا خطاب دیا ہے جس طرح کہ علامہ ابن عبدالبر نے" تمہید" میں صاف طور پر لکھا ہے کہ " ما نُقم علی ابی حنيفة غير انه كان يقدم الرأي علی النصوص"۔ کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ہمیں صرف یہی شکایت ہے کہ وہ رائے کو قرآن وسنت پر مقدم کرتے ہیں۔
ہم پورے وثوق اور ذمہ داری سے کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور تمام احناف کی فقاہت سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی فقاہت بھی انکی فقاہت سے لاکھ درجہ بہتر ہے "چونکہ چنانکہ" فقاہت نہیں ہوتی بلکہ " معرفة الحكم بدليله" دلیل کے ساتھ کسی حکم کو سمجھنے کا نام فقاہت ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک فقیہ صرف وہ ہے جو فرضی اور خود ساختہ مسائل زیادہ جانتا ہو جس طرح کہ صاحب ہدایہ وغیرہ ہیں ۔ حقیقت میں یہ فقاہت نہیں ہے بلکہ کثرتِ کلام ہے اور دین میں خرافات کا اندراج۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فقاہت کیسے حاصل ہوتی ہے؟

فقاہت وراثت میں نہیں ملتی بلکہ تقویٰ، قوتِ فکر، قوتِ بصیرت، کثرۃِ علم بالحدیث اور صحتِ حدیث سے ملتی ہے اور یہ چیزیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بدرجہ اُتم موجود تھیں۔ لیکن مقلدین کا نہ تقویٰ معلوم اور نہ قوتِ فکر کا پتہ۔ جبکہ ان کا علم بالحدیث کسی سے مخفی نہیں ہے۔ صحت اور ضعف کی مقلدین کے ہاں کوئی تمیز نہیں ہے اس کے علاوہ ان کی قوتِ بصیرت بھی حقائق کی نظر میں عیاں ہے۔ فقاہت کےمذکورہ معیار پر نہ اُترنے کے باوجود مقلدین فقہاء کیسے ہوسکتے ہیں؟۔
ہم اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ عدمِ معیار کے باوجود احناف فقہاء کہلائیں اور بحرِ علم وورع، پروردہ دین اسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غیر فقیہ؟۔
اگر کوئی ہمیں متشدد کے نام سے مطعون کرتا ہے۔ تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ کہنے والے متشدد نہیں ہیں؟ "اذا سبّ اصحابی فلیظھر العالم علمه" ۔ جب لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بُرا بھلا کہتے ہوں تو اُس وقت علماء کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ بالکل غلط قاعدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ "عرف شذی" میں لکھتے ہیں: کہ اس قاعدے کو اصول کی کتابوں سے نکالنا چاہیے۔ لیکن مقلدین اس کو نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ قاعدہ بیان کرنے کے بعد مصراۃ (جس بکری کا دودھ روکا جائے) کی حدیث پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حدیث قیاس کے خلاف نہیں ہے۔ (کما فی الاعلام،ج2ص38)
دوسری بات یہ ہے کہ کس طرح پتہ چلے گا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بالمعنی کی ہے؟۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ روایت بالمعنی نہیں بلکہ باللفظ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر فقیہ کی نسبت نبی علیہ السلام کی طرف ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)۔
تیسری بات قابل ذکر یہ ہے کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں ابورہریرہ رضی اللہ عنہ متفرد نہیں ہیں بلکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے ۔ (بخاری، ج1ص288) یہ مسئلہ بالتفصیل فتاوی الدین الخالص میں ملاحظہ کیجئے۔
ایک طرف تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث رد کردی کہ یہ قیاس کے مخالف ہے اور دوسری طرف قہقہہ کی ضعیف حدیث احناف نے قیاس پر مقدم کی ہے کیونکہ وہ ان کے مذہب کی موافق ہے۔ (نورالانوار،ص184)
 
Top