حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
غالباً یہ 1984ءکا واقعہ ہے اور واقعی یہ سچ ہے کہ بندہ جیسا اپنے رب سے گمان رکھتا ہے ویسا ہی اللہ اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ میرے قریبی عزیز ہیں انہیں 1980ءمیں اچانک بیماری کا حملہ ہوا پہلے تو اپنے ہی شہر میں زیرعلاج رہے پھر جب بیماری نے طول پکڑلیا پھر ان کے بیٹے بڑے شہروں میں علاج کیلئے لے گئے علاج جاری رہا۔ لیکن مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی۔ بڑے بڑے سرجن تھے انہوں نے یہی کہا بلڈ کینسر ہے یہ تو مسلسل علاج ہوگا۔ بالآخر ایک مرتبہ ان عزیز کے بڑے بیٹے کو یہ معلوم ہوا کہ پشاور ہسپتال میں یو ایس اے سے ماہر ڈاکٹر آرہے ہیں۔
مقررہ دن اور وقت پر وہ بھی اپنے والد کو لے کر گئے کہ امریکہ کے سرجن ہیں یقینا ہمارے والد کا علاج ہوجائے گا۔ وہ ہسپتال پہنچے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے جب سرجن صاحب نے ان کے والد کا چیک اپ کیا تو کہنے لگے کہ بلڈکینسر ہے بہتر ہے کہ ان کا دایاں بازو کٹوادیں ورنہ تو یہ کینسر تمام جسم میں پھیل جائے گا۔ ان عمر رسیدہ مریض نے سرجن صاحب سے کہا کہ میں اپنے رب کے حضور ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر حاضر نہیں ہونگا۔ آج آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک بازو کاٹ دو' کچھ عرصے بعد آپ کہیں گے اب ایک ٹانگ کاٹ دو' یوں مجھے منظور نہیں جیسے مجھے میرے خالق نے بھیجا ہے میں پاوں سے لے کر سر تک انہیں مکمل اعضاءکے ساتھ اپنے رب سے ملاقات کروں گا۔
پھر سرجن کہنے لگے تو پھر آپ کی زندگی صرف 32 گھنٹے ہے۔ یہ سننا تھا کہ مریض غصے سے بے قابو ہوگیا اور اس نے سرجن کا گریبان پکڑ لیا اور اسے بری طرح جھنجھوڑا اور سوال کیا' کیا زندگی موت پر تم قادر ہو؟ تمہاری اپنی زندگی کتنی ہے یہ بات سن کر سرجن لاجواب ہوگیا۔
کینسر کے مریض نے تمام رپورٹس پھاڑ کر پھینک دیں جو نسخے لے بھی لیے تھے وہ تمام پھینک دئیے اور یہ مریض اللہ پر بھروسہ کرکے واپس اپنے گھر آگیا گھر پر جو دوائیں تھیں وہ بھی تمام کی تمام پھینک دیں۔ تمام اہل خانہ سے کہہ دیا مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا اور نہ ہی میں کوئی دوا کھاوں گا۔
اسی دن سے سیدھے ہاتھ میں قرآن مجید لیا اور فریاد کی اے قرآن میری زندگی اور صحت کا تو محافظ ہے قرآن لکھنے والا زندہ جاوید ہے' یہ جاہل ڈاکٹر تو دنیا کی ڈگری لیے پھرتے ہیں تو اپنا وعدہ سچا کر دکھا اور مجھے شفاءعطا کر اس دن سے ہمارے وہ عزیز دن اور رات قرآن پڑھتے اس کا پانی دم کرتے اور خودپیتے۔ نہ جانے انہوں نے کتنی کثیرتعداد میں قرآن پڑھا اور اس کا دم کیا ہوا پانی پیا۔ چند ماہ میں ان کی تکلیف اور کراہت ختم ہوگئی' بظاہر صحت بہتر ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ حیرت انگیز طور پر صحت بالکل ٹھیک ہوگئی۔ انہوں نے قرآن کو اپنی زندگی بنالیا۔
کچھ عرصے بعد پھر وہی سرجن امریکہ سے پاکستان آئے۔ یہ مریض اس سرجن سے ملنے گئے وہ سرجن اس صحت مند مریض کو پہچان نہ سکے۔ تعارف کے بعد معلوم ہوا تو ششدر رہ گئے کہ کونسے سرجن کے زیرعلاج ہیں۔ ان مریض نے اپنے ساتھ جو قرآن کا نسخہ رکھتے تھے وہ نکالا اور دکھایا کہ میں اس سرجن کے زیرعلاج ہوں۔ وہ سرجن حیرت میں ڈوب گیا کہ جس مریض کو میں نے صرف 32 گھنٹے زندگی کا نوٹس دیا تھا۔
وہ آج 26 سال بعد بھی مع تمام اعضاءزندہ ہے اور دوسروں کیلئے مسیحا ہے۔ کیونکہ وہ اس قرآن سے بیشمار لوگوں کا علاج کرتے ہیں اور لاعلاج مریض صرف دم کرنے سے دم کیا ہوا پانی یا تیل لگانے سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ قرآن کا کمال اور اعجاز یہ ہمیشہ زندہ ہے اور رہے گا۔ان شاءاللہ طاقتور ایمان کی ضرورت ہے یہ قرآن سب کچھ دینے کو تیار ہے' لینے والے اس کا ذائقہ محسوس کریں۔ بشکریہ ام ابوذر
مقررہ دن اور وقت پر وہ بھی اپنے والد کو لے کر گئے کہ امریکہ کے سرجن ہیں یقینا ہمارے والد کا علاج ہوجائے گا۔ وہ ہسپتال پہنچے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے جب سرجن صاحب نے ان کے والد کا چیک اپ کیا تو کہنے لگے کہ بلڈکینسر ہے بہتر ہے کہ ان کا دایاں بازو کٹوادیں ورنہ تو یہ کینسر تمام جسم میں پھیل جائے گا۔ ان عمر رسیدہ مریض نے سرجن صاحب سے کہا کہ میں اپنے رب کے حضور ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر حاضر نہیں ہونگا۔ آج آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک بازو کاٹ دو' کچھ عرصے بعد آپ کہیں گے اب ایک ٹانگ کاٹ دو' یوں مجھے منظور نہیں جیسے مجھے میرے خالق نے بھیجا ہے میں پاوں سے لے کر سر تک انہیں مکمل اعضاءکے ساتھ اپنے رب سے ملاقات کروں گا۔
پھر سرجن کہنے لگے تو پھر آپ کی زندگی صرف 32 گھنٹے ہے۔ یہ سننا تھا کہ مریض غصے سے بے قابو ہوگیا اور اس نے سرجن کا گریبان پکڑ لیا اور اسے بری طرح جھنجھوڑا اور سوال کیا' کیا زندگی موت پر تم قادر ہو؟ تمہاری اپنی زندگی کتنی ہے یہ بات سن کر سرجن لاجواب ہوگیا۔
کینسر کے مریض نے تمام رپورٹس پھاڑ کر پھینک دیں جو نسخے لے بھی لیے تھے وہ تمام پھینک دئیے اور یہ مریض اللہ پر بھروسہ کرکے واپس اپنے گھر آگیا گھر پر جو دوائیں تھیں وہ بھی تمام کی تمام پھینک دیں۔ تمام اہل خانہ سے کہہ دیا مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا اور نہ ہی میں کوئی دوا کھاوں گا۔
اسی دن سے سیدھے ہاتھ میں قرآن مجید لیا اور فریاد کی اے قرآن میری زندگی اور صحت کا تو محافظ ہے قرآن لکھنے والا زندہ جاوید ہے' یہ جاہل ڈاکٹر تو دنیا کی ڈگری لیے پھرتے ہیں تو اپنا وعدہ سچا کر دکھا اور مجھے شفاءعطا کر اس دن سے ہمارے وہ عزیز دن اور رات قرآن پڑھتے اس کا پانی دم کرتے اور خودپیتے۔ نہ جانے انہوں نے کتنی کثیرتعداد میں قرآن پڑھا اور اس کا دم کیا ہوا پانی پیا۔ چند ماہ میں ان کی تکلیف اور کراہت ختم ہوگئی' بظاہر صحت بہتر ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ حیرت انگیز طور پر صحت بالکل ٹھیک ہوگئی۔ انہوں نے قرآن کو اپنی زندگی بنالیا۔
کچھ عرصے بعد پھر وہی سرجن امریکہ سے پاکستان آئے۔ یہ مریض اس سرجن سے ملنے گئے وہ سرجن اس صحت مند مریض کو پہچان نہ سکے۔ تعارف کے بعد معلوم ہوا تو ششدر رہ گئے کہ کونسے سرجن کے زیرعلاج ہیں۔ ان مریض نے اپنے ساتھ جو قرآن کا نسخہ رکھتے تھے وہ نکالا اور دکھایا کہ میں اس سرجن کے زیرعلاج ہوں۔ وہ سرجن حیرت میں ڈوب گیا کہ جس مریض کو میں نے صرف 32 گھنٹے زندگی کا نوٹس دیا تھا۔
وہ آج 26 سال بعد بھی مع تمام اعضاءزندہ ہے اور دوسروں کیلئے مسیحا ہے۔ کیونکہ وہ اس قرآن سے بیشمار لوگوں کا علاج کرتے ہیں اور لاعلاج مریض صرف دم کرنے سے دم کیا ہوا پانی یا تیل لگانے سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ قرآن کا کمال اور اعجاز یہ ہمیشہ زندہ ہے اور رہے گا۔ان شاءاللہ طاقتور ایمان کی ضرورت ہے یہ قرآن سب کچھ دینے کو تیار ہے' لینے والے اس کا ذائقہ محسوس کریں۔ بشکریہ ام ابوذر