4-قاعدہ: "القرٓن اسم للنظم والمعنی جميعاََ" اور پھر ماتریدیہ اور اشعریہ کہتے ہیں کہ: قرآن لفظاََ مخلوق ہے اور کلام نفسی غیر مخلوق ہے۔ حالانکہ ان دونوں باتوں میں تضاد ہے کیونکہ لفظی قرآن کو بھی اگر حقیقی کلام سمجھا جائے تو یہ بھی غیر مخلوق ہوا۔ اور اگر حقیقی کلام نہ سمجھا جائے تو پھر اُس کو قرآن کیوں کہتے ہیں؟۔ جب قرآن الفاظ اور معانی کا نام ٹھہرا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ"۔ جتنا بھی قرآن تمہیں یاد ہو اس کی تلاوات کرو۔ تو پھر احناف کے نزدیک فارسی میں قراءت کیسے جائز ہوئی؟۔ یہ بات قرآن مجید کے نص کے خلاف ہے۔ نورالانوار ص 9 کی عبارت کے مطابق " ممکن ہے قرآن کے الفاظ اللہ تعالی اور بندے کے درمیان حجاب ہوں"۔ صریح جھوٹ ہے۔ کیونکہ قرآنی الفاظ اللہ تعالی کے تعلق کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ "۔ ايك اور جگہ فرمایا:
يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ"۔ یہ حجاب نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ احناف اپنی مرضی سے دین گھر بیٹھ بناتے ہیں۔
کتاب اللہ کا خاص۔۔۔ایک غلط قاعدہ
5-قاعدہ: کتاب اللہ کا خاص بیّن بنفسہ ہوتا ہے جس میں وضاحت اور بیان کا احتمال نہیں پایا جاتا۔(نورالانوار ص15، خلاصۃ الافکار شرح المنار ص66 حسامی)
یہ ایک غلط قاعدہ ہے، جس کو متاخرین معتزلہ اور احناف نے صرف اس لیے بنایا ہے کہ جن صحیح احادیث میں حنفی مذہب سے متضاد مسائل بیان ہوئے ہیں ان احادیث کو اس قاعدے کے ذریعے ترک کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ اس قاعدے کے وجود میں آنے کا مقصد اور کوئی نہیں ہے۔ یہ قاعدہ قرآن کے بالکل خلاف ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ"۔ كہ قرآن مجید کی توضیح اور تبیین کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے۔ خاص اور عام کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن کے بعض حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں گےا ور بعض حصے بیان نہیں کریں گے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح نے الانصاف ص88 اور حجۃ اللہ البالغۃ ج1ص160 میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس قاعدے کی روسے مندرجہ ذیل احادیث رد کی گئی ہیں۔
نماز میں تعدیل ارکان اور طمانیت (اطمینان) سے متعلق احادیث، وضوء میں نیت سے متعلق احادیث، وضوء کی ترتیب مسنونہ سے متعلق احادیث، تضمین مسروق سے متعلق احادیث، وضوء میں پے درپے والی سے متعلق وارد ہونے والی احادیث۔ نورالانوار نے ان تمام احادیث کو مذکورہ قاعدہ کے ذریعے رد کر دیا ہے۔ (نورلانواف ص15 اور ص26۔)
مسائل کی صحت اور ضعف کا اعتبار اساس اور بنیاد پر مبنی ہوتا ہے۔ جب اساس ہی صحیح نہ ہو تو اس پر مبنی تمام مسائل خودبخود باطل ٹھہرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان تکون تلك الفروع والمسائل مبنية علی اصول فاسدةِِ فمن عرف السنة بين حكم ذلك الاصل فسقطت تلك الفزوع المولدة كلھا وھذا كما فرعه صاحب الجامع الكبير (يريد محمد بن الحسن الشيباني) فان غالب فروعه كما بلغنا عن الامام ابی محمد المقدسی انه كان يقول مثله كمثل من بنٰي داراََ حسنة علی اساس مغصوب فلما جاء صاحب الاساس ونازعه فی الاساس وقلعه انھدمت تلك الدار۔ (كتاب الاستقامة ص9)
اصول فاسدہ پر مبنی مسائل اور فروع کبھی بھی نقطہ صحت کو نہیں پہنچ سکتے۔ جب اساس اور بنیاد ہی کسی اور کی ہو تو اس پر جتنی بھی خوبصورت بلند وبالا عمارت تعمیر کی جائے وہ زمین کے مالک کے رحم وکرم پر ہوگی۔ وہ جس وقت چاہے اس کو منہدم کرنے کا حق رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنی زمین خالی کرانے کا قانونی اہل ہے۔
مقصد یہ ہے کہ : جو بنیاد غیر قانونی اور گردش دوراں کی زد میں ہو۔ اس کا سہار لینے کی توقع اہل دانش وخرد سے نہیں کی جاسکتی لیکن۔۔۔استعمالِ عقل سے گریزاں مقلدین ہمیشہ سے ایسی ہی بنیادوں کے سہارے اپنے مسلک کی کمزور عمارتیں کھڑی کرتے آئیں ہیں۔
امام محمد رحمہ اللہ کی تصانیف میں مرقوم تقریباََ ان تمام مسائل کا ان خستہ حال بنیادوں پر مبنی ہونا اس حقیقیت کا بیّن ثبوت ہے۔