- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
جزاک اللہ محترم فیض الابرار بھائی آپ نے میرے لئے وقت نکالا یہاں میں بھی اتنی معلومات نہیں رکھتا اسی لئے آپ لوگوں سے مذاکرہ کا سوچا تاکہ اپنے اشکالات دور کر سکوں
البتہ آپ بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر جواب دیتے وقت میرے اشکال نمبر کا لکھ دیں یعنی پہلی بات کا جواب ہے یا دوسری یا تیسری کا تو میرے لئے آسانی ہو جائے گی
جزاکم اللہ خیرا
البتہ آپ بھائیوں سے گزارش ہے کہ اگر جواب دیتے وقت میرے اشکال نمبر کا لکھ دیں یعنی پہلی بات کا جواب ہے یا دوسری یا تیسری کا تو میرے لئے آسانی ہو جائے گی
میرا خیال ہے آپ نے میری پہلی بات جو پوسٹ نمبر 3 میں کہی گئی ہے اسکا جواب دینے کے لئے یہ اوپر بات لکھی ہے کہ اگر تقلید کے مفہوم کو وسیع کر لیں تو پہلی بات میں پوچھے گئے سوال کا جواب ہو سکتا ہے کہ کبھی تقلید کی جا سکتی ہے اور کبھی نہیں لیکن اگر آپ کی اوپر والی بات کے مطابق اوپر تقلید کا مفہوم تنگ کر دیا جائے تو پھر معاملہ دوسرا ہو گا اس پر بات کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ محترم اسحاق سلفی بھائی کے ساتھ تقلید کی تعریف پر معاملہ کلیئر ہو جائے تو اوپر ہائیلائٹ کی گئی باتوں پر بات کرنا زیادہ فائدہ مند ہو گاسب سے پہلے تو اصطلاح تقلید کا صحیح مفہوم اور اس کے حدود اربعہ کا تعین ہونا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر کچھ بھی کہنا حتمی نہیں ہو سکتا
کیا ہر وہ شخص جسے کسی مسئلے کا علم نہ ہو اگر وہ کسی صاحب علم سے دریافت کر لے تو کیا یہ تقلید ہو گی؟
---------------
میری ذاتی رائے میں تو اس کیفیت میں سائل مسئول سے بسااوقات نہیں بلکہ ہمیشہ دلیل بھی پوچھتا ہے اسی لیے میں اس اسلوب کو اتباع اور اطاعت کی طرف لے جانے والا ذریعہ کہتا ہوں کیونکہ اس میں اصل فکر کتاب و سنت کے دلائل کو دریافت کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہوتا ہے
اب آجائیں اس مسئلہ کے انطباقی پہلو کی طرف
ابھی بھی اگر کسی سائل کا مسئول سے پوچھنے کا انداز یہی ہواور ایسا ہوتا بھی ہے کم از کم میرے علم اور تجربات کے مطابق ہمارے عوام ہم سے ہماری رائے نہیں دریافت کرتے بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ دریافت کرتے ہیں
لہذا اس رویہ کو تو تقلید نہیں کہا جا سکتا
جزاکم اللہ خیرا