• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تلمیذ بھائی کے سوالوں کا جواب

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام علیکم۔ مداخلت کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ تلمیذ بھائی ، آپ نے ایک سوال یہ پوچھا ہے کہ :

میرے خیال میں کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں عامی خود بھی "سہولت" نہیں دیکھتا بلکہ "راجح عمل" کی دلیل چاہتا ہے تاکہ ثابت شدہ سنت پر عمل کرنے کا اجر حاصل کر سکے۔
بطور مثال میں اپنے ایک قریبی عزیز کی دینا چاہوں گا جو کہ حنفی المسلک ہیں لیکن جب اپنے ملک میں شوافع کو اور یہاں سعودی عرب میں حنابلہ اور مالکیہ کو "رفع الیدین" کرتے دیکھا تو مجھ سے کافی طویل گفتگو کی پھر میں نے ان کے سامنے چاروں مسالک کے تجزیے (کتب و مقالات) رکھ دئے کہ فیصلہ وہ خود کرلیں اور مجھے خوار نہ فرمائیں۔ مگر چونکہ وہ "عامی" ہیں اتنا علم نہیں کہ ان کتب و مقالات میں پھیلے دلائل و تجزیوں کی علمی جانچ پرکھ کر سکیں۔ بس وہ کہتے ہیں کہ انہیں حدیث سمجھ میں آ گئی اور وہ رفع الیدین کے قائل ہو گئے اور اس پر عمل شروع کر دیا۔ مگر پھر مسئلہ یہ ہوا کہ اپنے قریبی رفقاکار میں صرف اسی ایک عمل کیا بنا پر وہ "غیرمقلد" مشہور ہو گئے اور اپنے ملک میں انہیں اپنے علاقے اور اپنی مسجد کے علماء سے مسلسل سابقہ پڑنے لگا کہ وہ اپنے اس عمل کو چھوڑیں اور "حنفی مسلک کے عمل" کی طرف لوٹ آئیں۔
گوکہ ذاتی طور پر میں اس بات کا قائل ہوں کہ فی زمانہ عامی کو اپنے "نفس کی خاطر" دیگر مسالک میں آسانی تلاش نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض معاملات صرف "سہولت یا آسانی" کے نہیں ہوتے بلکہ عصر حاضر کا تکنیکی علم یافتہ عامی "راجح عمل" کی انفارمیشن چاہتا اور ان پر عمل کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ ایسے معاملات میں بھی کیا عامی پر "سختی" برتی جا سکتی ہے کہ وہ بس اپنے "مسلکی عمل" سے ہی چمٹا رہے چاہے اس کو دلائل سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں؟
ایک عامی اگر کسی ایک معاملہ میں دلائل سے مکمل مزین ہوجاتا ہے تو وہ ہے تو عامی لیکن اس مسئلہ میں جزوی مجتھد بن جاتا ہے اور اس جزوی مجتھد کے لئیے اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلہ میں مخالف فریق کا مسلک حق پر ہے راجح قول کے مطابق اس کو صرف اس مسئلہ میں اپنے مسلک کی مخالفت کرنا جائز ہے ۔ اور میں بھی اس قول کو صحیح سمجھتا ہوں

تفصیل کے لئیے دیکھیئے "تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی "
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
ایک عامی اگر کسی ایک معاملہ میں دلائل سے مکمل مزین ہوجاتا ہے تو وہ ہے تو عامی لیکن اس مسئلہ میں جزوی مجتھد بن جاتا ہے اور اس جزوی مجتھد کے لئیے اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلہ میں مخالف فریق کا مسلک حق پر ہے راجح قول کے مطابق اس کو صرف اس مسئلہ میں اپنے مسلک کی مخالفت کرنا جائز ہے ۔ اور میں بھی اس قول کو صحیح سمجھتا ہوں
برا نہ مانئے گا ۔۔ مگر میں اس کے جواب میں صرف ایک emoticon لگا سکتا ہوں ، اور وہ یہ :
:)

تفصیل کے لئیے دیکھیئے "تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی "
یہ کتاب میں تفصیل سے پڑھ چکا ہوں اور کے مقابل لکھی گئیں کچھ اور کتب بھی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بعض معاملات صرف "سہولت یا آسانی" کے نہیں ہوتے بلکہ عصر حاضر کا تکنیکی علم یافتہ عامی "راجح عمل" کی انفارمیشن چاہتا اور ان پر عمل کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔ ایسے معاملات میں بھی کیا عامی پر "سختی" برتی جا سکتی ہے کہ وہ بس اپنے "مسلکی عمل" سے ہی چمٹا رہے چاہے اس کو دلائل سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں؟
ساری مصیبت کی جڑیہی ہے۔
آج تکنیکی علم یافتہ شخص مدارس کے نصاب میں ترمیم کرناچاہتاہے اگرچہ اسکو دینیات کی کوئی خبرنہ ہو
آج تکنیکی علم یافتہ شخص اپنے تکنیکی علم کی بدولت راجح ومرجوح کا فیصلہ کرناچاہتاہے۔
آج تکنیکی علم یافتہ شخص اپنے تکنیکی علم کے بل بوتے پر شرعی احکام کی دلائل کی مضبوطی اورکمزوری کا فیصلہ خود کرناچاہتاہے۔

دوسری جانب غورکیجئے
اگرکوئی عالم دین جسے انجینئرنگ سے واقفیت نہ ہوکسی انجینئرنگ کالج کے نصاب میں ترمیم کرناچاہے تودنیااسے پاگل سمجھے گی
اگرکوئی عالم دین انجینئرنگ سے لاعلم رہتے ہوئے دومختلف انجینئروں کے مابین فیصلہ کرناچاہتاہے تودنیااسے پاگل سمجھے گی۔
اگرکوئی عالم دین کسی سافٹ ویئر کا ٹسٹ شروع کردے اوراس ناقص اورغیرمعیاری اورپرفیکٹ اورمعیاری کی سند دینے لگے تو لوگ کیاسمجھیں گے کہنے کی ضرورت نہیں ہے

یہ تفرقہ کیوں ہے؟

یعنی تکنیکی علم والے تو دینی معاملات میں مداخلت کرناچاہیں اوراس میں خود کو برسرحق وصواب سمجھیں
لیکن اگرکوئی عالم دین کے معاملات میں مداخلت کرے تو اس کو حماقت تسلیم کیاجائے۔

وجہ یہ ہے کہ اب دین وشریعت کی ہیبت ہمارے دلوں سے نکل چکی مختلف اسباب کی بناء پر لوگوں کے قلوب میں(الفاظ کے برعکس)دین حقیر ہوچکاہے۔
مشہور کہاوت ہے کہ غریب کی جوروسب کی بھابھی۔
اسی طرح جب دین کی عظمت دلوں سے نکل گئی تو اب دین اورشریعت ہرایک کے ہاتھوں کا کھلوناہے۔

ایک بڑامغالطہ یہ ہے کہ لوگ یہی نہیں جانتے کہ دلیل کہتے کس کو ہیں۔ دلیل کا جانناالگ چیز ہے۔ دلیل کا معلوم ہوناالگ چیز ہے۔ دلیل کا سن لیناالگ شے ہے۔ دلیل کا پڑھ لیناعلیحدہ بات ہے لیکن دلائل کی پرکھ، موازنہ اورفیصلہ یہ بہت مشکل کام ہے۔
یہ اتناآسان کام نہیں ہے کہ چارکتابیں فقہ حنفی شافعی اورمالکی وحنبلی کے سامنے رکھ دی گئیں اورہرایک فیصلہ کرتاپھرے کہ اس میں امام شافعی کی رائے نہایت اعلیٰ ہے اورمالک کا قول غلط ہے۔اس میں امام ابوحنیفہ کاقول مضبوط نہیں اورامام احمد بن حنبل کے دلائل جاندار ہیں۔

ایک عالم انہی دلائل کی پرکھ اورموازنہ کیلئے آٹھ سال دس سال وقت لگاتاہے اورپھرجاکر اس کی سمجھ میں ائمہ کے دلائل کی بات کسی حد تک آتی ہے۔ ویسے اب مدارس سے بھی جس طرح کے فضلاء نکل رہے ہیں ان کوبھی یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ دلائل کے سلسلہ میں اپنافیصلہ کریں۔
ہوسکتاہے کہ یہ چند باتیں باذوق صاحب پر گراں گزریں لیکن جوبات میرے نزدیک صحیح ہے اس کا میں نے اظہار کردیاہے۔
کہتاہوں وہی بات سمجھتاہوں جسے حق
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکاقند
نوٹ:تلمیذ صاحب تقلید کی شرعی حیثیت پر دوبارہ نگاہ ڈالیں۔ میرانہیں خیال ہے کہ مفتی تقی عثمانی نے کسی بھی مرحلہ پر عامی کیلئے اجتہاد کی اجازت دی گئی ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
ساری مصیبت کی جڑیہی ہے۔
آج تکنیکی علم یافتہ شخص مدارس کے نصاب میں ترمیم کرناچاہتاہے اگرچہ اسکو دینیات کی کوئی خبرنہ ہو
آج تکنیکی علم یافتہ شخص اپنے تکنیکی علم کی بدولت راجح ومرجوح کا فیصلہ کرناچاہتاہے۔
آج تکنیکی علم یافتہ شخص اپنے تکنیکی علم کے بل بوتے پر شرعی احکام کی دلائل کی مضبوطی اورکمزوری کا فیصلہ خود کرناچاہتاہے۔
:)
چونکہ آپ نے میرے الفاظ کو کوٹ کیا ہے لہذا جواب میں کچھ کہنا چاہوں گا۔
آپ نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں ۔۔۔ اس سے مجھے ذاتی طور پر اختلاف نہیں ۔۔ یعنی میں بھی آپ کی جگہ ہوتا تو یہی کہتا ۔۔۔ جو کہ میرے مشاہدے میں آجکل "دین بیزار" یا "انکار حدیث" کی جانب رجحان رکھنے والے افراد اکثر و بیشتر کہتے نظر آتے ہیں۔

چھوٹا سا مسئلہ ایک یہ ہوا ہے کہ آپ نے غالباً میرے الفاظ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ، میں دہرا دیتا ہوں :
بعض معاملات صرف "سہولت یا آسانی" کے نہیں ہوتے بلکہ عصر حاضر کا تکنیکی علم یافتہ عامی "راجح عمل" کی انفارمیشن چاہتا اور ان پر عمل کا خواہشمند ہوتا ہے۔
اس جملے سے ایسا کوئی مفہوم اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ "عامی کسی عمل کے راجح یا مرجوح ہونے کا بذات خود فیصلہ کرنا چاہتا ہے"۔
"راجح عمل کی انفارمیشن چاہنا" اور "بذات خود کسی عمل کو راجح قرار دینا" ۔۔ یقیناً ان دو باتوں میں فرق ہے۔

ہاں ! اب آپ یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلک کا عالم اپنے اپنے دلائل کی بنیاد پر اپنے ہی فیصلے کو "راجح عمل" قرار دے سکتا ہے۔
تو پھر ۔۔۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ آج کے انفارمیشن تکنالوجی دور کا جو بھی "تکنیکی علم یافتہ عامی" ہے یا تو وہ ایکدم چغد ہے یا پھر اس کا کہنا سچ ہے کہ دین کو ان ملاؤں نے چوں چوں کا مربہ بنا رکھا ہے!!
:)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ایک عامی اگر کسی ایک معاملہ میں دلائل سے مکمل مزین ہوجاتا ہے تو وہ ہے تو عامی لیکن اس مسئلہ میں جزوی مجتھد بن جاتا ہے اور اس جزوی مجتھد کے لئیے اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلہ میں مخالف فریق کا مسلک حق پر ہے راجح قول کے مطابق اس کو صرف اس مسئلہ میں اپنے مسلک کی مخالفت کرنا جائز ہے ۔ اور میں بھی اس قول کو صحیح سمجھتا ہوں

تفصیل کے لئیے دیکھیئے "تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی "
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کل تک جو خالص مقلد تھے آج ملاوٹی ہوگئے اب مقلدین قول امام پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ خود بھی مجتہد ہونے کے دعویدا ر ہیں۔ سبحان اللہ!
یعنی نہ پورے مقلد نہ پورے مجتہد بلکہ ’’نہ رے نہ نہ، ففٹی ففٹی‘‘

ایسے بناوٹی لوگوں کے بارے میں امین اوکاڑوی لکھتا ہے: اب غیرمقلد کا معنی بھی سمجھ لیں کہ جو نہ خود اجتہادکرسکتا ہو اور نہ کسی کی تقلید کرے یعنی نہ مجتہد ہو نہ مقلد۔ جیسے نماز باجماعت میں ایک امام ہوتا ہے باقی مقتدی، لیکن جو شخص نہ امام ہو نہ مقتدی، کبھی امام کو گالیاں دے کبھی مقتدیوں سے لڑے یہ غیر مقلد ہے۔یا جیسے ملک میں ایک حاکم ہوتا ہے باقی رعایا لیکن جو نہ حاکم ہو نہ رعایا بنے وہ ملک کا باغی ہے۔ یہی مقام غیر مقلد کا ہے۔(تجلیات صفدر، جلد سوم، صفحہ 377)

تلمیذ صاحب کا یہ کلام جو انہوں نے مقلد تقی عثمانی سے اخذ کیا ہے محض تلبیس ہے کیونکہ عملی طور پر مقلد کبھی ایسے مقام پر نہیں پہنچتا جہاں وہ امام ابوحنیفہ سے اختلاف کرسکے۔ بس امام صاحب کے شاگردوں نے اپنے استاد سے اختلاف کرکے جتنی ’’لعنتیں‘‘ سمیٹنی تھیں سمیٹ لیں اس کے بعد نہ کسی نے امام صاحب سے اختلاف کیا اور نہ آئندہ کوئی کرسکے گا۔ کیونکہ امام صاحب سے اختلاف کے لئے اجتہاد شرط ہے اور ابوحنیفہ کے بعد اجتہاد کا دروازہ بقول مقلدین قیامت تک کے لئے بند ہوگیا ہے۔ امین اوکاڑوی کہتا ہے: اب اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لئے بند ہے اب اگر کوئی اجتہاد کا دعویٰ لے کر اٹھے گا تو اس کا دعویٰ اسکے منہ پر مارا جائے گا۔ (مفہوم عبارت از تجلیات صفدر اصل میں ’’دجلیات صفدر‘‘)

اب قیامت تک کے لئے کسی مقلد کا جزوی طور پر بھی مجتہد ہونے کا امکان باقی نہیں کم ازکم موجودہ زمانے سے تو اسکی مثال پیش کرنا ناممکن ہے۔تقلید کی شرعی حیثیت میں تقی عثمانی نے اس بارے جو کلام کیا ہے وہ محض شعبدہ بازی ہے جس کا پردہ ہم نے یہاں چاک کیا ہے۔ ملاحظہ ہو اس لنک پر موجود اس مسئلہ سے متعلق بحث: http://www.kitabosunnat.com/forum/حنفی-155/کہیں-تقلید-اپنے-امام-کی-عبادت-تو-نہیں؟-761/index2.html
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس جملے سے ایسا کوئی مفہوم اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ "عامی کسی عمل کے راجح یا مرجوح ہونے کا بذات خود فیصلہ کرنا چاہتا ہے"۔
میں نے ان کے سامنے چاروں مسالک کے تجزیے (کتب و مقالات) رکھ دئے کہ فیصلہ وہ خود کرلیں اور مجھے خوار نہ فرمائیں۔
میراخیال ہے کہ اتناکافی ہے؟
آپ نے جوواقعہ نقل کیاہے اورجوبات کہہ رہے ہیں۔ دونوں میں بہت فرق ہے
دوسری بات یہ ملاحظہ میں رہے کہ ایک عامی یہ چاہتاہے کہ میں جس مسلک سے وابستہ ہوں اس میں کون ساعمل راجح ہے۔
ایک عامی یہ چاہتاہے کہ تمام فقہاء میں فلاں مسئلہ میں کس کا قول راجح ہے۔
اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ عامی خود تحقیق تجزیہ تحلیل اورپرکھ کر فیصلہ کرے ۔جس کے شاید آپ بھی قائل نہ ہوں۔
دوسری شکل یہ ہے کہ وہ کسی عالم کی بات پر اعتماد کرلے اورعمل کرے
توپہلے عامی اوردوسرے عامی میں بنیادی فرق کیارہا۔ دونوں تودلائل میں غوروفکر کئے بغیرکسی کے کہنے پر عمل کررہے ہیں۔
میراخیال ہے کہ اب اس مسئلہ میں زیادہ الجھائو نہیں ہوگا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نوٹ:تلمیذ صاحب تقلید کی شرعی حیثیت پر دوبارہ نگاہ ڈالیں۔ میرانہیں خیال ہے کہ مفتی تقی عثمانی نے کسی بھی مرحلہ پر عامی کیلئے
اجتہاد کی اجازت دی گئی ہے۔
جزاک اللہ جمشید بھائی ،آپ نے میری ایک غلطی کی طرف توجہ دلائی ۔ آپ کے توجہ دلانے پر میں نے کتاب اور اپنی پوسٹ کی طرف مراجعت کی تو آپ کا موقف صحیح نظر آیا ۔ محترم تقی عثمانی صاحب نے عامی کی لئیے کہیں بھی جزوی اجتھاد کی بات نہیں کی اور وہ جزوی اجتھاد کی بات متبحر عالم کی لئیے ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے
اصل میں بازوق صاحب نے جب دلائل پرکھنے کی بات کی اور ساتھ میں عامی بھی لکھ دیا تو میں نے بھی عامی لکھ دیا لیکن ذھن میں متبحر عالم تھا ۔ اس لئیے میری پوسٹ نمبر ٣١ میں خطا ہوئی
جزوی مجتھد ہونے کے لئیے بھی اصول حدیث ، اصول فقہ وغیرہ جیسے اہم علوم پر مہارت لازمی ہے ۔ جن کو اس علوم پر مہارت ہے تو عامی نہ رہا وہ تو متبحر عالم ہوگيا اور جو عامی ہے تو اس ان علوم کا ماہر نہ ہوگا تو جزوی مجتھد کیسے ہوسکتا ہے

جن حضرات نے میری پوسٹ نمبر ٣١ پر تبصرے کیے وہ اب باطل ہیں کیوں کہ میں اس سے رجوع کر چکا ہوں
:)

اس جملے سے ایسا کوئی مفہوم اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ "عامی کسی عمل کے راجح یا مرجوح ہونے کا بذات خود فیصلہ کرنا چاہتا ہے"۔
"راجح عمل کی انفارمیشن چاہنا" اور "بذات خود کسی عمل کو راجح قرار دینا" ۔۔ یقیناً ان دو باتوں میں فرق ہے۔


:)
ان دو میں کیا فرق ہے کسی مثال سے واضح کریں ۔
کیوں کہ اگر وہ صرف انفارمیشن لے رہا ہے تو وہ اپنے پرانے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اس عامی کا اپنے ایک سابقہ عمل سے پیچھے ہٹنا ایک سائیڈ کو راجح قرار دینے کے مترادف ہے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
جن حضرات نے میری پوسٹ نمبر ٣١ پر تبصرے کیے وہ اب باطل ہیں کیوں کہ میں اس سے رجوع کر چکا ہوں۔
محترم ہمارا تبصرہ تو باطل نہیں ہے کیونکہ ہمیں تو معلوم تھا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور تقی عثمانی نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے۔ حنفی مذہب میں عامی پر مجتہد کی تقلید واجب ہے۔ مطلب جو مقلد ہوگا وہ لازمی طور پر عامی بھی ہوگا۔ اب جس متبحر عالم کو تقی عثمانی صاحب امام صاحب سے اختلاف کی اجازت دے رہے ہیں اول تو وہ بھی عامی ہے چونکہ مقلد ہے اس کو امام صاحب سے اختلاف کا حق نہیں ورنہ اسے چاہیے کہ پہلے ابوحنیفہ کی تقلید سے باہر آجائے۔

دوم عامی کا کسی خاص مرحلے پر کسی یا مختلف مسائل میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوجانا بہت عجیب و غریب ہے کیونکہ حنفی مذہب میں ایک مقلد ہوتا ہے اور ایک مجتہد، مقلد کا کام مجتہد کی تقلید ہے اور مجتہد کا کام اجتہاد ہے۔ دورجدید کے حنفی علماء کا مجتہد،مقلد کے علاوہ ایک تیسری قسم کے مقلد کی ایجاد جومقلد بھی ہوتا ہے اور کسی مسئلہ میں مجتہد بھی، مردود ہے کیونکہ مقلد کی تیسری قسم نہ تو امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے اور نہ ہی انکے شاگردوں سے لہٰذا یہ حنفی مقلدوں کا اپنا باطل اجتہاد ہے۔

سوم یہ کہ تقی عثمانی صاحب کا یہ متبحر عالم بھی اصل میں پورا مقلد ہوتا ہے جو کسی مسئلہ میں اپنے امام سے اختلاف نہیں کرتا کیونکہ تقی عثمانی صاحب نے متبحر عالم کی جو خصوصیات ذکر کی ہیں اور اسکے امام سے اختلاف کے لئے جنتی سخت شرائط عائد کی ہیں۔ موجودہ دور میں نہ تو متبحر عالم کی وہ خصوصیات کسی حنفی عالم میں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی امام سے اختلاف کے لئے عائد کی گئی شرائط کسی طرح پوری ہوتی ہیں نتیجہ وہی ہے کہ کوئی بھی حنفی چاہے وہ مفتی ہو یا عالم زندگی بھر اس مقام پر نہیں پہنچتا جہاں وہ امام صاحب سے اختلاف کا اہل ہوسکے۔ چناچہ تقی عثمانی صاحب کا یہ کردار جو انہوں نے متبحر عالم کے نام سے گھڑا ہے ایک فرضی کردار ہے۔ اس فرضی کردار پر مقلدوں کا اچھلنا اور دعویٰ کرنا کہ حنفی ابوحنیفہ کی اندھی تقلید نہیں کرتے بلکہ ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں فریب کے سوا کچھ نہیں۔

اگر واقعی تقی عثمانی صاحب کا ذکر کردہ ’’متبحر عالم‘‘ اس دنیا میں کہیں پایا جاتا ہے تو اسکا نام بمعہ اس اختلاف کے جو اس نے امام سے کیا ہے پیش کریں۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت پاکستان میں حنفی دیوبندیوں کے سب سے بڑے عالم خود تقی عثمانی صاحب ہیں کیا انہوں نے کسی مسئلہ میں اپنے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے؟؟؟ مزید تفصیل یہاں http://www.kitabosunnat.com/forum/حنفی-155/کہیں-تقلید-اپنے-امام-کی-عبادت-تو-نہیں؟-761/index2.html
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم ہمارا تبصرہ تو باطل نہیں ہے کیونکہ ہمیں تو معلوم تھا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور تقی عثمانی نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے۔ حنفی مذہب میں عامی پر مجتہد کی تقلید واجب ہے۔ مطلب جو مقلد ہوگا وہ لازمی طور پر عامی بھی ہوگا۔ اب جس متبحر عالم کو تقی عثمانی صاحب امام صاحب سے اختلاف کی اجازت دے رہے ہیں اول تو وہ بھی عامی ہے چونکہ مقلد ہے اس کو امام صاحب سے اختلاف کا حق نہیں ورنہ اسے چاہیے کہ پہلے ابوحنیفہ کی تقلید سے باہر آجائے۔

دوم عامی کا کسی خاص مرحلے پر کسی یا مختلف مسائل میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوجانا بہت عجیب و غریب ہے کیونکہ حنفی مذہب میں ایک مقلد ہوتا ہے اور ایک مجتہد، مقلد کا کام مجتہد کی تقلید ہے اور مجتہد کا کام اجتہاد ہے۔ دورجدید کے حنفی علماء کا مجتہد،مقلد کے علاوہ ایک تیسری قسم کے مقلد کی ایجاد جومقلد بھی ہوتا ہے اور کسی مسئلہ میں مجتہد بھی، مردود ہے کیونکہ مقلد کی تیسری قسم نہ تو امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے اور نہ ہی انکے شاگردوں سے لہٰذا یہ حنفی مقلدوں کا اپنا باطل اجتہاد ہے۔
آپ کی تحریر سے عیاں ہے یا تو حنفی فقہی استدلال کے طرق سے نا واقف ہیں یا جان بوجھ کر ناواقف بن رہے ہیں ۔ اول الذکر کیفیت کو جہالت سے اور ثانی الذکر کو تعصب سے موسوم کیا جاتا ہے ۔



سوم یہ کہ تقی عثمانی صاحب کا یہ متبحر عالم بھی اصل میں پورا مقلد ہوتا ہے جو کسی مسئلہ میں اپنے امام سے اختلاف نہیں کرتا کیونکہ تقی عثمانی صاحب نے متبحر عالم کی جو خصوصیات ذکر کی ہیں اور اسکے امام سے اختلاف کے لئے جنتی سخت شرائط عائد کی ہیں۔ موجودہ دور میں نہ تو متبحر عالم کی وہ خصوصیات کسی حنفی عالم میں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی امام سے اختلاف کے لئے عائد کی گئی شرائط کسی طرح پوری ہوتی ہیں نتیجہ وہی ہے کہ کوئی بھی حنفی چاہے وہ مفتی ہو یا عالم زندگی بھر اس مقام پر نہیں پہنچتا جہاں وہ امام صاحب سے اختلاف کا اہل ہوسکے۔ چناچہ تقی عثمانی صاحب کا یہ کردار جو انہوں نے متبحر عالم کے نام سے گھڑا ہے ایک فرضی کردار ہے۔ اس فرضی کردار پر مقلدوں کا اچھلنا اور دعویٰ کرنا کہ حنفی ابوحنیفہ کی اندھی تقلید نہیں کرتے بلکہ ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں فریب کے سوا کچھ نہیں۔

اگر واقعی تقی عثمانی صاحب کا ذکر کردہ ’’متبحر عالم‘‘ اس دنیا میں کہیں پایا جاتا ہے تو اسکا نام بمعہ اس اختلاف کے جو اس نے امام سے کیا ہے پیش کریں۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت پاکستان میں حنفی دیوبندیوں کے سب سے بڑے عالم خود تقی عثمانی صاحب ہیں کیا انہوں نے کسی مسئلہ میں اپنے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے؟؟؟
آپ نے کچھ اسی طرح کے اتہامات ایک دوسرے تھریڈ میں کیے تھے اور وہاں پھر آپ نے موقف بدل لیا تھا ۔
میں مکرر کہتا ہوں آپ ایک حنفی دکھادیں جس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کو حرف آخر سمجھا ہو اور ان کے اقوال کی مخالفت نہ کی ہو ۔ آپ ایک متبحر عالم کی بات کر رہے ہیں میں عرب و عجم کے احناف کی بات کر رہا ہوں
اگر آپ نے ایک دفعہ پھر پیترا بدلنا ہے تو اجازت ہے جیسے آپ نے دوسرے تھریڈ میں امام کی جگہ "ائمہ " کی بات شروع کر دی تھی
بات سمجھ نہ آئے تو یہ تھریڈ دوبارہ دیکھ لیں
http://www.kitabosunnat.com/forum/تقلید-واجتہاد-315/تقلید-شخصی-نکتہ-اتفاق-10503/
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
آپ کی تحریر سے عیاں ہے یا تو حنفی فقہی استدلال کے طرق سے نا واقف ہیں یا جان بوجھ کر ناواقف بن رہے ہیں ۔ اول الذکر کیفیت کو جہالت سے اور ثانی الذکر کو تعصب سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
یہ حنفی علماء ہی ہیں جو کبھی مقلد کو امام سے اختلاف کی اجازت نہیں دیتے (تقی عثمانی صاحب نے جو متبحر عالم کو امام سے اختلاف کی اجازت دی ہے وہ آل تقلید کی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں اور اس مسخرہ پن اور ڈرامے بازی کا پول ہم نے یہاں کھول دیا ہے) اور اختلاف کی اجازت دے بھی کیسے سکتے ہیں کہ ایک نادان اور جاہل شخص کسی امام کا مقلد بنتا ہی اس لئے ہے کہ وہ دین سے جاہل اور ناواقف ہوتا ہے اب دین سے واقف اور جاہل شخص کیسے اپنے امام سے اختلاف کرسکتا ہے؟؟؟ اسی لئے امام سیوطی نے فرمایا ہے: عالم اور فقیہ کو مقلد کہنا اس طرح منع ہے جس طرح کسی یہودی یا عیسائی کو مسلم کہنا منع ہے۔(الحادی للفتاویٰ ٥٣٢، طبع دار الکتاب عربی)

معلوم ہوا کہ مقلد کا خود کو مفتی، عالم، شیخ الحدیث یا مفسر قرآن وغیرہ کہلاوانا ناجائز ہے۔ مقلد جاہل ہوتا ہے مقلد کے جاہل ہونے پر اجماع ہے اور ایک جاہل نہ عالم ہوسکتا ہے نہ مفتی۔ جتنے بھی آل تقلید کے دیوبندی مفتی اور عالم ہیں انہیں فورا سے بیشتر اپنے ناموں کے ساتھ مفتی اور عالم کے الفاظ ہٹا دینے چاہیے کیونکہ یہ نام جن کا تعلق علم سے ہے مقلدوں کو زیب نہیں دیتے۔

آپ نے تعصب کہہ کر جان چھڑا لی اور اس اہم ترین بات کا جواب بھی نہیں دیا کہ مقلدین کے بنائے ہوئے مجتہدین کے درجات کیسے قابل قبول ہوسکتے ہیں جبکہ نہ تو وہ امام ابو حنیفہ سے ثابت ہیں اور نہ ہی انکے شاگردوں سے اور اگر مقلد اتنا علم رکھتا ہے کہ اپنے مذہب کے اصول بنا سکتا ہے اور مقلدین کے درجات قائم کرسکتا ہے تو وہ تقلید کیوں کرتا ہے؟

تلمیذ صاحب جہالت اور تعصب کے طعنے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ ایک جاہل جس نے جان بوجھ کر جہالت (تقلید) کا انتخاب کیا ہو ان لوگوں کو جو تقلید کی جہالت سے نفرت کرنے والے اور علم سے محبت کرنے والے ہوں کو جہالت کا طعنہ دیتے ہوئے بہت ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے پھر تعصب کی بیماری بھی مقلدین ہی میں شدید ترین پائی جاتی ہے جو ہر اس چیز سے تعصب برتتے ہیں جو انکے امام کے خلاف ہو چاہے قرآن ہو چاہے حدیث یا فرمان صحابہ یا کلام محدیثین۔ اب ان سب باتوں کو ایک طرف رکھیں اور موضوع سے فرار کے بجائے اپنا دعویٰ ثابت کردیں کہ کسی ایک زندہ حنفی متبحر عالم کا حوالہ پیش کردیں جس نے دلیل کی بنیاد پر ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہو۔

آپ نے کچھ اسی طرح کے اتہامات ایک دوسرے تھریڈ میں کیے تھے اور وہاں پھر آپ نے موقف بدل لیا تھا ۔
الحمداللہ! ہم نے کہیں بھی موقف نہیں بدلا بلکہ یہ فقہ حنفی اور مقلدین ہی کے تضادات ہیں جنھیں پیش کرنے پر آپ ہم پر موقف بدلنے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنے مذہب کے تضادات دور کرلیں اور ایک موقف اپنا لیں تو ہم بھی آپکے اپنائے ہوئے ایک ہی موقف پر قائم رہیں گے۔

میں مکرر کہتا ہوں آپ ایک حنفی دکھادیں جس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کو حرف آخر سمجھا ہو اور ان کے اقوال کی مخالفت نہ کی ہو ۔ آپ ایک متبحر عالم کی بات کر رہے ہیں میں عرب و عجم کے احناف کی بات کر رہا ہوں
آپ ایک کی بات کررہے ہیں میں دنیا بھر کے حنفی مقلدین کے بارے میں دعویٰ کر رہا ہوں کہ کسی ایک مقلد نے بھی اپنے امام سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا کیونکہ یہ اپنے امام ہی کے ناقص اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ عرب و عجم کی بات تو آپکو بہت بھاری پڑ جائے گی آپ صرف اپنے ان اختلافات کی لسٹ جو آپ نے دلائل کی بنیاد پر اپنے امام ابوحنیفہ سے کئے ہیں پیش کردیں کیونکہ آپکا دعویٰ ہے کہ ہر حنفی مقلد نے امام ابوحنیفہ کے اقوال کی مخالفت کی ہے دیکھئے:
آپ ایک حنفی دکھادیں جس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کو حرف آخر سمجھا ہو اور ان کے اقوال کی مخالفت نہ کی ہو ۔
برائے مہربانی آپ امام صاحب کے شاگردوں کے اختلافات کی لسٹ مت پیش کردیجئے گا کیونکہ ابوحنیفہ کے شاگردوں کے بعد کسی حنفی نے امام صاحب سے اختلاف نہیں کیا اور باقی کے تمام حنفی ان اختلافات میں امام صاحب کے شاگردوں ہی کی تقلید کرتے چلے آرہے ہیں یعنی بعد کے حنفیوں کی قسمت میں صرف اور صرف اندھی تقلید ہے چاہے وہ کچھ مسائل میں ابوحنیفہ کی ہو یا باقی مسائل میں انکے شاگردوں کی۔ پھر چونکہ امام صاحب سے اختلاف کرکے حنفی اصول کے مطابق انکے شاگرد بدترین لعنتی ہوچکے ہیں اس لئے اب کوئی مقلد ابوحنیفہ سے اختلاف کرکے لعنتوں کا طوق اپنی گردن میں نہیں پہننا چاہے گا۔

اگر آپ نے ایک دفعہ پھر پیترا بدلنا ہے تو اجازت ہے جیسے آپ نے دوسرے تھریڈ میں امام کی جگہ "ائمہ " کی بات شروع کر دی تھی
میں نے متعلقہ تھریڈ میں اس بات کی با دلائل وضاحت کردی ہے کہ میں نے پینترا نہیں بدلا بلکہ آپ ہی کے مذہب کے پینترے، تلبیسات اور بدلتے موقف پیش کرکے اشارہ دیا ہے کہ آپ کا اختیار کردہ حنفی مذہب چوں چوں کا مربہ ہے اور ایک ایسی گتھی ہے جو کبھی نہیں سلجھے گی نہ تو اس مذہب کا کوئی سر ہے نہ پیر بلکہ تضادات کا مجموعہ ہے وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ قرآن میں اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے: اگر یہ (قرآن) غیر کی طرف سے ہوتا تو تم اس میں بہت سے اختلافات دیکھتے۔(مفہوم آیت)
چونکہ حنفی مذہب غیر الہامی ہے جسے ابوحنیفہ نے اپنے گھر پر گھڑا ہے اس لئے اس میں تضادات ہی تضادات ہیں۔
 
Top